محترم چودھری محمد اشرف صاحب شہید

لجنہ اماء اللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘ شمارہ 2۔2010ء میں مکرمہ مسرت بخاری صاحبہ کے قلم سے محترم چودھری محمد اشرف صاحب شہید کا ذکرخیر شائع ہوا ہے۔ قبل ازیں شہید مرحوم کا مختصر تذکرہ 22؍نومبر 2019ء کے شمارے کے ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘ میں کیا جاچکا ہے جسے ویب سائٹ میں بھی سرچ کیا جاسکتا ہے۔
مکرم چودھری محمد اشرف صاحب کی پیدائش مکرم محمدخان صاحب کے ہاں گجرات کے گاؤں اگووال میں ہوئی۔ آپ دو بہنوں کے اکیلے بھائی تھے۔ وسیع و عریض زمین اور حویلی کے مالک تھے۔ اکلوتا بیٹا ہونے کے سبب بچپن میں ان کا کان چھید کر سونے کی بالی پہنادی گئی تھی جو شہید مرحوم نے احمدیت قبول کرنے کے فوراً بعد اُتار دی۔
شہید مرحوم بچپن میں ہی والدہ کے سائے سے محروم ہوگئے اور قریباً سترہ سال کی عمر ہوئی تو والد بھی وفات پاگئے۔ احمدیت کا تعارف اپنے گاؤں کے اکلوتے احمدی گھرانے سے ہوا۔ پھر آپ نے قادیان جاکر بیعت کرلی اور بعدازاں حضرت مصلح موعودؓ کی اجازت سے وقف بھی کردیا۔ آپ بہت قابل اور ذہین طالب علم تھے۔ گجرات کے زمیندارہ کالج میں ہونہار طلباء کی فہرست میں آج بھی آپ کا نام کندہ ہے۔ بی اے کی پڑھائی کے ساتھ کئی کورسز کیے۔ جرمن اور انگریزی پر عبور حاصل تھا۔ نہایت محنتی، مخلص، ایمان دار اور حیادار نوجوان کے طور پر مشہور تھے۔
زندگی وقف کرنے کے بعد علم نہ ہونے کی بِنا پر فوج میں بھرتی ہوگئے۔ جب حضرت مصلح موعودؓ کے علم میں یہ بات آئی تو حضورؓ نے بلاکر فرمایا کہ جو وقف ہوتا ہے وہ دنیا کے اَور کوئی کام نہیں کرسکتا، وہ تو دین کا خادم ہوتا ہے۔ حضورؓ کی نصیحت یاد کرکے آپ بعد میں بھی اکثر روتے کہ کیوں حضورؓ کو میری وجہ سے تکلیف پہنچی۔
جلد ہی ہندوستان کی تقسیم کا عمل شروع ہوا تو فسادات کی وجہ سے حضورؓ نے فوج میں شامل نوجوانوں کو حفاظتِ مرکز کے لیے خود کو پیش کرنے کی نصیحت کی۔ آپ نے فوراً اپنے آقا کی آواز پر لبّیک کہا اور فوج سے استعفیٰ دے دیا۔ افسران نے سمجھایا کہ اس صورت میں آپ کے بیوی بچوں کو کوئی پنشن وغیرہ نہیں مل سکے گی۔ آپ نے جواب دیا کہ اُن کے لیے اللہ اور میری جماعت ہی سب کچھ ہے۔
قادیان آنے کے بعد ستمبر 1947ء کی ایک صبح بیوی نے ناشتہ تیار کیا۔ ابھی آپ نے پہلا لقمہ ہی توڑا تھا تو دروازے پر دستک ہوئی۔ آپ باہر گئے اور اندر آکر بیوی سے کہا کہ حضور نے مجھے بلایا ہے، ابھی واپس آکر ناشتہ کرتا ہوں۔ لیکن پھر آپ واپس نہ آئے۔ بعد میں بیوی کو معلوم ہوا کہ حضورؓ نے تین احمدیوں کو قریبی گاؤں سٹھیالی میں بھجوایا ہے جہاں کئی سو مسلمان محصور تھے اور سکھوں نے اُن کو گھیرے میں لے کر قتل عام کی تیاری کی ہوئی تھی۔ یہ تین خدام سکھوں کو وارننگ دے رہے تھے کہ آگے نہ بڑھیں لیکن سکھوں کا جتھہ آگے بڑھتا گیا اور آخر دونوں اطراف سے فائرنگ شروع ہوگئی۔ سکھوں کا جتھہ بھاگ گیا تو یہ تینوں خدام اپنے مورچے سے باہر نکل آئے۔ لیکن ایک درخت کے پیچھے چھپے ہوئے ایک سکھ نے فائر کھول دیا جس کے نتیجے میں مکرم عبدالحمید صاحب کی ٹانگ میں گولی لگی اور وہ گھسٹتے ہوئے کھیتوں میں چھپ گئے۔ ایک گولی مکرم صوبیدار عبدالمنان صاحب کے جبڑے پر لگی تو وہ بیہوش ہوکر گر گئے۔ ایک گولی مکرم چودھری محمد اشرف صاحب کی شہ رگ میں لگی اور آپ نے جامِ شہادت نوش کیا۔ بوقتِ شہادت آپ کی عمر 28 سال تھی۔ شہید مرحوم کی اہلیہ کی عمر اُس وقت 21 سال تھی۔ بڑا بیٹا چار سال کا تھا اور ایک بیٹی (مضمون نگار) چھ ماہ کی تھی جبکہ ایک بیٹی والد کی شہادت کے تین ماہ بعد پیدا ہوئی۔
شہید مرحوم کی اہلیہ بیان کرتی ہیں کہ شہید مرحوم کسی کی تکلیف نہیں دیکھ سکتے تھے اور بہت بے چین ہوجاتے تھے۔ خداتعالیٰ بھی آپ سے غیرمعمولی پیار کا سلوک رکھتا تھا۔ایک بار آپ چھٹی پر گھر پہنچے۔ مَیں نے کھانا تیار کیا۔ اسی اثناء میں دروازے پر دستک ہوئی۔ واپس آئے تو پوچھنے پر بتایا کہ ایک ضرورت مند اپنی بیٹی کی شادی کے لیے مدد مانگ رہا تھا تو مَیں نے اُسے وہ تنخواہ دے دی ہے جو مَیں اپنے ساتھ لایا تھا۔ ابھی کھانا کھا ہی رہے تھے کہ دوبارہ دستک ہوئی۔ آپ باہر گئے اور جب واپس آئے تو جسم پر قمیص نہیں تھی۔پوچھنے پر بتایا کہ کوئی ضرورت مند تھا جسے قمیص چاہیے تھی۔ مَیں نے غصّے سے کہا کہ اب کوئی آئے تو اپنی باقی چیزیں بھی دے دینا۔ کہنے لگے: فکر کیوں کرتی ہو، اللہ مالک ہے۔ کچھ ہی دیر بعد دستک ہوئی تو ڈاکیہ آیا۔ وہ ایک منی آرڈر لایا تھا جو فوج میں کسی کام کے کرنے پر بطور اُجرت آپ کو بھجوایا گیا تھا۔ یہ آٹھ سو روپے کی رقم تھی۔ خوشی خوشی اندر آئے اور بڑے پیار سے کہنے لگے: دیکھو! مَیں نے کوئی گھاٹے کا سودا کیا تھا؟
شہید مرحوم کے احمدیت قبول کرنے کے بعد آپ کی شدید مخالفت ہوئی۔ حتّی کہ آپ کی چچی نے آپ کو زہر دینے کی کوشش بھی کی۔اس کے بعد آپ اپنی بہنوں کے ہمراہ قادیان چلے آئے۔
شہید مرحوم کو اپنے بیوی بچوں سے بہت پیار تھا۔ بڑا بیٹا ابھی دو تین سال کا تھا کہ ٹائیفائیڈ کے نتیجے میں سننے اور بولنے سے محروم ہوگیا۔ آپ اُسے اپنے کندھوں پر اٹھاکر بازار لے جاتے اور جس چیز کی طرف وہ اشارہ کرتا وہ اُسے لے دیتے۔ اُس بچے کو آری اور ہتھوڑی وغیرہ کا شوق تھا۔ یہی بچہ بڑا ہوکر میکینک بنا اور اس نے خود بھی کئی اوزار بنائے۔ شہید مرحوم بہت خوش الحانی سے تلاوت کیا کرتے اور اُس وقت اپنی چھ ماہ کی بیٹی کو گود میں بٹھالیتے۔ بچی نے جب آوازیں نکالنی شروع کیں تو خوشی سے کہتے دیکھو یہ بھی میری طرح تلاوت کررہی ہے۔ اُن کی یہ بات بھی درست ثابت ہوئی۔ آپ کی اہلیہ گھر میں تنگی دُور کرنے کے لیے کپڑوں کی سلائی وغیرہ کیا کرتی تھی۔ آپ دیگر گھریلو کاموں کے علاوہ سلائی مشین چلانے میں بھی اُن کی مدد کرتے۔
شہید مرحوم کی اہلیہ کی پرورش حضرت نواب امۃالحفیظ بیگم صاحبہؓ نے کی تھی۔ شادی بھی انہوں نے ہی کروائی۔ محترم اشرف صاحب کی شہادت کے بعد اس فیملی کا انہوں نے بہت خیال رکھا۔
شہید مرحوم کی اہلیہ بھی پچاس سال کی بیوگی کا زمانہ گزار کر وفات پاگئیں۔ انہوں نے اپنے غم کو ایک نظم میں بیان کرنے کی کوشش کی تھی جس کے چند اشعار یوں ہیں:

پُرغم ہے یہ کہانی ، پُر درد داستاں ہے
دکھڑا کسے سناؤں کون اپنا رازداں ہے
بچوں کی شمع ہستی بے نُور ہورہی ہے
ماں کی حیاتِ فانی کافور ہو رہی ہے
اس سرزمین میں میرا سرتاج سو رہا ہے
میرا سہاگ یا ربّ بے وقت لُٹ گیا ہے
حق تجھ پر مہرباں ہو دل سے دعا کروں گی
مَیں بھی خدا کی راہ میں تیری طرح مروں گی

چند سال قبل شہید مرحوم کی چھوٹی بیٹی مکرمہ طلعت صاحبہ کو سپاہ صحابہ کے ایک شقی القلب کارندے نے اُن کے گھر میں داخل ہوکر چھری کے پے در پے وار کرکے شہید کردیا۔ وہ جھنگ میں سوشل ویلفیئر افسر تعینات تھیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں