مکرم احمد تیجان جالو صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 10؍جنوری2008ء میں مکرم لطف الرحمن محمود صاحب کے قلم سے سیرالیون کے ایک مخلص اور باصلاحیت احمدی مکرم احمد تیجان جالو صاحب کا ذکرخیر شائع ہوا ہے۔
مضمون نگار لکھتے ہیں کہ مجھے فخر ہے کہ احمد تیجان جالو میرا شاگرد تھا جو بعد ازاں احمدیہ سیکنڈری سکول Bo کا پرنسپل بنا اور اسے نظم و ضبط، معیار تعلیم، نتائج، نیم نصابی سرگرمیوں، نیک نامی اور شہرت میں مسلسل اضافہ کی توفیق ملی۔ علاوہ ازیں صدر جماعت بو اور احمدیہ سکولز کی تعمیراتی کمیٹی کا چیئرمین ہونے کے علاوہ وہ جماعت سیرالیون کی مرکزی مجلس عاملہ کا رکن بھی رہا۔
احمد تیجان جالو کا فولانی قبیلہ سے تعلق تھا جو مغربی افریقہ میں اسلام سے نظریاتی اور عملی وابستگی کے لئے مشہور ہے اور چار پانچ صدیاں قبل سیرالیون میں دین کا پیغام پہنچانے کا کریڈٹ لیتا ہے۔ مگر اس فخر و مباہات کے نتیجہ میں ان میں سے بہت کم لوگوں کو احمدیت قبول کرنے کی توفیق ملی۔ احمد تیجان نے احمدیت کو پڑھا، سمجھا اور اس پر عمل کیا اور دوسروں کی ہدایت کا باعث بنا۔
مکرم احمد تیجان صاحب 26؍ دسمبر 1956ء کو Simbakoro گاؤں میں پیدا ہوئے جو سیرالیون کے ضلع Kono میں واقع ہے اور یہ علاقہ ہیروں کی کانوں کے لئے مشہور ہے۔ اس علاقے نے سیرالیون کو بیشمار قیمتی ہیرے دیئے۔ احمد تیجان جالو بھی اُن میں سے ایک تھا۔ آپ نے بوٹاؤن میں جماعت احمدیہ کے پرائمری اور سیکنڈری سکولز میں تعلیم حاصل کی۔ Fourahbay College (یونیورسٹی آف سیرالیون) سے بی۔اے اور پھر ’’بی۔ایڈ‘‘ کی ڈگری لی۔ جالہ یونیورسٹی (Njala University) کے بوٹاؤن کیمپس کے ایک خصوصی تدریسی پروگرام سے وابستہ ہو کر ایم ایڈ کاکورس بھی کیا۔ لیڈرشپ کی خصوصیات اس میں قدرتی طور پر موجود تھیں۔ فورابے کالج میں وہ طلباء کی نیشنل یونین کا سیکرٹری جنرل رہا۔ اس حیثیت سے اسے نائیجیریا، گھانا، گیمبیا، چیکوسلواکیہ اور روس جانے کا موقع بھی ملا۔ 1982ء میں احمد تیجان احمدیہ سیکنڈری سکول بوٹاؤن کے سٹاف میں شامل ہوگیا اور اپنی وفات تک اس کی خدمت کی توفیق پائی۔ 30؍ مارچ 2007ء کو ایک خطرناک حادثہ میں اس کی زندگی کا سفر ختم ہوگیا۔ آپ نے پسماندگان میں بیوی کے علاوہ دو بیٹے اور دو بیٹیاں چھوڑیں۔
احمد تیجان کو “Born Teacher” کہا جاسکتا ہے۔ انگریزی لٹریچر، تاریخ اور پولیٹیکل سائنس (جسے سیرالیون میں ’’گورنمنٹ‘‘ کہاجاتا ہے) اس کے پسندیدہ مضامین تھے۔
احمد تیجان کا قد پانچ فٹ کے لگ بھگ تھا۔ جسم کے لحاظ سے بھی نحیف و نزار تھا۔ مگر علمی قابلیت، انتظامی صلاحیت، اصولوں کی پاسداری، حس مزاح کے باوجودمزاج پر غالب سنجیدگی کی وجہ سے اس کا ایک رعب اور دبدبہ تھا۔ طلباء اس کی عزت بھی کرتے تھے اور اس سے ڈرتے بھی تھے۔ وہ ایک اچھا استاد، خوش گفتار مقرر، کامیاب منتظم، معاملہ فہم افسر، قابل ممتحن اور صاحب طرز مصنف تھا۔ بوٹاؤن میں میرے آخری قیام کے دوران وہ میرا ’’وائس پرنسپل‘‘ تھا۔ ہر لحاظ سے دست راست ایک مخلص اور معتمد رفیق۔ احمد تیجان ’’ٹیم ورک‘‘ کاماہر تھا۔ افسر جلسہ سالانہ کی حیثیت سے کئی اہم کاموں کی نگرانی کا بوجھ اس پر تھا۔ ان فرائض کو خوش اسلوبی کے ساتھ سرانجام دینے میں کامیاب رہا۔ اس کے تعلقات کا دائرہ وسیع تھا۔ انٹرنیشنل روٹری کلب اور اسی قسم کی کئی اور رفاہی تنظیموں کا ممبر تھا۔ تعلقات عامہ کا ماہر ہونے کی وجہ سے علاقہ بلکہ صوبہ کے Resident Minister، پیراماؤنٹ چیفس، افسران محکمہ، عمائدین شہر، دوسرے سکولز کے پرنسپل صاحبان، چرچ لیڈرز، ائمہ، طلباء کے والدین، غرض ہر ایک کے ساتھ اس کا خوشگوار تعلق اور ربط و ضبط تھا۔ جلسہ سالانہ کے موقع پر، آب رسانی، بجلی کی سپلائی، سڑکوں کی مرمت، مقامی ذرائع ابلاغ (ریڈیو، پریس) کی شمولیت، سیکیورٹی کے عملے کی مدد، غرض یہ تمام کام خوش اسلوبی سے تکمیل کو پہنچتے۔ تعلقات عامہ میں اس کی دسترس، اس علاقہ میں جماعت کے لئے ایک بڑا سرمایہ تھی۔ احمد تیجان جالو سیاسی لحاظ سے ملک کی برسراقتدار پارٹی کا ایک ممتاز رکن تھا۔ ضلعی الیکشن کمیٹی کا چیئرمین تھا۔
احمد تیجان کو لمبے عرصہ تک اہم تقاریب میں خطبات اور تقاریر کی مقامی زبان میں ترجمانی کے مواقع ملتے رہے۔ کریول (Creole) سیرالیون کی عام فہم زبان ہے۔ احمد تیجان کریول کا بہترین ترجمان تھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے دورہ ٔ سیرالیون (1988ء) کے دوران بھی اُسے ترجمانی کی سعادت ملی جس پر حضور انور نے بھی خوشنودی کا اظہار فرمایا۔
احمد تیجان جالو کی نماز جنازہ میں دس ہزار افراد شامل ہوئے۔ بوٹاؤن میں کسی جنازہ میں سوگواروں کا اتنا بڑا اجتماع پہلے نہیں ہوا۔ اُس کو سیرالیون مشن کے بانی مربی، حضرت مولانا نذیر احمد علی صاحب کے پہلو میں سپرد خاک کیا گیا۔ اپنی خدمات کے لحاظ سے وہ اس اعزاز کا مستحق تھا۔ مجلس طلبائے قدیم نے مرحوم کے بچوں کی تعلیمی ضروریات اور کفالت کے لئے 2 ملین لیونز سے زائد رقم جمع کرکے ایک فنڈ قائم کیا ہے۔ یہ بھی قدردانی کا ایک انداز ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں