حضرت حکیم محمد حسین صاحبؓ

ماہنامہ ’’خالد‘‘ ربوہ جنوری 2007ء میں مکرم غلام مصباح بلوچ صاحب کے قلم سے حضرت حکیم محمد حسین صاحب آف بلب گڑھ (دہلی) کے حالات زندگی شامل اشاعت ہیں۔
حضرت حکیم محمد حسین صاحبؓ نے اپنے خاندان میں سب سے پہلے (مئی 1898ء میں) قبولِ احمدیت کی توفیق پائی۔ بعد ازاں آپؓ کے والد محترم حضرت حکیم سرفراز حسین صاحبؓ اور دو بھائی حضرت الطاف حسین صاحبؓ اور حضرت بابو اعجاز حسین صاحبؓ بھی داخلِ احمدیت ہوئے۔ یہ خاندان اخلاص میں دن بدن ترقی کرتا چلا گیا۔
اخبار ’’البدر‘‘ میں ایڈیٹر کی ڈائری میں تحریر ہے کہ 17؍اگست 1903ء کو حضور علیہ السلام گورداسپور کے لئے روانہ ہوئے اور مغرب و عشاء کی نمازیں بٹالہ میں جمع کرکے ادا کیں۔ آپؑ کی طبیعت ناساز تھی کہ نماز کے اندر طبیعت میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ انگور ملیں تو وہ کھائے جائیں مگر چونکہ نزدیک و دور اُن کا ملنا محال تھا۔ اس اثنا میں حضرت حکیم محمد حسین صاحبؓ نے حاضر ہوکر پھلوں کی ایک ٹوکری پیش کی جس میں انگور بھی تھے۔ اور عرض کیا کہ قادیان پہنچ کر معلوم ہوا کہ حضورؑ بٹالہ تشریف لائے ہیں تو مَیں اُسی وقت میں واپس ہوا اور یہ پھل حضور کے لیے ہیں۔
فنانشل کمشنر صاحب بہادر پنجاب کی قادیان آمد کے موقع پر جن احباب جماعت نے ان کا استقبال کیا ان میں حضرت حکیم محمد حسین صاحبؓ اور حضرت حکیم الطاف حسین صاحبؓ دونوں بھائی شامل ہوئے۔
آپؓ کی بعض مالی قربانیوں کا ذکر بھی محفوظ ہے۔ مثلاً الحکم 24 فروری 1905ء میں مدرسہ تعلیم الاسلام قادیان کے لیے آپ کا پانچ روپے چندہ لکھا ہے۔ الفضل 22مئی 1922ء میں چندہ خاص میں آپ کے 129 روپے لکھے ہیں۔ اسی طرح 22مارچ 1908ء کو قادیان میں ڈاکٹران واطباء جماعت احمدیہ کا ایک جلسہ منعقد ہوا جس میں اتفاق رائے سے یہ منظور ہوا کہ اس سلسلہ کا ہر ایک ڈاکٹر و طبیب ہر ماہ کی پہلی تاریخ کی آمدنی جو پرائیویٹ پریکٹس سے ہو صدر انجمن احمدیہ ڈسپنسری قادیان کی امداد کے لئے مہیا کرے گا، حضرت حکیم صاحب بھی اس اجلاس میں شامل ہوئے اور دو روپے چندہ بھی اس موقع پر دیا۔ 1917ء میں چندہ تبلیغ ولایت میں آپ کے گھر کی خواتین نے چار روپے حصہ ڈالا۔
دہلی اور اس کے مضافات میں تبلیغ کا آپؓ نے خوب موقع پایا۔ ایک مباحثہ کی تفصیل الفضل میں شائع ہوئی جس میں احمدیوں کے مباحث حضرت حافظ روشن علی صاحبؓ کے مقابل مولوی محمد اسماعیل عارف صاحب مدرسہ اسلامیہ تھے۔ مباحثہ کے بعد کئی افراد احمدیت کی آغوش میں آئے۔ اور مولوی عارف صاحب نے حضرت حکیم صاحبؓ کو لکھا کہ اُن سے مرزا صاحب کے بارہ میں بتقاضائے بشریت اور حرکات شیطانی کے نتیجے میں جو سخت الفاظ ادا ہوئے، بندہ اپنی اس غلطی اور خطا پر رات سے نادم ہے۔ خدا تعالیٰ انسان کی بڑی بڑی خطائیں معاف کرتا ہے آپ بھی برائے خدا میری اس خطا کو معاف فرما کر دل کو صاف رکھیں۔ انشاء اللہ امید ہے کہ بندہ سے ایسی غلطی کبھی سرزد نہیں ہوگی۔
آپؓ کے بیٹے حضرت حکیم انوار حسین صاحبؓ لکھتے ہیں کہ ’’ آپؓ رات دن سوائے تبلیغ احمدیت کے کوئی تسکین قلب کا سامان نہ سمجھتے تھے۔ وصال سے تقریباً نصف گھنٹہ قبل جبکہ غیر احمدی لوگ بھی کھڑے تھے سب کو مخاطب کر کے اپنے عقائد بیان کئے اور کہا تم گواہ رہنا۔ علم طب کی قابلیت کی وجہ سے تمام ہندو مسلمان آپ کے گرویدہ تھے…‘‘۔
حضرت حکیم محمد حسین صاحبؓ نے 2 نومبر 1926ء کو اپنے گاؤں بلب گڑھ میں وفات پائی اور وہیں دفن ہوئے۔ آپ کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں