سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ جرمنی 2006ء سے سیّدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کا خطاب

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا جماعت کی عورتوں پر یہ احسان ہے کہ احمدی عورت کے لئے ایک ایسی تنظیم قائم فرمادی جس میں وہ اپنی صلاحیتوں کو اُجاگر کر سکتی ہے۔
اگر آپ عبادت کر رہی ہیں اور نمازوں کی ادائیگی کر رہی ہیں تو اللہ تعالیٰ ان عبادتوں کے طفیل آپ کے بچوں کے مستقبل بھی روشن کردے گا اور آپ پر بے شمار فضل فرمائے گا۔
کوشش کریں کہ زمانے کی لغویات ،فضولیات اور بدعات آپ کے گھروں پر اثر انداز نہ ہوں۔
انٹرنیٹ اور ٹیلیفون وغیرہ ہر ایسی چیز جس کا ناجائز استعمال شروع ہو جائے وہ بھی لغویات میں ہے
فیشن میں لباس اگر ننگے پن کی طرف جا رہاہو تو یہ بھی بے حیائی بن جائے گی۔ اپنی حیا اور حجاب کا خیال رکھیں اور اس کی حدود میں رہتے ہوئے جو فیشن کرنا ہے کریں ۔
غیر محرم جوان لڑکے لڑکیوں اور مردوں اور عورتوں کے آزادانہ میل جول سے بھی بچیں۔
احمدی بچیوں کے لئے مناسب تفریح کے انتظامات کرنا لجنہ کا کام ہے۔
بچپن سے ہی بچیوں کے ذہنوں میں یہ با ت ڈالنی چاہئے کہ تمہارا ایک تقدس ہے تا کہ وہ ہر قسم کی لغویات اور گناہوں سے بچتے ہوئے اپنے اندرپاک تبدیلیاں پیدا کرنے والی ہوں۔
خطاب حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ برموقع سالانہ اجتماع لجنہ اماء اللہ جرمنی بتاریخ 11؍ جون 2006ء

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

آج لجنہ امااللہ جرمنی کے اس اجتماع سے مَیں پہلی بار مخاطب ہو رہا ہوں۔ جیسا کہ مَیں نے جمعہ کو ذکر کیا تھا کہ جماعت پر خلیفۃ المسیح الثانی المصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ احسان ہے یا اس وقت کیونکہ لجنہ کی بات ہورہی ہے اس لئے لجنہ کے حوالے سے یوں کہنا چاہئے کہ جماعت کی عورتوں پر یہ احسان ہے کہ احمدی عورت کے لئے ایک ایسی تنظیم قائم فرمادی جس میں وہ اپنی صلاحیتوں کو اُجاگر کر سکتی ہے۔ اور اُن صلاحیتوں سے، اُن استعدادوں سے خود بھی فائدہ اٹھاسکتی ہے اور دوسروں کو بھی فائدہ پہنچا سکتی ہے جو اللہ تعالیٰ نے احمدی عورت میں رکھی ہیں۔
(آج کل پولن کی الرجی بہت زیادہ ہے۔ مجھے بھی ہو جاتی ہے۔ اس لئے رکنا پڑتاہے۔ غلطی مَیں نے یہ کی کہ خدام الاحمدیہ کی گیمز دیکھنے چلا گیا) بہرحال مَیں ذکر کررہا تھا کہ احمدی عورت ان استعدادوں سے خود بھی فائدہ اٹھاتی ہے اور دوسروں کو فائدہ پہنچا سکتی ہے جو اللہ تعالیٰ نے احمدی عورت میں رکھی ہیں۔
مردوں کی ذیلی تنظیمیں نہ بھی ہوتیں تب بھی اُن کے پاس تو جماعتی سطح پر ایک ذریعہ میسر تھا جہاں وہ جمع ہوکر اپنے جلسے اور اجلاسات کرلیتے تھے اور اپنی عقل اور علم اور تجربے سے دوسروں کو بھی فائدہ پہنچا سکتے تھے۔ اس صورت میں کہ اپنی صلاحیتوں کا اظہار کرکے دوسروں کو فائدہ پہنچا سکتے۔ گو کہ یہ بھی ایک خاص عمر اور تجربے اور مقام کے لوگوں کو ہی موقع ملتا تو بہرحال مَیں عورتوں کا ذکرکر رہا تھا کہ عورتوں کے لئے بھی کسی بھی سطح پر علمی روحانی یا جسمانی صحت کے بہترکرنے کے مواقع میسر نہ تھے یا احمدی عورت کے لئے احمدی معاشرے میں اس طرح کے مواقع میسر نہ تھے۔ لجنہ کی تنظیم کے قیام سے آپ کو، احمدی عورت کو اللہ تعالیٰ نے وہ مواقع میسر فرمادیئے جہاں آپ اپنے علم اور تجربے سے دوسروں کو بھی فائدہ پہنچا سکتی ہیں اور اپنی صلاحیتوں اور اہلیتوں کو مزید چمکا سکتی ہیں۔ پس اس موقع سے فائدہ اٹھائیں اور اللہ تعالیٰ کے آپ کویہ موقع مہیا فرمانے پر شکرگزار بندی بن جائیں اور اُس اُولوالعزم موعود بیٹے کے لئے بھی دعا کریں جس کی دُور رَس نگاہ نے جماعت کے ہر طبقے پر نظر رکھتے ہوئے اُسے جماعت کا مفید وجود بنانے کی کوشش کی۔
اس شکرگزاری کے لئے جو اللہ تعالیٰ کے ایک بندے یا بندی کو اس کے احسانوں پر اُس کی کرنی چاہئے، بہترین ذریعہ اُس کی یاد اور اُس کا ذکر ہے۔ اور اُس کے ذکر اور عبادت کا بہترین ذریعہ اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق نمازوں کی ادائیگی ہے۔ اِس میں پانچ وقت کی نمازیں بھی ہیں اور نوافل کی ادائیگی بھی ہے۔ یہ حکم مردوں اور عورتوں سب کے لئے یکساں ہے۔ اس لئے ہم دیکھتے ہیں کہ صحابیات اور نیک عورتیں جو اسلام میں پہلے گزری ہیں وہ نمازوں کی بڑی پابندی کیا کرتی تھیں بلکہ روایات میں آتا ہے کہ ان عبادات میں مردوں سے آگے بڑھ جاتی تھیں یا اُن سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتی تھیں۔ ساری ساری رات نوافل کی ادائیگی میں گزارتی تھیں اور دن کو روزے رکھا کرتی تھیں یہاں تک کہ اُن کے خاوندوں کو آنحضرت ؐ کے پاس آکر یہ عرض کرنی پڑی کہ ان کو اتنی عبادت کرنے سے روکیں کیونکہ خاوندوں کے اور بچوں کے اور گھروں کے بھی کچھ حقوق ہیں جو ان کوا دا کرنے چاہئیں۔ اِس زمانے میں بھی دیکھتے ہیں کہ عبادت کرنے والی ایسی خواتین ہیں جن کے عبادتوں کے خاص معیار تھے، نمازوں کو کبھی ضائع کرنے والی نہیں تھیں۔ نوافل کی ادائیگی کرنے والی تھیں اور اتنی پابندی سے پانچ وقت کی نمازیں ادا کرتی تھیں کہ ان کو دیکھ کر گھڑی کے وقت بھی درست کئے جاسکتے تھے۔
اِس وقت مَیں یہاں حضرت امّاں جان حضرت نصرت جہاں بیگم صاحبہ جو حضرت مسیح موعود ؑ کی دوسری زوجۂ محترمہ تھیں، آپ کے ساتھ شادی بھی حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے کی تھی اور آپ کے بطن سے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کو مبشر اولاد سے نوازا تھا، اُن کی ایک مثال پیش کرتا ہوں۔ ایک تو یہ تھا کہ آپ عمومی طور پر خواتین کی تربیت کے لئے ہمہ وقت مصروف رہتی تھیں۔ کبھی قادیان میں احمدی گھروں میں تربیت اور خدمتِ خلق کی غرض سے جاتی تھیں اور اکثر یہ ہوتا کہ عورتیں آپ کو ملنے کے لئے آپ کے پاس آتیں اور اُس روحانی اور علمی مائدے سے فائدہ اٹھانے کے لئے جمع ہوتیں جو حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی صحبت کی وجہ سے، حضرت مسیح موعودؑ کی قوتِ قدسیہ کی وجہ سے، حضرت اماں جان کو بھی ملتا تھا۔
بہرحال اس وقت مَیں نمازوں اور عبادت کی بات کر رہا تھا کہ ان کے پاس جانے والی خواتین بیان کرتی ہیں کہ جب ہم بیٹھے ہوتے، مختلف موضوعات پر باتیں ہورہی ہوتیں ،آپ ہمیں نصائح فرمارہی ہوتیں اور ہم اُن نصائح سے فیضیاب ہورہے ہوتے تواس دوران اگر اذان ہو جاتی، آپ فوراً باتیں چھوڑ کر کھڑی ہوجاتیں کہ اب نماز کا وقت ہوگیا ہے مَیں بھی اندر جاکر نماز پڑھ آؤں تم لوگ بھی نماز پڑھ لو۔ اور پھر نماز سے فارغ ہوکر جب آپ باہرواپس آتیں تو پوچھتیں کہ نماز پڑھ لی ہے؟ ایک خاتون ایسے ہی ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے بیان کرتی ہیں کہ مَیں اپنے چھوٹے بچے کے ساتھ حضرت امّاں جان کو ملنے گئی۔ حسبِ معمول آپ نے حال دریافت کیا اور بڑی خوشی کا اظہار کیا کہ تم آئی ،باتیں ہوتی رہیں۔ اِس دوران میں اذان ہوگئی آپ اُٹھ کر اندر چلی گئیں کہ مَیں نماز پڑھ کر آتی ہوں، بچیو! تم بھی نماز پڑھ لو۔ وہ خاتون کہتی ہیں کہ مَیں نے چھوٹے بچے کی وجہ سے کہ بعض دفعہ چھوٹے بچوں کے پیشاب وغیرہ کرنے سے کپڑے گندے ہوجاتے ہیں، سوچا کہ گھر جاکر نماز پڑھ لوں گی۔ جب نماز سے فارغ ہوکر حضرت اماں جان واپس آئیں تو پوچھا نماز پڑھ لی؟ مَیں نے عرض کی کہ بچے کی وجہ سے کپڑے گندے ہونے کا شبہ تھا اس لئے گھر جاکر پڑھ لوں گی۔ اس پر آپ نے بڑی ناراضگی سے فرمایا کہ اپنے نفس کے جو بہانے ہیں ان کو بچوں پر نہ ڈالا کرو۔ بچے اللہ تعالیٰ کا انعام ہوتے ہیں۔ ان کو انعام سمجھو اور اپنے اللہ کی عبادت میں روک نہ بنائو۔ اللہ تعالیٰ اِس سے ناراض ہوتا ہے۔
تو ایسی مائیں جو بچوں کی مصروفیت کی وجہ سے یا بچوں کی وجہ سے مصروفیت کا اظہار کرتی ہیں اور اپنی نمازیں وقت پر نہ پڑھنے یا بالکل ہی ادا نہ کرنے کے بہانے بناتی ہیں، ان کے لئے ایک نصیحت ہے کہ ان بچوں کو تو اللہ تعالیٰ کا انعام سمجھتے ہوئے اور زیادہ اُس کا شکرگزار ہونا چاہئے اور شکرگزاری کا یہ تقاضا ہے کہ پہلے سے بڑھ کر اُس کی عبادت کرو ،نہ کہ عبادتوں کو بھول جاؤ ورنہ اللہ تعالیٰ قدرت رکھتا ہے کہ یہ انعام واپس لے لے کہ اگر یہ میرے اور میری بندی کے درمیان میں حائل ہے ، روک بنا ہوا ہے، اگر میرے اس انعام کی وجہ سے ایک احمدی ماں اس کو میرے مقابلے میں شریک بنا کر کھڑا کر رہی ہے تو اُس کو اِس انعام سے محروم کردوں۔ پھر جس کو بہانہ بنایا جارہا ہے وہی بچہ بڑے ہوکر آپ کے لئے تکلیف اور دکھ کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ معاشرے میں آپ کو بدنام کرنے والا بھی بن سکتا ہے۔لیکن اگرآپ عبادت کر رہی ہیں اور نمازوں کی ادائیگی کر رہی ہیں تو اللہ تعالیٰ ان عبادتوں کے طفیل آپ کے بچوں کے مستقبل بھی روشن کردے گا اور آپ پر بے شمار فضل فرمائے گا، بہت سی کامیابیوں سے نوازے گا۔ یہی اللہ تعالیٰ کا مومنوں سے و عدہ ہے کہ عاجزی سے نمازیں پڑھنے والے، اُس کے آگے جھکنے والے، کسی کو اُس کا شریک نہ بنانے والے، اُس کے فضلوں کے وارث ٹھہرتے ہیں۔ پس اپنی نمازوں کی حفاظت کریں، اپنی عبادتوں کے معیار بلند کریں ۔ ایک مومنہ مسلمان احمدی عورت کے لئے یہ ایک بنیادی حکم ہے ورنہ اس زمانے کے امام کو ماننے کے دعوے بالکل کھوکھلے ہیں کیونکہ بیعت آپ نے اس لئے کی ہے کہ اپنے آپ میں تبدیلی پیدا کرنی ہے۔
جماعت میں آپ اس لئے شامل ہوئی ہیں کہ اپنے اندر ایک نیک اور پاک تبدیلی پیدا کرتے ہوئے اپنے خدا سے زندہ تعلق جوڑنا ہے اور پھر صرف یہی نہیں کہ آپ نے صرف اپنا تعلق خدا سے جوڑنا ہے بلکہ اپنے خاوند کے بچوں کے، اپنے بچوں کے نگران کے طور پر اس بات کی بھی نگرانی کرنی ہے کہ آپ کی اولاد لڑکے ہوں یا لڑکیاںہوں اُن کو بھی خدا تعالیٰ کے قریب لانے والا بننا ہے، اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے والا بننا ہے، اُس کی محبت اور پیار دل میں پیدا کرنے والا بننا ہے۔ ان کے دل میں بھی یہ بات میخ کی طرح گاڑنی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کے بغیر ہماری زندگی بے فائدہ ہے۔ اور جب یہ روح آپ اپنی اولادوں میں پیدا کردیں گی تو پھر دیکھیں کہ آپ کی نسلوں کی خود بخود اصلاح ہوجائے گی۔ آپ کو یہ فکر نہیں رہے گی کہ ہماری اولادیں اس معاشرے کے زیرِ اثر برباد ہورہی ہیں۔ آپ اس فکر سے آزاد ہو جائیں گی کہ ہمارے بچے جب سکولوں اور کالجوں میں جاتے ہیں تو وہاں کے ماحول کے زیرِ اثر خدا کو نہ بھول جائیں۔ کیونکہ آج کل کی اس نام نہاد ترقی یافتہ دنیا میں، نئی نسل میں مادیت کی طرف رجحان کی وجہ سے اور مذہب میں بگاڑ پیدا ہوکر سچائی کے ختم ہوجانے کی وجہ سے عملاً ایک بڑی تعداد ان ملکوں میں مذہب سے دُور ہٹ گئی ہے۔ یعنی وہ لوگ جو احمدی بچے نہیں ہیں، احمدی نوجوان نہیں ہیں۔ عیسائی ہیں یا دوسرے مسلمان بھی مذہب سے دُور ہٹتے چلے جارہے ہیں اور اُن کا مذہب صرف نام کا ہے تو اس معاشرے میں گھلنے ملنے کے باوجود اگر آپ نے اپنے بچوں کی تربیت اس نہج پر کی ہے کہ ان کا تعلق خدا سے جوڑ دیا ہے تو پھر جیسا کہ مَیں نے کہا یہ ساری فکریں آپ کی ختم ہوجائیں گی۔
یہ نمازیں اور خدا سے تعلق آپ کے بچوں کو شراب، نشہ، جُوآ، زنا، جھوٹ، چوری یا ہر قسم کی برائیوں سے محفوظ رکھیں گی کیونکہ یہ خدا تعالیٰ کا اعلان ہے کہ

اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْکَرِ(العنکبوت:46)

یعنی یقینا نماز تمام بُری اور ناپسندیدہ باتوں سے روکتی ہے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے کی جائے ،نہ کہ دنیا دکھاوے کے لئے اور نہ ہی گلے پڑا ایک فرض سمجھ کر کہ اس بوجھ کو اتارو ،جلدی جلدی ٹکریں مارو اور نماز کو ختم کرو۔ ایسی نمازیں پھر کچھ فائدہ نہیں دیتیں بلکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسی کاہلی اور سستی سے اداکی گئی جو نمازیں ہیں اِن پڑھنے والوں کے منہ پر ماری جاتی ہیں۔ باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ مَیں نے جن ّو انس کو اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے یہ عبادتیں اللہ تعالیٰ کے مقام کو بلند نہیں کرتیں بلکہ خود اُس عبادت کرنے والے کی دنیا و عاقبت کو سنوارتی ہیں۔
پس آپ جن کے ہاتھ میں مستقبل کی نسلوں کو سنوارنے کی ذمہ داری ہے آپ کا کام ہے کہ اپنی نمازوں کی بھی حفاظت کریں۔ اپنے آپ کو بھی ایک خدا کی عبادت کرنے و الا بنائیں اور اپنے بچوں کے لئے یہ نیک نمونے قائم کرتے ہوئے ان کی بھی نگرانی کریں کہ ان کا اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا ہورہا ہے (کہ نہیں)۔
بعض لوگ کہتے ہیں، خاص طور پر مائیں یہ اظہار کرتی ہیں کیونکہ ان کو احساس بھی زیادہ ہوتا ہے اور اکثر ایک عمر کے بعد زیادہ احساس ہوجاتا ہے تو وہ یہ اظہار کر رہی ہوتی ہیں کہ 14,13,12سال کی عمر تک تو ہمارے بچے لڑکی یا لڑکا ٹھیک تھے، جوانی کی عمر کو پہنچ کر ایک دم پتہ نہیں کیا ہوگیا ہے کہ جماعت سے بھی دور ہٹ گئے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے بھی دور ہٹ گئے ہیں اور اس معاشرے کے گند میں پڑ رہے ہیں۔ بعض بچے بچیاں بلوغت کی عمر کو پہنچ کر جب اُن کو یہاں کا قانون آزادی دے دیتا ہے، گھروں سے نکل گئے ہیں اور ایسے بچے اور بچیاں علیحدہ رہ رہے ہیں ۔ماں باپ کی طرف سے یہ جو ’’پتہ نہیں کیوں؟‘‘ کی بات کی جاتی ہے یہ غلط ہے۔ اُن کو پتہ ہے کہ کیوں اس طرح ہورہا ہے۔ اس لئے کہ ماں باپ نے اپنی عبادتوں کے نمونے بچوں کے سامنے نہیں دکھائے، نہ بچوں کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی ہوتی ہے لیکن اُس کے لئے بھی دُعا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اُس کے لئے بھی اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر ماں یا باپ، ان میں سے کوئی ایک بھی اپنے نمونے قائم کرکے تربیت کی طرف توجہ نہیں دے رہا اور بچوں کے لئے دعا نہیں کر رہا تو پھر بچوں کے بگڑنے کے امکانات ہوتے ہیں۔ پس گاڑی کے پہیوں کی طرح اپنے آپ کو بیلنس رکھنا ہوگا۔ دونوں کو ایک ساتھ چلنا ہوگا۔ تب ہی آپ کے بچے اپنی زندگی کا سفر بغیر کسی حادثے کے گزارنے کے قابل ہوسکتے ہیں اور اپنی زندگیوں کو معاشرے کا مفید وجود بنانے کے قابل ہوسکیں گے۔ پس اس بنیادی اور انتہائی اہم بات کی طرف ابتدا سے ہی توجہ دیں۔
پھر گھروں کے ماحول کو جب آپ پاک کرلیں گی تو پھر آپ اس کوشش میں بھی رہیں گی کہ زمانے کی لغویات، فضولیات اور بدعات آپ کے گھروں پر اثرانداز نہ ہوں۔ کیونکہ یہی چیزیں ہیں جو ان پاک تبدیلیوں کی کوششوں کو گُھن کی طرح کھا جاتی ہیں جس طرح لکڑی کو گُھن کھا جاتا ہے۔ یہاں اس معاشرے میں( آج کل اس کو تہذیب یافتہ معاشرہ سمجھا جاتا ہے حالانکہ یہاں کی ہر چیزتہذیب یافتہ نہیں ہے) یہ لوگ جو لہوولعب میں پڑے ہوئے ہیں بڑے مہذب اور تہذیب یافتہ کہلاتے ہیں ۔ آزادی ضمیر کے نام پر سڑکوں گلیوں بازاروں میں بیہودہ حرکتیں ہورہی ہیں۔ لباس کی یہ حالت ہے کہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس ننگے لباس کو جس کو یہ لوگ تہذیب کہتے ہیں چند سو سال پہلے بلکہ بعض ملکوں میں چند سال پہلے تک بھی اور بعض ملکوں میں آج بھی جب وہاں کے مقامی لوگ، جنگلوں میں رہنے والے، تیسری دنیا کے غریب ملکوں کے لوگ یہ کپڑے استعمال نہیں کرتے تو ان کو یہ بدتہذیب اور جنگلی کہتے ہیں اور اقدار سے عاری لوگ کہتے ہیں اور جب یہ لوگ خود ایسی حرکتیں کر رہے ہوں تو یہ حرکتیں تہذیب بن جاتی ہیں۔ پس آپ لوگوں کو اس معاشرے سے اتنا متاثر ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان کے اپنے ملکوں میں بھی آج سے چند دہائیاں پہلے، چند سال پہلے بلکہ آج بھی جو رائل (Royal) فیملیاں ہیں، جو اُونچے بڑے خاندان ہیں ان کے لباس شریفانہ ہیں۔ بازو لمبے ہیں تو پوری سلیوز (Sleeves)ہیں۔ فراک ہیں تو لمبی ہیں یا میکسیاں ہیں یا گائون استعمال کئے جاتے ہیں۔ پہلے کئے جاتے تھے اور اب بھی بعض کرتی ہیں اور جیسا کہ مَیں نے کہا رائل فیملیز میں آج بھی استعمال کی جاتی ہیں۔ اچھے خاندان، شریف لوگ، خوا وہ کسی بھی ملک کے ہوںشراب میں دھت ہونے اور اودھم مچانے اور ننگے لباس کو دنیا میں ہر جگہ بُرا سمجھتے ہیں۔ کسی مذہب کے زیرِ اثر تو وہ نہیں ہوتے۔ یہ یا تو ان کی خاندانی روایات ہیں جس کی وجہ سے انہوں نے اپنے لباس شریفانہ رکھے ہوتے ہیں یا فطرت ان کو کہتی ہے کہ ننگے لباس پہننا غلط ہے، تمہارا اپنا ایک خاص مقام ہے اس کی خاطر تم نے اچھے لباس پہننے ہیں جو سلجھے ہوئے نظر آئیں۔ اسی طرح لغویات میں گندی اور ننگی فلمیں ہیں۔ گندی اور ننگی کتابیں ہیں۔ رسالے ہیں، یہ سب اس بہانے سے مارکیٹ میں پھیلائی جاتی ہیں کہ اس زمانے میں جنسی تعلقات کا پتہ لگنا چاہئے تاکہ ان برائیوں سے بچا جاسکے۔ پتہ نہیں یہ بچتے توہیں کہ نہیں لیکن ہر سڑک پر، ہر گلی کے نکڑ پر جو ایسے اخلاق سوز قسم کے اشتہارات ہیں وہ ضرور معاشرے کو برائیوں میں گرفتار کردیتے ہیں۔ جو چیز فطری ہے جب اس کا پتہ لگنے کی ضرورت ہے، جب وقت آئے گا تو خود بخود اس کا پتہ چل جائے گا۔ علم کے نام پر اس ذہنی عیاشی سے اپنے آپ کو بچانا چاہئے۔ اسی لئے حضرت مسیح موعود ؑ نے فرمایا ہے کہ اپنے تمام اعضاء کو زنا سے بچاؤ۔ پس ہر عورت کو ایک فکر کے ساتھ اپنے بچوں کو سمجھانا چاہئے اور ہر بچی کو جو بلوغت کی عمر کو پہنچ چکی ہے، جس کا دماغ میچور (Mature) ہوچکا ہے۔ یہ احساس ہونا چاہئے کہ یہ برائیاں ہیں جو مزید گندگیوں میں دھکیلتی چلی جائیں گی، اس لئے ان سے بچنا ہے۔
ہر ایسی چیز جس کا ناجائز استعمال شروع ہوجائے وہ بھی لغویات میں ہے۔ مثلاً انٹرنیٹ کے بارے میں مَیں پہلے بھی کئی دفعہ کہہ چکا ہوں۔ یہ اس زمانے کی ایجاد ہے اور یہ ایجادات اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود کے زمانے میں مقدر کی ہوئی تھیں۔ قرآنِ کریم میں مختلف ایجادات کا اعلان بھی فرما دیا۔ انٹرنیٹ بھی ان میں سے ایک ہے اور ٹیلی فون کا نظام جو ہے وہ بھی ان میں سے ایک ہے۔ٹیلی وژن کا نظام ہے یہ بھی ان میں سے ایک ہے جنہوں نے اس زمانے میں اشاعت کے لئے کام آنا تھا۔ لیکن اگر ان ایجادات کا غلط استعمال کریں گی تو یہ لغویات میں شمار ہوںگی اور ایسی لغویات سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے اور ان سے بچنے کا بھی حکم ہے۔ جیساکہ فرمایا ہے مومن کی تعریف یہ ہے کہ

عَن اللَّغْوِ مُعْرِضُوْن

جو لغو سے اعراض کرنے والے ہوں۔ لغویات سے بچنے والے ہوں۔ جب انٹرنیٹ پر دوستوں سے چیٹ (Chat) کرنے اور اس میں دوسروں کا مذاق اڑانے اور پھکڑ توڑنے، ایک دوسرے کے خلاف کام میں لائیں گی یا لوگوں کے رشتوں میں دراڑیں پیدا کرنے کے کام میں لائیں گی، کسی دوسری عورت کی زندگی اس کے خاوند سے انٹرنیٹ پر گفتگو کرکے برباد کریں گی، ایک دوسرے کی چغلیاں ہورہی ہوںگی تو یہی کارآمدچیز جو ہے یہ لغویات میں بھی شمار ہوگی اور گناہ بھی بن رہی ہوگی۔
پھر آج کل موبائل فون پر ٹیکسٹ میں پیغامات دیئے جاتے ہیں۔ یہ بھی آج کل ایک نیا سلسلہ شروع ہوا ہے۔ گپیں مارکر وقت ضائع کرنے کا اور نامحرموں سے بات کرنے کابڑا سستا طریقہ ہے۔ بڑے آرام سے کہہ دیا جاتا ہے کہ ٹیکسٹ میسج (Text Message) ہی تھا ،کونسی بات کرلی ہے۔ ایک دوسرے سے رابطے اس طرح بڑھتے ہیں کہ سہیلی نے اپنے دوستوں میں سے کسی کا فون دے دیا یا اپنے دوستوں کو اپنی سہیلی کا فون دے دیا ، موبائل نمبر دے دیا یا کسی بھی ذریعہ سے ایک دوسرے کے نمبر ہاتھ آگئے توپھر ٹیلی فون پرٹیکسٹ میسج کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے ۔ 14,13,12سال کی بچیاں بچے لے کر پھر رہے ہوتے ہیں۔ پیغامات دے رہے ہوتے ہیں۔ اور یہی عمر ہے جو خراب ہونے کی عمر ہے اور پھر آخر کار انجام ایسی حد تک چلا جاتا ہے کہ جہاں وہ جو لغو ہے وہ گناہ بن جاتا ہے۔ اس لئے احمدی بچیاں اپنی عصمت کی خاطر اپنی عزت کی خاطر اپنے خاندان کے وقار کی خاطر اپنی جماعت کے تقدس کو مدِنظر رکھتے ہوئے جس کی طرف وہ منسوب ہورہی ہیں، جس سے وہ منسلک ہیں، ان چیزوں سے بچیں اور اسی طرح احمدی مرد بھی سن رہے ہیں وہ بھی اپنے آپ کو اس سے بچائیں۔
مَیں پہلے لباس کی باتیں کر رہا تھا۔ لباس کے ننگ کے ساتھ ہی ہر قسم کی بے ہودگی اور ننگ کا احساس ختم ہوجاتا ہے۔ ماں باپ کہہ دیتے ہیں کہ کوئی بات نہیں بچیاں ہیں۔ فیشن کرنے کا شوق ہے، کرلیں، کیا حرج ہے۔ ٹھیک ہے فیشن کریں لیکن فیشن میں جب لباس ننگے پن کی طرف جارہا ہو تو وہاں بہرحال روکنا چاہئے۔ فیشن میں برقع کے طور پر جو کوٹ پہنا جاتا ہے وہ بھی اس قدر تنگ ہو کہ مردوں کے سامنے جانے کے قابل نہ ہو تو وہ فیشن بھی منع ہے۔ یہ فیشن نہیں ہوگا پھر وہ بے حیائی بن جائے گی۔ پھر آہستہ آہستہ سارے حجاب اُٹھ جائیں گے اور اسلام حیا کا حکم دیتا ہے۔ پس اپنی حیا اور حجاب کا خیال رکھیں اور اس کی حدود میں رہتے ہوئے جو فیشن کرنا ہے کریں۔ فیشن سے منع نہیں کیا جاتا لیکن فیشن کی بھی کوئی حدود ہوتی ہیں ان کا بھی خیال رکھیں۔ فیشن کا اظہار اپنے گھروالوں اور عورتوں کی مجلسوں میں کریں۔ بازار میں اور باہر اور ایسی جگہوں پر جہاں مردوں کا سامنا ہو وہاں فیشن کے یہ اظہار ایسے نہیں ہونے چاہئیں جس سے بلا وجہ کی برائیاں پیدا ہونے کا امکان ہو سکے۔
اسلامی پردے کی تعریف قرآن کریم نے بڑی کھول کر بیان کردی ہے۔ اِس کو پڑھیں اور اِس پر عمل کریں۔ اِس بارے میں مَیں بھی اور پہلے خلفاء بھی بڑی تفصیل سے کئی دفعہ سمجھا چکے ہیں، اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں، اس کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ حکم تو یہ ہے کہ عورت مردوں سے بات بھی ایسے رنگ میں کرے، ایسے لہجے میں کرے جس سے کسی قسم کی نرم آواز کا اظہار نہ ہوتا ہو، تاکہ مردوں کے دل میں کبھی کوئی غلط خیال پیدا نہ ہو۔ پھر مردوں کے میل جول سے بھی بچنا چاہئے۔ اس سے بھی اعراض کریں۔ ایک عمر کے بعد بچیاں اپنی کلاس فیلو اور سکول فیلو لڑکوں سے بھی ایک حجاب پیدا کریں۔جب بھی ضرورت ہو ایک حجاب کے اندر رہتے ہوئے بات ہونی چاہئے ۔ لڑکیاں خود بھی اس بات کا خیال رکھیں اور ماں باپ بھی، خاص طور پر مائیں اس بات کی نگرانی کریں کہ ایک عمر کے بعد لڑکی اگر دوسرے گھر میں جاتی ہے تو محرم رشتوں کے ساتھ جائے اور جس گھر میں کسی سہیلی کے بھائی کسی وقت میں موجود ہوں، توخاص طور پر ان اوقات میں ان گھروں میں نہیں جانا چاہئے۔ پھر بعض جگہ یہ بھی ہوتا ہے کہ کوئی احساس نہیں دلایا جاتا تو جو کلاس فیلو لڑکے ہوتے ہیں وہ گھروں میںبڑی عمر تک آتے چلے جاتے ہیں۔ اللہ کا فضل ہے کہ احمدی معاشرے میں ایسی برائیاں بہت اِکّا دُکّا شاذ ہی کہیں ہوتی ہیں۔ا کثر بچ رہے ہیں لیکن اگر اس کو کھلی چھٹی دیتے چلے گئے تو یہ برائیاں بڑھنے کے امکانات ہیں۔ رشتے برباد ہونے کے امکانات ہیں۔ لڑکیوں نے اگر اس معاشرے میں تفریح کرنی ہے تو ہر جگہ پر اس کا سامان کرنا لجنہ کاکام ہے ۔پھر مساجد کے ساتھ یا نماز سنٹرز کے ساتھ کوئی انتظام کریں جہاں احمدی بچیاں جمع ہوں اور اپنے پروگرام کریں۔ اگر بچپن سے ہی بچیوں کے ذہن میں یہ بات ڈالنی شروع کردیں گی کہ تمہارا ایک تقدس ہے اور اس معاشرے میں جنسی بے راہروی بہت زیادہ ہے، تم اب شعور کی عمر کو پہنچ گئی ہو اس لئے خود اپنی طبیعت میں حجاب پیدا کرو جو تمہارے اور تمہارے خاندان کے اور جماعت کے لئے نیک نامی کا باعث بنے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اِلاّ ماشاء اللہ تمام بچیاں اس بات کو سمجھتے ہوئے نیکی کی راہ پر قدم مارنے والی ہوں گی۔
ہر بچی اور ہر عورت یاد رکھے کہ اُس نے اِس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مان کر اسلام کی تعلیم پر عمل کرنے کے عہدکی تجدید کی ہے۔ یہ عہد کیا ہے کہ مَیں اپنے آپ کو دوسروں سے ممتاز کروں گی۔ میرے میں اور دوسروں میں ایک فرق نظر آئے گا۔ کوئی انگلی ہماری طرف اس اشارے کے ساتھ نہیں اٹھ سکتی کہ یہ لڑکی بڑی دنیا دار ہے، دین سے ہٹی ہوئی اور لغو حرکات کرنے والی ہے۔ اور ہر عورت بھی اگر اس بات کا خیال رکھے گی کہ مَیں نے زمانے کے امام کے ساتھ ایک عہد کیا ہے کہ مَیں نے اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کرنی ہے اور اپنی اولاد کے اندر بھی پاک تبدیلی پیدا کرنی ہے اور اس کے لئے اپنی پوری کوشش صرف کردینی ہے تو انشاء اللہ تعالیٰ، ایسی عورتیں اور ایسی بچیاں معاشرے میں ایک مقام حاصل کرنے والی ہوںگی اور جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے ان کوششوں کے ساتھ جب اللہ تعالیٰ کے آگے جھکتے ہوئے اس کی عبادت کرنے والی ہوںگی تو پھر انشاء اللہ تعالیٰ، اللہ تعالیٰ آپ میں وہ پاک تبدیلیاں پیدا کردے گا، آپ کی اولادوں میں وہ پاک تبدیلیاں پیدا کردے گا جس سے آپ کا معاشرے میں ایک ایسا مقام ہوگا جہاں آپ کا اور آپ کے بچوں کا نام بڑے احترام سے لیا جائے گا۔ خدا تعالیٰ آپ سب کو یہ مقام حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے جو ہماری آئندہ نسلوں کی پاکیزگی کی ضمانت ہو اور ہم اس زمانے کے امام سے کئے ہوئے عہد کو ہمیشہ پورا کرنے والے ہوں۔
(نوٹ:خطاب کے بعد حضور انورایدہ اللہ نے سٹوڈنٹ ایسوسی ایشن کے بارہ میں کچھ دریافت فرمایا ۔
صدر صاحبہ لجنہ کی آوازکیسٹ سے سمجھ نہیں آسکی۔ حضور ایدہ اللہ نے جو فرمایا اور کیسٹ میں ریکارڈ ہے وہ تحریر ہے۔)
خطاب کے بعد حضور نے محترمہ صدر صاحبہ لجنہ جرمنی سے دریافت فرمایا کہ آپ کے ہاں ایک احمدیہ سٹوڈنٹ ایسوسی ایشن ہے۔اس کے علاوہ کیا آپ نے ایک مسلم سٹوڈنٹ ایسوسی ایشن بھی بنائی ہوئی ہے؟ اگر ہے تو وہ کیا ہے اور اس کے کیا کام ہیں؟ آپ نے دو ایسوسی ایشنیں کیوں اور کس کی اجازت سے بنائی ہوئی ہیں؟اور کون اس کے نگران ہیں؟
محترمہ صدر صاحبہ کی وضاحت پر حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا کہ احمدیہ سٹوڈنٹ ایسوسی ایشن پہلے صرف لڑکوں کی تھی۔ پھر مَیں نے کہا کہ لڑکیوں کو بھی اس میں شامل کرلیں۔
حضور انور نے مزید فرمایا: باقی آپ نے دو الگ الگ آرگنائزیشنز بنائی ہوئی ہیں۔ ایک کا نام آپ نے احمدیہ سٹوڈنٹ ایسوسی ایشن اور دوسری کا نام اسلامی سٹوڈنٹ ایسو سی ایشن رکھا ہوا ہے۔ یہ نئی نئی بدعات ہیں جو آپ لوگ پیدا کررہے ہیں۔اس سے تو یہ تأثر ابھرتا ہے کہ احمدیت کوئی علیحدہ چیزہے اور اسلام کوئی علیحدہ چیز ہے۔ حالانکہ احمدیت کا نام اسلام کے نام سے ہی ہے۔ پس صرف ایک ہی احمدیہ مسلم سٹوڈنٹ ایسوسی ایشن ہے اور یہی اس تنظیم کا نام ہوگا۔ اسی کے تحت سب کام کروائیں اور اسی کے ذریعہ اپنے سٹوڈنٹس کو گائیڈ کریں۔ ان کی آئندہ تعلیم میں راہنمائی کریں اور پھر سیمینار بھی منعقد کریں اور اسلام کی تبلیغ بھی کریں۔اللہ آپ کی نصرت فرمائے۔
بہرحال اس کی Overall نگرانی شعبہ امور طلباء کے سپرد ہوگی۔ لجنہ میں سیکرٹری امور طلباء تو ہے نہیں ۔ اس لئے لجنہ میں جو معاون صدر ہوگی وہ انچارج کے طور پر اس کی نگرانی کرے گی یا لجنہ کی نائب صدر کے سپرد ایک شعبہ ہو جو سٹوڈنٹ ایسوسی ایشن کی نگرانی رکھے۔ یہ ایک ہی آرگنائزیشن ہوگی۔
چلیں اب دعا کرلیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں