اداریہ: ایمان افروز تاریخ اور ہمارا فرض
(مطبوعہ رسالہ انصارالدین ستمبرواکتوبر2023ء)
’’تاریخ احمدیت‘‘ نہ صرف ایک زندہ تاریخ ہے بلکہ زندگی بخش بھی ہے۔ اس میں محفوظ بےشمار ایمان افروز داستانیں پڑھنے والوں کے دلوں کو ہمیشہ گرماتی رہیں گی اور یاد دلائیں گی کہ ہمارے بزرگوں نے حضرت اقدس مہدیٔ آخرالزماں علیہ السلام کی صداقت کا اقرار کرنے کے بعد آپؑ کی آواز پر لبّیک کہا اور آپؑ کے پیغام کو زمین کے کناروں تک پہنچانے کی خاطر اپنی جان، مال، وقت اور عزت کی پروا نہیں کی۔ حتّٰی کہ قید و بند کی صعوبتیں اور سماجی و قانونی پابندیاں بھی اُن کے جذبے پر اثرانداز نہ ہوسکیں۔ دعوت الی اللہ کے میدان میں دیوانہ وار کُود جانے والے یہ پُرعزم داعیان الی اللہ تبلیغ کی خاطر دنیا کے ہر خطّے اور زمین کے ہر کنارے تک جاپہنچے۔
تاریخ احمدیت کے بےشمار واقعات قاری کے ذہن میں ایک فلم کی طرح چلتے چلے جاتے ہیں۔ چنانچہ حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحبؓ اور آپؓ کے شاگردوں نے سالہا سال تک کابل کی سنگلاخ زمین کو اپنے خون سے سیراب کیا لیکن مہدی آخرالزمان علیہ السلام کی صداقت کے اقرار سے قدم پیچھے نہیں ہٹایا۔ عزم و ہمّت اور شجاعت کی یہ تاریخ نہ صرف برصغیر کے ہر علاقے میں دہرائی جاتی رہی بلکہ افریقہ، انڈونیشیااور بعض عرب ممالک میں بھی دردناک مظالم کا سامنا کرنے اور پابند سلاسل کردیے جانے کے باوجود بہت سے مظلوم احمدی آج بھی اپنے ایمان پر نہ صرف ثابت قدم ہیں بلکہ ہر قسم کے حالات میں دعوت الی اللہ کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ حقیقت یہی ہے کہ اس لذّت سے آشنا ہوجانے کے بعد اہل ایمان کے لیے اس سے محرومی کا تصوّر بھی محال ہوتا ہے۔
چند دہائیاں پہلے تک احمدی مبلغین مہینوں کے بحری سفر کی صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے جب دُوردراز کے ساحلوں پر اُترتے تو ہر جگہ مشکلات کا ایک پہاڑ سامنے نظر آتا جو خداتعالیٰ کے فضل سے لمبے عرصے کے صبر، دعاؤں اور پُرحکمت انداز تبلیغ کے نتیجے میں ایک پاکیزہ جماعت کے وجود میں ڈھلتا چلا جاتا۔ چنانچہ امریکہ میں حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ ایک عرصہ تک قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرتے رہے لیکن اس دوران بھی دعوت الی اللہ جاری رکھی۔ حضرت چودھری ظہور حسین صاحب نے روس کے تاریک قیدخانوں میں کئی ماہ تک محبوس رہ کر وہاں کئی روحوں کو اسلام احمدیت کی روشنی سے منور کیا۔ حضرت کرم الٰہی ظفر صاحب نے سپین میں حکّامِ وقت کی طرف سے لگائی جانے والی ہر تکلیف دہ پابندی کا سامنا کیا اور انتہائی نامساعد حالات میں بھی نہایت حکمت کے ساتھ اسلام احمدیت کا پرچم بلند کیے رکھا۔ اُسی دَور میں یوگوسلاویہ اور البانیہ کے مقامی احمدیوں کو بھی مشق ستم بنایا گیا جس کے نتیجے میں یورپ کی سرزمین پر معصوم احمدیوں نے جام شہادت بھی نوش کیا۔ محترم ڈاکٹر مظفر احمد صاحب دعوت الی اللہ کرتے ہوئے امریکہ میں اور محترم قریشی محمد اسلم صاحب ٹرینیڈاڈ میں شہادت کے عظیم مقام پر فائز ہوئے۔ بلکہ راہ وفا میں قربانیاں پیش کرنے والے ایسے پُرعزم داعیان الی اللہ بھی تھے جو دُوردراز علاقوں تک پہنچے اور پھر واپس اپنے وطن نہ آسکے بلکہ دیارِ غیر میں ہی تبلیغی جہاد کے دوران جام شہادت نوش کرگئے۔ اُن کے اخلاص و وفا کی داستانیں آئندہ نسلوں کے لیے بےمثال نمونہ ہیں۔ ایسے داعیان الی اللہ کی بھی ایک طویل فہرست ہے جس میں حضرت الحاج مولانا نذیر احمد علی صاحب (جو سیرالیون میں دفن ہیں)، حضرت شہزادہ عبدالمجید صاحب لدھیانویؓ (جو ایران میں آسودۂ خاک ہیں)، حضرت مولوی عبیداللہ صاحب اور حضرت حافظ جمال احمد صاحب (دونوں کی وفات ماریشس میں ہوئی)، حضرت الحاج مولوی محمد دین صاحب (جو البانیہ جاتے ہوئے سفر کے دوران ایک جنگی حملے کے نتیجے میں شہید ہوئے) ، محترم محمدرفیق صاحب (جو کاشغر میں مدفون ہوئے)، حضرت مولانا غلام حسین ایاز صاحب مبلغ سنگاپور (جن کی وفات بورنیو میں ہوئی) بھی شامل ہیں۔
یہ محض چند نام ہیں لیکن یہ فہرست واقعۃً بڑی طویل اور دردناک ہے۔ یہ سب داعیان الی اللہ جہاں ہماری دعاؤں میں شامل ہونے چاہئیں وہاں ان کی ایمان افروز داستانیں ہمیں یہ احساس بھی دلاتی ہیں کہ ہم پر بھی کچھ فرائض عاید ہوتے ہیں ۔ آج اگر ہر قسم کی آزادیٔ اظہار مہیا ہونے اور دعوت الی اللہ کے جدید ذرائع میسر ہونے کے باوجود بھی ہم دعوت الی اللہ کے فریضے کو کماحقّہٗ ادا نہیں کرپارہے تو مقامِ فکر ہے۔ خاص طور پر ایسے میں جب خلافت حقّہ کی براہ راست راہنمائی ہمیں حاصل ہے اور یہ ارشاد بھی مشعل راہ ہے کہ ہم انصار نہ صرف اپنے گھروں میں اور اپنے خاندانوں میں ہی سربراہ کے طور پر نمونہ ہونے چاہئیں بلکہ اپنے معاشرے میں خصوصاً دیگر احمدی نوجوانوں اور بچوں کے لیے بھی ہمیں بہترین نمونہ پیش کرنا چاہیے۔
سیّدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی راہنمائی میں مجلس انصاراللہ کے تحت مقامی، علاقائی اور قومی سطح پر دعوت الی اللہ کے مختلف پروگرام سالہاسال سے نہایت کامیابی سے جاری ہیں۔اگرچہ بہت سے انصار باقاعدگی سے نہایت ذوق و شوق سے ان سب میں یا بعض منتخب پروگراموں میں شامل ہوکراپنی خدمات پیش کرتے ہیں لیکن چند ایک کی طرف سے اُن کے اپنے نفس کا ایک بہانہ وقت یا علم کی کمی کی صورت میں پیش کیا جاتا ہے۔ اگرچہ اس حوالے سے بہت کچھ کہا جاسکتا ہے لیکن ممکن ہے کہ سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے درج ذیل ارشاد میں سے چند فقرات ہی اُن کی سوچ کو وہ زاویہ عطا کردیں جس کے نتیجے میں چشم بصیرت حاصل ہوجائے اور دنیا کے حالات کی سنگینی کا احساس کرکے ہم بھی اپنے دل میں اسلام کے لیے درد کی وہ لذّت محسوس کرسکیں جو سیّدنا حضرت اقدس علیہ السلام کے قلب سلیم میں موجزن تھی۔ حضورعلیہ السلام فرماتے ہیں:
’’یہ سچی بات ہے کہ اگر انسان تو بۃ النصوح کرکے اللہ تعالیٰ کے لیے اپنی زندگی وقف کردے اور لوگوں کو نفع پہنچاوے تو عمر بڑھتی ہے۔ اعلاء کلمۂ اسلام کرتا رہے اور اس بات کی آرزورکھے کہ اللہ تعالیٰ کی تو حید پھیلے۔اس کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ انسان مولوی ہو یا بہت بڑے علم کی ضرورت ہے بلکہ امربالمعروف اور نہی عن المنکرکرتا رہے۔ یہ ایک اصل ہے جو انسان کو نافع الناس بناتی ہے اور نافع الناس ہو نا درازی عمر کا اصل گُر ہے۔ فر مایا: تیس سال کے قریب گزرے کہ مَیں ایک بارسخت بیمار ہوا۔ اور اس وقت مجھے الہام ہوا وَاَمَّا مَا یَنْفَعُ النَّاسَ فَیَمْکُثُ فِی الْاَرْضِ (الرعد18:)۔ اس وقت مجھے کیا معلوم تھا کہ مجھ سے خلق خدا کو کیا کیا فوائد پہنچنے والے ہیں لیکن اب ظاہر ہوا کہ ان فوائد اور منافع سے کیا مراد تھی۔ غرض جو کوئی اپنی زندگی بڑھانا چاہتا ہے اسے چاہیے کہ نیک کاموں کی تبلیغ کرے اور مخلوق کو فائدہ پہنچاوے…انسان اگر اللہ تعالیٰ کے لیے اپنی زندگی وقف نہ کرے اور اس کی مخلوق کے لیے نفع رساں نہ ہو تویہ ایک بےکار اور نکمّی ہستی ہوجاتی ہے۔ بھیڑبکری بھی پھر اس سے اچھی ہے جو انسان کے کام تو آتی ہے لیکن یہ جب اشرف المخلوقات ہوکر نوع انسان کے کام نہیں آتا تو پھر بدترین مخلوق ہو جاتا ہے … پس یہ سچی بات ہے کہ اگر انسان میں یہ نہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کے اوامر کی اطاعت کرے اور مخلوق کو نفع پہنچاوے تو وہ جانوروں سے بھی گیا گزرا ہے اور بدترین مخلوق ہے۔‘‘ (ملفوظات جلدسوم صفحہ395)
خداتعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم اشرف المخلوقات بنتے ہوئے دیگر انسانوں کی راہنمائی کے لیے اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے والے ہوں اور اس کے نتیجے میں اپنے ربّ کی خوشنودی حاصل کرکے دنیا و آخرت میں فلاح پانے والے بن جائیں۔ آمین