امراض قلب سے بچاؤ کے طریق – جدید تحقیق کی روشنی میں

امراض قلب سے بچاؤ کے طریق – جدید تحقیق کی روشنی میں
(شیخ فضل عمر)

امراض قلب کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات کی وجہ سے گزشتہ نصف صدی سے ماہرین مسلسل تحقیق میں‌مصروف ہیں- یہ تحقیق اعلیٰ سائنسی مسائل کے حوالہ سے بھی کی جاتی ہے اور عوام کو ان امراض سے بچانے کے لئے غذا کے استعمال سے متعلق بھی مسلسل ہورہی ہے- ذیل میں ایسی ہی جدید تحقیق پر مبنی چند رپورٹس ہدیہ قارئین ہیں-
سائنسی تحقیق کی مثال یہ ہے کہ جاپانی سائنسدانوں نے اُس ایک جین کی نشاندہی میں کامیابی حاصل کرنے کا دعویٰ کیا ہے جو ہارٹ اٹیک یا حرکت قلب بند ہوجانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ سائنسدانوں نے امراض قلب میں مبتلا 2600؍افراد کے DNA کے نمونوں سے حاصل کردہ نتاء کا مشاہدہ کرنے کے نتیجے میں دریافت کیا ہے کہ جو لوگ عارضۂ قلب میں مبتلا ہوتے ہیں، اُن کی جینز میں ایک خاص قسم کی تبدیلی رونما ہوتی ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ دل تک خون لے جانے والی شریانوں میں ورم یر سوجن جینز کی وجہ سے ہی ہوتی ہے اور اسی وجہ سے ہارٹ اٹیک واقع ہوتا ہے۔ جاپان میں کی جانے والی اس تحقیق کے بعد جاپانی سائنسدانوں نے قوی امید ظاہر کی ہے کہ اُن کی اس دریافت سے دل کی بیماریوں کو سمجھنے میں بہت مدد ملے گی۔
اسی طرح بعض ماہرین طبّ کا کہنا ہے کہ پچپن سال سے بڑی عمر کے لوگوں کو بلڈپریشر کو قابو میں رکھنے کے لئے دواؤں کا استعمال بہرحال کرنا چاہئے۔ وبائی امراض کی روک تھام کرنے والے پروفیسر میلکوم لا کا کہنا ہے کہ اِن دواؤں کے استعمال سے نہ صرف ہائی بلڈپریشر میں مبتلا افراد بلکہ نارمل بلڈپریشر والے لوگ بھی دل کی تکلیف سے نمایاں حد تک بچ سکتے ہیں۔ برٹش میڈیکل جرنل میں شائع ہونے والی اس تحقیق کے لئے 147 جائزوں کو بنیاد بنایا گیا ہے جن میں تقریباً ساڑھے چار لاکھ افراد سے رابطہ کیا گیا تھا۔ اس تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ بلڈپریشر کنٹرول کرنے والی زیادہ تر دواؤں سے ہارٹ اٹیک اور ہارٹ فیل ہونے جیسے مراحل کو ایک چوتھائی حد تک جبکہ دیگر امراض کے خطرات کو ایک تہائی تک کم کیا جاسکتا ہے۔ یہ تحقیق کرنے والے پروفیسر میلکوم لا اُس ’پولی پل‘ کے بھی خالق ہیں جو ماہرین کے خیال میں ہارٹ اٹیک اور دل کے دوسرے متعدد امراض میں کمی لانے کے لئے مؤثر ثابت ہوسکتی ہے۔
تاہم مناسب غذا کے استعمال سے بہت سے مہلک امراض سے، جن میں امراضِ قلب بھی شامل ہیں، یقینی تحفظ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ اعدادوشمار سے معلوم ہوا ہے کہ انسانی غذا میں حیوانی چربی اور کولیسٹرول کے اضافے کے تناسب سے ہی امراض قلب کی شرح میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ چنانچہ دنیا کے جن علاقوں میں گوشت خوری کا رواج نہیں یا جو افراد عادتاً مستقل سبزی خور ہیں ان میں امراضِ قلب کی شرح ایک چوتھائی سے بھی کم ہے۔ ماہرین کے مطابق غذا میں پھلوں، سبزیوں اور اناج کا استعمال امراضِ قلب سے محفوظ رکھتا ہے اور جسم میں چکنائی کی سطح کو بھی نارمل رکھتا ہے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ پھلوں اور سبزیوں میں وٹامن سی اور ثابت اناج میں وٹامن ای بکثرت موجود ہوتا ہے۔ اور یہ دونوں وٹامنز خلیات میں آکسیجن سے ملے ہوئے اجزاء کی پیداوار کو روکنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ خون میں آکسیجن کی شمولیت کا عمل چکنائی کو توانائی میں تبدیل کرنے کے لئے ضروری ہے لیکن آکسیجن کی شمولیت کا یہ عمل جب غیرمعمولی صورت اختیار کر لیتا ہے تو شریانوں کے سکڑنے پر منتَج ہوسکتا ہے جس سے دل کے امراض جنم لیتے ہیں۔ ’’غذا اور غذائیت‘‘ سے متعلق امریکی ادارے کے مطابق ایک مرد کے لئے 65 گرام اور ایک عورت کے لئے 55 گرام لحمیات روزانہ کی مقدار انتہائی ہے جس سے انسان کے لئے ضروری امینوایسڈ حاصل ہوجاتا ہے۔
ہاورڈ یونیورسٹی میں80 ہزار مریضوں پر کی جانے والی تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ فولک ایسڈ بکثرت استعمال کرنے والوں کے امراضِ قلب میں مبتلا ہونے کے خطرات 31 فیصد کم ہوگئے۔ جس کی وجہ فولک ایسڈ کا خون میں Homosistine نامی امینو ایسڈ کی سطح کو کم کرنا ہے۔ ہوموسسٹین زائد چربی اور کولسٹرول والی غذاؤں کے باعث خون میں جمع ہوجاتا ہے اور اس ایسڈ کے اضافے سے دل کے امراض اور فالج کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
ماہرین کے مطابق فولک ایسڈ کی روزانہ درکار خوراک 400 مائکروگرام ہے اور یہ پالک، گوبھی، کینو، سنترے کے رس اور لوبیے کے بیجوں میں بکثرت موجود ہوتا ہے۔
اس تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ وٹامن بی استعمال کرنے والوں میں بھی حملۂ قلب کا خطرہ33فیصد تک کم ہوگیا۔ وٹامن بی 6بھی حملۂ قلب کا سبب بننے والے ہوموسسٹین کی سطح میں کمی کرتا ہے۔ وٹامن B6 روزانہ صرف 3ملی گرام درکار ہوتا ہے اور اس کا حصول مرغی کے گوشت، بند گوبھی، بھورے چاول، Oats، موٹے آٹے اور ثابت اناج کے ذریعے ممکن ہے۔
ماہرین کے مطابق روزانہ ایک سو سے آٹھ سو ملی گرام وٹامن E کھانے سے بھی امراضِ قلب کا خطرہ 40فیصد کم ہوجاتا ہے کیونکہ یہ وٹامن بھی خون میں خراب کولیسٹرول یعنی ایل ڈی ایل LDLکی سطح کم کر کے قلب کی شریانوں میں رکاوٹ پیدا نہیں ہونے دیتا۔ یہ وٹامن نباتاتی تیلوں، مغزیات اور ثابَت گندم میں بھی ہوتا ہے۔
جرنل آف دی امریکن ٹائٹک ایسوسی ایشن میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دل کے حملے کے بعد مریضوں کی بھوک کے بحال ہونے پر اُنہیں وٹامن سی سے بھرپور پھل اور سبزیاں کھلانے سے بحالیٔ صحت کی رفتار میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں 204 مریضوں کو روزانہ وٹامن سی سے بھرپور 400 گرام پھل اور سبزیاں کھلائی گئیں جن میں پپیتا، کھٹے پھل اور ہری مرچیں قابلِ ذکر ہیں۔ یہ مریض دوسروں کی نسبت بہت جلد صحت یاب ہوئے۔
ہاورڈ یونیورسٹی کی اِس تحقیق کی روشنی میں یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ہر ہفتے 3اونس چکنی مچھلی کے گوشت کا استعمال کرنے سے ہارٹ اٹیک کے خطرے میں 50سے 70 فیصد کمی واقع ہوجاتی ہے۔ کیونکہ چکنی مچھلیوں میں امیگا 3 روغنی تیزاب کی بدولت شریانیں صاف اور لچکدار رہتی ہیں۔
ایک اور مطالعے سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سرخی مائل انگور، سرخ تربوز اور سرخ پکے ہوئے ٹماٹروں میں پایا جانے والا سرخ رنگ دراصل ایک اہم بیٹا کروٹین ہے جسے لائکوپین کہا جاتا ہے۔ یہ کیمیائی جزو دل کے امراض کے علاوہ سرطان سے بھی تحفظ فراہم کرتا ہے۔ اس تحقیق کے دوران یہ بھی معلوم ہوا کہ صحت مند لوگوں کے مقابلے میں حملۂ قلب کا شکار ہونے والے افراد کے ریشوں میں لائکو پین کی سطح کم پائی گئی۔ اس کیمیائی جزو کا یقینی اور مستقل ذریعہ سرخ ٹماٹر ہیں۔ تاہم یہ کچے کی نسبت تیل میں پکے ہوئے ٹماٹروں میں زیادہ ہوتا ہے اس لئے اسے زیتون یا کینولا آئل کی معمولی مقدار میں پکاکر کھانا مفید قرار دیا گیا ہے۔
فن لینڈ میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق انگور بھی دل کے لئے مفید ہے۔ انگور کھانے سے خون پتلا رہتا ہے۔ بالخصوص کالے اور سرخ انگوروں کا ایک گلاس رس پینے سے خون میں Clot بننے کا خطرہ 60فیصد کم ہوجاتا ہے۔ اس کی وجہ انگور میں فلیوونائڈ زکی موجودگی ہے۔
اسی طرح جو لوگ پیاز اور سیب شوق سے کھاتے ہیں انہیں بھی فلیوونائڈز زیادہ مقدار میں ملتا ہے اور اسی وجہ سے پیاز اور سیب کے شائقین امراضِ قلب میں کم مبتلا ہوتے ہیں۔
طبی ماہرین نے کہا ہے کہ صبح سویرے ایک کپ گرم چائے پینے سے عارضۂ قلب کے امکانات میں کمی اور ذہنی استعداد کار میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ مشروبات کے فوائد پر ہونے والی اس تحقیق کو نیوٹریشن اینڈ فوڈ سائنس نے شائع کیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ دن میں 2سے 4کپ چائے پینے سے ہارٹ اٹیک کے امکانات کم ہوجاتے ہیں اور روزمرہ کام کاج کے لئے کارکردگی میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ تجرباتی تجزیے کے مطابق چائے کے پودے میں جسم سے زہریلے مواد خارج کرنے والا ایک خاص مادہ ’’پولی فینول‘‘ ہوتا ہے جو جسم کے بائیوکیمیکل نظام میں بہت مفید ثابِت ہوا ہے۔ اس مادے سے جسم کی اندرونی سوزش کو کم کرنے اور متعدد کیمیائی نظاموں کو متحرک کرنے میں مدد ملتی ہے۔ ڈاکٹر کیری روکسٹن کے مطابق مشروبات میں تازگی فراہم کرنے کے لئے چائے کو اوّلیت حاصل ہے لیکن چائے کو جب مصنوعی رنگ اور ذائقے سے مکس کیا جاتا ہے تو اس کے مفید اجزاء کم ہوجاتے ہیں۔ قبل ازیں کی جانے والی ایک تحقیق میں بھی بتایا گیا تھا کہ چائے کا مطلب صرف قہوہ ہے جس میں دودھ کو شامل نہ کیا گیا ہو۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں