ایک مردم خیز خطۂ زمین ’’سرگودھا‘‘
(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، الفضل انٹرنیشنل، 24؍فروری 2025ء)
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ یکم ستمبر 2014ء میں استاذی المکرم احمد علی صاحب کے قلم سے ایک مضمون شامل اشاعت ہے جس میں سرگودھا کے علاقے سے تعلق رکھنے والے چند نامور خدام دین کا تذکرہ کیا گیا ہے۔

جمّوں میں قیام کے دوران
٭…حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے امام مہدی اور مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا تو بھیرہ ضلع سرگودھا سے تعلق رکھنے والے حافظ قرآن اور یونانی طب کے نامور حکیم حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ نے اس دعویٰ کو قرآن اور حدیث کے عین مطابق جان کر صدق دل اور صفائی قلب سے قبول کیا اور اشاعت قرآن نیز اسلام کی تبلیغ کے کام میں جان و مال اور علم و فضل کے تمام سرمایہ کے ساتھ حاضر ہوگئے۔ پھر رات، دن، صبح وشام آپؑ کی خدمت میں رہنا اور آپؑ کے ہر حکم کو بلاتردد بجا لانا اپنی زندگی کا مقصد اوّلین بنا لیا۔ حتیٰ کہ اپنے گھربار اور ہر طرح کی عزوجاہ کو پس پشت ڈال دیا۔ حضرت نورالدین ؓکی فدائیت اور جان سپاری یہاں تک پہنچی کہ حضرت امام مہدی کی زبان مبارک سے یہ سند بھی ملی ؎
چہ خوش بودے اگر ہر یک ز امت نور دیں بودے
ہمیں بودے اگر ہردل پُر از نور یقیں بودے
٭… حضرت حکیم میاں شیرمحمد رانجھا صاحبؓ کا تعلق بھی بھیرہ ضلع شاہ پور سرگودھا کے گاؤں ہجنی سے ہے۔ جب آپ نے اپنے ہم جماعت اور دلی دوست حکیم نورالدینؓ سے مہدویت کے دعویدار اور اُس پر ایمان لانے کے بارے سنا تو بلاتردّد اپنی بیعت کا خط لکھا دیا اور 313؍اصحاب میں شامل ہوئے۔ آپؓ خود بھی علاقے بھر میں زمینداری کے علاوہ اپنے تبحر علمی اور حذاقت، طبابت کی وجہ سے مشہور و معروف تھے۔ موصوف کا گھرانہ بھی اعلیٰ علمی ذوق رکھتا تھا۔ یہ خانوادہ بنیادی طور پر بھیرہ کے قریب گاؤں چاوہ کا رہنے والا تھا۔
ان کے ایک بھائی حضرت مولوی نظام دین صاحب ہمارے گاؤں ادرحماں اپنے ننھیال میں رہتے تھے اور عالم دین ہونے کی بِنا پر گاؤں کے نہ صرف امام الصلوٰۃ بلکہ تمام مردوزن کے استاد بھی تھے۔ ہجن اور ادرحماں دونوں گاؤں میں سات کوس کی مسافت تھی۔ حکیم شیر محمد رانجھا صاحبؓ اپنے بھائی سے ملنے آتے تو امام مہدی کی آمد اور زمانہ کی علامات پر گفتگو ہوتی جو بعض اوقات نماز فجر کے بعد شروع ہوکر نماز ظہر کی اذان کے ساتھ ختم ہوتی۔ مولوی نظام دین صاحب کے دو بیٹے تھے۔بڑے عبدالعلی اور چھوٹے شیر علی۔ آپ نے بڑے بیٹے کو اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے علی گڑھ کالج میں داخل کرایا اور چھوٹے کو ایف سی کالج لاہور میں داخلہ دلوایا تھا۔ عبدالعلی نے علی گڑھ کالج میں امام مہدی کا چرچا سنا اور آپؑ کی کتاب شاید ’’آئینہ کمالات اسلام‘‘ کا مطالعہ کرکے ایمان لے آئے اور 313؍اصحاب میں شامل ہوئے۔ آپؓ کا جب چھٹیوں میں وطن آنا ہوتا تو لاہور سے چھوٹے بھائی شیر علی کو بھی ساتھ لے لیتے۔ گاؤں پہنچنے پر دونوں بھائی بھی اپنے والد محترم کو دلائل سے قائل کرنے کی کوشش کرتے۔ گفتگو میں مہدی کی صداقت کے لیے ایک دمدار ستارے کے ظاہر ہونے کی پیشگوئی کا بھی ذکر ہوتا۔ آخر مولوی نظام دین صاحب نے اپنی آنکھوں سے وہ ستارا دیکھ کر حضرت اقدسؑ کی بیعت کرلی۔ چونکہ آپ امام الصلوٰۃ اور مردوزن کے استاد تھے اس لیے آپؓ کی پیروی میں سارا گاؤں احمدی ہوگیا۔

حضرت حافظ عبدالعلی صاحبؓ LLB کرنے کے بعد سرگودھا میں رہائش پذیر ہوکر ضلع کچہری میں پریکٹس کرتے رہے۔ وہاں احمدیہ مسجد کے امام الصلوٰۃ بھی تھے۔ موسم کیسا ہی کیوں نہ ہو، پانچوں نمازیں مسجد میں ہی ادا کیا کرتے تھے۔
حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ لاہور سے گریجوایشن کرکے حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔ آپؓ نے قرآن شریف کا انگریزی زبان میں ایسا بےمثل ترجمہ اور تفسیر کرنے میں کامیابی حاصل کی جسے پڑھ کر انگریزی دان انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں۔ آپؓ کی سوانح عمری میں درج ہے کہ ایک انگریز دانشور بھی آپؓ کے تبحر علمی سے متاثر ہوکر آپؓ سے ملنے کے لیے پوچھتا پوچھاتا قادیان پہنچا تھا۔
٭…حضرت مولوی محمد اسمٰعیل صاحب ہلالپوریؓ کا تعلق بھیرہ (بھلوال) کے گاؤں ہلال پور سے تھا۔ آپؓ قرآن و حدیث نیز زبان عربی کے معتبر عالم تھے اور سلسلہ کے کئی جید علماء کے استاد بھی تھے۔
٭…امریکہ میں پہلے مبلغ حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ کا تعلق بھی بھیرہ سے تھا۔ آپؓ کے عقیدہ تثلیث کے ردّ میں دلائل سُن کر پادری جواباً یہی کہتے سبز پگڑی اور عینک والے سے ہم اپنے عقائد کے بارے گفتگو نہیں کرسکتے۔
٭…حضرت میاں خدابخش صاحبؓ ’شیخ والا‘ میں بطور مزارع کھیتی باڑی کیا کرتے تھے۔ قریباً 1907ء میں بیعت کی۔ لمبا عرصہ جماعت احمدیہ ادرحماں کے امیر اور امام الصلوٰۃ رہے۔ بچوں کے کپڑوں کا کاروبار تھا۔ سارا دن گھر (دکان) میں بیٹھے قرآن مجید کا مطالعہ کرتے۔ اردگرد کے دیہات سے کپڑے خریدنے اور رنگ کرانے آنے والوں کو دینی مسائل بتاتے اور دیہاتی انداز میں تبلیغ بھی کیا کرتے تھے۔

٭…ادرحماں کے محترم محمدالدین عادل صاحب نے دیہاتیوں میں تبلیغ کے لیے اُن کے پسندیدہ ڈھنگ ’ڈھولے‘ لکھے تھے جو حضرت مصلح موعودؓ نے بھی مسجد مبارک قادیان میں بیٹھ کر خود سنے اور پسند فرمائے تھے۔
٭…محترم مولوی رفیع الدین صاحب فاضل کا تعلق بھیرہ (بھلوال) کے گاؤں ‘مڈھ رانجھا’سے تھا۔ آپ نے لاہور کی معروف دینی درسگاہوں سے قرآن کریم اور عربی زبان کی تعلیم حاصل کی اور ڈسٹرکٹ بورڈ سرگودھا کی طرف سے بطور مدرس (ٹیچر)ادرحماں پرائمری سکول میں تعینات تھے۔ احمدیہ مسجد کے امام الصلوٰۃ بھی تھے۔ آپ نے گاؤں کے ہر چھوٹے بڑے کو علم حاصل کرنے کی لَو لگا دی تھی اور تمام مردوزن کو پنجابی زبان میں نماز کا ترجمہ یاد کرادیا تھا۔ روزانہ نماز فجر کے بعد قرآن مجید کا درس عمدہ اور دلنشیں انداز میں دیتے۔ علم طب میں بھی خاصی دسترس تھی۔ روزمرہ کی چھوٹی موٹی تکالیف کے علاج کے لیے مجرب نسخے تیار کرتے اور بلامعاوضہ بیماروں کی خدمت کرتے۔
٭…ضلع سرگودھا کے ٹوانہ اور نون اقوام کے افراد جاگیردار ہونے کے ساتھ ساتھ اعلیٰ سرکاری عہدوں تک پہنچے ہوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے نون خاندان پر اپنی رحمت کا دروازہ کھولا تو ملک صاحب خان نون ڈپٹی کمشنر پر امام مہدی کی صداقت روشن کردی۔ وہ بھی کسی مخالفت کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے حضرت اقدسؑ کی غلامی میں آگئے۔ بعد میں ربوہ میں مکان بنا کر اس میں رہائش پذیر رہے ہیں۔
٭…قصبہ کوٹ مومن کے دیندار، علم دوست اور نامور گوندل قوم سے تعلق رکھنے والے میاں خدابخش گوندل صاحب بھی تھے جن کی نسل میں حاجی میاں رشید احمد اور میاں گل محمد دونوں بھائی فدائی احمدی ہوگزرے ہیں۔ محترم میاں رفیق احمد گوندل میاں خدا بخش صاحب کی اولاد ہیں۔
٭…اسی طرح نوآبادیات سکیم کے تحت آباد ہونے والے چکوک میں سے چک نمبر 9 شمالی (پنیار) تحصیل بھلوال کے صاحب حیثیت اور سفید پوش بزرگ حضرت چودھری حاکم علی صاحب بھی یاد آرہے ہیں۔ یہ سب صرف ایک تحصیل کے وہ افراد ہیں جن کا مجھے ذاتی طور پر علم ہے۔ورنہ تو خوشاب بھی سرگودھا ہی کی ایک تحصیل تھی جہاں سے دین کے کئی خادم میدانِ عمل میں سرگرم رہے۔