حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا خطاب برموقع سالانہ اجتماع مجلس خدام الاحمدیہ برطانیہ 25ستمبر2009ء

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ

الحمدللہ کہ آج ہمارا خدام ا لاحمدیہ یوکے کا سالانہ اجتماع اپنے اختتام کو پہنچاہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے حاضری جیسا کہ صدر صاحب نے رپورٹ میں بھی پیش کیا ہے گزشتہ سال سے تقریباً ساڑھے تین سو سے زائد تھی۔یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارا ہر قدم ترقی کی طرف اٹھتا ہے اور اٹھنا چاہیے اور یہی آگے بڑھنے والی اور ترقی کرنے والی قوموں کی نشانی ہے۔اس لئے ہمیشہ یاد رکھیں کہ آج جو حاضری یہاں اجتماع میں ہے آئندہ سال اس سے بہرحال بہتر ہونی چاہئے انشاء اللہ تعالیٰ۔اور اگر کوشش اور دعا سے کام لیں گے تو

اللہ تعالیٰ آپ کے ہر کام میں برکت عطا فرماتا چلا جائے گا۔

               اللہ تعالیٰ کے فضل سے خدام الاحمدیہ نے اس سال یہ بھی ثابت کیا ہے کہ جو بھی اس کا صدر مقرر کر دیا جائے وہ کامل اطاعت کے ساتھ اس کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔اس کی فرمانبرداری کرتے ہیں۔ اس کے پروگراموں پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کے کاموں کو آگے بڑھاتے ہیںاور یہ بھی اللہ تعالیٰ کی جماعت احمدیہ کے ساتھ ایک خاص تائید ہے۔ صدر صاحب کو جب گزشتہ سال صدر بنایا گیا،مَیں نے ان کی صدر بننے کی منظوری دی تو پریشان بھی تھے لیکن اس وقت ان کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ جو کام ان کے سپرد کیا گیا ہے یہ کام دنیاوی کام نہیں ہے اور الٰہی جماعتوں کا یہ خاصہ ہوتا ہے کہ ان کے اوپر جو بھی نگران مقرر کیا جائے ،جو بھی امیر مقرر کیا جائے،اس سے مکمل تعاون کرتے ہوئے اس کے کام کو آگے بڑھاتے چلے جاتے ہیں کیونکہ یہ کسی شخص کا کام نہیں ۔ہماری جماعت میں شخصیت پرستی نہیں۔تمام جماعت اور افراد جماعت بچے مرد اور عورتیں اس لئے کام کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنا ہے۔لہذا ان کو جو فکر تھی وہ ناتجربہ کاری کی وجہ سے تھی۔اور وقت نے ثابت کر دیا کہ ان کی فکر غلط تھی اور اللہ تعالیٰ نے ان کی تما م فکروں کو دور فرمایا اور بڑی کامیابی سے خدام الاحمدیہ نے گزشتہ سالوں سے بڑھ کر اس سال اپنے پروگرام سر انجام دئے۔یہ حضرت مسیح موعود؈ کی جماعت کی  خوبصورتی ہے ۔یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ حضر ت مسیح موعود؈کو اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص تائیدات اور نصرت کے ساتھ بھیجا ہے۔جو وعدے آپؑ سے کئے تھے ان کو آج تک پورا کرتا چلا جا رہا ہے اور مزید مَیں بتائوں کہ حضرت مسیح موعود؈نے خود فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یہ تائید ات کیوں میرے ساتھ ہیں ۔فرماتے ہیںکہ ’’ اس وقت دنیا بھر میں ایک ہی مذہبی جماعت ہے جو اپنا امام رکھتی ہے ورنہ تمام دوسری جماعتیں شخصی ہیں۔ ان کا کوئی پیشوا نہیں ۔آپس میں قُلُوۡ بُھُمۡ شَتّٰی ( الحشر:15) کا مصداق بن رہے ہیں‘‘۔(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 220)وہ بانگ بلند دعوے کرتے ہیں کہ ہم ایک ہیں لیکن ان کے دل پھٹے ہوئے ہیں  اوراس کے نظارے آج ہمیں ہر جگہ نظر آتے ہیں۔

               پھر حضرت مسیح موعود؈ کے بعد خلافت کے ذریعہ سے بھی اللہ تعالیٰ نے یہ خوبصورتی پیدا فرمائی ہے اور پھر یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا اور آپؑ کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہونے کا ایک بہت بڑا ثبوت ہے۔علاوہ اس کے کہ ہم جو باقی مسلمان مخالفین ہیں ان کو کیا جواب دیتے ہیں کہ ہماری جو یہ ترقی ہے اور اکائی اور جماعت ہے یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ حضرت مسیح موعود؈ خدا تعالیٰ کی طرف سے اس زمانہ کی اصلاح کے لئے بھیجے گئے ہیں۔اس کے علاوہ یہ اللہ تعالیٰ کے موجود ہونے کا اللہ تعالیٰ کی ذات کا بھی ثبوت ہے کہ خدا ہے۔خدا کو نہ ماننے والے کہتے ہیں کہ خدا کا کیا ثبوت ہے ؟ایک احمدی کے لئے اس کابہت بڑا ثبوت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دلوں کو پھیر کر ایک ہاتھ پر جمع کیا ہوا ہے۔

               حضرت مسیح موعود؈ کا زمانہ تھا تو غیر کہتے تھے کہ یہ شخص ایسا ہے کہ اس کی زبان میں جادو ہے۔ اس کی تقریروں میں ایک جادو بھرا ہوا ہے ۔اس کی باتوں میں ایک سحر ہے ۔آپؑ کی وفات کے بعد پھر اللہ تعالیٰ نے ثابت کیا کہ جوجادو بھرا گیا ہے یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور یہ آئندہ بھی قائم رہے گا۔خلافت احمدیہ جس کی آپؑ نے پہلے سے ہمیں اطلاع دے دی تھی ،قائم ہوگی اور پھر اللہ تعالیٰ کے فضل سے خوف امن میں بدلتا چلا جائے گا۔

               حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کے زمانے میں اور پھر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے ؓ زمانے اور آج تک جو خلافت احمدیہ قائم ہے یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ خدا ایک ہے ۔کیونکہ اللہ تعالیٰ نے دلوں کو ایک ہاتھ پر جمع کیا ہوا ہے ۔جسم تو خریدے جاسکتے ہیں لیکن دل نہیں خریدے جاسکتے اور قربانیاں کرنے والے دل نہیں خریدے جاسکتے۔ پس یہ ایک بڑی بات ہے اور نہ صرف جماعت احمدیہ کے حق میں ایک بہت بڑا ثبوت ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی ذات اور وجود ہونے کا بھی ثبوت ہے ۔کیونکہ یہ خدا تعالیٰ کی ذات ہی ہے جس نے جماعت کو ایک رکھا ہے اور پھر خلافت کے فیصلے میں خدا تعالیٰ برکت بھی عطا فرماتا ہے اور جیسا کہ مَیں نے کہا جماعت احمدیہ کے ہر فرد جماعت کا اطاعت کا ایک جذبہ ہے اور اس کی وجہ سے ہے کہ اس نے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنی ہے ۔وہ خلافت کے نظام کی وجہ سے تمام نچلے نظام جو ہیں ،تنظیمیں جو ہیں ان کی اطاعت کرتے چلے جاتے ہیں۔پس یہ دلوں کو پھیرنا ،دلوں کو قابو رکھنا،اطاعت کے جذبات پیدا کرنا  یہ خدا تعالیٰ کی خدائی کا ثبوت ہے ۔لیکن ہمیشہ یاد رکھیں کہ اطاعت کے مضمون کی وسعت کو ہر نوجوان نے،ہر بچے نے اپنے سامنے رکھنا ہے۔صرف چھوٹے موٹے کاموں میں اطاعت نہیں کر دینی۔

               خدام الاحمدیہ نے زور لگایا کہ اجتماع کے لئے حاضری بڑھانی ہے تو یہ اطاعت نہیں ۔اجلاسات پہ آنا ہے تو یہ اطاعت نہیں ہو گئی۔وقتی جذبہ کے تحت کسی قسم کی مالی قربانی کردی تو یہ اطاعت نہیں ہوگئی۔چند دن عشرہ تربیت منانے سے نمازیں پڑھ لیں تو اطاعت نہیں ہوگئی۔بلکہ اطاعت کا ایک مستقل مضمون ہے جو ہر احمدی میں جاری رہنا چاہیے۔ آپ نے صرف اس لئے اطاعت نہیں کرنی کہ عرصہ ہو گیا ہمارے والدین نے بیعت کی تھی اور جماعت میں شامل ہوئے تھے اور ہم نے اس عہد کو، اس معاشرہ کی پابندی کو قائم رکھنا ہے ۔ایک معاشرہ میں ہم جذب ہوگئے ہیں اس لئے ہمارے لئے اور کوئی راستہ نہیں۔کیونکہ غیر بھی ہمیں قبول کرنے کے لئے تیار نہیں۔ اس لئے ہماری مجبوری ہے کہ اطاعت کرتے چلے جائیں ۔خاندانی رشتہ داریاں ہیں، ان کے تقاضے ہیں اس لئے اطاعت کرنی ہے یا جیسے کہ میں نے کہا کہ جماعتی تنظیم ہے اس میں بعض معاملات میں اطاعت کرنی ہے یا اگر کہیں اطاعت کرنے کو دل نہیں چاہ رہا تو اس لئے اطاعت کرنی ہے کہ انتظامی لحاظ سے اگر ان باتوں کو نہ مانا گیا ،بعض فیصلوں کو نہ مانا گیا تو کہیں تعزیر نہ ہوجائے۔ ایک احمدی میں یہ نہیں ہونا چاہیے۔ایک مخلص احمدی جب اطاعت کے جذبہ کے ساتھ چھوٹے سے چھوٹے افسر سے لے کر خلیفہ وقت تک کی اطاعت کرتا ہے تو اس کے مدنظریہ رہنا چاہیے کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے یہ سب اطاعت کرنی ہے اور جب یہ اطاعت ہوگی تو اس وقت پھر تقویٰ میںبھی بڑھیں گے۔یا جب تقویٰ پیدا ہوگا تو یہ اطاعت بھی اس معیار کی ہوگی جس میں انسان نے سب کچھ اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر کرنا ہوتا ہے ۔اللہ تعالیٰ فرماتاہے۔

                اِنَّمَا کَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذَا دُعُوْآ اِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ لِیَحْکُمَ بَیْنَھُمْ اَنْ یَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا ۔ وَاُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(النور: 53) کہ جب وہ اللہ اور رسول کی طرف بلائے جائیں کہ وہ ان کے درمیان فیصلہ کرے تو وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم نے سنا اور ہم نے مان لیا۔اور یہی وہ لوگ ہیں جو کامیاب ہوا کرتے ہیں اور یہ معیار وہی حاصل کر سکتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی رضا کو چاہتے ہیں ۔ان کا ہر کام ،ہر حرکت خداتعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہو،معاشرہ کے دبائو سے نہ ہو ، جماعتی تعزیر سے بچنے کے لئے نہ ہو ۔بلکہ اس لئے ہو کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور اس کے فیصلے مانو ۔اس لئے اطاعت ہو اورہر ایک کے سامنے یہ ہو کہ میں جو بھی کام کرنے لگا ہو ں یا میںکسی کے حکم کو ماننے لگا ہوں تو اس میں میں نے کسی قسم کی کمی نہیں ہونے دینی ۔اس لئے کہ اللہ تعالیٰ مجھے دیکھ رہا ہے ۔میں اس کام کو نہ کر کے اس کی ناراضگی مول نہیں لیناچاہتا ۔پس یہ خالص اطاعت ہے ۔اور یہی لوگ ہیں جو پھر فلاح پاتے ہیں ۔پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

               وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ  وَرَسُوْلَہٗ وَیَخْشَ اللّٰہَ وَیَتَّقْہِ فَاُوْلٰئِکَ ھُمُ الْفَآئِزُوْنَ(النور:53)اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں اور اللہ سے ڈریں اور اس کا تقویٰ اختیار کریں وہ بامراد ہو جاتے ہیں۔کامیابیوں کی انتہائی منزلیں چھو لیتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والے بن جاتے ہیں ۔پس کامیابیاں صرف زبان سے کہہ دینے سے نہیں ملیں گی کہ ہم اطاعت کر رہے ہیں ۔بلکہ خالص اطاعت کے جذبے سے جب اطاعت کریں گے اورمعاشرے کے خوف سے اطاعت نہیں کر رہے ہوںگے بلکہ خدا تعالیٰ کے خوف سے اطاعت کر رہے ہو ںگے۔اور اس کا تقویٰ رکھتے ہوئے اطاعت کر رہے ہوںنگے تواس وقت کامیابیاں ملیں گی۔

               اللہ تعالیٰ کا تقویٰ کس طرح حاصل ہوتا ہے؟ یہ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے سے ہوتا ہے ۔بے شمار احکامات ہیں جو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ہمیں دئے ہیں ۔ہر کام کرتے ہوئے یہ خیال ہر نوجوان اور ہر بچے کو رکھنا چاہئے کہ مجھے خدا تعالیٰ دیکھ رہا ہے۔مَیں ماں باپ سے چھپ کر، جماعتی عہدیداروں سے چھپ کر کوئی کام کر سکتا ہوں لیکن خدا تعالیٰ کی نظر سے میرا کوئی کام اوجھل نہیں ہے۔اور مَیں نے تو اپنے ہر کام کو خدا تعالیٰ کی خاطر کرنے کا عہد کیا ہے ۔پس یہ جذبہ ہے جو ہر خادم میں اور ہر طفل میں پیدا ہونا چاہیے۔اور اگر غلط کام ہے تو اس سے اس لئے بچنا ہے کہ اگر میں نے اس کو کیا تو کہیں میں خدا تعالیٰ کی ناراضگی مول لینے والا نہ بن جائو ں ۔جب یہ حالت ہو گی تو پھر اللہ تعالیٰ کا قرب بھی ملتا ہے ۔پس ہر ایک کو اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے ۔خود اپنے اندر کے ضمیر کی آواز کو ٹٹولنے کی ضرورت ہے کہ ہماری اطاعت کے معیار کیا ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا حقیقی تقویٰ تبھی پیدا ہو گا جب ہر ایک یہ جائزے لے رہا ہوگا۔اور جب یہ جائزے ہونگے تو پھر دیکھیں کیا انقلابی تبدیلیاں آپ کے اندر پیدا ہوتی ہیں اور یہ جائزہ اس وقت حقیقی ہو گا جب آپ احمدی ہونے کے مقصد کو پہچانیں گے ۔یہ بہت ضروری چیز ہے ۔ ہم کیوں احمدی ہیں ؟ ہمارے احمدی ہونے کا مقصد کیا ہے ؟ ہمیں دنیا کی گالیاں سننے کی، دنیا سے ماریں کھانے کی،دنیا سے بعض باتوں میں مذاق اڑوانے  کی کیا ضرورت ہے؟ اس مقصد کو جب تک سمجھیں گے نہیں ،ان باتوں کا جواب نہیں ملے گا۔

               کروڑوں مسلمان ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں ۔ہم تقویٰ پہ چلنے والے ہیں ۔لیکن ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ تقویٰ کی تعریف وہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے بتا ئی ہے،اس کے رسول نے بتائی ہے یا اس زمانہ میں اس تعلیم کے مطابق جو اللہ اور اس کے رسول ؐ نے بتائی ہے اس کو مزید کھول کر حضرت مسیح موعود؈ نے ہمیں بتایا ہے ۔پس کروڑوں مسلمانوں کے یہ دعوے فضول ہیں ،لاحاصل ہیں،بے ثمر ہیں کہ ہم تقویٰ پر چلنے والے ہیں ۔جو خود کش حملے کر رہے ہیں وہ اپنے زعم میں خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے خود کش حملے کر رہے ہیں۔ جو معصوموں کو اس بات پر ابھار رہے ہیں کہ تمہیں اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنی ہے تو اپنی جانوں کو خود کش حملوں سے اڑا کر ضائع کر دو ۔پس جب بھی ان سے یہ پوچھا جائے وہ یہی کہتے ہیں کہ یہ تقویٰ ہے جس کی خاطر ہم یہ کام کر رہے ہیں اور یہ تقویٰ ہے جس کی خاطر بچوں کو ہم اس میں جھونک رہے ہیں ۔دس بارہ تیرہ سال کے بچے بلکہ اس سے بھی چھوٹی عمر کے بچے ماں باپ سے دین سکھانے کے بہانے لے لئے جاتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کروانے کے بہانے ان کو جنت کے باغوں کے لالچ کے حوالے سے اللہ تعالیٰ کی رضا کے حوالہ سے لے لیا جاتا ہے۔ لیکن یہ تقویٰ نہیں ہے ۔کسی کی معصوم جان سے کھیلنا یا کسی معصوم جان کوبلا وجہ ضائع کرنا یہ تو اللہ تعالیٰ کی رضا نہیں ہے ۔یہ تو کہیں اللہ تعالیٰ کا حکم نہیں ہے ۔پس ان کی جو تقویٰ کی یہ تعریفیں ہیں خود تراشی ہوئی تعلیمیں ہیں ۔

               اللہ اور رسول کا حکم ہے کہ جہاد کرو۔جہاد کیا کرو؟ان شرائط کے ساتھ جہاد کرو جن کا ہونا انتہائی ضروری ہے ۔اگر وہ شرائط موجود نہیںتو بلا وجہ جانیں دیناکوئی تقویٰ نہیں اور یہ کوئی خدا اور اس کے رسول کی اطاعت نہیں۔اللہ تعالیٰ تو کہتا ہے کہ جائز طریق سے اگر جنگ تم پر جھونکی جاتی ہے تو تمہیںاپنا دفاع کرنے کے لئے،اپنے آپ کو بچانے کے لئے ،اپنی مسجدوں اور عبادت گاہوں کی حفاظت کے لئے تو جہاد کا حق ہے لیکن معصوم جانوں کو ،بچوں اور عورتوں کو خود کش حملوں سے اڑانے کے لئے جہاد جہاد نہیں ہے۔یہ اللہ تعالیٰ کے حکموں کی صریحاً نافرمانی ہے ۔پس یہ جو ان لوگوں کے تقویٰ کے دعوے ہیں یہ سب غلط ہیں ۔آج ایک احمدی ہی ہے جو بتا سکتا ہے کہ صحیح تقویٰ کیا ہے۔

اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول کا حکم تھا کہ زمانے کے امام کو ماننا ۔قرآن مجید بھی اس بارے میں کہتا ہے کہ آخری زمانے میں جو امام آئے اس کو ماننا۔آنحضرت ا کی احادیث بھی یہی فرماتی ہیں ۔ آنحضرت ا نے فرمایا کہ آنے والے مسیح اور مہدی کو ماننا۔یہ اس بات کی تو اطاعت نہیں کر رہے اس لئے یہ تقویٰ سے باہر ہوتے چلے جا رہے ہیں کیونکہ جب آنے والے امام مہدی نے ہی صحیح راہنمائی کرنی تھی۔ اس نے ہی بتا نا تھا کہ کس قسم کا اور کس وقت اور کہاں جہاد کرنا ہے تو اس کی راہنمائی کے بغیر جو بھی جہاد ہوگا وہ جہاد نہیں بلکہ ظلم گردانا جائے گا۔پس غیروں کی طرف سے جو فساد پید اہورہا ہے یہ صرف اسلئے ہے کہ زمانہ کے امام کو نہیں پہچانا۔اور آج ہم خوش قسمت ہیں کہ ہم نے حضرت

 مسیح موعود؈ کو پہچان کر اس تمام لغویات اور گند اور ظلم اور بربریت سے اپنے آپ کو بچایا ہوا ہے ۔پس آج احمدی ہی حقیقی تقویٰ کو سمجھ سکتا ہے جس نے امام کو پہچانا ہے ۔آج اللہ اور رسول کی اطاعت حضرت مسیح موعود؈ کی اطاعت سے وابستہ ہے اورحضرت مسیح موعود؈کی اطاعت سے باہر نکل کر نہ اللہ کی اطاعت ہے اور نہ اس کے رسول کی اطاعت ۔

               انہیں آیات میں جومَیں نے پڑھیں ہیں آگے جا کر اللہ تعالیٰ نے خلافت کا وعدہ کیا ہے ۔پس خلافت کو بھی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی تائید حاصل ہے اور اسی لئے جماعت ایک ہاتھ پر جمع ہوتی ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی تائید حاصل ہے۔اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی وجہ سے احمدی ایک ہاتھ پر جمع ہیں ورنہ کسی بھی خلیفہ کے پاس کوئی دنیاوی طاقت تو نہیں کہ جس نے اس دنیاوی طاقت سے مختلف قوموںکو مختلف رنگوں کے لوگوں کو ،مختلف نسلوں کو ایک ہاتھ پر جمع کر دیا ہے ۔ پس اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی جگالی کرتے ہوئے، انہیں بار بار اپنے ذہنوں میں دہراتے ہوئے اس مقصد کی تلاش جاری رکھیں جس سے تقویٰ ترقی کرتا ہے۔جس سے اطاعت ترقی کرتی ہے اور پھر تقویٰ کی جو یہ ترقی ہو گی تو اس سے انسان بامراد ہوتا ہے۔ پھر اس خوشخبری کا حاصل کرنے والا بنتا ہے جس کے بارہ میں اللہ تعالیٰ  نے قرآن کریم میں فرمایا کہ یہ لوگ بامراد ہوںگے ۔ اس زمانے میں جیسا کہ مَیں نے کہا حضرت مسیح موعود؈ نے اللہ تعالیٰ کے تقویٰ کے راستوں کی تلاش میں نشان دہی فرمائی۔چند باتیں حضرت مسیح موعود؈کے الفاظ میں میں بیان کرتا ہوں۔

               آپؑ نے فرمایاـ:۔

               ’’بیعت کی حقیقت یہی ہے کہ بیعت کنندہ اپنے اندر سچی تبدیلی اور خوف خدا اپنے دل میں پیدا کرے اور اصل مقصود کو پہچان کر اپنی زندگی میں ایک پاک نمونہ کر کے دکھاوے ۔‘‘(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 605مطبوعہ ربوہ )۔اور اصل مقصد جو ایک مومن کا ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود؈نے فرمایا کہ اصل مقصود کو پہچان لو ۔اصل مقصود اور مقصد کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ کی سچی توحید کا قیام ہے اور اس کی مخلوق کے حقوق کی ادائیگی ہے۔ درحقیقت اگر توحید کی حقیقت کو سمجھ لیں تو حقوق العباد  خود بخود قائم ہوتے چلے جاتے ہیں ۔پھر انسان ان تمام باتوں پر عملدرآمد کرتا ہے جس کا اللہ تعالیٰ  نے اور اس کے رسول نے حکم دیا ہے ۔

                ہمارے میں سے جونوجوان ہیں اور جو اکثریت میرے سامنے بیٹھے ہیں یہ نوجوان ہی ہیں یا نوجوانی کی عمر سے گزر رہے ہیں لیکن ابھی تک جوان ہیں ۔ان کے بہت سارے مسائل ہیں ۔جھگڑے ہیں ۔مثلاً مذاق میں ہی کوئی دوسرا بات کر دے تو نوجوانی میں غصہ میں آکر ایسی حرکتیں کر جاتے ہیں جن سے پھر لڑ ائیاں بڑھتی چلی جاتی ہیں ۔پھربیویوں کے حقوق ادا کرنے ہیں ۔اس کی طرف کوئی توجہ نہیں ہوتی۔ذرا سی بات پر گھروں میں لڑائیاں اور فساد پیدا ہورہے ہیں ۔ حالانکہ  اللہ اور اس کے رسول کا حکم ہے کہ گھروں کو جنت نظیر بنائو۔یہی اطاعت کامل ہے۔پھر رشتہ داروں کے حقوق نہ ادا کرنا ہے حالانکہ رشتہ داروں کے حقوق بھی رکھے گئے ہیں ۔اللہ اور اس کے رسول کا حکم ہے کہ حق ادا کرو ۔ یہ اطاعت ہے کیو نکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر انسان کرتا ہے۔بعض لوگ جماعتی طور پر بہت اچھے ہوتے ہیں۔بڑی خدمات بجا لارہے ہوتے ہیں ۔کئی کئی گھنٹے جماعت کو دے رہے ہوتے ہیں ۔لیکن ان کے گھروں میں ہر وقت فساد ہورہا ہوتا ہے۔ یہ سب اس لئے ہے کہ خدا تعالیٰ کی ذات پر جو کامل یقین ہے اس میں کمی ہے۔پس احمدی کا یہ کام ہے کہ یہ کامل یقین پیدا کرے اور جب کامل یقین پیدا کرنے میں یہ کوشش ہو گی تو شیطان جو مختلف راستوں سے آتا ہے ورغلاتا ہے اور بھلا دیتا ہے کہ ہماری زندگی کا اصل مقصد کیا ہے۔وہ بھی پھر ہمیشہ یاد رہے گا اور پھرانسان شیطان کے پنجے میں نہیں آئے گا۔ اس کی باتوں میں نہیں آئے گا ۔اس کے بہلاوے اور پھسلاوے میں نہیں آئے گا۔

               حضرت مسیح موعود؈نے توحید کا کیا نقشہ کھینچا ہے؟ کیونکہ توحید کے قیام ہی سے پھرباقی باتیں آگے چلتی ہیں ۔آپ ؑ فرماتے ہیں کہ ’’مَیں یقیناً کہتا ہوں کہ اگر انسان کلمہ طیبہ کی حقیقت سے واقف ہوجائے اور عملی طور پر اس پر کاربند ہو جاوے تو وہ بہت بڑی ترقی کر سکتا ہے۔اور خدا تعالیٰ کی عجیب در عجیب قدرتوں کا مشاہدہ کر سکتا ہے ‘‘۔فرمایا’’میں جانتا ہوں بہت سے لوگ میری جماعت میں داخل تو ہیں اور وہ توحید کا اقرار بھی کرتے ہیں مگر میں افسوس سے کہتا ہوں کہ وہ مانتے نہیں ۔جو شخص اپنے بھائی کا حق مارتا ہے یا خیانت کرتا ہے یا دوسری قسم کی بدیوں سے باز نہیں آتا ۔ مَیں یقین نہیں کرتا کہ وہ توحید توماننے والا ہے کیونکہ یہ ایک ایسی نعمت ہے کہ اس کو پاتے ہی انسان میں ایک خارق عادت تبدیلی پیدا ہو جاتی ہے ‘‘۔ایک ایسی واضح تبدیلی پیدا ہوجاتی ہے جس کی کوئی مثال نہیں ہوتی ۔ اگر سچی توحید کو دل میں قائم کرلے انسان ۔فرمایا: اس میں بغض کینہ ،حسد ،ریاوغیرہ کے بت نہیں رہتے اور خدا تعالیٰ سے اس کا قرب ہوتا ہے۔فرماتے ہیں ’’اس وقت وہ سچا موحد بنتا ہے جب یہ اندرونی بت تکبر ،خود پسندی ،ریاکاری،کینہ و عداوت،حسد و بخل،نفاق و بد عہدی وغیرہ کے دور ہوجاویں ۔جب تک یہ بت اندر ہی ہیں اس وقت تکلَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کہنے میں کیو کر سچا ٹھر سکتا ہے‘‘ ۔(ملفوظات جلد پنجم صفحہ91مطبوعہ ربوہ)۔پس دیکھیں بے شک ہم لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ پر یقین رکھتے ہیں لیکن حضرت مسیح موعود؈جس گہرائی میں ہمیں سمجھا رہے ہیں وہلَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ ہم میں سے کتنوں کے دلوں میں ہے۔کیا ہمارے دل تکبر سے مکمل پاک ہیں ؟کیا ہم اپنی ذاتی انائوں اور عزت کے نام پر ذر اذرا سی بات پر غصہ میں آجاتے ہیں اور تکبر کا اظہار کرتے ہیں ۔کیا ہمارے دل خود پسندی سے پاک ہیں یا اپنی ذات کو ہی دوسروں پر فوقیت اور اہمیت دیتے چلے جاتے ہیں؟ ۔ہم ہر وقت یہی سوچتے ہیں کہ ہماری ہی تعریفیں کی جائیں ۔ہماری ہی Projection کی جائے ۔ہمیں ہی ذیادہ اٹھایا جائے اور اگر یہ نہیںتو ہمارے جذبات مجروح ہوتے ہیں۔ یہ جذبات مجروح ہونے سے خود پسندی کا اظہار بڑھا ہے اور یا دل میں جو خواہش ہے وہ بڑھتی چلی جاتی ہے۔ کیا ہمارے دل کینہ اور عداوت سے پاک ہیں ؟یا ذرا سی بات  پر ہم دل میں کینہ رکھتے ہیں ۔اپنی رنجشیں بڑھاتے چلے جاتے ہیں ۔کیا ہم حسد سے پاک ہیں ؟کیا دوسروں کی ترقی دیکھ کر ہمارے اندر رشک کے جذبات کی بجائے حسد کے جذبات ابھرتے ہیں اور ہم اسے نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں؟

               کیا ہم بخل سے پاک ہیں؟ یا اللہ تعالیٰ کی خاطر قربانی کرتے ہوئے ہمارے ہاتھ رک جاتے ہیں۔اپنی ذاتی خواہشات کی تکمیل تو کرتے رہتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی خاطر اگر قربانی کرنی پڑے تو رک جاتے ہیں ۔بہت سے ہیں جو اللہ کے فضل کے ساتھ جماعت میں ہیں جو کسی قسم کا کوئی بخل نہیں دکھاتے بلکہ بڑے کھلے دل کے ہیں ۔قربانیاں کرتے چلے جاتے ہیں ۔لیکن ایسے بھی ہیں جو خود اپنے جائزے لیں کہ وہ بخل سے پاک ہیں؟ پھر کیا ہمارے دل نفاق سے پاک ہیں ؟۔یا ہمارے دل میں کچھ اور ہوتا ہے اور ظاہر کچھ اور کرتے ہیں ۔ایک احمدی کا دل صرف جماعتی معاملات میں ہی نہیں بلکہ ذاتی معاملات میں بھی نفاق سے پاک ہونا چاہیے۔جو بات وہ کہے سچی کہے کھری کہے لیکن اس کے ساتھ ہی دوسروں کے جذبات کا بھی خیال رکھیں ۔نفاق یہ ہے کہ دل میں کوئی رنجش بھری ہوئی ہو ۔ظاہری طور پر کچھ اور کیا جائے اور ان رنجشوں کی وجہ سے حسد کا جذبہ مزید ابھرتا ہے اور انسان کونقصان پہنچاتا چلا جاتاہے ۔ خود اپنے آپ کو نقصان پہنچا رہا ہوتا ہے۔کیا ہم اپنے سارے عہد پورے کرنے والے ہیں؟ یا کچھ پر عمل کیا اور کچھ پر نہیں کیا ۔ اگر اپنے عہد پورے کرنے والے ہیں ۔ تو پھر توحید کو اپنے دلوں میں قائم رکھنے کے لئے یقیناً ہم نے کوشش کی ہے۔ پھر یقیناً نمازوں کی حفاظت کرنے والے بھی ہم ہوںگے اور مردوں کے لئے نمازوں کی حفاظت قیام نماز کی کوشش کرتے ہوئے ہوتی ہے۔ باجماعت نمازوں کی ادائیگی کی صورت میں ہوتی ہے۔ہمیں یاد رکھنا چاہئیلَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ بھی ایک عہد ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور معبود کی بھی عبادت کی جاتی ہے  اور عبادت کا یہ طریق بھی اللہ تعالیٰ نے ہمیں سکھایا ہے ۔اسی طرح حقوق العباد کی ادائیگی کا عہد ہے اور ان دونوں باتوں پر عمل کرنے کا عہداس زمانے میں ہم نے حضرت مسیح موعود؈ کی بیعت میں آکر کیا ہے۔ پس اگر کلمہ پر ایمان ہے تو عہد کی پابندی بھی لازمی ہے ۔

               نماز کی اہمیت کے بارہ میں حضرت مسیح موعود؈ فرماتے ہیں کہ ’’ نماز کی پابندی کے بارہ میں بار بار قرآن شریف میں کہا گیا ہے‘‘۔پھر آپؑ نے فرمایا ’’اصل بات یہ ہے کہ نماز اللہ تعالیٰ کے حضور ایک سوال ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر قسم کی بدیوں اور بدکاریوں سے محفوظ کردے ۔انسان درد اور فرقت میں پڑا ہوا ہے اور چاہتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا قرب اسے حاصل ہو ۔اسکے لئے سعی کرنا ضروری امرہے ‘‘۔ وہ اندر جو گناہوں سے بھرا ہوا ہے اور جو خدا تعالیٰ کی معرفت اور قرب سے دور جاپڑا ہے اسے پاک کرنے اور دور سے قریب کرنے کے لئے نماز ہے ۔اس ذریعہ سے ان بدیوں کو دور کیا جاتا ہے اور اس کے بجائے پاک جذبات بھر دئے جاتے ہیں ‘‘۔(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 93-92 مطبوعہ ربوہ ) اور نماز کس طرح کی پڑھنی چاہیے؟ جو خدا تعالیٰ کے قریب کرتی ہے۔بدیوں سے پاک کرتی ہے۔ لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ پر یقین کامل کرتی ہے۔فرمایا کہ’’ صلوٰۃ کا لفظ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ نرے الفاظ اور دعا ہی کافی نہیں بلکہ اس کے ساتھ ضروری ہے کہ اس کے ساتھ ایک سوزش اور رقت اور درد ہو ‘‘۔پس یہ نمازیں ہیں جو ایک احمدی کو پڑھنے کی کوشش کرنی چاہیے اور اگر نوجوانی کی عمر میں ہم نے اس جڑ کو پکڑلیا، اس اصول کو پکڑ لیا تو انشاء اللہ، اللہ تعالیٰ سے قرب کا جو تعلق ہے ترقی کرتا چلا جائے گا۔

               آج جب کہ دنیا خدا تعالیٰ کے وجود کے بارہ میں بیہودہ تحریریں لکھ رہی ہے ،کتابیں لکھی جاتی ہیں ،مضامین لکھے جاتے ہیں اور بہت سی لغویات کے ذریعہ، میڈیا کے ذریعہ خدا تعالیٰ کے وجود کی نفی کی جاتی ہے ۔ایک بہت بڑا طبقہ جو خدا کے وجود اور مذہب کے انکار نہ کرنے کے باوجود عملاً مذہب اور خدا سے بھی دور چلا گیا ہے۔دنیا نے اس کے سامنے بہت سے معبود کھڑے کر دئے ہیں۔ مسلمان بھی عملاً اسلام کے نام پر لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ کی نفی کر رہے ہیں ۔ منہ سے تو بے شک کہہ رہے ہیں لیکن عملاً اس کی نفی ہو رہی ہے۔کیونکہلَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ نے حقوق العباد کی ادائیگی کے سبق دیئے ہیں ۔ُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہا نے اس کی عملی تصویر ہمارے سامنے پیش فرمائی ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں اَطِیْعُوْ اللّٰہَ وَاَطِیْعُوْاالرَّسُوْلَ(محمد:34) کے ساتھ ہمیں اطاعت کی تلقین  فرمائی ہے۔ کیوں؟اس لئے کہ جیسا مَیں نے کہا’’  اَطِیْعُوْ اللّٰہَ ‘‘ مَیں اللہ تعالیٰ کے بیان کردہ احکامات پر عمل کرنے کی ہدایت دی ہے اور ’’اَطِیْعُوْاالرَّسُوْل‘‘ میں رسول پاک ا کے اسوۂ حسنہ  پرعمل کرنے کی ہدایت دی ہے ۔ پس اس کلمہ کی اعلیٰ تصویر بننے کے لئے ایک احمدی کو بہت زیادہ کوشش کرنے کی ضرورت ہے اور جب ہم اپنے علم کو اللہ تعالیٰ کے احکامات سے آراستہ کریں گے تو ہم یہ کہنے والے بن کر تبلیغ کے میدان میں آگے بڑھ سکیں گے کہ ہم ہی ہیں جو تبلیغ پر یقین رکھتے ہیں اور پھر ہم حق کا پیغام دنیا کو پہنچا کر دوسرے مذاہب پرحق کی برتری ثابت کرنے والے ہوںگے۔جس کو دنیا آج بھول چکی ہے اور اپنے عمل کو اسوہ رسول ا کے مطابق ڈھال کر اپنے عملی نمونوں سے ہم دنیا کو ثابت کریں گے کہ یہ وہ نمونے ہیں جن پر عمل سے آج انسانیت کی بقا ہے ۔ پس تبلیغ کے اس میدان میں وسعت کے لئے یہ راستے اختیار کرنے کی ضرورت ہے ۔’’لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ ‘‘ کے مفہوم کو بھی سمجھنا ہوگا اور ’’ُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ ‘‘ کے مفہوم کو بھی سمجھنا ہو گا اور ان راستوں کو اختیار کرنے کے لئے قرآن ،حدیث اور حضرت مسیح موعود؈ کی کتب جو قرآن اور حدیث کی ہی تشریح ہیں ان کو پڑھنے اور سمجھنے کی طرف بھی توجہ پیدا کرنی ہو گی۔گویا نیکیوں میں قدم بڑھانے اور اللہ تعالیٰ کے قرب کے میدا ن کھولنے کے لئے یہ علم حاصل کرنے ضروری ہیں ۔ اپنے علم کو بڑھانا بھی ضروری ہے اور اپنے عملوں کی طرف توجہ دینا بھی ضروری ہے اور یہ میدان پھر اللہ کے فضل کھولتے چلے جائیں گے۔

               پس آئیں اور یہ عہد کریں کہ ہم نے خدا تعالیٰ کے قرب کے حصول کے لئے ہر ممکن کوشش کرنی ہے ۔ اپنی نمازوں کو بھی سجانا ہے۔ اپنے علم کو بھی بڑھانا ہے ۔ اپنے عملوں کو بھی چمکانا ہے اور ان سب چیزوں کے ساتھ خداتعالیٰ کے پیغام کو دنیا تک پہنچانا ہے۔خلافت احمدیہ کی نئی صدی ہمارے نعروں سے نہیں سجنی بلکہ ہماری دعائوں اور ہمارے عملوں سے سجنی ہے۔

               صدر صاحب نے اجتماع شروع ہونے سے پہلے مجھے یہ بھی کہا تھا کہ اطفال کو علیحدہ خطاب اطفال کی مارکی میں ہو ۔مَیں نے کہا تھا اطفال کے لئے بھی عموماً وہی مضمون ہوتا ہے جو سمجھنے والے اطفال ہیں جو خدام کو کہا جاتا ہے ۔یہی پیغام جو ہے وہ اطفال کے لئے بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دس سال کی عمر میں نمازیں فرض کیں ہیں اپنی نمازوں کی حفاظت کریں اور اس میں کبھی سستی نہ کریں ۔دس سال کی عمر ایسی عمر نہیں کہ کہا جائے کہ ہمارے سے سستیاں ہو گئیں۔نمازیں فرض کی گئی ہیں ۔نمازیں پڑھنا بہر حال ہر ایک پرفرض ہے۔قرآن شریف پڑھیں ۔بہت سے بچے جب قرآن شریف حفظ کرتے ہیں تواس عمر میں یعنی دس سے بارہ سال کی عمر میں ہی کرتے ہیں۔ یہ ایک ایسی عمر ہے کہ اس کے ساتھ پھر ترجمہ بھی پڑھنا چاہئے ۔ اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایمان کوبڑھانے کے جو طریقے ہیں وہ ایسے ہیں جو بچوں کے دماغ میں بڑی جلدی Mature ہوجاتے ہیں اور اگر وہ سمجھنا چاہیں تو سمجھنے لگ جاتے ہیں۔قرآن کو جب ترجمہ کے ساتھ پڑھیں گے تو پھر اللہ تعالیٰ کے حکموں کا بھی پتہ چلے گا کہ اس میں کیا حکم ہیں مثلاً ایک حکم ہے کہ والدین کی عزت کرو ۔ پس ماں باپ کی عزت کریں گے ،ان کا کہنا مانیں گے تو اللہ تعالیٰ بھی اس کام سے خوش ہو گا کیونکہ آپ اپنے ماں باپ کا کہنا اس لئے مان رہے ہیں کہ خدا تعالیٰ آپ کے اس عمل سے خوش ہو ،آپ کے اس کام سے خوش ہو۔یہاں کے جوبچے ہیں ان کی نقل نہ کریں ۔ یورپ میں رہنے والے جو بچے ہیں یا جو غیر احمدی ہیں یا غیر مسلم ہیں ان کو جیسے میں نے شروع میں کہا تھا کہ ان کو سمجھانے والا کوئی نہیں۔ان کا امام کوئی نہیں ۔آپ لوگ ان لوگوں سے منفرد ہیں ۔ان کی نقل آپ نے نہیں کرنی بلکہ ان کو اپنے پیچھے چلانا ہے ۔

                جیسے مَیں نے اپنے خطبہ میں ذکر کیا تھا کہ اب تو ٹی وی میں یہ سوال اٹھنے لگ گئے ہیں کہ بچوں کو سمجھانے کی سختی سے اور نرمی سے سمجھانے کی کیا حدیں ہیں۔کیونکہ ذرا سی بھی سختی کی جائے بلکہ یہ بھی مثال دیتے ہیں کہ گرم چیز کو اگر بچہ ہاتھ لگائے اور ماں باپ نے زور سے یوں چپت لگا کے پیچھے ہٹا دیا اور بچے نے رونا اور چلانا شروع کردیا تو اسی بات پر پولیس اور بچوں کی حفاظت کے جو ادارے ہیں وہ آکر اس کو لے جاتے ہیں اور ماں باپ سے علیحدہ کر دیتے ہیں اور اسی چیز نے بڑھتے بڑھتے بچوں کو بے ادب بنا دیا ہے ۔نہ ماں باپ کاا حترام رہا ہے اور نہ کسی اَور چیز کا احترام رہا ہے ۔اسی طرح سکولوں میں بھی ڈسپلن توڑنے والے ہوتے ہیں ۔اب یہ شور پڑنے لگ گیا ہے کہ کوئی حد لگا لیں، جہاں سے ہم کہہ سکیں کہ اس حد سے آگے نہیں بڑھنا ۔اگر بڑھو گے تو سختی ہوگی اور اس حد تک کہ بچوں کی حفاظت کے جو ادارے ہیں وہ دخل نہیں دیں گے ۔گو یہ چیزیں اسلام نے پہلے ہی فطرت کے مطابق بیان کردی ہیں کہ والدین کا بھی اور اپنے بڑوں کا بھی عزت و احترام کرو ۔پھر یہ قرآن کریم کا جوپڑھنا اور سمجھنا ہے، بڑوں کو بھی اور چھوٹوں کو بھی اور بہت سی نیکیوں کی طرف راہنمائی کرے گا۔بہت سی نیکیوں کے بارہ میں پتہ چلے گا۔اللہ کرے کہ خدام اور اطفال اس بات کو سمجھیں کہ احمدی ہونے کی وجہ سے ان کی ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے ۔اصحاب کہف کے ذکر میں نوجوانوں کا ذکر ملتا ہے ۔جنہوں نے توحید کی حفاظت کی اور اس کو قائم رکھنے کے لئے قربانیاں دیں۔پس آج مسیح محمدی کے ذریعہ توحید کے قیام میں نوجوانوں نے ہی اہم کردار ادا کرنا ہے اور دنیا میں اسلام کا پھیلانا اور توحید کا پیغام اب احمدیوں کا ہی کام ہے اور اس میں جیسے مَیں نے کہا نوجوانوں نے بھرپور کردار ادا کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔ اب دعا کر لیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں