حضرت مصلح موعودؓ کی پاکیزہ سیرت کے چند پہلو

(مطبوعہ انصارالدین یوکے جنوری و فروری 2021ء)

رحیق المختوم

سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ کی حیاتِ مبارک قوسِ قزاح کی طرح مختلف رنگ اپنے اندر سموئے ہوئے تھی اور ہر رنگ اپنے اندر ایک کائنات لئے ہوئے تھا۔ آپ اُن ابنائے آدم میں سے تھے جو سالوں نہیں صدیوں میں ایک بار پیدا ہوتے ہیں اور آنے والی ہر نسل کے لئے روشنی کا سامان مہیا کر دیتے ہیں۔
آپؓ 25 سال کی عمر میں خلیفۃالمسیح منتخب ہوئے اور پھر 52 سال تک اِس عظیم ذمہ داری کو سرانجام دے کر 77 سال کی عمر میں اپنے مولا کے حضور حاضر ہوئے۔ اس دوران ہزاروں خطبات اور خطابات کے ذریعے آپ کے افکار و خیالات کا اظہار ہوا۔ بعض دفعہ اتنے آسان اور سادہ خطبات ہوتے کہ یوں لگتا جیسے بچوں کو سمجھا رہے ہیں اور بعض دفعہ ایسے فصیح و بلیغ خطابات جن کو پڑھنے والا حیران رہ جاتا ہے کہ آپؓ کے سامعین کس درجہ کمال کے لوگ تھے جن کو ایسے سمجھایا اور بتایا جا رہا ہے۔ مگر حضرت مصلح موعود ؓ کے عرفان کا اندازہ آپؓ کی کتب بینی کے بغیر آج کے دَور میں ممکن ہی نہیں۔ ایسے ایسے جواہر پارے، ایسا ایسا باکمال نقطہ اور علم کا بے کراں سمندر ہے کہ ان کا مطالعہ کرنے والے کی روح اور قلوب خشک رہ ہی نہیں سکتے۔ آپ کی ذات بابرکات کے چند پہلو پیش خدمت ہیں تااندازہ ہو کہ کس قدر پُرشوکت انسان کا نام مصلح موعود تھا۔

حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد المصلح الموعود
حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد المصلح الموعود

حُلیہ مبارک

آپؓ میانہ قد، ہلکے پھلکے جسم اور متناسب الاعضاء جسم کے مالک تھے۔ آخری عمر میں آپؓ کا جسم قدرے بھاری ہوگیا تھا مگر اُس میں بھی آپ مردانہ شان کاحسین نمونہ تھے، کوئی موٹاپا نہیں تھا۔ آپکی غلافی آنکھیں اور دیکھنے کا انداز نیم وا تھا۔ بہت کم کسی طرف بھرپور نگاہ سے دیکھتے۔ چہرے پہ داڑھی جو نہ بہت لمبی اور نہ بہت چھوٹی اور نہ ہی بہت زیادہ گھنی تھی۔ ہاتھ مضبوط اور چال متانت والی۔ ہلکے قدم سے نہ چلتے بلکہ ایک شان سے قدم اُٹھاتے جس میں وقار ہوتا۔ نہ بہت دھیما چلتے اور نہ بہت تیز۔
آپؓ ایک خشک اور تارک الدنیا زاہد کی مانند نہ تھے بلکہ نہایت لطیف حس مزاح کے مالک تھے۔ موقع محل کے مطابق دورانِ گفتگو کوئی لطیفہ یاچٹکلا سنا کر احباب کو تازہ دم کر دیتے مگر آپ کا مذاق بھی اپنے اندر تربیت کا سامان لئے ہوتا۔ عموماً دھیمی آواز میں گفتگو فرماتے۔ لباس سفید رنگ کا پسند کرتے۔ سادگی پسند تھے۔ لمبا کوٹ اور گرگابی کا استعمال فرماتے۔ اوائل عمری میں ترکی ٹوپی بھی پہنتے مگر پھر اس کو ترک کر کے پگڑی کا استعمال شروع کر دیا اور آخری دم تک پگڑی پہنتے رہے۔ گھر سے نکلتے وقت سنت کے مطابق چھڑی پکڑ لیتے۔

عشقِ رسولؐ

آپؓ کی تحریر و تقریر، روزمرّہ بول چال، لین دین اور دیگر معاملات میں آنحضرتﷺ کا شدید عشق جھلکتا تھا۔ آپ اپنے عشقِ رسولﷺ کا اظہار یوں کرتے ہیں : ’’میری ساری خوشی اِسی میں ہے کہ میری خاک محمد رسول اللہﷺ کی کھیتی میں کھاد کے طور پر کام آجائے اور اللہ تعالیٰ مجھ پر راضی ہوجائے اور میرا خاتمہ رسولِ کریمﷺ کے دین کے قیام کی کوشش پر ہو۔‘‘ (الموعود صفحہ ۶۸)
آپؓ نے اپنی ساری زندگی رسولِ عربیﷺ کے نام و مقام کو دنیا میں بلند کرنے میں گزار دی۔ ہر اہم موقع پر اپنے آقا کو یاد کیا اور کوشش کی کہ احمدی ہمیشہ رسول اللہ ﷺ کے مقاصد عالیہ کو یاد رکھیں۔ ایک عید کے موقع پر آپؓنے فرمایا:
’’اس دن خدا تعالیٰ نے ہمیں خوش ہونے کا حکم دیا ہے اور ہم خوشی منانے پر مجبور ہوتے ہیں لیکن پھر بھی ہمارے دِلوں کو چاہیے کہ روتے رہیں کہ ابھی محمد رسول اللہﷺ اور اسلام کی عید نہیں آئی۔ محمد رسول اللہﷺ اور اسلام کی عید سویاں کھانے سے نہیںآتی، نہ شیر خرما کھانے سے آتی ہے بلکہ ان کی عید قرآن اور اسلام کے پھیلنے سے آتی ہے۔ اگر قرآن اور اسلام پھیل جائیں تو ہماری عید میں محمد رسول اللہﷺ بھی شامل ہو جائیں گے۔… پس کوشش یہی کرو کہ اسلام کی اشاعت ہو، قرآن کی اشاعت ہو، تا ہماری عید میں محمد رسول اللہ ﷺبھی شامل ہوں۔ اگر آج کی عید محمد رسول اللہ کی بھی عید ہے تو پھر سارے مسلمانوں کی عید ہے۔ لیکن اگر آج کی عید میں محمد رسول اللہ ﷺ شامل نہیں تو پھر آج سارے مسلمانوں کے لیے عید نہیں بلکہ ان کے لئے ماتم کا دن ہے۔‘‘ (خطبات محمود جلد اول صفحہ ۳۴۹)
آپؓ حرمت رسولﷺ کے لئے ایک بغیر میان کے تلوار تھے۔آپؓ اپنی اور اپنے خاندان کی ہتک برداشت کر لیتے مگرجونہی کوئی مخالف رسول اللہ پر حملہ کرنے کی جسارت کرتا تو آپ ایک شیر کی مانند اُس پر جھپٹتے اور مدلّل جواب سے مخالف کا منہ بند کردیتے۔ ’’ 5 جولائی 1918ء کو حضرت خلیفۃ المسیح کے حضور ایک نوجوان تعلیم یافتہ اور آزاد خیال عیسائی صاحب تشریف لائے… ایک موقعہ پرسلسلہ گفتگو میں صاحب موصوف نے ایک ایسا شبہ پیدا کر دیا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی نیت پر حملہ تھا۔ اس وقت حضرت خلیفۃالمسیح کی حالت دیکھنے کے قابل تھی۔ آپؓ اس غیرت سے متحرک ہو کر جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے لئے آپؓ رکھتے ہیں، باوجودآج طبیعت کے ناساز ہونے کے بڑے جوش کے ساتھ اس کا جواب دینے کے لئے طیار ہوگئے اور ایسا مُسکِت جواب دیا کہ صاحب موصوف کو اپنے شبہ پر نادم ہونا پڑا۔‘‘ (الحکم 7 جولائی 1918ء صفحہ 4 کالم 1)
ایک موقع پر آپؓ نے فرمایا:
’’جو لوگ میرے خطبات اور تقریریں سنتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ مجھ پر کوئی ایسا وقت نہیں آیا جب رسول کریمﷺ کی زندگی کا کوئی واقعہ میں نے بیان کیا ہو اور رقّت سے میرا گلا نہ پکڑا گیا ہو۔ دُنیا میں محبتیں ہوتی ہیں کسی وقت کم کسی وقت زیادہ۔ مگر رسول کریمﷺ سے مجھے ایسی شدید محبت ہے کہ مجھے اپنی زندگی میں ایک مثال بھی ایسی یاد نہیں کہ میں نے آپ کا ذکر کیا ہو اور مجھ پر رقّت طاری نہ ہو گئی ہو اورمیرا قلب محبت کی گہرائیوں میں نہ ڈوب گیا ہو۔ ‘‘ (الفضل ۲۱جون ۱۹۴۴ء)
آپؓ اپنے عشق رسول ﷺکا اظہار شاعری میں یوں فرماتے ہیں:

مجھے اس بات پر ہے فخر محمودؔ
مرا معشوق محبوب خدا ہے
اسی سے میرا دل پاتا ہے تسکین
وہی آرام میری روح کا ہے
ہو اس کے نام پر قربان سب کچھ
کہ وہ شاہنشہِ ہردوسرا ہے

جلسہ ہائے سیرت النبی

جب ہندوستان میں بدنام زمانہ کتاب ’’رنگیلا رسول‘‘ چھپی تو اس کتاب نے ہر عاشق رسولؐ کے دل چھلنی کر دیے۔ مسلمانوں کے احتجاج کے باوجود عدالت نے مصنف کو برائے نام سزا دے کر آزاد کر دیا۔ ایسے وقت میں جب ہندوستان میں فساد برپا ہوا تب بھی آپ نے اپنے غصہ اور محبتِ رسولؐ اور غیرت کو قابو میں رکھا اور لوگوں کو اسلامی تعلیمات کو تھامے رکھنے کی تلقین فرمائی۔ اور مسلمانوں کو صحیح لائحہ عمل اختیار کرنے کی نصیحت فرمائی اور ہر موقع اور سطح پر ہر جگہ پُرامن آواز ناموسِ رسالت کے لئے ایسے احسن رنگ میں اُٹھائی کہ حکومت ِوقت کو ضابطۂ فوجداری میں ایک شق کا اضافہ کرنا پڑا جس کے مطابق مذہبی رہنماؤں کی توہین کو قابلِ دست اندازی پولیس جرم قرار دیا۔اس کے بعد آپ نے ایک منظم طریق پر ملک بھر میں جلسہ ہائے سیرت النبیؐ کا انعقاد شروع کیا اور اس کی غرض و غایت بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’لوگوں کو آپ ﷺپر حملہ کرنے کی جرأت اس لئے ہوتی ہے کہ وہ آپ ﷺکی زندگی کے صحیح حالات سے ناواقف ہیں اور اس کاایک ہی علاج ہے جو یہ ہے کہ رسول کریمﷺ کی سوانح پر اس کثرت سے اس قدر زور کے ساتھ لیکچرز دیے جائیں کہ ہندوستان کا بچہ بچہ آپ کے حالات زندگی اور آپ ﷺ کی پاکیزگی سے آگاہ ہو جائے اور کسی کو آپ کے متعلق زبان درازی کی جرأت نہ رہے۔ جب کوئی حملہ کرتاہے تو یہی سمجھ کر کہ دفاع کرنے والا کوئی نہ ہوگا۔ واقف کے سامنے اس لئے کوئی حملہ نہیں کرتا کہ وہ دفاع کردے گا۔ پس سارے ہندوستان کے مسلمانوں اور غیرمسلموں کو رسول کریم ﷺ کی پاکیزہ زندگی سے واقف کرنا ہمارا فرض ہے۔‘‘ (خطبات محمود جلد ۱۱صفحہ ۲۷۱-۲۷۲)
اس اہم ملّی اور قومی مقصد کے لئے آپ نے پروگرام تشکیل دیا جس میں کہا گیا کہ ہر سال آنحضرتﷺ کے مقدس سوانح میں سے بعض اہم پہلوؤں کو منتخب کر کے ان پر خاص روشنی ڈالی جائے۔ آپؓ نے جلسہ سالانہ ۱۹۲۷ء میں ایک ہزار ایسے فدائیوں کا مطالبہ کیا جو یہ لیکچرزدینے کے لئے اپنے آپ کو پیش کریں۔ اور یہ مطالبہ صرف احمدیوں سے نہیں بلکہ ہر اسلامی فرقہ کے مسلمانوں سے تھا۔ نیز ان غیرمسلم لوگوں سے بھی تھا جو رسول کریم سے محبت اور اخلاص کا تعلق رکھتے تھے۔ اس مبارک تحریک کے نتیجے میں ہندوستان بھر سے ایک ہزارلیکچراروں نے اپنے آپ کو پیش کیا اور ۱۷جون۱۹۲۸ء کو ہندوستان بھر میں پہلی دفعہ سیرت النبیﷺ کے جلسے نہایت جوش و خروش سے منعقد ہوئے جن میں مسلمانوں اور غیر مسلموں نے رسول کریم سے اپنی عقیدت و محبت کا اظہار کیا۔ اور یہ ایسا اجتماعی اظہارِ عقیدت کا مظاہرہ تھا جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ اخبارِ مشرق گورکھ پور نے لکھا:
’’ہندوستان میں یہ تاریخ ہمیشہ زندہ رہے گی۔… ۱۷ جون کو جلسے کی کامیابی پر ہم امام جماعت احمدیہ جناب مرزا محمود احمد صاحب کو مبارکباد دیتے ہیں۔ اگر شیعہ و سنی و احمدی اسی طرح سال بھر میں دوچار مرتبہ ایک جگہ جمع ہو جایا کریں گے تو پھر کوئی طاقت اسلام کا مقابلہ اس ملک میں نہیں کر سکتی۔‘‘ ( ۲۱جون ۱۹۲۸ء)
اخبار کشمیری راولپنڈی نے لکھا:
’’۱۷؍جون کی شام کیسی مبارک شام تھی کہ ہندوستان کے ایک ہزار سے زیادہ مقامات پر بیک وقت وبیک ساعت ہمارے برگزیدہ رسولﷺ کی حیاتِ اقدس، ان کی عظمت، ان کے احسانات و اخلاق اور ان کی سبق آموز تعلیم پر ہندو، مسلمان اور سکھ اپنے اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔ اگر اس قسم کے لیکچروں کا سلسلہ برابر جاری رکھا جائے تو مذہبی تنازعات اورفسادات کا فوراً انسداد ہوجائے۔ ۱۷ جون کی شام صاحبانِ بصارت و بصیرت کے لئے اتحاد بین الاقوام کا بنیادی پتھر تھی۔ ہندو اور سکھ مسلمانوں کے پیارے نبی کے اخلاق بیان کرکے ان کو ایک عظیم الشان ہستی اور ایک کامل انسان ثابت کر رہے تھے۔‘‘ (بحوالہ الفضل۱۰جولائی۱۹۲۸ء)

عشقِ قرآن

حضرت مصلح موعودؓ صرف مسیح دوراں کے بیٹے ہی نہیں تھے بلکہ آپؓ کو بھی فہمِ قرآن کا لاثانی علم عطا ہوا تھا۔چنانچہ آپؓ نے شب و روز اپنے آخری دم تک قرآن مجید کی بے نظیر خدمت کی۔ آپؓ کی تحریر و تقریر سے قرآن کے جو معارف اور معنی بیان ہوئے ہیں وہ خارج از بیاں ہیں اور ان کو پڑھ کر صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ تعلیم اور بیان انسانی ہاتھ سے ورے کا معاملہ ہے اور کسی دنیاوی مدرسے یونیورسٹی کے بس کی بات نہیں۔ آپؓ فرماتے ہیں:
’’میں وہ شخص تھا جسے علومِ ظاہری میں سے کوئی علم حاصل نہیں تھا۔ مگر خدا نے اپنے فضل سے فرشتوں کو میری تعلیم کے لئے بھجوایااور مجھے قرآن کے ان مطالب سے آگاہ فرمایا جو کسی انسان کے وہم اور گمان میں نہیں آسکتے تھے۔ وہ علم جو خدا نے مجھے عطا فرمایا اور وہ چشمہ روحانی جو میرے سینے میں پھوٹا وہ خیالی یا قیاسی نہیں ہے بلکہ ایسا قطعی اور یقینی ہے کہ میں ساری دُنیا کو چیلنج کرتا ہوں کہ اگر اس دُنیا کے پردہ پر کوئی شخص ایسا ہے جو یہ دعویٰ کرتا ہو کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُسے قرآن سکھایا گیا ہے تو میں ہر وقت اُس سے مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہوں، لیکن میں جانتا ہوں آج دُنیا کے پردہ پر سوائے میرے اور کوئی شخص نہیں جسے خدا کی طرف سے قرآن کریم کاعلم عطا کیا گیا ہو۔ خدا نے مجھے علمِ قرآن بخشا ہے اور اِس زمانے میں اُس نے قرآن سکھانے کے لئے مجھے دُنیا کا اُستاد مقرر کیاہے۔‘‘ (الموعود صفحہ ۲۱۰۔۲۱۱)
پھر آپؓ فرماتے ہیں کہ
’’اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتے کے ذریعے مجھے قرآن کریم کا علم عطا فرمایا ہے اور میرے اندر اس نے ایسا ملکہ پیدا کردیا ہے جس طرح کسی کو خزانے کی کنجی مل جاتی ہے اسی طرح مجھے قرآن کریم کے علوم کی کنجی مل چکی ہے۔ دنیا کا کوئی عالم نہیں جومیرے سامنے آئے اور مَیں قرآن کریم کی افضلیت اس پر ظاہر نہ کر سکوں۔‘‘
حضرت مصلح موعود کا ایک زندہ و جاوید علمی معجزہ تفسیر کبیر کی صورت محفوظ ہے۔ اِس معجزے نے لاتعداد زندگیوں میں روحانی انقلاب برپاکر دیا۔ بہت سے ایسے ہیں جنہوں نے اسے پڑھ کر قرآن اور خدا تعالیٰ سے ایک نیا اور زندہ تعلق بنا لیا کئی سو نے قربِ الٰہی میں مقام حاصل کیا۔ لاہور میں آپؓ ایک جگہ لیکچر دے رہے تھے۔ فرمایا کہ ’’یہ لاہور شہر ہے۔ یہاں یونیورسٹی موجود ہے۔ کئی کالج یہاں کھلے ہوئے ہیں۔ بڑے بڑے علوم کے ماہر اس جگہ پر پائے جاتے ہیں۔ ان سب سے کہتا ہوں کہ دنیا کے کسی علم کا ماہر میرے سامنے آ جائے۔ دنیا کا کوئی پروفیسر میرے سامنے آ جائے۔ دنیا کا کوئی سائنسدان میرے سامنے آجائے اور وہ اپنے علوم کے ذریعہ قرآن کریم پر حملہ کر کے دیکھ لے۔مَیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اسے ایسا جواب دے سکتا ہوں کہ دنیا تسلیم کرے گی کہ اس کے اعتراض کا ردّ ہو گیا ہے اور مَیں دعویٰ کرتاہوں کہ مَیں خدا کے کلام سے اس کو جواب دوں گا اور قرآن کریم کی آیات کے ذریعہ سے ہی اس کے اعتراضات کو ردّ کر کے دکھا دوںگا۔‘‘
(ماخوذ از ’’میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں‘‘۔ انوار العلوم جلد17 صفحہ227)
آپ کا قرآن مجید کی تلاوت کا کوئی خاص وقت مقرر نہ تھا۔ جب بھی وقت ملا تلاوت کر لی۔ عموماً یہ ہوتا کہ صبح اُٹھ کر فارغ ہوئے ملاقاتوں کی اطلاع ہوئی اور آپ انتظار میں ٹہل رہے ہیں اور ساتھ ساتھ قرآن مجید پڑھ رہے ہیں۔

عبادات

حضرت مصلح موعودؓ اپنی ابتدائی عمر ہی سے پنجوقتہ نماز کے علاوہ تہجد کا باقاعدگی سے التزام کرتے تھے۔ عبادات سے آپ کا شغف اورانہماک دیدنی تھا۔ آپ کو بچپن ہی سے جاننے والے مکرم شیخ غلام احمد صاحب واعظ نو مسلم گواہی دیتے ہیں کہ ’’مرزا محمود احمد صاحب کو باقاعدہ تہجد پڑھتے دیکھا اور یہ بھی دیکھا کہ وہ بڑے لمبے لمبے سجدے کرتے تھے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے آپ کو نوجوانی میں ہی حج بیت اللہ کی سعادت بخشی۔ کعبہ کو دیکھ کر جو محویت آپ پر طاری ہوئی اُس کے متعلق فرمایا: ’’اتنا بھی خیال نہیں تھا کہ میں زندہ ہوں۔ میں تو سمجھتا تھا کہ میں مر چکا ہوں اور اسرافیل صور پھونک رہا ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ارشاد ہے کہ میری طرف چلے آؤ۔‘‘ (الفضل ۸نومبر ۱۹۳۹ء)
ایک دفعہ آپ کی ایک نماز رہ گئی۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ ’’مجھے کام میں مصروف رہنے کی وجہ سے عصر کی نماز پڑھنی یاد نہیں رہی جب یہ خیال میرے دل میں آیا تو یکدم میرا سر چکرایا اور قریب تھا کہ اس شدت کی وجہ سے میں اس وقت گر کر مر جاتا کہ معاً اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجھے یاد آگیا کہ فلاں شخص نے مجھے نماز کے وقت آکر آواز دی تھی اس وقت میں نماز پڑھ رہا تھا۔ پس میں نماز پڑھ چکا ہوں لیکن اگر مجھے یہ بات یاد نہ آتی تو اس وقت مجھ پر اس غم کی وجہ سے جو کیفیت ایک سیکنڈ میں ہی طاری ہو گئی تھی وہ ایسی تھی کہ میں سمجھتاتھا اب اس صدمہ کی وجہ سے میری جان نکل جائے گی۔ میرا سر یکدم چکرایا اور قریب تھا کہ میں زمین پر گر کر ہلاک ہوجاتا۔‘‘ (الفضل ۲۴جنوری ۱۹۴۵ء)
حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ حضرت مصلح موعود کی نیکی، تقویٰ، عبادات میں شغف کے بہت معترف اور قدردان تھے۔ اسی بِنا پر آپ کو نوعمری میں ہی امام الصلوٰۃ اور خطیب مقرر فرماتے۔ ایک مرتبہ جب کسی نے حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ سے ایسا کرنے کے متعلق پوچھاتو آپؓ نے فرمایا ’’مجھ کو جماعت میں میاں صاحب جیسا کوئی متقی بتا دیں۔‘‘
عبادت کا ایک اہم پہلو دعا ہے اور حضرت مصلح موعودؓ ایک مستجاب الدعوات وجود تھے۔ حضرت فتح محمد صاحب حضرت اماں جانؓ اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی قبولیت دعا کا ایک واقعہ تحریر فرماتے ہیں کہ 1917ء کا واقعہ ہے مجھے ککر وں کی تکلیف تھی۔ایک رات مجھے سخت تکلیف ہوئی اور مَیں ساری رات نہ سوسکا۔ حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ کوبلایا۔حضرت میر صاحب تشریف لائے اور اپنے ہاتھوں سے دوائی لگاکر چلے گئے او رشدّتِ بیماری کا مجھ سے یا میری بیوی سے ذکر نہ کیا۔ البتہ گھر جاکر حضرت امیر المومنین حضر ت خلیفۃ المسیح الثانیؓ اور حضرت اماں جان ؓسے ذکر کیا کہ فتح محمد کی دائیں آنکھ توقریبًا ضائع ہوچکی ہے اور آنکھوں کی پتلی سے لے کر آنکھ کے آخر تک زخم ہے اور آنکھ کے اندر سفیدی نظر آتی ہے۔اس پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ اور حضرت اماں جانؓ کے دلوں میں درد اور ترحُّم پیداہوااور اسی وقت میرے لئے دعا کی اور رات حضر ت امیرالمومنین ؓ نے رؤیامیں دیکھاکہ میںحضور کے سامنے بیٹھاہوں او رمیری دونوں آنکھیں صحیح سلامت ہیں۔ یہ رؤیاحضور نے صبح ہی حضرت اماں جانؓ کو سنایا توحضرت اماں جانؓ اسی وقت خوش خوش ہشاش بشاش ہمارے گھر تشریف لائیں اور مبارک باد دی کہ اللہ تعالیٰ جلد صحت دے گا اورحضرت میر صاحب کی رپورٹ اور حضر ت امیر المومنینؓ کے رؤیا کا ذکر کیا اورفرمایااب اللہ تعالیٰ کاخاص فضل ہوگااور صحت ہوجائے گی۔
بعد میں حضرت میر صاحبؓ خود تشریف لائے اور آنکھ کا معائنہ کرنے کے بعد سخت حیرت ہوئی کہ ایک رات میں زخم کا8/7حصہ مندمل ہوگیاہے۔ اس کے بعد بیماری گھٹنی شروع ہوئی او ر میری دونوں آنکھیں درست ہوگئیں او راللہ تعالیٰ نے ایک لمباعرصہ خدمتِ سلسلہ کا موقع دیا۔ باوجود ہندوستان کے بعض ایسے علاقوں میں کام کرنے کے جہاں لُو اور دھوپ سے آنکھوں کے خراب ہونے کا خدشہ تھا میری آنکھیں بالکل ٹھیک ہو گئیں۔ (نصرت الحق صفحہ40)
پھر ایک واقعہ یوں بیان ہوا ہے کہ دسمبر 1937ء میں حضرت خلیفہ نورالدین صاحبؓ کو کاربنکل کاحملہ ہوگیااور قابل ڈاکٹروں برکت رام ایم۔ بی (لنڈن) اور بلونت سنگھ صاحب RCSE نے مرض کی رفتار کودیکھ کر آپریشن کا متفقہ مشورہ دیا او رکہاکہ اب سوائے آپریشن کے کوئی راستہ نہیں۔ لیکن آپؓ آپریشن کے لئے تیار نہ تھے۔ آخر حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں بیماری کی اطلاع بذریعہ تاردی گئی اور حضور ؓنے ارشاد فرمایاکہ آپریشن نہ کرائیں۔ پھر زخم کو گلیسرین وغیرہ سے صاف کیا جاتارہا جس سے خلیفہ صاحب بکلّی صحت یاب ہوگئے اور دونوں ڈاکٹروں کی حیرانگی کی کوئی حد نہ رہی۔‘‘ (الحکم 7تا14نومبر 1939ء صفحہ7)

حقوقِ نسواں

حضرت مصلح موعودؓ نے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں عورت کو صحیح مقام دلانے اور اس کے حقوق و فرائض کے متعلق اپنی تحریرات اور تقاریر میں تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ نیز عملاً بھی عورت کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ترقی کی راہ پر گامزن کیا۔ عورتوں کو ان کے حقوق دلانے کی ابتدا آپ نے اپنے گھر سے کی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد سب سے پہلا کام جو کیا وہ اپنی بہنوں کو اور حضرت والدہ صاحبہ کو حصہ دینے کا تھا۔ اس موقع پر ایک سرکاری افسر نے کہا کہ قانون کی رو سے ایسا کرنے کی اجازت نہیں تو آپ نے فرمایا ’’اگر ایسا نہیں ہوسکتا تو ہم ایسی جائیداد اپنے پاس رکھنے کے لئے تیار نہیں اور اسے لعنت سمجھتے ہیں۔‘‘ (رپورٹ مجلس مشاورت۱۹۳۶ء)
ہندوستان میں عموماً بیاہ شادی کے موقع پر عورت کی رضامندی نہیں پوچھی جاتی تھی اور ماں باپ جہاں چاہتے اپنی اولاد بیاہ دیتے۔ مگر آپؓ نے اس دستور کو توڑا اور جماعت کو تلقین کی کہ لڑکوں ہی سے نہیں بلکہ لڑکیوں سے بھی ان کی مرضی پوچھی جائے اور اگر لڑکی کی مرضی کسی جگہ شادی کی نہ ہو تو وہاں شادی ہرگز نہ کی جائے۔ آپؓ نے لڑکی کو یہ حق بھی دیا کہ وہ کسی بھی معاملے کی صورت میں اپنے حق کے حصول کے لئے خلیفۂ وقت یا قضا سے رجوع کر سکتی ہے۔
حضورؓ نے ایک موقع پر فرمایا: ’’یاد رکھو کہ کوئی دین ترقی نہیں کر سکتا جب تک کہ عورتیں ترقی نہ کریں۔ پس اسلام کی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ تُم (عورتیں) بھی ترقی کرو۔عورتیں کمرہ کی چاردیواروں میں سے دو دیواریں ہیں اگر کمرہ کی دو دیواریں گر جائیں تو کیا اس کمرہ کی چھت ٹھہر سکتی ہے۔‘‘ (الفضل ۲۲جنوری ۱۹۲۳ء)
حضرت مصلح موعودؓ نے خالص عورتوں کی تربیت و ترقی کے لئے ایک تنظیم لجنہ اماء اللہ قائم فرمائی جس کے مقاصد میں سے ایک یہ بھی تھا کہ عورتیں اپنے علیحدہ اجلاسات اور جلسے منعقد کریں، عورتوں کا نظم و نسق عورتیں اپنی آزاد حیثیت میں سنبھالیں، عورتیں تقاریرکریں اور رفتہ رفتہ عورتوں میں یہ قابلیت پیدا ہو کہ وہ عورتوں ہی کو نہیں بلکہ مردوں کو بھی خطاب کر سکیں۔ اس تنظیم کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ ہر تعلیم یافتہ عورت کم از کم ایک اَن پڑھ عورت کو لکھنا پڑھنا سکھائے۔
حضرت مصلح موعوؓد کو ہمیشہ سے عورتوں کی دینی تعلیم کے متعلق گہری توجہ تھی۔ آپؓ نے فرمایا کہ ’’جس طرح تم (مرد) اپنے لئے پڑھنا ضروری سمجھتے ہو۔ اسی طرح ان کے لئے بھی پڑھناضروری سمجھ کر ان کو پڑھاؤ۔‘‘ (الفضل ۵اگست ۱۹۱۶ء)
نیز فرمایا: ’’عورتوں کی تعلیم سے مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی خاص دلچسپی ہے۔ میں نے محض اس کی وجہ سے لوگوں کے اعتراضات بھی سنے ہیں اور اختلافی آراء بھی سنی ہیں لیکن پھر بھی مَیں پورے یقین کے ساتھ اس رائے پر قائم ہوں کہ عورتوں کی تعلیم کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کرسکتی۔ جب جماعت احمدیہ کا انتظام میرے ہاتھ میں آیا اس وقت قادیان میں عورتوں کا صرف پرائمری سکول تھا لیکن مَیں نے اپنی بیویوں اور بیٹیوں کو قرآن کریم اور عربی کی تعلیم دی اور انہیں تحریک کی کہ مقامی عورتوں کو قرآن کریم کا ترجمہ اور حدیث وغیرہ پڑھائیں۔میں نے اپنی ایک بیوی کو خصوصیت کے ساتھ اس کے لیے تیار کیا اور میرا خیال تھا کہ وہ اپنی تعلیمی ترقی کے ساتھ دوسری عورتوں کو فائدہ پہنچائیں گی لیکن خدا تعالیٰ کی مشیت تھی کہ میرے سفر ولایت سے واپسی پر وہ فوت ہوگئیں۔‘‘ (الفضل قادیان 19 ستمبر 1931ء)

خدمتِ خلق

آپؓ کی پاکیزہ فطرت کا ایک پہلو خدمت خلق بھی تھا۔ آپ غرباء کی بکثرت مدد کرتے، بھوکوں کو کھانا کھلاتے، مہمان کی تعظیم اورخوب آؤبھگت کرتے، حاجت مندوں کی حاجت روائی کرتے اور اس حوالے سے آپ خاص خیال رکھتے کہ کسی بھی شخص کی عزت نفس مجروح نہ ہو۔ آپ نے جماعت کو یوں نصیحت فرمائی کہ:
’’ہر شخص کو اپنے اپنے محلہ میں اپنے ہمسایوں کے متعلق اس امر کی نگرانی کرنی چاہیے کہ کوئی شخص بھوکا تو نہیں اور اگر کسی ہمسائے کے متعلق اسے معلوم ہو کہ وہ بھوکا ہے تو اُسے اُس وقت تک روٹی نہیں کھانی چاہیے جب تک وہ اُس بھوکے کو کھانا نہ کھلا لے۔‘‘ (الفضل۱۱جون ۱۹۴۵ء)
مہمان نوازی کے متعلق آپ نے فرمایا کہ:
’’ جو شخص مہمان کو ذلیل کرتا ہے وہ بڑا ہی کمینہ ہے۔ لوگ دنیاوی باتوں میں کہا کرتے ہیں کہ ناک کٹ گئی حالانکہ ان باتوں میں تو ناک نہیں کٹتی۔ لیکن جو شخص مہمان کو ذلیل کرتا ہے اس کی یقینا ناک کٹ جاتی ہے۔ مہمان نوازی انبیاء کی خاص صفت ہوتی ہے اس لئے ان کے متعلقین میں بھی اس کا ہونا ضروری ہے۔‘‘
(خطبات محمود جلد ۵ صفحہ ۶۱۷)
1954ء میں ہولناک سیلاب آیا تو حضورؓ نے متاثرین کی خدمت کے لئے خدام الاحمدیہ کو ہدایات دیں اور خودبھی سیلاب زدہ علاقوں میں تشریف لے جاکر مصیبت زدگان کی ڈھارس بندھائی۔ 1947ء کے پُرآشوب دَور میں آپ ہی کا بابرکت وجود تھا جس نے فلاکت زدہ پریشان حال انسانوں کو اپنی شفقت کے پروں تلے سمیٹ لیا۔ آپؓ کے طفیل لاتعداد لوگ دنیوی عزت اور راحت کی زندگی بسر کرتے رہے۔ مکرم مبارک عابد صاحب نے کیا خوب کہا کہ

اے فضل عُمر تیرے اوصافِ کریمانہ
یاد آ کے بناتے ہیں ہر رُوح کو دیوانہ
ہر روز تو تجھ جیسے انسان نہیں لاتی
یہ گردش روزانہ ، یہ گردش دورانہ
ڈھونڈیں تو کہاں ڈھونڈیں ، پائیں تو کہاں پائیں
سُلطانِ بیاں تیرا ، انداز خطیبانہ
ہاں علم و عمل میں تھا اک پیکرِ عظمت تُو
اسلام کا شیدائی ، اللہ کا دیوانہ

الغرض آپؓ کی ذات بابرکت ایک ایسا بحر بے کنار ہے کہ جس کا احاطہ کرنا کسی انسان کے بس میں نہیں۔ کئی ہزار صفحات پر مشتمل آپ کاکلام ایک عظیم الشان رصدگاہ ہے۔ اس رصد گاہ کے دروازے ہرخاص و عام کے لئے کھلے ہیں۔ اگر عالمِ روحانی کی سیر مطلوب ہے اوراگر طلب ہے آسمانی رازوںسے واقفیت حاصل کرنے کی تو اس رصدگاہ میں لازمی داخلہ لیں اور نور سے فیض یاب ہوں۔
آخر میں حضورؓ کا اپنے متعلق ایک عظیم الشان اقتباس پیش کرتا ہوں۔ فرمایا:
’’میں خدا کے فضلوں پر بھروسا رکھتے ہوئے کہتا ہوں کہ میرا نام دُنیا میں ہمیشہ قائم رہے گا اور گو میں مر جاؤں گا مگر میرا نام کبھی نہیں مٹے گا۔ یہ خدا کا فیصلہ ہے جو آسمان پر ہو چکا کہ وہ میرے نام اور میرے کام کو دُنیا میں قائم رکھے گا اور ہر شخص جو میرے مقابلہ میں کھڑاہوگا وہ خدا کے فضل سے ناکام رہے گا۔ … خدا نے مجھے اِس مقام پر کھڑا کیا ہے کہ خواہ مخالف مجھے کتنی بھی گالیاں دیں، مجھے کتنا بھی بُرا سمجھیں بہرحال دُنیا کی کسی بڑی سے بڑی طاقت کے اختیار میں نہیں کہ وہ میرا نام اسلام کی تاریخ کے صفحات سے مٹا سکے۔‘‘ (تقریر جلسہ سالانہ 28دسمبر 1961ء)
اے خدا کے برگزیدہ اور پاک مصلح موعودؓ! اللہ تبارک وتعالیٰ کی لاکھوں رحمتیں اور ہزاروں سلام آپؓ پر۔ آپؓ کے بابرکت وجود کی سب سے بڑی نشانی آپؓ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کلام ہے اور دعائیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اور ہماری نسلوں کو اس مبارک وجود کی دعاؤں کا حقدار بنائے اور آپؓ کی ذات بابرکات کا صحیح ادراک ہمیں عطا کرے۔ آمین ثم آمین

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں