خطاب حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز 26 جون 2010ء
(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
وَعَدَ اللّٰہُ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الأَنْہَارُ خَالِدِیْنَ فِیْہَا وَمَسَاکِنَ طَیِّبَۃً فِیْ جَنَّاتِ عَدْنٍ وَرِضْوَانٌ مِّنَ اللّٰہِ اَکْبَرُ ذٰلِکَ ہُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ(التوبۃ:72)
جنت ایک ایسا لفظ ہے جو ہر انسان کو بڑا خوبصورت لگتا ہے، چاہے وہ خدا کو مانتا ہے یا نہیں مانتا۔ کسی کے لئے دنیا کی لہو و لعب، کھیل کود، یہ زندگی جنت ہے تو کوئی دنیا و آخرت کی جنت کی تلاش میں ہے۔ لیکن ایک مومن اور غیرمومن میں دنیاوی جنت کی تعریف میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ مومن کی اس دنیا کی جنت بھی خدا تعالیٰ کی رضا میں ہے اور غیرمومن کا اس سے دُور کا بھی واسطہ نہیں۔ مومن کی اس دنیا کی جنت کا حصول بھی یا اس کے حصول کی کوشش بھی اخروی جنت کے حصول کے لئے ہے جو حقیقی جنت ہے اور ہمارے تصور اور ہمارے خیالات سے بہت بالا ہے۔
اس آیت میں جو میں نے تلاوت کی ہے اس کا ترجمہ یہ ہے کہ ’’ اللہ نے مومن مردوں اور مومن عورتوں سے ایسی جنتوں کا وعدہ کیا ہے جن کے دامن میں نہریں بہتی ہوں گی، وہ ان میں ہمیشہ رہنے والے ہیں اسی طرح بہت پاکیزہ گھروں کا بھی جو دائمی جنتوں میں ہوں گے تا ہم اللہ کی رضا سب سے بڑھ کر ہے۔ یہی بہت بڑی کامیابی ہے‘‘۔
قرآن ِ کریم میں مومن مردوں اور مومن عورتوں سے جنت کا وعدہ کیا گیا ہے جیسا کہ ہم نے دیکھا۔ اَور بھی بعض جگہ پہ قرآن کریم کا اسلوب ہے کہ بعض جگہ مومنین اور مومنات کہہ کر مَردوں اور عورتوں دونوں کو مخاطب کیا ہے اور بعض جگہ مومنین کا ذکر ہے جس میں مرد عورت سب شامل ہیں۔ بہر حال یہاں مَردوں اور عورتوں کو یہ خوشخبری دی گئی ہے کہ تمہارے لئے جنتیں ہیں، دائمی جنتیں ہیں۔
جنت کیا چیز ہے؟ اس بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’جنت پوشیدہ کو کہتے ہیں‘‘۔ یہ ایک معنے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیے ہیں۔ گو بعض اَور معنے بھی ہیں لیکن بہرحال اس کی روشنی میں بیان کروں گا۔ آپ نے فرمایا کہ: ’’جنت پوشیدہ کو کہتے ہیں‘‘۔ یعنی ایسی چیز جس کے بارے میں پوری طرح علم نہ ہو، اس کے اندر کے حال کا صحیح طرح سے فہم وادراک نہ ہو۔ پھر فرمایا کہ ’’جنت کو جنت اس لئے کہتے ہیں کہ وہ نعمتوں سے ڈھکی ہوئی ہے۔‘‘(ملفوظات جلد دوم صفحہ137۔ایڈیشن1985ء مطبوعہ انگلستان) اس دنیا کی جو جنت ہے، جس کو دنیا جنت سمجھتی ہے اس میں تو کوئی چیز چھپی ہوئی نہیں ہے۔ پس اللہ تعالیٰ مومن مردوں اور مومن عورتوں سے ایسی نعمتوں کا وعدہ کرتا ہے جن کی عظمت کا انسان ظاہری طور پراحاطہ نہیں کر سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایک جگہ فرمایا ہے: فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ أُخْفِیَ لَہُمْ مِّن قُرَّۃِ اَعْیُنٍ جَزَآئً بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُونَ۔ (السجدۃ:18)پس حقیقت یہ ہے کہ کوئی شخص نہیں جانتا کہ ان مومنوں کے لئے ان کے اعمال کے بدلے کیا کیا آنکھیں ٹھنڈی کرنے والی چیزیں چھپاکر رکھی گئی ہیں۔ پس جنت اور اس کی نعمتیں کوئی ایسی چیز نہیں ہیں جس کا ایک انسان دنیا میں رہتے ہوئے احاطہ کر سکے۔اور پھر یہاں یہ بھی واضح ہوگیا کہ صرف مومن یا مومنہ ہونے سے جنت نہیں مل جائے گی بلکہ یہ اُن اعمال کی جزا ہے جو انسان بجا لاتا ہے۔ یہ ان اعمالِ صالحہ کی جزا ہے جن پر عمل کرنے کی ایک مومن اور مومنہ کوشش کرتے ہیں اور ان کی تفصیل خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں مہیا فرمائی ہے ۔
پس صرف ایمان لا کر اس پر خوش ہوجانا کافی نہیں بلکہ ایک مومن مرد اور مومن عورت کو اپنے ایمان کو اپنے نیک اعمال سے سجانے کی ضرورت ہے، اپنی عبادات سے سجانے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ اصل مقصد خدا تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنا ہے۔ جب آخر میں یہ فرمادیا کہ اصل چیز خدا تعالیٰ کی رضا ہے تو اصل جنت اُسی وقت ملے گی جب اعمال صالحہ ہوں گے، جب عبادات ہوں گی۔ جب یہ کوشش ہوگی کہ ہم نے ہر کام خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کے لئے کرنے ہیں تو تبھی خدا تعالیٰ کے وعدے سے حصہ لینے کی ہم امید کر سکتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اس جنت کا کچھ ظاہری نقشہ بھی کھینچا ہے اور اس کے حصول کے بعد مومنین کے مقام کا بھی۔ اور یہ نقشہ صرف ایک تمثیلی نقشہ ہے۔ مثال دی گئی ہے۔ یہ سمجھانے کے لئے ہے کہ اگر دنیا کی نعمتوں پر اسے محمول کرو تو یہ جو مثالیں بیان کی گئی ہیں یہ اس کی موٹی مثالیں ہیںورنہ اس کی گہرائی تک پہنچنا تمہارے لئے ممکن نہیں ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس کی اصل حقیقت بیان کرتے ہوئے کیا فرماتے ہیں کہ یہ کیا چیز ہے؟ فرمایا کہ: ’’کوئی نفس نیکی کرنے والا نہیں جانتا کہ وہ کیا کیا نعمتیںہیں جو اس کے لئے مخفی ہیں ۔ سو خدا تعالیٰ نے ان تمام نعمتوں کو مخفی قرار دیا جن کا دنیا کی نعمتوں میں نمونہ نہیں۔ یہ تو ظاہر ہے کہ دنیا کی نعمتیں ہم پر مخفی نہیں ہیں اور دودھ اور انار اورانگور وغیرہ کو ہم جانتے ہیں۔ ان کی مثالیں قرآن کریم میں دی گئی ہیں اور ہمیشہ یہ چیزیں کھاتے ہیں۔ تو اس سے معلوم ہوا کہ وہ چیزیں اَور ہیں اور اُن کو اِن چیزوں سے صرف نام کا اشتراک ہے ۔ پس جس نے بہشت کو دنیا کا سمجھا اُس نے قرآن شریف کا ایک حرف بھی نہیں سمجھا ۔‘‘
آپؑ مزید فرماتے ہیں کہ:
’’ہمارے سید و مولیٰ نبی صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ بہشت اور اس کی نعمتیں وہ چیزیں ہیں جو نہ کبھی کسی آنکھ نے دیکھیں اور نہ کسی کان نے سنیں اورنہ دلوں میں کبھی گزریں ۔ حالانکہ ہم دنیا کی نعمتوں کو آنکھوں سے بھی دیکھتے ہیں اور کانوں سے بھی سنتے ہیں اور دل میں بھی وہ نعمتیں گزرتی ہیں۔ پس جبکہ خدا تعالیٰ اور رسول اُس کا ان چیزوں کو ایک نرالی چیز بتلاتا ہے تو ہم قرآن سے دُور جا پڑتے ہیں اگر یہ گمان کریں کہ بہشت میں بھی دنیا کا ہی دودھ ہوگا جو گائیوں اور بھینسوں سے دوہا جائے گا۔ گویا دودھ دینے والے جانوروں کے وہاں ریوڑ کے ریوڑ موجود ہوں گے اور درختوں پر شہد کی مکھیوں نے بہت سے چھتے لگائے ہوئے ہوں گے اور فرشتے تلاش کر کے وہ شہد نکالیں گے اور نہروں میں ڈالیں گے۔ کیا ایسے خیالات اس تعلیم سے کچھ مناسبت رکھتے ہیں جس میں یہ آیتیں موجود ہیں کہ دنیا نے ان چیزوں کو کبھی نہیں دیکھا اور وہ چیزیں روح کو روشن کرتی ہیں اور خدا کی معرفت بڑھاتی ہیں اور روحانی غذائیں ہیں۔ گو ان غذاؤں کا تمام نقشہ ظاہر کیا گیا ہے۔ مگر ساتھ ساتھ بتایا گیا ہے کہ ان کا سر چشمہ روح اور راستی ہے۔‘‘
(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 397-398)
جتنی جتنی کسی کی روحانی ترقی ہوگی، اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کی کوشش ہوگی، اتنا اتنا اس جنت سے ایک مومن کو حصہ ملے گا۔ مرد ہو یا عورت ہو، وہ نعمتیں ایک مومن کے لئے مہیا ہوں گی۔
پس جو جنت اخروی جنت ہے اس کے حصول کی کوشش اس دنیا میں ہی شروع ہوجاتی ہے۔ جس قدر ایک مومن اس دنیا میں اپنی جنت خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے بنانے کی کوشش کرے گا اُسی قدر بلکہ اس سے کئی گنا بڑھ کر اخروی جنت کا وارث بنے گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا اجر دس گنا حد تک بلکہ اس سے بھی لامحدود حد تک چلا جاتا ہے۔ پس جب اللہ تعالیٰ لا محدود اجروں کی خوشخبری دیتا ہے تو انسان اس کا احاطہ کر ہی نہیں سکتا۔
اس جنت میں مومن کے مقام کے بارے میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جن نعمتوں کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے اس کو یہ کہہ کر تم پر واضح کیا گیا ہے کہتَحْتِہَا الأَنْہَارُ اس کے نیچے نہریں بہتی ہیں۔ جنت کی نعمتوں کی فراوانی جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے اقتباس سے ظاہر ہے کہ یہ ظاہری دودھ یا شہد کی نہریں نہیں ہیں بلکہ اس کی اَور ہی کیفیت ہے۔ وہ عمل جو ایک مومن نے اس دنیا میں اس لئے کئے کہ خدا تعالیٰ کی رضا حاصل ہو، اس کی جزا اس قدر زیادہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر قسم کی نعمت کی اگلے جہان میں نہریں چلا دی ہیں۔ وہ جتنا چاہیں، جب چاہیں اس سے فیض اٹھاتے چلے جائیں۔ دنیا وی نہریں تو بارشوں اور پہاڑوں پر برف کی مرہون منت ہیں۔ اگر بارش نہ ہو، برف نہ پڑے تو نہریں اور دریا سوکھ جاتے ہیں یا اگر زیادہ بارشیں ہوجائیں، برفیں پڑجائیں تو سیلاب آجاتے ہیں۔ جو دنیا کے ہر ملک میں ہم دیکھتے ہیں بجائے فائدہ کے الٹا نقصان ہوجاتا ہے۔ لیکن یہاں ان نعمتوں کی نہروں کا ذکر کرکے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایک تو تمہارے نیچے نہریں ہیں۔ یہ نعمتیں ہر وقت تم کو میسر ہیں۔ اور پھر یہ کہ ان سے فائدہ اٹھانے کے لئے کسی اَور کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے بلکہ تمہارا جنت میں آنا اور خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرلینا ہی اس بات کے لئے کافی ہے کہ یہ نہریں تمہارے زیرِ تصرّف ہیں اور پھر یہ نہریں خشک ہونے والی نہیں ہیں، نہ ہی کسی قسم کا نقصان پہنچانے والی ہیں۔
پھر فرمایا خَالِدِیْنَ فِیْہَا ان نہروں اور جنت کی نعمتوں سے فائدہ اٹھانے کے لئے کوئی عرصہ مقرر نہیں ہے کہ اتنے عرصے کے لئے فائدہ اٹھا لو۔ بلکہ ایک مرتبہ جب اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرتے ہوئے تم جنت میں آگئے تو پھر ہمیشہ ہی اس جنت میں رہو گے، ہمیشہ ہی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے فائدہ اٹھاتے رہوگے ۔ اور یہ لامحدود نعمتیں ہیں اور ہمیشہ تمہارے تصرّف میں رہیں گی۔
پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نعمتیں بھی لا محدود اور لازوال ہیں۔ ہمیشہ کے لئے تمہیں اس جنت میں رہنا بھی ہے۔ لیکن کہاں رہنا ہے؟ ایک ظاہری نقشہ کھنچا ہے کہ ایسے گھروں میں رہو گے جو مَسَاکِنَ طَیِّبَۃً ہیں۔ بہت ہی پاکیزہ گھر ہیں۔ ایسے پاکیزہ گھر ہیں جن میں کسی قسم کی کثافت اور گندگی اور خیالات اور تصورات کی ناپاکی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہ گھر دائمی جنتوں میں ہوں گے ۔ ان گھروں کی صفائی اور پاکیزگی عارضی نہیں بلکہ ہمیشہ کے لئے ہے۔ یہ تمام نعمتیں جو انسان کو اُخروی جنتوں میں ملیں گی اور جنتی ان کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ کے شکر گزار ہوں گے لیکن سب سے زیادہ جو بات جنتیوں کی خوشی کا موجب ہو گی اور جس کے لئے اس دنیا میں بھی وہ نیک اعمال بجا لاتے رہے وہ اللہ تعالیٰ کی رضا ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہی فوزِ عظیم ہے، یہی تمہاری اصل کامیابی ہے۔ یہی وہ آخری مقصد ہے جس کے حصول کے لئے ایک مومن کو کوشش کرنی چاہئے۔ اگر اس مقصد کو پا لیا تو جنت کی تمام قسم کی نعماء کا حصول ممکن ہو گیا۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام فرماتے ہیں کہ:
’’اصل جنت خدا ہے جس کی طرف تردّد منسوب ہی نہیں ہوتا۔ اس لئے بہشت کے لئے اعظم ترین انعامات میں رِضْوَانٌ مِنَ اللّٰہِ اَکْبَر ہی رکھا ہے‘‘۔ فرمایا: ’’انسان انسان کی حیثیت سے کسی نہ کسی دکھ اور تردّد میں ہوتا ہے۔ مگر جس قدر قرب الٰہی حاصل کرتا جاتا ہے اور تَخَلَّقُوْا بِاَخْلَاقِ اللّٰہِ سے رنگین ہوتا جاتا ہے اُسی قدر اصل سکھ اور آرام پاتا ہے۔‘‘(ملفوظات جلد دوم صفحہ 137۔ایڈیشن1985ء مطبوعہ انگلستان)
پس ایک مومن کا اصل مقصود یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کرے اور یہی نمونے انبیاء کے حقیقی متّبعین نے ہمارے سامنے رکھے ہیں۔یہ جنت کی نعمتیں، جنت کی نہریں، اعلیٰ گھر، یہ سب تو اُن اعمال کے زائد انعامات ہیں جو خداتعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ایک مومن کرتا ہے۔ اور یہ صرف اخروی زندگی کے انعامات نہیں ہیں، مرنے کے بعد کے انعامات نہیں ہیں بلکہ یہ دنیا کی زندگی میں بھی اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کی وجہ سے یا اس کی کوشش کی وجہ سے اس دنیا میں ہمارے لئے جنت بن جاتی ہے۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ انسان انسان کی حیثیت سے کسی نہ کسی دکھ اور تردّد، پریشانی، گھبراہٹ اور بے چینی میں مبتلا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ سے پختہ تعلق ہو اور انسان خدا تعالیٰ کو راضی کرنے کے لئے اس سے تعلق جوڑنے کی کوشش کرے تو ان پریشانیوں،دکھوں، تکلیفوں کو خدا تعالیٰ سکون میں بدل دیتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کی ہم میں سے ہر ایک کو کوشش کرنی چاہیے۔
اللہ تعالیٰ نے جب مومن مردوں اور مومن عورتوں سے جنت کا وعدہ کیا ہے تو اس سے پہلی آیت میں بعض اعمال کا ذکر کر کے یہ بھی بتا دیا کہ یہ عمل ہیں جو ایک مومن بنانے میں کردار ادا کرتے ہیں، جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کا ذریعہ بنتے ہیں۔ ورنہ صرف اپنے منہ سے اپنے آپ کو مومن کہنے سے انسان مومن نہیں بن جاتا۔ اس لئے جب ان لوگوں نے جو جنگلوں میں دیہاتوں میں رہنے والے تھے جن کو بَدُّو بھی کہا جاتا ہے۔ انہوں نے جب یہ کہا کہ ہم ایمان لے آئے تو خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ حقیقت میں تم ایمان نہیں لائے۔ ہاں تمہارا جواب فی الحال یہ ہونا چاہیے کہ اَسْلَمْنَا کہ ہم نے فرمانبرداری قبول کر لی ہے۔ لیکن ایمان کی جو حالت ہونی چاہیے وہ تم میں پیدا نہیں ہوئی۔ وہ حالت کس طرح پیدا ہوگی؟ فرمایا: اِنْ تُطِیْعُوْا اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ کہ اگر تم اللہ اور اس کے رسول کی مکمل اطاعت کروگے تو تب ہی کامل ایمان ہوتا ہے۔
جیسا کہ میں کہہ رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی بعض خصوصیات کا ذکر فرمایا ہے۔ تو اس پہلی آیت میں فرماتا ہے: وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤمِنَاتُ بَعْضُھُمْ أَوْلِیَآئُ بَعْضٍکہ مومن مرد اور مومن عورتیں آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ یعنی مومنین آپس میں ایک جان کی طرح ہیں۔
ولی کے معنی ہیں: دوست، ایک دوسرے سے پیار محبت کا سلوک کرنے والے، ایک دوسرے کے مدد گار ، حفاظت کرنے والے، ایک دوسرے کے معاملات کی نگرانی کرنے والے ۔ پس اگر جنت کا امیدوار بننا ہے تو آپس میں اس تعلق کو نباہنا ہوگا۔ اور یہ سلوک صرف آخرت کی جنت کی ضمانت نہیں ہے بلکہ اس دنیا کی جنت کی ضمانت بھی بن جاتا ہے ۔
قرآن کریم میں جو جَنَّتٰن کا لفظ استعمال ہوا ہے اس سے دنیاوی اور اُخروی جنت دونوں مراد ہیں۔ جب مومن خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اس دنیا میں بھی کوشش کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اس سے خوش ہوتا ہے۔ جو لوگ اس بات کی تلاش میں رہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ رُحَمَآئُ بَیْنَھُمْ کہ مومن آپس میں ایک دوسرے سے بہت زیادہ رحم کرنے والے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اسلام کی حقیقی تعلیم پر عمل کرتے ہوئے اپنے تعلقات کو استوار کیا۔ دوسرے مومن کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھا۔ اس کا نظارہ حال ہی میں ہمیں لاہور میں ہونے والے واقعات میں نظر آتا ہے جو ہماری دو مساجد میں ہوئے۔ دنیائے احمدیت میں ہر جگہ بلاتخصیص قوم ، نسل ، رنگ احمدیوں پر ہونے والے ظلم نے ہر احمدی کے دل کو بے چین کردیا۔ کئی خطوط مجھے آئے ہیں کہ لوگ پوچھتے ہیں کہ اتنی تکلیف میں ہو تو کیا تمہارا کوئی قریبی عزیز اس واقعہ میں شہید یا زخمی ہوا ہے؟ تو ہمارا جواب ہوتا ہے کہ یہ سب ہمارے اپنے ہی تو تھے۔ ہر شہید ہونے والا میرا باپ، میرا بھائی ، میرا بیٹا تھا۔ یہ صرف پرانے احمدیوں کا یا پاکستانی احمدیوں کا حال نہیں ہے بلکہ افریقہ کے ایک ملک کے دُور دراز علاقہ سے مجھے مربی صاحب نے یہ لکھا کہ 28 مئی کو جب میں جمعہ کے وقت ایک دُوردراز دیہاتی جماعت میں پہنچا تو MTA پر یہ خبر آرہی تھی یا خطبہ کے دوران میرے سے سنا۔ تو یہ جماعت جو نو مبائعین کی جماعت ہے اور دُور جنگلوں میں رہنے والی جیسا کہ مَیں نے کہا دیہاتی جماعت ہے۔ سڑکیں بھی وہاں نہیں جاتیں، اس میں اکثریت اَن پڑھوں کی ہے۔ افریقن لوگ ہیں۔ لیکن جب ان کو خطبے کے دوران اُن کی زبان میں اس تمام واقعہ کی تفصیل بتائی جا رہی تھی تو ہر چہرے سے بے چینی نظر آرہی تھی۔ ہر چہرے پر جذبات کا اظہار ہو رہا تھا اور وہ کہتے ہیں کہ پھر نماز کے دوران جس طرح رقّت سے رو کر انہوں نے دعائیں کی ہیں، ان کو دیکھ کر حیرت ہوتی تھی۔ ایک عجیب کیفیت تھی۔
پس یہ مطلب ہے ولی ہونے کا جس نے محبت ، پیار کے جذبات اور تعلق میں تمام دنیاوی سرحدوں اور رنگ و نسل کو ختم کردیا ہے۔ اور یہ ہے وہ انقلاب جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے عاشق صادق نے ہم میں پیدا کیا ہے۔ یہ کیفیت یقینا آپ میں بھی پیدا ہوئی ہے۔ تو یہ صرف وقتی اور جذباتی کیفیت نہ ہو بلکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِس دنیا اور اُس دنیا دونوں کی جنت کے حصول کے لئے یہ ایک مومن کا شیوہ ہونا چاہیے۔ مومنین اور مومنات کے لئے آپس میں ایک دوسرے کا مددگار ہونا بھی ضروری ہے۔ اور ظاہر ہے جب مومنین اور مومنات کا تصوّر ابھرے گا تو اس کے ساتھ ہی یہ بھی تصوّر ابھرے گا کہ وہ نیکیوں میں ایک دوسرے کے مدد گار ہیں۔ پس آپ عورتیں اورمرد جو میرے مخاطب ہیں ہمیشہ یاد رکھیں کہ اگر حقیقی جنت کی تلاش ہے تو نہ صر ف خود نیکیوں میں آگے بڑھیںبلکہ نیکیوں کے انجام دینے میں ایک دوسرے کے مدد گار بنیں۔ محبت اور پیار کے تعلق کو بڑھائیں۔ ذرا ذرا سی بات پر رنجشوں اور ناراضگیوں کی دیواریں کھڑی کرنے کی بجائے ان دیواروں کو گرائیں۔ اور بعض لوگ ایسی دیواریں کھڑی کر دیتے ہیں جن کا گرانا مشکل ہوجاتا ہے ۔
پھر جیسا کہ مَیں نے بتایا کہ ولی ہونے کا ایک مطلب ہے کہ معاملات کا نگران ہونا۔ جس طرح ہر انسان اپنے ذاتی معاملات کی نگرانی کرتا ہے، ایک مومن مرد اور ایک مومن عورت کا فرض ہے کہ اسی طرح دوسرے کے معاملات کی نگرانی بھی کرے۔ اپنے حقوق کی حفاظت کی فکر ہے تو دوسرے کے حقوق کی حفاظت کی فکر بھی ہو۔ اگر محبت پیار کے سلوک اور حقوق کی حفاظت اور نگرانی میں جماعتی عہدیداران اپنے نمونے قائم کریں گے تو پچاس فیصد اصلاح تو اسی طرح ہوجائے گی۔ کیونکہ ہر سطح پر جماعتی عہدیداروں کو لیں، خدام الاحمدیہ کے عہدیداران کو لیں، انصاراللہ کے عہدیداران کو لیں اور آپ لجنہ ہیں۔ لجنہ اپنی ہر سطح پر عہدیداران کو لیں تو پچاس فیصد افراد جماعت کسی نہ کسی رنگ میں کوئی نہ کوئی خدمت بجالا رہے ہیں، جو اس میں شامل ہو جاتے ہیں۔ تو اگر ارادہ ہوتو پچاس فیصد اصلاح تو ہو گئی ۔
پس مومن اور مومنات بننے کے لئے ضروری ہے کہ ان انعامات سے فیضیاب ہونے کے لئے جو اللہ تعالیٰ نے مومن مردوں اور مومن عورتوں کے لئے رکھے ہیں، اِن نفرتوں اور کدورتوں کو دلوں سے نکال کر پھینک دیں جو ایک دوسرے کے لئے بعض کے دلوں میں پَنَپ رہی ہیں۔ میں کسی کے دل کا حال نہیں جانتا لیکن بعض ایسے شواہد اور واقعات میرے سامنے آتے ہیں جن سے دلوں کی کدورتوں کے اظہار ہو رہے ہوتے ہیں۔ مَیں کئی مرتبہ کہہ چکا ہوں اور بڑی تکلیف سے پھر کہہ رہا ہوں کہ صرف ایمان کا اظہار کافی نہیں ہے۔ وہ انقلاب اپنے اندر پیدا کرنے کی ضرورت ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہمارے اندر پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ ایک دوسرے کا حقیقی ولی بننے کی ضرورت ہے۔ بنیانِ مرصوص بننے کے لئے، ایک مضبوط دیوار بننے کے لئے ولی بننے کی ضرورت ہے۔ ایک دوسرے کا مدد گار بننے کی ضرورت ہے۔ ایک دوسرے کے لئے حفاظت کا فرض ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ تبھی ہم اپنے دشمن پر، اپنے مخالفین پر غلبہ حاصل کر سکیں گے، تبھی ہم اُن جنتوں کے وارث بن سکیں گے جن کا خدا تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے۔
اگر اس حقیقت کو آپ سمجھ لیں،ہر عورت اور ہر لڑکی اپنا جائزہ لے ، ہر مرد اور نوجوان اپنا جائزہ لے تو ایک جنت نظیر معاشرہ آپ قائم کرنے والے ہوں گے۔ گھروں کے سکون بھی قائم کرنے والے ہوں گے۔ آپس کے تعلقات میں بھی خوبصورتی نظر آئے گی ۔ عہدیدار اور غیر عہدیدار میں عزت و احترام کا رشتہ بھی قائم ہوگا۔ جماعتی نظام میں بھی مضبوطی پیدا ہوگی اور کوئی بد فطرت جماعت کو کسی بھی رنگ میں نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ اور سب سے بڑھ کر جب یہ کام ہم خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے کر رہے ہوں گے تو اِس دنیا کی جنت کے بھی وارث ہوں گے اور اگلے جہان کی جنتوں کے بھی وارث بنیں گے۔ انشاء اللہ۔
پس آج سب سے پہلے اپنے نفس کی صفائی سے اس کام کو شروع کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ نیکیوں اور برائیوں کا سب سے بڑا مسکن اور گھر ہمارا اپنا نفس ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے جب جنتیوں کے لئے یہ فرمایا ہے کہ مَسَاکِنَ طَیِّبَۃً ۔ ان کی پاک رہائشگاہیں ہوں گی تو پاک رہائشگاہوں کے لئے پاک نفس ہونا بھی ضروری ہے۔ اپنے دلوں کو نیکیوں کا مسکن بنانا بھی ضروری ہے۔ اپنے دلوں کو برائیوں سے پاک کرنا بھی ضروری ہے۔ اپنے دل کے گھر کو شیطان سے پاک کرنا بھی ضروری ہے۔ اپنے دلوں کو دنیا کے لہوو لعب کی آماجگاہ بننے سے روکنا بھی ضروری ہے۔ تبھی ہم ہر شر کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ تبھی ہم ایک دوسرے کے ولی بن کر انفرادی طور پر بھی اور جماعتی سطح پر بھی حفاظت و نگرانی کا فریضہ سرانجام دیتے ہوئے اپنے گھروں کو، اپنی مجلسوں کو پاک اور طیب رکھ سکتے ہیں۔
اگر اس بارے میں عورتیں اپنا کردار ادا کرنے کا ارادہ کرلیں تو گھروں کی پاکیزگی کا بہترین رنگ میں انتظام ہو سکتا ہے۔ عورتیں گھروں کی محافظ و نگران ہونے کی حیثیت سے بچوں کی بہترین تربیت کا حق ادا کر سکتی ہیں۔
مَردوں کو بھی یاد رکھنا چاہیے کہ خدا تعالیٰ نے پہلے مومنین کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ وہ یہ نہ سمجھیں کہ یہ عورتوں کی ذمہ داری ہے۔ مرد بھی اپنے گھر کا راعی ہے۔ اگر اپنی ذمہ داری ادا نہیں کریں گے تو مومنین کی صف سے باہر نکل جائیں گے ۔ پس اگر جنت میں پاک گھر بنانے ہیں تو ہمیں اس دنیا میں بھی پاک گھروں کے نمونے پیش کرنے ہوں گے۔ ہمیں اپنا ظاہر بھی پاک کرنا ہوگا۔ اپنا باطن بھی پاک کرنا ہوگا۔ اپنے دلوں کو ٹٹولنا ہوگا۔ ذاتی مفادات کی بجائے جماعتی مفادات کو سامنے رکھنا ہوگا۔
آج جبکہ جماعت پر مخالفین کی سختیوں کی وجہ سے ہر ایک کا دل نرم ہے تو خاوند بیوی، بھائی بہن، عزیز رشتہ دار، عہدیدار اور غیر عہد یدار اللہ تعالیٰ کے آگے جھکتے ہوئے اس سے مدد مانگتے ہوئے ایک دوسرے کا ولی ہونے کا حق ادا کرنے والے بنیں۔
اور ولی بننے کے بعد اگلا کام جو خدا تعالیٰ نے مومنین اور مومنات کو بتایا ہے وہ یہی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یَأمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ کہ وہ نیک باتوں کا حکم دیتے ہیں۔ اس کا مطلب حکم دینا بھی ہے اور کسی بات کو زور دے کر کہنا بھی ہے۔ اور کسی بات کو زور دے کر کہنے کے لئے انسان مختلف طریقے استعمال کرتا ہے۔ پس یہ نیکیوں کی پُرزور تلقین مومن ایک دوسرے کو بھی کرتے ہیں اور غیر وں کو بھی کرتے ہیں ۔
اگر خود ہم نیک اعمال بجا لانے والے نہیں تو دوسرے کو کیا کہہ سکتے ہیں۔ اگر ماں باپ خود نیکیوں کی طرف توجہ دینے والے نہیں تو بچوں کو کیا کہہ سکتے ہیں۔ اگر عہدیداران خود اپنے نیک اعمال پر نظر رکھنے والے نہیں تو دوسروں کو کیا کہہ سکتے ہیں۔ اگرہمارے داعی الی اللہ کے اپنے اندر بعض نیکیاں نہیں تو وہ کس طرح دوسرے کو تبلیغ کرسکتی ہے یا کر سکتا ہے۔ آپ کے بچے سے لے کر غیر تک ہر ایک آپ کی تلقین، آپ کی نصیحت پر آپ پر انگلی اٹھائے گا یا آپ پر اُلٹا دے گا۔ اگر بچے یا فردِ جماعت ماں باپ یا عہدیدار کا احترام کرتے ہوئے چُپ بھی رہیں گے تو دل میں ضرور خیال لائیں گے کہ آپ تو یہ نیکیاں کرتے نہیں اور ہمیں یہ تلقین کررہے ہیں اور یہ بے چینیاں جہاں اس دنیامیں معاشرے کے سکون کو برباد کر کے جنت کی بجائے نعوذباللہ جہنم بنا رہی ہوں گی وہاں اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا باعث بھی بن رہی ہوں گی اور خدا تعالیٰ کی ناراضگی مول لے کر تو ہم اُخروی جنت کے وارث نہیں بن سکتے ۔
خطبات میں مَیں شہداء کے واقعات سنا رہا ہوں۔ اُن کا ذکر خیر ہو رہا ہے۔ کل ہی آپ نے سنا ہے کہ دادا کے قرآن پڑھنے کا پوتی پر اتنا اثر تھا کہ اس نے اپنی معصومیت میں کہا کہ دادا جنت میں بھی قرآن پڑھ رہے ہوں گے ۔ پس یہ ہیں نیک اعمال جو خود بخود نیکیوں کی تلقین کر رہے ہوتے ہیں اور یہ ہیں حقیقی مومن کی نشانیاں جو اسے جنت کا وارث بنا رہی ہوتی ہیں ۔
پھر اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا کہ یَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَر کہ بری باتوں سے روکتے ہیں ۔ یہ حکم پھر سب سے پہلے اپنے نفس کی اصلاح کے لئے ہے۔ اگر اپنے نفس کی اصلاح ہو گی تو دوسروں کی اصلاح ہو سکتی ہے۔ اپنے لئے جنت کے دروازے وَا کرنے کے لئے، کھولنے کے لئے ہر مرد اور عورت کوشش کرے گا تو دوسروں کو اِن دروازوں کی نشاندہی کر سکے گا۔ اپنی اولادوں کو برائیوں کی نشاندہی کرنے سے پہلے ہر عورت اپنے آپ کو پاک کرے گی اور ہر مرد پاک کرے گا تو اولادیں برائیوں سے اپنے آپ کو بچائیں گی۔ ہمارے اپنے اندر کا مومن جاگے گا تو زمانے کی اصلاح کا دعویٰ دل کی بے چین آواز بن کردنیا پر ظاہر ہوگا۔ ورنہ برائیوں سے روکنا بے معنی اور بے مقصد ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ برائیوں سے روکنے اور نیکیوں کی تلقین کرنے کی ذمہ داری اُمّت کے ہر فرد کی لگائی ہے۔ گویا ہم نے صرف اپنے لئے جنت کے حصول کی کوشش نہیں کرنی بلکہ دنیا کو جنت کے راستے دکھانے ہیں۔ پس آج اگر اس سوچ کو ہر احمدی عورت اپنے دل میں راسخ اور قائم کرلے، ہر احمدی مرداپنے دل میں راسخ اور قائم کر لے تو نہ صرف آپ اپنی جنت کی خوشخبری پانے والے ہوں گے بلکہ ایک انقلاب دنیا میں پیدا کرنے والے بن جائیں گے اور آپ عورتیں خاص طور پر انقلاب پیدا کرنے کی حصہ دار بن جائیں گی۔ اس انقلاب کے ذریعے دنیا کو حقیقی جنت کے راستے دکھانے والی بن جائیں گی۔ احمدی ماؤں کی گودوں سے پلنے والے بچے آزاد معاشرے کی برائیوں کو روکنے والے بن کر اور نیکیوں کے راستے دکھانے والے بن کر دنیا میںاس حقیقی جنت کے رہبر بن جائیں گے جو صرف اور صرف خدا تعالیٰ کی رضا سے حاصل ہوتی ہے۔ پس کتنی بڑی آپ کی ذمہ داری ہے۔ جنت آپ کے قدموںمیں یونہی نہیں رکھ دی گئی۔ ان راستوں پر چلنے کی اعلیٰ مثالوں کی وجہ سے آپ کو یہ اعزاز ملا ہے جو جنت کی طرف لے جانے والے راستے ہیں۔ ماں بچے کو جنت کی طرف بھی لے جانے والی ہے اور جہنم کی طرف بھی۔ ہر ماں کے پاؤں کے نیچے جنت نہیں ہے بلکہ جنت مومنہ ماں کے پاؤں کے نیچے ہے۔
غیر اعتراض کرتے ہیں کہ اسلام میں عورت کی عزت نہیں ہے۔ اس سے بڑھ کر اور کیا عزت ہوگی کہ دنیا و آخرت کی جنت کی طرف لے جانے کا مقام عورت کو دیا گیا ہے لیکن اس عورت کو جو اللہ تعالیٰ کی رضا کو مقدم رکھتی ہے۔ اس عورت کو دیا گیا ہے جو نیکیوں میں بڑھنے اور برائیوں سے روکنے کی جہاں کوشش اور تلقین کرنے والی ہے وہاں عبادات میں بھی طاق ہے۔ اس کے لئے بھی کوشش کرنے والی ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جنت میں بسنے والوں کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ قیام نماز کرتے ہیں۔ عموماً ہمارے ہاں اس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ قیام نماز مردوں کا کام ہے اور قیام نماز کا مطلب ہے مسجد میں جا کر نماز پڑھو۔ ٹھیک ہے یہ مطلب بالکل صحیح ہے۔ لیکن صرف اتنا مطلب نہیں ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ نماز کو کھڑا کرو۔نماز بار بار گرتی ہے تم بار بار کوشش کر کے اس کو کھڑا کرو۔(ماخوذ از ملفوظات جلد اول صفحہ 29۔ ایڈیشن1985ء مطبوعہ انگلستان)
نماز کس طرح گرتی ہے اور اس کو کس طرح کھڑا کرنا ہے؟ نماز پڑھتے ہوئے جب توجہ نماز کی طرف نہیں تو یہ گری ہوئی نمازہے۔ یہ وہ مقصد حاصل نہیں کر رہی جو عبادت کرنے کا مقصد ہے۔
ایک عورت پڑھ تو نماز رہی ہو اور سوچیں اس طرف ہوں کہ آج میں نے فلاں کی شادی یا فلاں کی دعوت پر جانا ہے تو کون سا جوڑا پہنوں گی؟ زیور تو میرا ایسا ہونا چاہیے جو سب کی توجہ کھینچ لے یا فلاں عورت نے فلاں وقت میں مجھے یہ کہا تھا تو کب موقع ملے تو مَیں اسے جواب دوں۔ کس طرح فلاں کو نیچا دکھاؤں۔ کس طرح فلاں کام کروں۔ ساس بہو ہیں تو آپس کے مسئلے دماغ میں آتے رہتے ہیں۔ یا کوئی بھی دنیاوی خیالات آئیں جو نمازوں کی طرف سے توجہ ہٹا رہے ہوں تو یہ نماز کا گرنا ہے۔ اور نماز کو قائم کرنا ہر مومن کا فرض ہے۔ نماز میں نماز کے الفاظ پر غورکرتے ہوئے ان کی ادائیگی ہونی چاہیے۔الفاظ بار بار بھی دہرائے جاسکتے ہیں۔ رکوع و سجود میں اپنی زبان میں اپنے مسائل کے لئے دعا کریں۔ جماعت کے لئے دعا کریں۔ جب خیالات بھٹکنے لگیں تو شیطان سے پناہ مانگیں۔ استغفار کریں۔ نماز کے دوران اللہ سے مدد مانگی جائے کہ میں نماز کا حق ادا کروں۔ تو یہ نماز کو کھڑا کرنا ہے۔ یہ نماز کا قیام ہے۔
پس خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہر مومن مرد، ہر مومن عورت کا یہ فرض ہے کہ وہ یُقِیْمُوْنَ الصَّلوٰۃَ پر عمل کرنے والا ہو۔ یہ قیامِ نماز جو خالصۃً اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے ہوتا ہے پھر بہت سی چھوٹی چھوٹی باتوں سے انسان کو بچا کر رکھتا ہے جو دلوں میں بدظنیاں پیدا کرتی ہیں اور آپس کے تعلقات کو خراب کر رہی ہوتی ہیں۔
پھر قیامِ نماز وقت پر نماز کی ادائیگی بھی ہے۔ جب مائیں اپنے گھروں کو ایک خاص اہتمام سے نمازوںسے سجائیں گی تو اولاد پر یقینا اثر ہوگا۔ ان کو نماز کی اہمیت کا اندازہ ہوگا۔ جہاں گھروں میں نمازوں کا اہتمام ہوتا ہے وہاں ہم دیکھتے ہیں کہ ڈیڑھ دو سال کے بچے بھی اپنے معصومانہ انداز میں نماز پڑھتے ہیں، سجدے کرتے ہیں، اپنی توتلی زبان میں اَللہ ُاَکْبر کہتے ہیں۔ لڑکی ہے تو چھوٹا سا دوپٹّہ لے کر جائے نماز پر جا کر کھڑی ہو جاتی ہے۔ لڑکا ہے تو ٹوپی سر پر رکھ کر جائے نماز پر کھڑا ہوجاتا ہے۔ اس کو پتہ ہی نہیں کہ نماز کیا ہے لیکن اپنے ماں باپ کے عمل دیکھ رہا ہوتا ہے۔ اس کو غیر محسوس طریقے پرایک عادت پڑ رہی ہوتی ہے۔ تو پھر یہ عمل نسلوں میں بھی خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق جوڑتا چلا جاتا ہے۔ جس گھر میں عورتیں پانچ وقت نماز کا اہتمام کر رہی ہوں، مرد تو بعض نمازیں مسجد میں جاکر پڑھتے ہیں، چھوٹے بچوں کی تربیت کے لئے تو عورتیں ہی ہیں۔ وہ گھر میں پانچ وقت نمازیں ادا کر رہی ہوں تو وہ گھر کبھی خدا تعالیٰ کی مدد سے محروم نہیں ہوتے اور بچوں کی تربیت بھی غیر محسوس طریقے پر ہو رہی ہوتی ہے ۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے عورت اور مرد دونوں پر یہ ذمہ داری ڈالی ہے کہ فجر کی نماز کے لئے بھی ایک دوسرے کو جگاؤ۔( سنن ابی داؤد کتاب الصلوٰۃ باب قیام اللیل حدیث 1308) نہ مرد صرف اپنی نماز ادا کر کے بری الذّمہ ہو جاتا ہے اور نہ ہی عورت اپنی نماز ادا کرکے بری الذّمہ ہوجاتی ہے۔ بلکہ دونوں کے فرائض میں ہے کہ ایک دوسرے کی نماز کے قیام کی بھی کوشش کریں اور بچوں کی نمازوں کی حفاظت کی طرف بھی توجہ دیں۔ ان کی نمازیں بھی قائم کرنے کی کوشش کریں تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرتے ہوئے حقیقی جنت کے وارث بنیں ۔
پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مومن مرد اور مومن عورتوں کی نشانی، جو اللہ تعالیٰ کی رضا کی جنتوں کی تلاش میں ہیں، یہ ہے کہ زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔ عورتوں پر ان کے زیور پر، اگر زیور زکوٰۃ کی شرح کے اندر آتا ہو تو اُس پر زکوٰۃ ہے۔ پس اس بات کا خیال رکھنا بھی ہر اس عورت کا فرض ہے جو اپنے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں لاکر اسلام کی تعلیم پر عمل کرنے کا اظہار کرتی ہے ۔اس کا یہ دعویٰ ہے کہ میرے اندر اس بیعت میں آکر ایک انقلاب پیدا ہوا ہے ۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں بہت سی ایسی نوجوان بھی اور بڑی عمر کی بھی عورتیں ہیں جن کو اپنے زیوروں سے کوئی رغبت نہیں ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے انہیں خرچ کرتی ہیں بلکہ بعض دفعہ اپنا سب کچھ ہی دے دیتی ہیں۔ ابھی چند دن پہلے اس دورے کے دوران ہی ایک نوجوان جوڑا مجھے ملا، جن کی ابھی شادی ہوئی ہے، جو اپنا زیور اٹھائے ہوئے تھے اور لڑکی نے یہ کہا کہ ہم اس کو کسی فنڈ میں دینا چاہتے ہیں۔ میں نے کہا بھی کہ اپنے لئے بھی کچھ رکھ لو۔ بعد میں یہ خیال نہ آئے کہ کچھ رکھ لیتے۔ لیکن وہ بچی رونے لگ گئی کہ میں نے بڑا سوچ کر یہ فیصلہ کیا ہے اور یہ سب کچھ مَیں دینا چاہتی ہوں۔ اللہ تعالیٰ مجھے اَور دے دے گا۔ یہ زیور جو ہے یہ میں نے جماعت کو ہی دینا ہے۔ یہی مَیں عہد کرکے آئی ہوں۔ اس طرح کے اور بہت سارے واقعات سامنے آتے ہیں۔ تو یہ ہیں اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کی کوشش اور اپنے لئے جنت میں مکان بنانے والی عورتیں۔ اس دنیا میں نیک اعمال ، عبادات اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کر کے اپنے لئے مکان تعمیر کر رہی ہیں، اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کر رہی ہیں۔ اور پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہمیشہ کی جنتوں میں رہنے کی خواہش کرنے والوں کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ اپنے اعمال پر وہ خوش ہو کر بیٹھ نہیں جاتے۔ نہ ان کو اپنی نیکیوں کا کوئی زُعم ہوتا ہے۔ یہ نہیں کہ ہم نے نیکی کر دی۔ ہمارے عمل اچھے ہو گئے۔ ہم بہت خوش ہو گئے ہمیں جنت مل گئی۔ نہ برائیوں سے بچنے پر کوئی فخر ہوتا ہے۔ نہ اپنی عبادات اور نمازوں پر نازاں ہوتے ہیں۔ نہ مالی قربانی میں اپنا سب کچھ پیش کر کے اس بات پر تسلی پکڑ لیتے ہیں کہ ہم نے بڑی قربانی دے دی۔ اب تو ہم اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بن گئے۔ ان تمام نیکیوں کے باوجود وہ اس کوشش میں ہوتے ہیں کہ ہم ہر وقت یُطِیْعُوْنَ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ، اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے والوں میں شامل رہیں۔ اور آج جواللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنا فضل فرماتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے عاشق ِ صادق کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی ہے تو اب ہم اللہ اور اس کے رسول کی کامل اطاعت کا حق اسی صورت میں ادا کر سکیں گی اور کر سکیں گے جب اپنے عہدِ بیعت کو نبھائیں گے ۔اللہ اور اُس کے رسول کے حکم کی پیروی کرتے ہوئے مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور خلافت احمدیہ سے وفا کا تعلق رکھیں گے۔ اور جب ہمارے عمل اور ہماری کوشش اور ہماری دعا کے دھارے اِس سمت میں چل رہے ہوں گے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَیں تم پر رحم کروں گا۔ میری رحمت وسیع تر ہے۔ تمہاری توقعات سے بڑھ کر میری رحمت کے تم نظارے دیکھو گے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میری رضا کے حصول کو تم نے سب سے مقدّم رکھا ہے۔ یہ تمام اعمال اور عبادتیں تم نے میری رضا کے حصول کے لئے کی ہیں تو مَیں تمہیں اُن جنتوں کا وارث بناؤں گا جن کی جزا کا احاطہ بھی تمہاری سوچ سے باہر ہے ۔
اللہ تعالیٰ مجھے بھی اور آپ کو بھی، مَردوں کو بھی اور عورتوں کو بھی اور ہماری نسلوں کو بھی خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرتے ہوئے دنیاوی اور اُخروی ہر قسم کی جنتوں سے فیضیاب فرمائے اور ہم ہر نیکی کے کام کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے کرنے والے ہوں ۔ (آمین)
اب دعا کرلیں ۔