خطا ب حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بر موقعہ عید ملن پارٹی مؤرخہ 24ستمبر2011ء
(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
ایک لمبے عرصہ سے،لمبے عرصہ سے مراد ہے کہ جب سے اس ایسو سی ایشن کا آغاز ہوااس کے بعد جب بھی میرا جرمنی کا دورہ ہوتا تھا تو مکرم عرفان خان صاحب کی طرف سے اور چودھری صاحب کی طرف سے ہمیشہ یہی مطالبہ ہوتا تھا کہ ہم ایک میٹنگ کرنا چاہتے ہیںآپ کے ساتھ،اکٹھے ہونا چاہتے ہیں،get togetherکرنا چاہتے ہیں،لیکن بہرحال بعض وجوہات کی وجہ سے ، مصروفیات کی وجہ سے وقت نہیں ملتا رہا، آخر آج انہوں نے مجھے قابو کر لیا ہے اور کیونکہ اس دفعہ لمبا کچھ نسبتًا دورہ تھا اس لئے کسی قسم کا عذر نہیں تھا۔
ایسوسی ایشن کو قائم ہوئے چھ سال ہوئے ہیں۔انسانی زندگی کے لحاظ سے تویہ ابھی نوزائیدہ بچہ کے طرح تھی جوکچھ مہینے کا، چند مہینے کا ہوتا ہے جو infant کہلاتا ہے تین چار سال تک بلکہ اس سے نکل کے اب بچپنے میں تو داخل ہو گئی ہے لیکن یہ بچپنا ان لوگوں کا ہے جنکی داڑھیاں بھی سفید ہو چکی ہیں، اس لئے آپ کا جو معیار ہے وہ بچپنے کا معیارنہیں رہنا چاہئے بلکہ اس چھ سال میں آپ کو بہت آگے بڑھ جانا چاہئے تھا، گو یا یہ کہہ لیں کہ بوڑھے لوگوں کی ایک تنظیم کا ابتدائی دور ہے یا بوڑھے لوگوں کا بچپنا ہے۔اور اللہ کے فضل سے اس وقت یہاں جوبیٹھے ہوئے ہیںاس میں سے فضل الٰہی انوری صاحب شاید طالب علم رہے ہیںمیرا خیال ہے کہ یہ سب سے بڑی عمر کے ہیں، اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ذہنی لحاظ سے بالکل alertہیں۔تو یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ آپ لوگ اس عمر کو پہنچ گئے ہیں جس کا قرآن کریم میں ارذل العمر کا بیان ہوا ہے کہ انسان جب ایسی عمرکو پہنچ جاتا ہے ،جہاں پھربچپنے کی طرف واپسی شروع ہو جاتی ہے۔ لیکن بعض کا م جو ہونے چاہئے تھے جیسا کہ انہوں نے رپورٹ میں کہا اور جو وعدے تھے جو intessism تھا اس کو قائم نہیں رکھا جا سکااور نہ صدر نہ انتظامیہ قائم رکھ سکتی ہے جب تک ہر ممبر میں ایک جوش اور جذبہ نہ ہو۔
تعلیم الاسلام کالج ایک وہ درسگاہ تھی جب تک جماعت کے پاس رہی اورخاص طور پر اس زمانہ کے لوگ جنہوں نے حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے دور میں اس میں وقت گزارا کہ کس طرح ماں سے بڑھ کر اس درسگاہ نے ہمیں سنبھالا۔پس اس درسگاہ کا یہ حق بنتا ہے کہ اس میں پڑھنے والے طلباء وہ لوگ جنہوں نے اس کے نام پہ ایک ایسو سی ایشن قائم کی ہے اس کی لاج رکھتے ہوئے جو بھی منصوبے آپ نے بنائے ہیںاس کے پورا کرنے میں بھر پورکردار ادا کریں۔
عرفان صاحب سے میں پوچھ رہا تھا، ان کے مطابق تو یہاں ابھی جتنے ممبر ہیں ٹی آی کالج کے پڑھے ہوئے لوگ ہیں ، سٹوڈنٹس ہیں، انہوں نے پوری طرح ممبر شپ بھی نہیں لی اور جو ممبر ہیں وہ بھی اس طرح activeنہیں جس طرح ہونے چاہئیں۔آپ اس ایسو سی ایشن کے بنانے میںpioneerہیںاور آپ کی دیکھا دیکھی یوکے میں بھی ایسوسی ایشن قائم ہوئی۔پہلے کچھ قائم ہوئی پھر اسکا بھی وہی حال ہوا ، سال دو سال بننے کے بعد وہ dormantہو گئی۔ پھر نئے سرے سے انکو جوش آیااور جو دوبارہ جوش انکا آیاآج سے دو سال پہلے،اس میں بعض کام انہوں نے بڑے اچھے کئے ہیں۔اسی طرح امریکہ میں اسی طرح کینیڈا میںتو سب لوگ آپ کی دیکھا دیکھی ایسو سی ایشن قائم کرنا چاہتے ہیں جو مجھے خط لکھتے ہیں۔ پس یہ شکوہ جو انتظامیہ کو ہے اپنے ممبران سے اس کو دور کرنے کی کوشش کریںتبھی ہم اس ایسو سی ایشن کواس نہج پہ چلا سکتے ہیں، ان مقاصد کو پورا کر سکتے ہیں جس کے لئے آپ نے یہ ایسو سی ایشن بنائی ہے۔اگر تو صرف get togetherہے تو پھر تو سال میں ایک دفعہ پانچ دس یورو contributeکر کے آپ ایک دعوت کر سکتے ہیں، اور دو چار شعر سنائے ،کچھ باتیں کی، کچھ کہانیاں سنیں،کچھ سنائیں،اور مجلس برخاست ہو گئی، تواس کاتوکوئی فائدہ نہیں۔فائدہ تو تبھی ہے جب کسی مقصد کو پورا کرنے کے لیے آپ اس ایسو سی ایشن کو ذریعہ بنائیں اور آپ کے مقاصد ایسے تھے جو شروع میں بیان کئے گئے ۔ جس جذبہ کے ساتھ یہ ایسو سی ایشن شروع کی گئی میرا خیال تھا کہ انشاء اللہ تعالیٰ اچھا کردار ادا کریںگے ۔ایک تو organizeہو کے ، کالج کی اپنی ایک انفرادیت قائم ہو جائیگی ۔آپ کے بچوں کو بھی پتہ لگے گا کہ ہم لوگ کس طرح اپنی اس درس گاہ کی روایات کی حفاظت کرنے والے ہیںجس نے ہمیں ماں کی طرح پالااور کیا کیا ذمہ داریاں ہمارے پہ ہیں جنکو ہم نے پورا کرنا ہے۔
عرفان صاحب نے اپنی رپورٹ میں کیاکہ باوجود اس کے کہ ہماری توجہ دلانے کے کہ بچوں کو ساتھ لے کے آئیں، نہیں آتے رہے،لیکن آج جو مجھے نوجوان چہرے نظر آرہے ہیں اگر وہ یہاں کے ،خود اپنی مرضی سے آئے ہوئے بچے نہیں ہیں اور نوجوان نہیں ہیں اور old studentsکے بچے ہی ہیںتو ان نوجوانوں کی تعداد مجھے بوڑھوں سے زیادہ نظر آرہی ہے۔ پرانے طلباء سے زیادہ نظر آرہی ہے۔پس ان میں شوق پیدا کرنے کے لئے انکی پسند کے بھی کوئی پروگرام بنانے چاہئیں تاکہ ان کو بھی احساس رہے کہ جو نیکیاں ہمارے بڑوں نے جاری رکھنے کا عہد کیا ہے اس کو ہم نے بھی پورا کرتے رہنا ہے۔
چودھری حمید صاحب نے بتایا اسی طرح عرفان صاحب نے بھی رپورٹ میں پیش کیا کہ نظارت تعلیم کو بچوں کی فیس کے لئے آپ نے ایک وظیفہ مقرر کیاتھا دس طلباء کو ہم خرچ دیں گے اور باہر رہتے ہوئے یا اندازہ نہیں
چوہدری حمیدصاحب نے جو بیان کیا کہ دگنی شاید فیس ہو گئی ہو، ان ملکوں میں رہتے ہوئے جب آپ دیکھتے ہیں inflation rateاتنا بڑھ گیا ہے ،تو جو غریب ملک ہیںاور خاص طور پر پاکستان جیسا ملک جہاں ارباب حکومت جو ہیں ان کا کام صرف اپنی جیبیں بھرنا اور قوم کے خزانے خالی کرنا ہے، کوئی توجہ نہیں دینا ہے،وہاں توeconomyکا بہت برا حال ہے۔ اور وہی بچہ عام پرائمری سکول میںجس کا خرچ آج سے چھ سات سال پہلے دس سال پہلے ،زیادہ سے زیادہ پانچ چھ سو روپے ہوا کرتا تھاوہ آج چھ سات ہزار روپے ہو تاہے۔ بہر حال نظارت تعلیم نے مجھے کل پرسوں بھی، میں ڈاک میں دیکھ رہا تھا اِن کا خط آیا اور شکریہ انہوں نے ادا کیا تھا، اور آج اتفاق سے آپ کی میٹنگ ہے تو میں بھی شکریہ ادا کر دوں کہ جو وعدہ آپ نے کیا تھااس رقم کو پورا کرنے کا ،ان کو پہنچ گئی ہے، اور ان کی اطلاع مجھے آئی تھی، رپورٹ آئی تھی کہ جرمنی والوں نے وہ رقم دے دی ہے ۔ بہر حال اس کے لئے آپ لوگوں کا شکر گزار ہوں کیونکہ شکرگزاری تو انسان کو ہر حالت میں کرنی چاہئے ۔ لیکن میں سمجھتا ہوں ایسو سی ایشن اگر ممبران سے مستقل رابطہ رکھے اور ممبران خود ایک جذبہ کے تحت اپنی اس درسگاہ کے تقدس کو سامنے رکھتے ہوئے اور اس کا لحاظ رکھتے ہوئے اپنا حق اداکرنے کی کوشش کریں تو احمدی بچوں کے لئے آپ بہت کچھ کر سکتے ہیں ۔ بہت سارے لوگ یہاں ہیں اور اب یہاں آپ ایک یورو دیتے ہیں تو تقریبا ًسو روپے کے برابر ہے یا اس سے زیادہ ہوگا ۔ لیکن اس سے وہاں جب خرچ کیا جا رہا ہوتا ہے تو ایک غریب بچے کے لئے بہت بڑی نعمت ہوتی ہے ۔ یہاں آپ کے بچے برگر کھاتے ہیں اورجب ساتھ ایک ٹِن کوک کا پی لیتے ہیں، توکم از کم تین چار یورو خرچ کر لیتے ہیں۔ تو اگر ایک برگر اپنے بچے کا بچا لیںاِس کو احساس دلا دیں ،نوجوان ہیں، وہ دیکھ لیںتو بہت کچھ ہو سکتا ہے۔
امیر صاحب کو تو آپ پہ اور بھی زیادہ حسن ظنی تھی، ان کو میں نے کہا کہ حسن ظنی اچھی چیز ہے لیکن اتنی زیادہ بھی حسن ظنی نہ رکھیں ۔ ان کا خیال تھا کہ ایسو سی ایشن جو ہے اتنی امیر ہے کہ ہمیں سو مساجد سکیم میں ہر سال ایک مسجد بنا کے دے سکتی ہے ۔تو بہر حال میں نے کہا فی الحال ان کو پاکستان کے بچوں کا جو وظیفے کی رقم انہوں نے وعدہ کیا ہوا ہے وہی پوری کر لیں تو غنیمت ہے۔ اور جہاں تک ویب سائیٹ کا تعلق ہے اس میں تو بڑا اچھامواد آپ ڈال رہے ہیں، لیکن ایک رسالہ بھی چھپنا چاہئے ، یوکے ایسو سی ایشن نے رسالہ کا اجراء کر دیا ہے ۔ اور اس میں بعض پرانے سٹوڈنٹس کے اچھے مضامین آتے ہیں۔ اس سے بھی دلچسپی پیدا ہوتی ہے ۔ اگر اس میں ایک صفحہ جرمن زبان میں رکھ دیں تو آپ کے جو نوجوان بچے یہاں ہیں انکو بھی احساس ہو جائے گا کہ ایسو سی ایشن کیا چیز ہے ۔ اور ہمارے ماں باپ نے جس طرح تعلیم حاصل کی اور جس طرح کے حالات میں پھر یہاں آئے یہاں جس طرح ہمیں تعلیم حاصل کرنے کے مواقع مل رہے ہیں ،آسانیاں ہیں، تو اس کا شکرانے کے طور پر ہمیں کیا کچھ کرنا چاہئے توا سی طرح آگے جاگ لگتی چلی جاتی ہے ۔ اور نیکیاں قائم رہتی ہیں تویہ نیکیوں کی جاگ لگا نا بھی ایسو سی ایشن کا کام ہونا چاہئے۔
غیر از جماعت کی بھی انہوں نے مثال دی ہے اور بھی میں جانتا ہوں بہت سارے ہیں ، جو اس پرانے زمانہ کے غیر از جماعت تھے ،اب چنیوٹ جو ہمارے ساتھ شہر ہے اورربوہ کی اور احمدیوں کی دشمنی میں بڑھا ہو ا شہر ہے، لیکن وہاں سے اس زمانہ میں جتنے اچھے لڑکے تھے ٹی آئی کالج میں پڑھنے کے لئے آیا کرتے تھے۔ اوروہ جتنااچھا talent تھا چنیوٹ کا، یہیں سے پڑھا ہو اہے اس میں ڈاکٹر بھی بنے ہیں انجینیرز بھی بڑے بنے ہیں ۔ میرے بھی کلاس فیلوہیں اور یہاں آ کے ان کی سوچ بالکل اور ہوتی تھی۔ ربوہ آتے تھے پڑھنے کے لئے روزانہ آنے والے تھے ، پانچ چھ سات گھنٹے جو کالج میں گزارتے تھے وہ یہ لگتا ہی نہیں تھا کہ یہ لوگ اس شہر کے رہنے والے ہیں جہاں سوائے مولویوں کے زیر اثر مغلظات کے اور احمدیوں کے متعلق کچھ نہیں کہا جاتا۔ ہمیشہ تعریف کرنے والے ادب کرنے والے احترام کرنے والے۔
بچوں کے لئے میں یہ بھی بتا دوں کہ استاد کا مقام جو ہے وہ باپ کے برابر ہے ۔ تو یہاں کے بچوں کو ہمیشہ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ان سکولوں میں جو آپ پڑھ رہے ہیں تو یہی مقام آپ کو یہاں دینا چاہئے اور اکثریت جہاں تک میں پہلے بھی ذکر کر چکا ہوں کہ سکولوں کے ہیڈ ٹیچرز سے یا ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے لوگوں سے جرمنی میں بھی اور اَور ملکوں میں میری بات ہوئی ہے ان کو یہ بڑا واضح فرق نظر آتا ہے کہ احمدی بچے دوسرے بچوں سے مختلف ہیں اور یہی اعلیٰ اخلاق ہیں جو ہم میں قائم رہنے چاہیں ۔تو اس کی نگرانی بھی والدین کا کام ہے ۔
آپ میں سے بہت سارے ایسے ہیں جن کے اب بچے تو نہیں لیکن ان کے آگے بچوں کے بچے ایسے ہیں جو سکولوں میں جانے والے ہیں۔ جب تک زندگی ہے اپنی کوششیں ہمیں جاری رکھنی چاہئیں۔ ربوہ کا ماحول بڑا خوبصورت ماحول ہوتا تھا 74ء سے پہلے ، پھر سکول nationaliseہو گئے ۔ اب کالج کا یہ حال ہے کہ ایک غیر احمدی استاد نے،سٹوڈنٹ نے جو وہاں پڑھتے رہے تھے ، لکھا کہ میں ٹی آئی کالج کے سامنے سے گزر رہا تھا ، اور اس کی حالت دیکھ کر مجھے رونا آگیا کہ کیا وہ زمانہ تھا جب یہ درسگاہ سارے علاقے میں مشہور تھی ، گیمز میں ، پڑھائی میں ، اور ایک مقام رکھتی تھی اور آج وہاں اس کاکوئی پرسان حال نہیں ۔
پس باہر آنے والے یہ بھی دعا کریں ربوہ شہر کے لئے، کہ اللہ تعالیٰ اس کی رونقوں کو دوبارہ قائم کرے، اِن درسگاہوں کو دوبارہ وہ مقام ملے، اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک وقت تک تو اس وجہ سے کہ کہیں گورنمنٹ کی پالیسی یہی رہے تو جو بھی ادارہ ہم بنائیں گے nationaliseنہ ہو جائے۔ ادارے نہیں بنائے گئے ۔ لیکن اب پچھلے چھ سات سال آٹھ سال سے بلکہ دس بارہ سال پہلے ایک دو سکول بنائے گئے لیکن پچھلے پانچ چھ سال میں زیادہ سکولوں کا، لڑکیوں کے سکول، سیکنڈری سکول ، بلکہ کالج، سیکنڈری کالج ، ایف ایس سی تک ، بلکہ اب recently میں نے اجازت دی ہے اورایک نیا منصوبہ شروع کیا ہے۔ جو جامعہ نصرت ہے اس میں تواس حد تک بری حالت تھی کہ پڑھائی نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس لئے ہماری بچیاں بھی بی ایس سی کے مضامین پڑھنے کے لئے چنیوٹ جاتی تھیں۔ وہاں جانے سے بچانے کے لئے اب ہم نے جہاں ایف ایس سی کی، سیکنڈری سکول کی، کالج کی کلاسیں ہوتی تھیں وہاں اب انشاءاللہ آئندہ ایک دو ہفتوں میں بی ایس سی کی evening کلاسیں شروع ہو جائیں گی اور ان کو وہ تعلیم تو خیر جو مہیا ہوتی تھی چنیوٹ میں وہ تو ہوگی بلکہ اس سے بہتر ہوگی ۔ تو اب سکول بھی بہت سارے کھل گئے ہیں نئے سکولوں کی عمارتیں بھی تعمیر ہوئی ہیں لیکن اب پڑھائی کے اخراجات اتنے بڑھ گئے ہیں کہ ایک بہت بڑا بوجھ ہے جو پاکستان کی کی جماعت برداشت کر رہی ہے۔ اگر باہر کے لوگ بھی ان کی مدد کریں تو بہت فائدہ ہو سکتا ہے۔
اورسائنس کے لئے خاص طور پہ لیبارٹریزوغیرہ کی بڑی ضرورت ہوتی ہے۔ جس پہ بڑے اخراجات ہوتے ہیں۔ تو بہت ضرورت ہے اس بات کی کہ آپ لوگ اپنی ایسوسی ایشن کو آرگنائز کرکے منصوبہ بندی کریں کہ کس حد تک آپ پاکستان کے غریب احمدی طلباء کی مدد کرسکتے ہیں، جن کو پڑھائی کے حق سے ہی محروم کیا جا رہا ہے۔ بہت ساری جگہیں ایسی ہیں جہاں احمدی طلباء کو سکولوں سے نکالا گیا، کہ تم احمدی ہو۔ تو ان کو بہرحال ربوہ میں لایا جاتا ہے، وہاں سمونے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ ان کی پڑھائی ضائع نہ ہو، یا پھر ایسے علاقوں میں ۔
یہاں تک ہے کہ آپ سن کے حیران ہوں گے، کہ سیکنڈری ایجوکیشن کا بورڈ جو ہے انہوں نے اس دفعہ میٹرک کے اور ایف ایس سی وغیرہ کے داخلہ فارم میں یہ خانہ درج کر دیا کہ یہ لکھو کہ تمہارا مذہب کیا ہے؟ آگے پھرنیچے instruction تھی کہ جو احمدی لڑکے ہوں گے جو فارم احمدی طلباء کے، لڑکوں یا لڑکیوں کیا آئیں گے، ان کی مارکنگ کے لئے علیحدہ examiner مقرر ہوں گے۔ یہ اس حد تک discriminationہے۔ تو اس لئے مجبوراً ہمیں اب وہاں آغا خان بورڈ سے جونیا شروع ہوا ہے کے ساتھ جماعت کے سارے اداروں کو رجسٹر کروانا پڑا ۔
یہ بھی میں آج آپ کو بتا دوں کہ سکول اور کالجز کا 1995-1996ء میں فیصلہ ہوا تھا کہ جتنے اداروں کے تنظیموں کے سکول قومیائے گئے ہیں ، nationaliseہوئے ہیں وہ واپس کر دئے جائیں گے ، بشرطیکہ ایک ایک سال کی سٹاف کی تنخواہ جمع کرا دی جائے اور عیسائی سکولوں نے جمع کروائی، ان کو کچھ ملے ۔ کچھ کراچی میں ہندوپارسیوںکے سکول تھے ان کو ملے ۔ ہم نے بھی جمع کروائی ، میں اس زمانہ میں ناظر تعلیم ہوتا تھا بڑی کوشش سے ہر جگہ جا کے خیر کسی طرح فنڈ اکٹھا کر کے کروڑوں میں رقم تھی وہ جمع کروائی اور جیسے کہ حکومت کی عادت ہے وہ بھی ہضم کرلی اور سکول بھی واپس نہیں ہوئے۔
ہم اس کوشش میں تھے کہ کسی طرح ہمارے ادارے واپس ہو جائیں، تو ہم دوبارہ اس طرح ان کا وہ معیار بحال کرنے کی کوشش کریں جو کسی زمانہ میں ہوا کرتا تھا۔ لیکن بہر حال اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اب نئے سکول اور کالجز جو کھلے ہیں جیسا کہ چوہدری حمید صاحب نے بھی ذکر کیا ہے، بڑے اچھے، well-equiped، فرنیچر وغیرہ کے لحاظ سے بھی، اور لیبارٹریزکے لحاظ سے بھی ہیں ۔ تو جہاں تک جماعت پاکستان کی کوشش ہے وہ بھرپور کوشش کر رہے ہیں کہ اپنے اداروں کو چلائیں اور احمدی بچوں کو سنبھالیں ۔
اسی طرح احمدی طلباء جو مختلف شہروں میں پڑھ رہے ہیں، ان کے وظائف ہیں، وہ بھی دیے جاتے ہیں۔ تو بہرحال یہ تو جماعت کا فرض ہے چاہے یہاں سے مدد جائے یا نہ جائے یا کہیں کوئی اور کرے یا نہ کرے لیکن جو احمدی بچہ ہے اس کا talentضائع نہیں ہونا چاہئے ۔ اور اس کے لئے بھرپور کوشش کی جاتی ہے ۔
یہ دعا بھی کریں کہ اللہ تعالیٰ وہاں ایسا ماحول پیدا کرے کہ احمدی بچوں کو جوتعلیم حاصل کرنے کے مواقع ہیں وہ آسانی سے ہمیشہ مہیا ہوتے چلے جائیں ۔ اور جو قانونی روکیں ہیں یا قانون کی آڑ میں جو ظالمانہ عمل ہیں حکومت اور ان کے کارندوں کے یا سکول چلانے والی انتظامیہ کے، ان کو بھی اللہ تعالیٰ دور فرمائے۔
چوہدری محمد علی صاحب کا ذکر ہوا جو بھی بزرگان پیغام بھیجنے والے تھے، ان میں بھی سب سے بڑی عمر کے، ماشاءاللہ چوہدری محمد علی صاحب ہیں اور وہ بھی اس وقت بڑے activeہیں اس لحاظ سے کہ باوجود بیماری کے، سال میں مہینہ دو مہینہ hospitalبھی رہتے ہیں ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا انگلش میں ترجمہ بڑی محنت سے کر رہے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کو جزاء بھی دے اور ان کی عمر و صحت میں برکت بھی ڈالے۔ ان کے لئے بھی دعا کریں۔ بس ان چند باتوں کے ساتھ میں یہاں اپنی باتیں ختم کرتا ہوں اللہ تعالیٰ کرے کہ یہ ایسو سی ایشن ، آخر پر یہی کہوں گا میں، کہ اللہ تعالیٰ کرے ،یہ ایسو سی ایشن پہلے سے بڑھ کر فعال ہو اور اپنا کردار ادا کرنے کی طرف بھرپور توجہ دینے والی ہو ۔ جزاک اللہ
(اس کے بعد حضورانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دعا کروائی)