خطبہ عیدالاضحی سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 17؍نومبر 2010ء
(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
فَلَمَّا بَلَغَ مَعَہُ السَّعْیَ قَالَ یٰبُنَیَّ اِنِّیْٓ اَرٰی فِی الْمَنَامِ اَنِّیْٓ اَذْبَحُکَ فَانْظُرْ مَا ذَا تَرٰی۔ قَالَ یٰٓاَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِیٓ اِنْشَآئَ اللّٰہُ مِنَ الصّٰبِرِیْنَ ۔ فَلَمَّآ اَسْلَمَا وَتَلَّہٗ لِلْجَبِیْنِ۔وَنَادَیْنٰہُ اَنْ یّٰاِبْرَاھِیْمُ ۔ قَدْصَدَّقْتَ الرُّئْ یَا اِنَّا کَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ۔اِنَّ ھٰذَا لَھُوَالْبَلٰٓؤُ الْمُبِیْنُ۔ وَفَدَیْنٰہُ بِذِبْحٍ عَظِیْمٍ ۔ وَتَرَکْنَا عَلَیْہِ فِی الْاٰخِرِیْنَ ۔(الصفّٰت:103تا 109)
ان آیات کا یہ ترجمہ ہے کہ پس جب وہ اس کے ساتھ دوڑنے پھرنے کی عمر کو پہنچا، اس نے کہا اے میرے پیارے بیٹے! یقینا میں سوتے میں دیکھا کرتا ہوں، مَیں تجھے ذبح کر رہا ہوں۔ پس غور کر، تیری کیا رائے ہے۔ اس نے کہا اے میرے باپ وہی کر جو تجھے حکم دیا جاتا ہے۔ یقینًا اگر اللہ چاہے گا تو مجھے تُو صبر کرنے والوں میں سے پائے گا۔ پس جب وہ دونوں رضا مند ہو گئے اور اس نے اسے پیشانی کے بَل لٹا دیا، تب ہم نے اسے پکارا کہ اے ابراہیم! یقینا تُو اپنی رؤیا پوری کر چکا ہے۔ یقینا اسی طرح ہم نیکی کرنے والوں کو جزا دیا کرتے ہیں۔ یقینا یہ ایک بہت کھلی کھلی آزمائش تھی۔ اور ہم نے ایک ذبح عظیم کے بدلے اسے بچا لیا۔ اور ہم نے بعد میں آنے والوں میں اس کا ذکرِ خیر باقی رکھا۔
آج ہم عیدِ اضحٰی منا رہے ہیں۔ یعنی ایسی عید جو قربانیوں کی عید ہے۔ اس قربانی کی یاد میں عید ہے جو آج سے چار ہزار سال پہلے قربانی کے نئے معیار قائم کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کے دو برگزیدوں نے اپنی طرف سے پیش کر دی تھی۔ لیکن خد ا تعالیٰ نے اُس وقت ایک گردن کے خدا تعالیٰ کی راہ میں کاٹنے اور کٹنے کو اس لئے روک کر صَدَّقْتَ الرُّؤْیَا، یعنی تو نے اپنی خواب پوری کر دی اور گویا گردن کٹوانے کی قربانی قبول ہو گئی، کا اعلان فرمایا تھا کہ اس ایک گردن کٹنے کی بجائے اللہ تعالیٰ ذبحِ عظیم کی مثال قائم کرنا چاہتا ہے۔ ایسی ذبح عظیم جس کا معیار ایک گردن کٹوانے سے بہت بلند ہونے جا رہا تھا۔ جب وہ عظیم نبی پیدا ہونا تھا، جس نے نہ صرف خود خدا تعالیٰ کی راہ میں ہر وقت اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے کے لئے تیار اور مستعد رہنا تھا بلکہ اپنے ماننے والوں میں بھی وہ روح پھونکنے والا تھا جو ہر لمحہ قربانیوں کے نئے سے نئے معیار قائم کرنے والے بنتے چلے جانے والوں کی روح تھی۔ اور پھر چشمِ فلک نے دیکھا کہ قربانیوں کے عجیب رنگ قائم ہوتے چلے گئے۔ معیارِ قربانی کی عجیب مثالوں کے نمونے ابھرنے لگے۔ ان قربانیوں میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرنے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ یہ سوچ رکھتے تھے کہ ہمارا پیارا خدا ہمارے اس عمل سے راضی ہو۔ اگر صبر اور حوصلے کی قربانی دینی ہے تو یہ لوگ اپنے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ پر چلنے کی کوشش کرتے ہوئے ہر لمحہ تیار تھے۔ اگر مال کی قربانی کا وقت آیا تو رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ ایک دوسرے سے بڑھ کر تیار تھے۔ اگر جان کی قربانی کا وقت آیا تو ایسے نمونے قائم ہوئے کہ انسان حیرت میں ڈوب جاتا ہے۔ ان کی جان کی قربانی کے شوق کو دیکھ کر، اس حالتِ شوق کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں ایک جگہ یوں فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَاَعْیُنُھُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَنًا اَلَّا یَجِدُوْا مَا یُنْفِقُوْنَ (التوبۃ:92) اور ان کی آنکھیں اس غم سے آنسو بہا رہی ہوتی ہیں کہ وہ کچھ نہیں رکھتے جسے وہ خرچ کریں۔
یہ خرچ صرف مال کا خرچ نہیں ہے بلکہ اللہ کی راہ میں جب جہاد کے لئے کہا گیا تو اس وقت یہ حالت تھی۔ سفر لمبا تھا تو سواری کی ضرورت تھی جو ان لوگوں کو میسر نہیں تھی۔ غریب لوگ تھے۔ بلکہ ان کی غربت کی یہ حالت تھی کہ ان کے پاؤں میں جوتی بھی نہیں تھی۔ اور بعض روایات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان کا یہ مطالبہ تھا کہ ہمیں جوتی ہی مل جائے تو ہم بھی اس لمبے سفر میں پیدل ہی ساتھ چل پڑیں، سفر میں شامل ہو جائیں۔ ہمیں سواری کے لئے گھوڑا نہیں چاہئے، ہمیں اونٹ نہیں چاہئے، ہم تو صرف اتنا مطالبہ کرتے ہیں کہ جوتی ہی مل جائے تو ہم سفر میں ساتھ شامل ہو جائیں۔(الدر المنثور فی التفسیر بالمأثور جلد4 صفحہ240زیر آیت ولا علی الذین اذا ما اتوک لتحملھم…(التوبہ:92)داراحیاء التراث العربی بیروت2001ء) لیکن اس ابتدائی زمانے میں اتنی بھی توفیق نہیں تھی کہ تمام صحابہ کو ، ایسے غریب صحابہ کو جوتیاں ہی میسر کر دی جاتیں جو اپنی جانیں قربان کرنے کے لئے بے چین تھے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ یقینا وہ مومن تھے جو قربانی کا شوق رکھنے والے ہیں۔ جب ان کو یہ انکار ہوا کہ جماعتی طور پر ہم تمہارے لئے نہ ہی جوتیاں میسر کرسکتے ہیں۔ کسی قسم کی سواری کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ خود اگر انتظام کر سکتے ہو تو کر لو۔ اس پر ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے کہ کاش ہم اس قابل ہوتے تو ہم بھی یہ ثابت کرتے کہ ہم بھی کسی قسم کی قربانی سے ڈرنے والے نہیں۔ یہ مال اور جان خدا کا ہے۔ ہم تو اسے قربان کرنے کے لئے ہر وقت بے چین ہیں۔ اور پھر موقع ملنے پر ان لوگوں نے ثابت کر دیا کہ وہ غلط نہیں تھے، وہ بہانے بنانے والے نہیں تھے۔ پس قربانی کرنے کی خواہشات اور عمل نے ہی ان کو وہ مقام دلوایا جب اللہ تعالیٰ نے ان کو اس سند سے نوازا کہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ، اللہ ان سے راضی ہوا۔ پس جب حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نیصَدَّقْتَ الرُّؤْیَا کے الفاظ میں اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کی تو ان کی نسل میں سے پیدا ہونے والے عظیم نبی نے ذبح عظیم کا وہ عظیم اسوہ قائم فرمایا اور اسوہ قائم فرما کر اپنے ماننے والوں کی قربانیوں کے بھی وہ معیار قائم فرما دئیے کہ جس نے انہیں رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ کا اعزاز خدا تعالیٰ کی طرف سے بخشوا دیا۔ پس یہ عشق و وفا کے کھیت ہیں جو قربانیوں کے معیار قائم کرتے ہوئے پنپتے چلے گئے۔ اللہ تعالیٰ نے ان قربانیوں کے بدلے دنیاوی سازو سامان بھی پھر بعد میں مہیا فرما دئیے۔ ملک بھی عطا فرما دئیے، حکومتیں بھی عطا فرما دیں۔ آج اگر ہم دیکھیں تو بے شک بعض مسلمان حکومتوں کے پاس دنیاوی دولت تو ہے لیکن خدا تعالیٰ کی رضا کا وہ مقام نظر نہیں آتا جس سے خدا تعالیٰ کی قربت کا پتا چلے۔ پھر دولت ہوتے ہوئے بھی غیر مسلم حکومتوں کے اشارے پر چلتے ہیں۔ وہ مسلمان جنہوں نے اپنی قربانیوں کے پھل کھاتے ہوئے دنیا کو خدا تعالیٰ کی عبادت کرنے والا بنا دیا تھا، جنہوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا یورپ تک میں لہرایا، جب قربانی کے معیار کو بھول گئے تو بعض ملکوں سے بھی ہاتھ دھونے پڑے۔ جب اسلام کی تبلیغ کے بجائے لالچوں نے دل میں راہ پا لی تو حکومتیں بھی کمزور ہو گئیں اور عزت بھی گئی۔ آخر سب کچھ ہاتھ سے دھونا پڑا۔ اور آج مسلمان ملکوںکی وہ عزت اور وقار قائم نہیں۔ آج اگر ردّ عمل کے طور پر مسلمانوں میں سے کوئی طاقت ابھرنے کی کوشش کر رہی ہے، جو اپنے زعم میں اسلامی نظام رائج کرنا چاہتے ہیں تو وہ بھی ایسے غیر تربیت یافتہ لوگوں کی ہے جو اسلام کا نام روشن کرنے کی بجائے اپنی متشددانہ سوچ کی وجہ سے غیر مسلم دنیا میں اسلام کو بھی بدنام کر رہے ہیں اور اپنے معصوم مسلمانوں کو ظالمانہ طریق پر قتل و غارت اور لوٹ مار کر کے ختم کر رہے ہیں۔ پس مسلمان حکومتوں کو اور علماء کو بھی اپنی سوچوں کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ اس حج کے موقع پر مفتی اعظم سعودی عرب نے اپنے خطبے میں بالکل سچ کہا ہے کہ عدل نہ ہونے سے بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ اگر مسلمان حکمران عوام کے حقوق کا خیال نہ رکھیں گے تو یہ بگاڑ پیدا ہو گا۔ انہوں نے بالکل صحیح کہا ہے کہ مسلمانوں کا خون بہایا جا رہا ہے اور اسلام میں دہشتگردی کی کوئی گنجائش نہیں۔ وہ یہ بھی صحیح فرماتے ہیں کہ دوسری قومیں مسلمانوں کو لڑانا چاہتی ہیں۔ وہ یہ بھی صحیح کہتے ہیں کہ مسلمانوں میں اتفاق کی ضرورت ہے۔ لیکن وہ بھی اور دوسرے مسلمان علماء اور لیڈر بھی اس بات کو ماننے کے لئے تیار نہیں کہ اسلام کی حقیقی روح قائم کرنے کے لئے اس زمانے میں جس شخص کو خدا تعالیٰ نے بھیجا ہے اس کے آگے سرِ تسلیم خم کر دیں اور سرِ تسلیم خم کر کے مسلمان اپنی عزت بحال کریں، مسیح و مہدی کے ہاتھ پر جمع ہو کر اُمّت واحدہ کا نظارہ پیش کریں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق کے مطیع بن کر قربانیوں کے معیار قائم کریں۔ مسیح محمدی کے ساتھ جُڑ کر اپنے روحانی معیار بلند کریں، جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کا ذریعہ بنیں۔ پس آج اگر اس تسلسل کو جاری رکھنا ہے جو حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہم السلام کی قربانیوں سے شروع ہو کر اس ذبحِ عظیم کے مقام تک پہنچا جو ہر قسم کی قربانیوں کے معیار قائم کر گیا۔ تو پھر اس عظیم نبی کی پیشگوئی کے مُصدّق بنتے ہوئے مسیح و مہدی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق سے منسلک ہونا بھی ضروری ہے۔ اور اگر مسلمان ایک ہو کر زمانے کے امام کی مخالفت کرنے کی بجائے اس کے ہاتھ مضبوط کرنے والے بن جائیں تو پھر وہ دنیا کو وہ نظارہ دکھانے والے بن جائیں گے جب مسلمانوں کی کھوئی ہوئی ساکھ دنیا کو دوبارہ نظر آئے گی، انشاء اللہ۔
آج نہ کسی مفتی اور عالم کا وعظ مسلمانوں کو ایک کرنے کے کام آ سکتا ہے، نہ کسی بادشاہ کی تیل کی دولت مسلمانوں کو ایک ہاتھ پر جمع کر سکتی ہے اور نہ ہی متشددانہ نظام قائم کر کے قرونِ اولیٰ کی قربانیوں کے معیار قائم کئے جا سکتے ہیں۔ ہاں چند دن چند لوگ وعظ کی تعریف کر کے اس پر عمل کرنے کی ضرورت پر ضرور زور دیں گے۔ دولت سے اسلام کے نام پر بادشاہ اور حکومتیں اپنے مفادات ضرور حاصل کر سکتی ہیں۔ شدت پسند تنظیمیں غریب اور بھوک اور افلاس سے مارے ہوئے خاندانوں کے بچوں کو مذہب کے نام پر غلط طور پر استعمال کر کے اور ان کی brainwashingکر کے خود کش حملوں کے لئے قربانی کے نام پر ضرور استعمال کر سکتے ہیں۔ لیکن ان brainwash کئے ہوئے بچوں کو جب اس کیفیت سے باہر لایا جاتا ہے تو پھر وہ جان بچانے کی فکر میں ہوتے ہیں۔ گویا کہ یہ ان کے دل کی آواز نہیں۔ اور ایسے کئی لڑکے سامنے آ چکے ہیں جن کو پولیس نے پکڑا تو انہوں نے بیان دئیے، جب ان کو تحفظ دیا گیا تو وہ اس قربانی سے پھر گئے۔ پس جب یہ لوگ یہ بچے ہوش و حواس میں آتے ہیں تو ان کی سوچیں بدل جاتی ہیں۔ اور اب جائزہ لیں تو اکثر خود کش حملے کرنے والے وہ بچے بھی ہیں جن کی اپنی سوچیں نہیں ہیں۔ کسی matureسوچ والے کو آپ کبھی عموماً خود کش حملوں میں ملوث نہیں دیکھیں گے۔ ہوش و حواس کی قربانی تو ان دو بچوں معوّذ اور معاذ کی تھی جنہوں نے چیتے کی طرح دشمن کے دل میں پہنچ کر ابوجہل کو واصلِ جہنّم کیا تھا۔ لیکن وہ جان کے نذرانے پیش کرنے والے اپنے دین کو بچانے کے لئے، دشمن کے حملوں کا جواب دینے کے لئے میدانِ جنگ میں جاتے تھے۔ ورنہ تو صبر و رضا کے ساتھ تکلیفوں کو برداشت کرنے کا دور کوئی تھوڑے عرصے کا دَور نہیں تھا۔ لیکن آج کونسی اسلامی جنگیں ہو رہی ہیں جن میں اسلام کے دفاع کے لئے یہ حملے کرتے ہیں۔ اور پھر حملے بھی اپنے ہی مسلمان ملکوں کے رہنے والوں پر اور ملکی قانون کی پامالی کرتے ہوئے۔ پس یہ نام نہاد قربانیاں خدا کے ہاں مقبول ہونے والی قربانیاں نہیں ہیں۔ مفتی اعظم سعودی عرب نے ٹھیک فرمایا ہے کہ ہمیں اپنی حالتیں بدلنے کی ضرورت ہے۔ کاش کہ وہ یہ بھی فرمادیتے کہ ان حالتوں کے بدلنے کے لئے اللہ تعالیٰ کے کسی فرستادے کو تلاش کرو۔ اور زمینی اور آسمانی نشانات کو دیکھتے ہوئے یہ اعلان بھی کر دیتے کہ گو نشانیاں تو ظاہر ہیں اور ہو رہی ہیں لیکن ہمیں دعویٰ کرنے والے پر کچھ تحفظات ہیں۔ آؤ اس حج کے دوران خصوصاً جو حج کرنے والے ہیں اور مسلمان اُمّت عموماً یہ دعا کرے کہ اے خدا! اگر یہ دعویٰ کرنے والا سچا ہے تو ہمیں حق سے محروم نہ کریو۔ ہماری رہنمائی فرما تا کہ ہم تیرے پیغام کو جو تُو نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے دیا ہے قبول کر کے تیری رضا حاصل کرنے والے بن جائیں۔ اگر سچے دل سے اور نیک نیتی سے یہ دعا کریں گے تو یقینا اللہ تعالیٰ رہنمائی فرمائے گا۔ انشاء اللہ۔ اور اس مسیح و مہدی کی بیعت میں آ کر جہاد کے اسلوب بھی ان کو پتا چلیں گے۔ اور قربانیوں کے معیاروں کا بھی اِدراک پیدا ہو گا۔ اور اس زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ احمدی کا بھی پتا چلے گا۔ کیونکہ اس زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ احمدی ہے جس نے دنیا میں انقلاب پیدا کرنا ہے۔ جس نے دنیا کو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی جھولی میں لا کر ڈالنا ہے۔ نرمی، پیار، صبر اور دعا سے دنیا کو اسلام کے جھنڈے تلے جمع کرنا ہے۔
پس آج یہ خدا تعالیٰ کی تقدیرِ مبرم ہے کہ زمانے کے امام اور مسیح محمدی اور اس کے غلاموں نے یہ کام سرانجام دینا ہے۔ اور صبر ،دعا اور قربانی کی روح کو سمجھتے ہوئے، قربانی کے معیار قائم کرتے ہوئے اس کام کو سرانجام دینا ہے۔ جماعت احمدیہ کی تاریخ اس صبر، دعا اور قربانی کے معیار ہمیں دکھاتی ہے۔ قربانی کا معیار خود کش حملوں سے اپنے آپ کو اُڑا دینے سے قائم نہیں ہوتا۔ یا دنیا کو دھوکہ دینے کے لئے خود کُش حملوں کو فدائی حملوں کا نام دینے سے حاصل نہیں ہوتا۔ بلکہ قربانی کا معیار اس صبر و رضا اور اطاعت سے حاصل ہوتا ہے جو خدا کا بھیجا ہوا اپنے ماننے والوں کے سامنے رکھتا ہے۔ جو پیغام سامنے رکھتا ہے اس کی اطاعت کرنے میں ہوتا ہے۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یَضَعُ الْحَرْبَ کی تلقین مسیح و مہدی کے زمانے کے لئے امّت کو فرما دی تو ایمان کا تقاضا ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے۔
(صحیح البخاری کتاب حدیث الانبیاء باب نزول عیسیٰ بن مریم قدیمی کتب خانہ آرام باغ کراچی1961ء)
پس آج احمدی ہیں جو گزشتہ ایک سو بیس سال سے جان، مال، وقت اور عزت کے نذرانے پیش کرتے چلے جا رہے ہیں۔ جماعت احمدیہ کی تاریخ کبھی جان کی اس قربانی کو نہیں بھلا سکتی جو صاحبزادہ عبداللطیف شہید نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں دی۔ باوجود کئی قسم کے لالچوں اور کئی دن کی سوچ و بچار کا موقع ملنے کے آپ نے انتہائی صبر و رضا کے ساتھ ظالموں کی پتھروں کی بارش میں اپنے ایمان کا اظہار کرتے ہوئے جان کی قربانی دے دی۔ جس کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ یقینِ کامل کا نمونہ شہزادہ مولوی عبداللطیف شہید نے دکھا دیا۔ جان دینے سے بڑھ کر کوئی امر نہیں۔ اور ایسی استقامت سے جان دینا صاف بتلا رہا ہے کہ انہوں نے مجھے آسمان سے اترتے دیکھ لیا۔ پھر آپ فرماتے ہیں۔ ’’شہید مرحوم نے مر کر میری جماعت کو ایک نمونہ دیا ہے اور دراصل میری جماعت ایک بڑے نمونے کی محتاج تھی‘‘۔(تذکرۃ الشھادتین روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 57-58) پس امامِ وقت نے جس کی قربانی کو ایک نمونہ قرار دے دیا وہ جماعت احمدیہ کی تاریخ میں سے تو کبھی نہیں نکل سکتی۔ہاں اس نمونے کو سامنے رکھتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کے بعد میں آنے والے جو افراد ہیں،انہوں نے بھی اپنی جان کے نذرانے معیارِ قربانی کو قائم رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے ضرور پیش کئے اور آج تک پیش کرتے چلے جا رہے ہیں۔
یہ سال جو 2010ء کا سال ہے، اس میں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی سچائی کو دل کی گہرائیوں سے مانتے ہوئے آپ کے ماننے والوں میں سے 98لوگوں نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کر دیا۔ اور یہ نذرانہ پیش کرتے ہوئے دنیا کو بتا دیا کہ جس معیارِ قربانی کو ہم قائم کرنے والے ہیں اس کی جڑیں اس روح سے سیراب ہو رہی ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ میں پھونکی تھی ۔ پس جس کی جڑیںاتنی گہری ہوں بلکہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کی قربانیوں تک پہنچتی ہوں، ان جڑوں کو بھلا دشمن کی مخالفانہ ہوائیں یا جھونکے کس طرح ہلا سکتے ہیں؟ مسیح محمدی نے جو پودا لگایا تھا وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج ایک تناور درخت بن چکا ہے، جس کی شاخیں دنیا کے ہر برّاعظم میںکُل 198ممالک میں پھیلی ہوئی ہیں۔ اس درخت کو بھلا یہ مخالفانہ ہوائیں کس طرح ہلا سکتی ہیں۔ ہم نے تو جماعت احمدیہ کی تاریخ میں یہی کچھ دیکھا کہ ہر مخالفت، ہر قربانی پھل لاتی ہے اور پہلے سے بڑھ کر پھل لاتی ہے۔ اب تک کی جماعت کی قربانیوں کی تاریخ میں اس سال سے پہلے 74ء میں سب سے زیادہ شہادتیں ہوئیں تھیں، غالباً تیس کے قریب تھیں۔ لیکن 74ء کے بعد جماعت کو جو وسعت ملی، جس طرح جماعت پھیلی اس کی مثال پہلے نہیں تھی۔ مالی لحاظ سے جن کو نقصان ہوئے، ان کے مالی حالات پہلے سے بہت بہتر ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی انتہا دیکھ کر خود ان قربانی کرنے والوں کو بھی حیرت تھی کہ خدا تعالیٰ کس طرح اپنی قدرت کے نشان دکھا رہا ہے۔ پھر 84ء کا بدنامِ زمانہ آرڈیننس آیا جس 74ء کی اسمبلی کے فیصلے میں مزید سختیاں پیدا کیں۔ احمدیوں کی زندگیاں تنگ کر دی گئیں۔ جیلوں سے احمدیوں کو بھرا گیا۔ اس ظالمانہ قانون کی وجہ سے جس کی انتہا یہاں تک تھی کہ احمدی دوسرے کو سلام بھی نہیں کر سکتے تھے بلکہ اسلامی نام بھی نہیں رکھ سکتے تھے، خلیفۂ وقت کو پاکستان سے نکلنا پڑا تو اللہ تعالیٰ نے جماعت کی وسعت میں وہ راستے کھولے، وسعت پیدا کرنے کے لئے وہ راستے کھولے جن کا پہلے تصور بھی نہیں تھا۔ اور اس قانون کی وجہ سے ایک دنیا میں جماعت متعارف ہوئی۔ پھر یہ جو قانون ہے پاکستان میں رہنے والوں کے لئے آج تک مشکلات پیدا کرتا چلا جا رہا ہے۔ احمدی ان مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ وقتاً فوقتاً جب بھی انتظامیہ کو وبال اٹھتا ہے وہ احمدیوں پر اس قانون کی وجہ سے سختیاں پیدا کرتی ہے۔ تو بہر حال اس قانون کی وجہ سے جو احمدی آج کل پاکستان میں ہیں انہوں نے پھر قربانی کے تسلسل کے معیار قائم کئے ہیں۔ جیسا کہ مَیں نے کہا انتظامیہ میں سے، بلکہ مولویوں میں سے بھی جہاں جس کا بَس چلتا ہے، احمدیوں کے لئے مشکلات کھڑی کی جاتی ہیں۔ اور پھر اس عرصے میں جماعت نے جو جان کی قربانی پیش کی ہے وہ کوئی معمولی قربانی نہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے بھی نوازنے کے رنگ ایسے ہیں کہ جس کے کوئی پیمانے نہیں۔ دشمن کہتا ہے کہ باز آ جاؤ اور احمدیت سے تائب ہو جاؤ ورنہ ہم یہ کر دیں گے اور وہ کر دیں گے۔ یہاں تک کہ جیسا کہ میں نے کہا کہ احمدیوں نے ان کے ظلموں کی وجہ سے جانوں کے نذرانے بھی پیش کئے اور شہادت کا رتبہ پایا۔ لیکن کسی ایک کے بھی قریبی عزیز نے کمزوری دکھاتے ہوئے دشمن کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے۔ زندگی کی بھیک نہیں مانگی۔ اپنے مالی نقصانات سے بچنے کی بھیک نہیں مانگی۔ صبر و استقامت کے وہ نمونے قائم کئے جو یقیناسنہری حروف سے لکھے جانے والے ہیں۔
ابھی حال ہی میں مردان میں مکرم شیخ محمود صاحب کی شہادت ہوئی ہے، ان کا بیٹا عزیزم عارف محمود زخمی ہوا ہے۔ جیسا کہ میں نے خطبہ جمعہ میں بھی بتایا تھا کہ اس زخمی نوجوان سے جب ناظر امورِ عامہ نے فون پر بات کی، تو اس نے ان کو کہا کہ زخموں کے باوجود بھی میں بڑے حوصلے میں ہوں، اور انشاء اللہ تعالیٰ ہمارے ایمانوں کو کوئی ڈگمگا نہیں سکتا۔ پس جس قوم میں ایسی قربانیاں کرنے والے موجود ہوں ، ایسے نوجوان موجود ہوں جو موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے والے ہوں، ان کو موت سے کیا ڈرانا۔ یہ ایمان اُن میں اس یقین کی وجہ سے پیدا ہوا ہے کہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام یقینا آنے والے مسیح و مہدی ہیں۔ اور خدا تعالیٰ کی رضا اب اسی میں ہے کہ اس مسیح و مہدی کے ساتھ جُڑ کر اس کی رضا کو حاصل کیا جائے، اس کے فضلوں کا وارث بنا جائے۔ا ور اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ان کے دلوں کو مضبوط کرتا اور انہیں تسلی دیتا ہے کہ نَحْنُ اَوْلِیٰٓؤُکُمْ فِیْ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ فِی الْاٰخِرَۃِ (حٰم السجدۃ:32)۔ پس جس کا دوست اور ولی دنیا و آخرت میں خدا تعالیٰ ہو جائے اس کو دنیا والوں کی کیا پرواہ ہو سکتی ہے اور اس کو قربانیاں کرنے سے کون روک سکتا ہے۔ پس اس نوجوان نے جب یہ کہا کہ یہ ایک دو گولیاں تو کوئی چیز نہیں ہیں۔ اگر ہمیں چھلنی بھی کر دیا جائے تو پرواہ نہیں۔ تو یہ عزم انہی لوگوں میں پیدا ہوتا ہے جو خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار ہوتے ہیں۔ پس ہم نے جب زمانے کے امام سے عہدِ وفا باندھا ہے تو اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے باندھا ہے۔ اس سوچ کے ساتھ باندھا ہے کہ خدا تعالیٰ سے تعلق کو پروان چڑھانا ہے۔ اس بات کو جانتے ہوئے یہ عہد باندھا ہے کہ عشق و وفا کے کھیت خون سینچے بغیر نہیں پنپتے۔ اس یقین پر قائم ہوتے ہوئے باندھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے جو غلبے کا وعدہ کیا ہے وہ یقینا پورا ہونا ہے۔ کیونکہ بہت سے وعدوں کو ہم نے پورا ہوتے دیکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے وعدے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ کسی زمانے تک محدود نہیں تھے، یا یہ نہیں تھا کہ چند وعدوں نے پورا ہونا ہے اور چند نے نہیں۔ آپ نے اللہ تعالیٰ سے علم پا کر جو پیشگوئیاں فرمائی ہیں یا اللہ تعالیٰ نے آپ کو جو خوشخبریاں دی ہیں وہ پوری ہونے کے لئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے وعدوں سے پیچھے نہیں ہٹا کرتا۔ ہاں اُن سے حصہ لینے کے لئے اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے راستوں پر چلنا ضروری ہے۔ اپنی اطاعت اور قربانی کے معیار قائم کرنے ضروری ہیں۔ جب تک ہم یہ کرتے رہیں گے اللہ تعالیٰ کی نصرت ہمارے شاملِ حال رہے گی انشاء اللہ۔ اگر ہم گہرائی میں جا کر دیکھیں تو مسیح موعود کے زمانے میں اسلام کی نشأۃ ثانیہ کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا ہے۔ اور اسلام کی ترقی احمدیت کے ذریعہ ہونے کا اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے۔ جو اٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ (الجمعۃ:4) میں واضح کر دیا گیا ہے۔ بلکہ اگر ہم مزید غور کریں اور دیکھیں تو خدا تعالیٰ کے وعدوں کے پورا ہونے کی یقین دہانی قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْیَا کے الفاظ سے ہی ہو جاتی ہے۔ اس رؤیا کو پورا کرنے میں صرف باپ کا ہی ہاتھ نہیں تھا بلکہ بیٹے نے جب کہا کہ سَتَجِدُنِیْ اِنْشَائَ اللّٰہُ مِنَ الصَّابِرِیْنَ(الصّافات: 103)۔ اللہ تعالیٰ نے چاہا تو یقینا تُو مجھے صبر کرنے والوں میں پائے گا۔ پس اس صبر کے عہد نے اگلی نسل کے قربانی کے معیار کے حصول کا عندیہ بھی دے دیا۔ صرف گردن کٹ جانے سے صبر کیا ہونا تھا۔ صبر کے جوہر تو اس وقت کھلنے تھے جب مستقل قربانی کے معیار قائم ہونے تھے۔ جب بغیر کسی شکوے کے اللہ تعالیٰ کی خاطر اپنے آپ کو ہر قربانی کے لئے پیش کرنا تھا۔ اور وہ ساری زندگی ایک بے آب و گیاہ جگہ میں بچپن سے آخر تک گزار کر قائم ہوئے۔ اور پھر اللہ تعالیٰ نے جب یہ فرمایا کہ اِنَّا کَذَالِکَ نِجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ۔ یقینا ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح جزا دیا کرتے ہیں۔ دونوں کو اس قربانی کے لئے تیار پا کر محسنین میں شمار کیا۔ لیکن اصل محسنین کا شمار پھر ذبحِ عظیم کے دور کے ساتھ شروع ہونا تھا۔ جب اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوتِ قدسی سے لاکھوں محسنین پیدا کئے۔ لاکھوں نیکیاں بجا لانے والے پیدا کئے جنہوں نے صبر و وفا کے نمونے قائم کئے۔ اور پھر جیسا کہ میں بتا آیا ہوں کہ یہ آخرین کا زمانہ اللہ تعالیٰ نے اس زمانے کے ساتھ جوڑ دیا جس میں پھر صبر و وفا کے نمونے قائم ہونے لگے۔ وفا کے نمونے کی مثال پھر اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کی ہی دی ہے ۔ فرمایا وَاِبرْاھِیْمَ الَّذِیْ وَفّٰی(النجم:38)۔ ابراہیم جس نے کامل وفا کے ساتھ عہد کو پورا کیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس آیت کے حوالے سے فرمایا کہ یہ آواز آئی جب وہ بیٹے کی قربانی کے لئے تیار ہو گیا۔(ماخوذ از ملفوظات جلد4 صفحہ 429-430)پس باپ کی وفا اور بیٹے کا صبر جب مل گئے تو اللہ تعالیٰ نے نہ صرف یہ کہ ان کی یاد کو جاری رکھنے کے لئے حج کی عبادت مسلمانوں میں جاری فرما دی اور پھر یہ کہ وہ عظیم نبی اس نسل میں سے مبعوث فرمایا جس نے فنا فی اللہ ہونے کا ایک منفرد اور عظیم معیار قائم فرما دیا۔ جس کا ذکر قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ یوں فرماتا ہے۔ قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ(الانعام:163) تو ان سے کہہ دے کہ میری نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور میری موت اللہ ہی کے لئے ہے جو ربّ العالمین ہے۔ اور پھر ہمیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ پر چلو۔ کیونکہ اب یہ اسوہ ہی ہے جو تمہارے لئے معیار بھی قائم کرتا ہے۔ عبادتوں کے معیار بھی قائم کرتا ہے بلکہ ہر خُلق کا معیار ، ہر نیک عمل کا معیار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ میں ہی ہے۔ پس وہ وفا اور صبر اور قربانی کے معیار جوحضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے قائم کئے تھے ، اُن کی انتہا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر آ کر ختم ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے ابتدائی معیاروں سے لے کر انتہائی معیاروں تک کی مثالیں ہمارے سامنے پیش فرما کر پھر ہمیں یہ حکم دیا کہ تمہارے لئے اسوۂ حسنہ یہ انتہائی معیار ہے۔ اس انتہائی معیار کے حصول کے لئے صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ہزاروں اسماعیل پیدا ہوئے جنہوں نے خدا تعالیٰ کے نام کی سربلندی کے لئے ، اسلام کے دفاع کے لئے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی تعلیم کو دنیا میں پھیلانے کے لئے، اپنی گردنیں کٹوائیں اور جانو ں کے نذرانے پیش کئے۔ وفا اور صبر کے نمونے دکھائے۔ اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے اللہ تعالیٰ نے انہیں اس صبر و وفا کی وجہ سے رضی اللہ عنہم کا اعزاز بخشا۔
پس آج مسیح محمدی کے غلاموں کا بھی یہی کام ہے کہ صبر و وفا کے پیکر بنتے چلے جائیں۔ اس سال جو سو کے قریب قربانیاں عشق و وفا کے کھیتوں کو سینچنے کے لئے مسیح محمدی کے غلاموں نے دی ہیں یہ یقینا اس بات کا ثبوت ہیں کہ ہم عشق و وفا کے میدان میں کبھی پیچھے ہٹنے والے نہیں۔ پس ان قربانی کرنے والوں نے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کر لی کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے۔ میرے پاس جو خطوط اس اظہار کے ساتھ آتے ہیں کہ ہم بھی قربانیاں پیش کرنے کے لئے تیار ہیں اور ہم اس گروہ میں ہیں جن کے بارے میں قرآنِ کریم فرماتا ہے کہ وَ مِنْھُمْ مَنْ یَّنْتَظِرُ(الاحزاب:24) یعنی ان میں سے وہ بھی ہیں جو ابھی انتظار کر رہے ہیں کہ کب موقع ملے تو ہم بھی اپنے عہد وفا کو سچا کر کے دکھائیں۔ پس یہ عید ان قربانی کرنے والوں کی قربانیوں کو یاد رکھتے ہوئے، وَ مِنْھُمْ مَنْ یَّنْتَظِرُ کے عہد کی تجدید کی عید ہے۔ یہ خدا تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ اس نے کس سے کس رنگ میں قربانی لینی ہے۔ لیکن اگر ہم عہدِ وفا نبھاتے ہوئے صبر اور دعا کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے ساتھ پختہ تعلق جوڑے رکھیں گے، ہمارے اپنے جو قربانیاں کرنے والے پیارے ہیں، ان کے نمونوں کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے ایمانوں میں مضبوطی پیدا کرتے چلے جائیں گے تو یقینا ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنیں گے۔ یہ تسلّی بھی ہمیں خدا تعالیٰ نے ہی دی ہے کہ خالص ہو کر نیکیاں کرنے والوں کو خدا تعالیٰ جزا دیتا ہے۔ ہمارے قربانیاں کرنے والوں کی قربانیوں کو اللہ تعالیٰ نے اس طرح نوازا ہے کہ افریقہ کے دور دراز جنگلوں اور صحراؤں سے لے کر یورپ و امریکہ کے پُر رونق شہروں تک میں نہ صرف احمدیت کا پیغام پہنچا ہے بلکہ بیعتوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔میں افریقہ کے ایک ملک کی رپورٹ دیکھ رہا تھا کہ جہاں پچھلے سال میں ایک ہزار بیعتیں ہوئی تھیں، ان چند مہینوں میں ان شہادتوں کے بعد وہاں پانچ ہزار کے قریب بیعتیں ہو چکی ہیں۔ اسی طرح ہمارے ایک مبلغ نے رپورٹ میں لکھا کہ ایک جگہ میں گیا جہاں سخت قحط کی صورتِ حال تھی اور فصلیں بھی ان کی تباہ ہو رہی تھیں۔ وہاں کے لوگ نمازِ استسقاء کے لئے باہر نکل رہے تھے۔ تو میں نے ان کے امام سے جو غیر احمدی تھے پوچھا کس طرح پڑھاؤ گے۔ اصل طریقہ تو یہ ہے۔ تو اس نے کہا کہ آپ ہی پڑھا دیں۔انہوں نے نماز پڑھائی اور یہ کہتے ہیں اُس وقت میری کیفیت یہ ہوئی کہ اللہ تعالیٰ پچاسی چھیاسی احمدیوں نے قربانیاں دی ہیں۔(ابھی چند دنوں کی بات ہے جب لاہور کا واقعہ ہوا ہے) آج تُو یہ نظارہ دکھا دے کہ اُن کی قربانیوں کو قبول کرتے ہوئے ہمیں یہاں ایک بڑی جماعت عطا کر دے۔ اور اللہ تعالیٰ نے پھر یہ عجیب نظارہ دکھایا کہ چمکتی دھوپ میں تھوڑی دیر کے بعد بادل آئے اور بارش ہوئی اور اس گاؤں میں اس علاقے میں یہ مشہور ہو گیا کہ یہ احمدیوں کی دعا کی وجہ سے ہماری فصلوں پہ نکھار آیا ہے۔ اور وہاں ایک ہزار سے اوپر بیعتیں ہو گئیں۔ تو یہ نظارے ہیں جو اللہ تعالیٰ دکھا رہا ہے۔ اسی طرح عرب ملکوں سے بعض خطوط آ رہے ہیں، ان کی توجہ پیدا ہوئی۔ گھانا میں دو مسلمان لیڈر جو ہیں انہوں نے بیعت کر لی جو پہلے مخالفت میں پیش پیش تھے۔ تو یہ ہَوا ہے جو اللہ تعالیٰ چلا رہا ہے۔ دلوں کو پھیر رہا ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان قربانیوں کو قبول فرمایا جس کے ظاہری نشان بھی ظاہر ہو رہے ہیں۔ احمدیت کوئی علاقائی مذہب نہیں ہے بلکہ یہ تو اسلام کی حقیقی تصویر ہے۔ اور اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے جس کے دنیا میں غالب آنے کا اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے۔ پس کیا پاکستان یا چند مسلمان ممالک کی مخالفت سے اس عالمگیر پیغام کو روکا جا سکتا ہے۔ یہ مخالفین کی بھول ہے بلکہ مسلمان ملکوں میں بھی احمدیت کی طرف توجہ پیدا ہو رہی ہے۔ یہ اس لئے کہ یہاں مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کی ذات کا سوال نہیں ہے۔ بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے جس کو دنیا کی کوئی طاقت پورا ہونے سے نہیں روک سکتی۔ آج اس کُرّۂ ارض پر صرف ایک جماعت ہے جو مسیح محمدی کے غلاموں کی جماعت ہے جو خدائی وعدے اور تقدیر کا حصہ بن کر اسلام کے پیغام کو دنیا کے کناروں تک پہنچانے کا فریضہ سرانجام دے رہی ہے۔ یہ واقعات ہیں جو میں پہلے بیان کر چکا ہوں۔ اسے میں چھوڑتا ہوں۔
بہر حال یہ صرف جماعتِ احمدیہ ہی ہے جو یہ پیغام پہنچا رہی ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام ہے اور اس کے لئے احمدیوں کی جو قربانیاں ہیں وہ نئے سے نئے راستے دکھا رہی ہیں اور کھول رہی ہیں۔ پس یہ جاگ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لگائی، یہ ذبح عظیم کا ادراک جو ہم میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پیدا فرمایا، یہ آج مسیح محمدی کے غلاموں میں ہر قوم کے احمدی مسلمانوں میں ایک نشان کے ساتھ ظاہر ہوتا نظر آ رہا ہے۔ پاکستان کے احمدی ہیں یا ہندوستان کے احمدی ہیں یا بنگلہ دیش کے یا انڈونیشیا کے یا کسی افریقن ملک کے یا عرب ملک کے، اپنی قربانیوں کے معیار پر غور کرنے لگ گئے ہیں تا کہ اسلام اور احمدیت کا جھنڈا جلد تر دنیا میں لہراتا دیکھیں۔ اللہ کرے کہ یہ عید ہمیں اپنے پیاروں کی قربانیوں کی ہمیشہ یاد دلاتی رہے۔ اور ہم اس وقت تک چین سے نہ بیٹھیں جب تک کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا دنیا کے کونے کونے میں گاڑ کر پیار، محبت، صبر و وفا اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والے کثرت سے دنیا میں نہ دیکھ لیں۔ اور جب یہ ہو گا تو یقینا وہی ہماری قربانیوں کی قبولیت کی حقیقی عید ہو گی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔
خطبہ ثانیہ کے بعد حضور انور نے فرمایا :
اب ہم دعا کریں گے۔دعاؤں میں شہداء کے خاندانوں کو بھی یاد رکھیں۔ مبلغینِ سلسلہ کو بھی یاد رکھیں۔ان سب قربانیاں کرنے والوں کو یاد رکھیں جو کسی بھی رنگ میں جماعت کے لئے قربانیاں دے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ یہ عید ہمارے لئے ہر لحاظ سے بابرکت فرمائے۔ اور ہماری حقیر کوششوں کو قبول فرماتے ہوئے ہمیں جلد فتح و نصرت کے نظارے دکھائے۔ اور ساتھ ہی مَیں آپ سب اور پھر تمام دنیا کے احمدیوں کو عید مبارک کا پیغام بھی دیتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ یہ عید ہر ایک کے لئے، ہر احمدی کے لئے ہر لحاظ سے بابرکت فرمائے۔ دعا کر لیں۔