خطبہ عیدالفطر سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 4؍نومبر2005ء

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

وَاعْبُدُواللّٰہَ وَلَا تُشْرِکُوْا بِہٖ شَیْئًا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّبِذِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنِ وَالْجَارِ ذِی الْقُرْبٰی وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ وَابْنِ السَّبِیْلِ وَمَامَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ۔اِنَّ ا للّٰہَ لَا یُحِبُّ مَنْ کَانَ مُخْتَالًا فَخُوْرًا

(سورۃالنساء:37)

               اللہ تعالیٰ کا بے انتہا شکرو احسان ہے کہ آج ہم رمضان کے اپنی برکتوں کے ساتھ گزر جانے کے بعد عید منا رہے ہیں۔ گزشتہ تیس دن ہم نے روزے بھی اس لئے رکھے کہ اللہ تعالیٰ کا حکم تھا اور آج یہ خوشی بھی ہم اس لئے منا رہے ہیں کہ خداتعالیٰ کا حکم ہے۔ یہ سبق ہے جو ہمیں رمضان اور اس کے بعد عید دے رہے ہیں کہ ایک سچے مسلمان کی ہر حرکت اور ہر سکون خداتعالیٰ کی رضا کے تابع ہونے چاہئیں، اس کی مرضی کے مطابق ہونے چاہئیں۔ آج ہم میںسے بہتوںنے نئے یا صاف ستھرے کپڑے اس لئے پہنے ہوئے ہیں اور اپنی توفیق کے مطابق اچھے کھانے اس لئے کھا رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ خوشی منائو۔ لیکن یہ خوشیاں اور ان جائز چیزوں کے استعمال کی اجازت ،جن کے استعمال پر گزشتہ ایک ماہ، انتیس دن یا تیس دن مختلف جگہوں پر پابندی رہی، اس لئے نہیں ہے کہ اب تم گیارہ مہینے کے لئے بالکل آزاد ہو گئے ہو،  اب بقایا گیارہ مہینے جو ہیں  خوب کھائو پیو اور عیش کرو۔ ہر قسم کے ضابطۂ اخلاق کو یکسر بھلا دو ۔ اس عید کا قطعاً یہ مقصد نہیں ہے۔  اور اس اجازت کا قطعاًیہ مقصد نہیں ہے۔ اس لئے یہ ذہن میں رکھنا چاہئے کہ جس طرح قیدی آزاد ہوتے ہیں یا کوئی دنیا دار کسی مشکل یا مصیبت سے چھٹکارا پاتا ہے تو وہ بڑی دعوت کا اہتمام کرتا ہے، اپنے دوستوں کو بلاتا ہے، خوب اودھم مچتا ہے، لہو و لعب ہوتی ہے، ڈھول ڈھمکے ہوتے ہیں، ناچ گانے ہوتے ہیں،اور خوشی منانے کے نام پر بیہودگیاں ہو رہی ہوتی ہیں۔ یہ تو جیسا کہ مَیں نے کہا تھا کہ ایک سچے مسلمان سے خوشی کا اظہار اورتیار ہونا اور نئے کپڑے پہننا اور کھانا پینا اس لئے ہے کہ آج عید ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ عید منائو۔ اور تیس دن جو جائز باتوں سے اور چیزوں سے ایک خاص وقت کے لئے رُکے تھے وہ اس لئے تھا کہ ان باتوں سے رکنے کا اللہ تعالیٰ کا حکم تھا۔ تو یہ دونوں عمل اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے ہیں۔ اس کے علاوہ جہاں تک عبادتوںکا اور دوسرے نیک کاموں کا تعلق ہے ان کے بارے میں تو یہ حکم ہے کہ جس طرح رمضان میںکرتے تھے اس طرح اب بھی کرو اور ہمیشہ کرتے رہو۔ صرف یہ ہے کہ رمضان میں  ان چیزوں کے لئے ایک خاص ماحول پیدا کیا گیا تھا ۔ یہ رمضان کا مہینہ اس لئے نہیں آیا تھا کہ اللہ تعالیٰ چاہتا تھا کہ اس مہینے میرے بندے بیگار کاٹیں یا ان پر کوئی چٹی ڈالی جائے۔ اللہ تعالیٰ کو تو نہ کسی بیگار کی ضرورت ہے اور نہ کسی سے کسی چٹّی کی ضرورت ہے۔ اس نے تو انسان کو ایک مقصد کے لئے پیدا کیا ہے اور وہ مقصد ہے اس کی عبادت کرنا۔ اور جو بندے اس کی عبادت میں لگے رہیںگے وہ عباد الرحمن کہلائیںگے۔ اور جو اس کے حکموں پر نہیں چلیں گے وہ خود اپنا نقصان کر رہے ہوںگے۔ تو ہم احمدی اس زمانہ کے امام کو ماننے کے بعد ،حضرت مسیح موعود ؑ کو ماننے کے بعد یہ کہتے ہیں کہ اے اللہ! ہم تیرے ان بندوں میں شامل ہونا چاہتے ہیں جو عبادالرحمن بننے والے ہیں، جو عبادالرحمن ہیں، جو عبادالرحمن بننا چاہتے ہیں۔ پس ہر احمدی کو اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ یہ رمضان جو گزرا ہے وہ اس پر کوئی بیگار یا چٹی نہیں تھا کہ مجبوراً عبادتیں بھی کر لیں ، روزے بھی رکھ لئے او رمجبور دل کے ساتھ رمضان کا آخری جمعہ بھی پڑھ لیا۔ اور اب سو حیلوںبہانوں سے عبادتوں سے بھی دور چلے جائیں۔ اللہ تعالیٰ کے دوسرے احکامات سے بھی دور ہٹتے چلے جائیں اور بہانے بنائیں ،عذر تلاش کرنے شروع کر دیں۔ عبادتوں اور دوسرے احکامات کی تعمیل ہم پر ایک بوجھ بن جائے ۔ مختلف تاویلیں ان کو جاری نہ رکھنے کے لئے گھڑ رہے ہوں۔ تو یہ تو ایک احمدی کا مقصد نہیں ہے کہ بعد میں سستیاں پیدا ہو جائیں، کاہلی پیدا ہو جائے۔

                حضرت مصلح موعود   ؓنے ایسے لوگوں کی مثال اس طرح دی ہے کہ کہتے ہیں کہ ایک شخص سردیوں میں نہانے دریا پر جا رہا تھا۔ اس نے   رسم یا مذہب جو بھی تھا اسے پورا کرنا تھا ۔ اور جوں جوں دریا کی طرف قدم بڑھ رہا تھا سردی کی وجہ سے اس کا نہانے کا خوف دریا کے ٹھنڈے پانی کی وجہ سے بڑھتا چلا جا رہا تھا۔ آخر  دریا پر جو پہنچا تو ہمت نہیںہوئی کہ دریا میں نہائے۔ اس نے چھوٹا سا کنکر یا پتھر کا ٹکڑا اٹھایا اور دریا میں پھینک دیا  کہ تورا شنان مورا شنان۔ کہ تیرا نہانا میرا نہانا برابر ہو گیا۔ یعنی تو پانی میں چلاگیا سمجھ لو کہ مَیں بھی پانی میں چلا گیا۔واپس آتے ہوئے اس کو ایک شخص ملا۔ اس نے کہا کہاں سے آ رہے ہو؟ بتایا کہ اس طرح مَیں دریا پر نہانے گیا تھا۔ وہ بھی رسم پوری کرنے جا رہا تھا۔ تو سردی بڑی تھی مَیں تو یہ کرکے آیا ہوں کہ  پانی میں ایک کنکر پتھر پھینکا ہے اور  یہ فقرا دہرا آیا ہوں۔ تو اس نے کہا یہ تو بڑی آسان ترکیب ہے۔ تو اس نے  بجائے اس  کے کہ دریا کے کنارے تک پہنچتا وہیں سے کھڑے کھڑے ایک پتھر کا ٹکڑا پھینک دیا اور کہہ دیا تورا شنان مورا شنان ۔تو عبادتوں میں حیلے بہاے نہیں تراشنے چاہئیں۔ آسانیاں ضرورت سے زیادہ پیدا کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے۔ اس رمضان میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں موقع دیا کہ اس میں ہم روزے رکھیں اور پہلے کی نسبت بہتر رنگ میں عبادتوںکی طرف توجہ بھی دیںاور  یہ تبدیلی پورے ماحول میں تبدیلی کی وجہ سے ہم میں آئی، چاہے مجبوری سے آئی یا جس وجہ سے بھی آئی۔ اس کو اب ہر احمدی کو زندگی کا حصہ بنانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ یہ تو    اللہ تعالیٰ نے ایک ٹریننگ کا موقع دیا تھا کہ تم کہتے ہو میری عبادتوں کی طرف توجہ نہیں ہوتی، میرے سے اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پوری طرح ادائیگی نہیںہوتی تو یہ مہینہ ہے اس میں سب لوگ اس طرف متوجہ ہیں۔ ہر کوئی عبادت میں لگا ہوا ہے، ہر کوئی اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔  عام حالات میںتم سے جو سستیاں ہو جاتی ہیں تو ان دنوں میں اس ماحول کی وجہ سے ان کو دور کرنے کی کوشش کرو تاکہ ٹریننگ حاصل ہو جائے۔ اور پھر یہ ایک دفعہ کی ٹریننگ  کا عمل جوہے یہ  زندگی کا مستقل حصہ بن جائے۔ اس ٹریننگ کے مہینے میں جو تو پہلے ہی عبادتیں کرنے والے ہیں کرتے ہیں۔ حقوق کی ادائیگی کی طرف توجہ دینے والے ہیں وہ اس ٹریننگ کی وجہ سے مزید اپنے اپنے معیار بہتر کرتے ہیں۔ پھر جس معیار کو حاصل کر لیتے ہیں اس پرقائم رہنے یا مزید بہتر کرنے کی رمضان کے بعد بھی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ اور جو سست تھے، نمازوں میں بے قاعدہ تھے باقاعدگی نہ رکھنے والے تھے، بعض احکامات پر عمل نہ کرنے والے تھے وہ بھی بہتر تبدیلی کی طرف قدم بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور  اس کے بعد بھی کوشش کرنی چاہئے ۔ اگر رمضان کے بعد پھر بہانے جوئیاں ہونے لگ جائیں، بہانے بنانے لگ جائیں، او رصرف اس سوچ میں رہے کہ کنکر پھینک کر ہی نہا لیں گے اور مستقل عمل نہیںکریں گے ان کے لئے تو رمضان آیا نہ آیا برابر ہو گا۔ پس ہر احمدی کو یہ سوچ رکھنی چاہئے کہ اس نے کسی کنکر پتھر کو نہیں نہلانا بلکہ خود اس مصفٰی اور صاف پانی سے فیض اٹھانا ہے۔ اور رمضان کے دنوں کی مجبوری کی وجہ سے یا ماحول کے زیر اثر جو نیک تبدیلی کی طرف اُسے توجہ پیدا ہوئی ہے اسے نہ صرف جاری رکھنا ہے بلکہ اس میں بہتری پیدا کرنی ہے۔ اس ٹریننگ کی اب عام حالات میں دہرائی کرنی ہے تاکہ یہ   نیک عادتیں  جو پڑی ہیں وہ پکی ہو جائیں ۔ عید کی خوشیاں اور عید کے پروگرام او ر رات گئے تک دعوتیںاور مجلسیں اس ماحول کے اثر سے  اور  اس ٹریننگ سے دور نہ لے جائیں جو رمضان کے دنوںمیں حاصل ہوئی ہے۔ اس لئے آج عید کے دن سے ہی اس بات پر پکے ہو جائیں کہ نمازوں میں بھی باقاعدگی رکھنی ہے اور دوسرے اعمال بھی بجا لانے ہیں۔ ایک حدیث مَیں نے گزشتہ جمعہ بیان کی تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص محض للہ دونوں عیدوں کی راتوں میںعبادت کرے تو اس کا دل ہمیشہ کے لئے زندہ کر دیاجائے گا۔ اور اس کا دل اس وقت بھی نہیں مرے گا جب سب دنیا کے دل مر جائیں گے۔ پس اپنے دل کو مردہ ہونے سے بچانے کے لئے اور ہمیشہ کی زندگی دینے کے لئے ضروری ہے کہ مجبوری یا شوق یا حالات یا ماحول جس وجہ سے بھی رمضان میں اپنے دلوںکو عبادت کی طرف راغب کیا تھا اس پر اب قائم ہو جائیں اور اللہ تعالیٰ کے حکموںپر مستقل مزاجی سے عمل کریں۔

               یہ آیت جو مَیں نے تلاوت کی ہے اس میں اللہ تعالیٰ نے بعض احکامات کی طرف توجہ دلائی ہے۔ یہ نہیں فرمایا کہ یہ احکامات رمضان کے لئے ہیں، صرف رمضان میں ان پر عمل کرنا ہے بلکہ یہ عام زندگی کے لئے احکامات دئیے گئے ہیں۔ بلکہ مومن کی یہ نشانی بتائی گئی ہے کہ وہ ان نیکیوں پر عمل کرتے ہیں۔ اگر نہیں کرتے تو متکبر ہیں، شیخی بگھارنے والے ہیں اور ایسے لوگوں کو اللہ پسند نہیںکرتا۔ یہ سب باتیں جن کا اس آیت میں ذکر ہے ایسی ہیںکہ رمضان کے خاص ماحول کی وجہ سے ہر گھر میں کچھ نہ کچھ حد تک ان پر عمل ہو رہا ہوتا ہے، یا عمل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہوتی ہے۔ پس مزا  تو اب چکھ ہی لیا ہے۔ اب اس کی عادت بھی ڈال لینی چاہئے۔ پہلی بات جو بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ ایک  اللہ کی عبادت کرو اور نہ صرف عبادت کرنی ہے بلکہ شرک سے پاک عبادت ہو۔ دنیاوی مسائل اور مجبوریاں اور دوسری بعض دلچسپیاں جو ہیں عبادت کے وقتوں سے آگے پیچھے  کرنے والی نہ  ہو جائیں۔ ورنہ یہ بھی ایک قسم کا شرک ہے جو ایک انسان کے اندر ہوتا ہے۔

                ایک حدیث میں آتا ہے حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہتے ہیں کہ مَیں نے آنحضرت  ؐ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ نماز کو چھوڑنا انسان کو کفر اور شرک کے قریب کر دیتا ہے۔پس ہم میں سے ہر ایک کو ہمیشہ یہ کوشش کرنی چاہئے،اس بات کا جائزہ لیتے رہنا چاہئے کہ میں نماز میں کسی قسم کی کوئی کوتاہی کرنے والا تو نہیں۔ رمضان کے بعد اس بارے میں مجھ سے سستی تو نہیں ہو رہی ۔اللہ تعالیٰ نے میرے پر احسان کیا، مجھے موقع دیا کہ زندگی کا ایک اور رمضان دیکھوں، اس سے فائدہ اٹھائوں۔ اور جس حد تک بھی مَیں نے اس سے فائدہ اٹھایا ہے اس پر اب قائم رہنے کی کوشش کروں ۔ اگر روزانہ رات کو ہر ایک اپنا جائزہ لینے کی عادت ڈال لے تو جو بھی بہتر تبدیلی کسی نے بھی اپنے اندر پیدا کی ہے یا اللہ تعالیٰ نے اس کو توفیق دی ہے اس کو قائم رکھنے یا بہتر کرنے کی عادت پڑ جائے گی اور معیار گرنے کی بجائے بہتری کی طرف جائیں گے۔

               پھر اس اہم حکم کے بعد جو کہ انسان کی پیدائش کامقصد ہے اگلی باتیں جو بیان ہوئی ہیں وہ بندوں کے حقوق کی ادائیگی کے بارے میں ہیں۔ بڑے جامع احکامات ہیں جن میں قریب ترین اور پیارے ترین رشتے یعنی والدین کے حقوق سے لے کر  کسی کا بھی کسی انسان کے ساتھ دُور کا جو تعلق ہے اس کے حقوق بیان ہوئے ہیں۔

                پہلی بات، فرمایا کہ والدین کے ساتھ احسان کرو۔ لیکن  احسان کے لفظ سے کوئی یہ نہ سمجھ لے کہ میں اس احسان کا بدلہ اتار رہا ہوںجو انہوں نے بچپن میں مجھ پر کیا ہے۔ اس احسان کا مطلب ہے کہ ان سے ہمیشہ اچھا سلوک کرو۔ دوسری جگہ فرمایا ہے کہ{فَلَا تَقُلْ لَّہُمَآ اُفٍّ} (بنی اسرائیل 24:)  یعنی کبھی بھی کسی بات پر بھی، ناپسندیدگی پر بھی ان کو اُف نہ کہنا۔ احسان جتانے والا تو احسان جتا دیتا ہے۔ یہاں فرمایا کہ احسان جتانا تو ایک طرف رہا تم نے اُف بھی نہیں کہنا۔

                ایک روایت میں آتا ہے کہ آپؐ نے تین دفعہ یہ الفاظ دہرائے کہ ’’مٹی میں ملے اس کی ناک‘‘، ’’مٹی میں ملے  اس کی ناک‘‘ ۔صحابہ نے عرض کی یا رسول اللہؐ کس کی ناک مٹی میںملے،کون شخص قابل مذمت اور بد قسمت ہے۔ آپ نے فرمایا:’’ وہ شخص جس نے بوڑھے ماں باپ کو پایا اور پھر ان کی خدمت کرکے جنت میں داخل نہ ہوا‘‘۔ انسان اپنے ماں باپ کے احسان  کاجو انہوں نے اس پر بچپن میں کئے ہیں، کا بدلہ اتار ہی نہیں سکتا۔ اس لئے قرآن کریم نے ہمیں یہ دعا سکھائی ہے، اولاد کو یہ دعا سکھائی ہے کہ والدین کے لئے دعا کرو کہ {وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْہُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًا} (بنی اسرائیل25:) کہ اے میرے رب ان پر مہربانی فرما کیونکہ انہوں نے بچپن کی حالت میں میری پرورش کی تھی۔ والدین کے لئے  یہ جو دعا ہے، یہ دعا کے ساتھ ساتھ  بچپن میں  والدین کے بچوں پر جو احسان ہوتے ہیں اُن کی بھی یاد دلاتی ہے کہ انسان احسان  یاد کرکے  دعا کر رہا ہوتا ہے ۔

               پھر فرمایا کہ قریبی رشتہ داروں سے بھی شفقت اور احسان کا سلوک کرو ۔ایک حدیث میں آتا ہے آنحضرت ؐ نے فرمایا کہ جو شخص رزق کی فراخی چاہتا ہے یا خواہش رکھتا ہے کہ اس کی عمر اور ذکر خیر زیادہ ہو،لوگ اس کو اچھا سمجھیں۔ اسے صلہ رحمی کا خُلق اختیار کرنا چاہئے۔رشتہ داروںکا خیال رکھنا چاہئے۔ قریبی رشتہ داروں میں، رحمی رشتہ داروں میں، جہاں ماں باپ کے سگے رشتے ہیں یا اپنے سگے رشتے ہیں وہاں بیوی کی طرف سے بھی سگے رشتے ہوتے ہیں۔ توفرمایا کہ ان قریبی رشتوں کا خیال رکھو۔ اُن کے حقوق ادا کرو بلکہ ان سے احسان کا سلوک کرو۔ اگر کوئی تکلیف دے  تب بھی اس سے نیک سلوک کرنے سے ہاتھ نہیں کھینچنا۔ ایک صحابی  ؓ نے آنحضرت  ؐ کی خدمت میں عرض کی کہ مَیں اپنے رشتہ داروں سے بنا کر رکھوں تب بھی وہ تعلق توڑتے ہیں۔ حسن سلوک کروں تو بدسلوکی سے پیش آتے ہیں۔ نرمی کروں تو جہالت سے پیش آتے ہیں۔ آپؐ نے یہ نہیں فرمایاکہ پھر یہ حسن سلوک نہ کرو۔ آپؐ نے فرمایا کہ جو تو کہہ رہا ہے اگر سچ ہے تو ان پر  تیرا احسان ہے۔ اور جب تک تو اس حالت میں ہے اللہ  ان کے خلاف  تیری مدد کرتا رہے گا۔ ان کی بدسلوکیاں  تجھے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گی۔ اللہ کا فضل حاصل ہوتا رہے گا۔ تم نیکی کرتے جائو۔ پس رشتہ داروں سے حسن سلوک کرتے رہنا چاہئے۔ رمضان کے دنوں میںدل نرم ہوتے ہیں۔ انسان  رشتہ داروں سے بہتر سلوک کرنے کی کوشش کرتا ہے بلکہ بعض دفعہ احسان کے رنگ میں بھی سلوک کررہا ہوتا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ رنگ جاری رکھو اور جب اللہ تعالیٰ کی خاطر یہ احسان کر رہے ہو گے  تو اللہ تعالیٰ ضرور مدد کرے گا۔ ہو سکتا ہے اس سلوک کی وجہ سے ہی اُن کی اصلاح ہو جائے۔ ایک خاندان تمہارے حسن سلوک کی وجہ سے ہی راہ راست پر آ جائے۔  وہ بھی اپنے اندر  تبدیلی پیدا کرلے۔ اگر نہیںتو کم از کم جیسا کہ اللہ کے رسول ؐ نے فرمایا تم اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل کر رہے ہو گے، اس کا فضل حاصل کر رہے ہو گے ۔

               پھر فرمایا یتیموں سے بھی احسان کا سلوک کرو۔ یتیم بھی معاشرے کا ایک ایسا حصہ ہیں جن کی مدد کرنا ہر ایک کا فرض ہے۔ ان کو معاشرے کا فعال حصہ بنانا چاہئے۔آنحضرتؐ نے فرمایا کہ مَیں اور یتیم کی پرورش کرنے والا جنت میں اس طرح ہوں گے  آپ نے اپنی انگلیاںسامنے کرکے دکھائیں۔ تو یہ کہتے ہوئے آپؐ نے انگلیاں ذرا سا فاصلہ دے کر جیسا کہ مَیں نے کہا رکھیں۔( اس موقع پر حضور انور نے بھی اپنی انگلیوں سے ایسے ہی کرکے دکھایا)۔ تو یہ ہے یتیم کی پرورش کرنے والے کا مقام۔  جیسا کہ مَیں نے کہارمضان کے دنوں میں عموماً  دل نرم ہوئے ہوتے ہیں۔ اس لئے اس طرف بھی توجہ ہوتی ہے۔ گزشتہ دنوں  پاکستان میںجو ایک خوفناک زلزلہ آیا، جس سے بہت سارے بچے یتیم ہوگئے، کئی لوگوں نے مجھے لکھا کہ ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ بچے اپنا لیں، ہم پیشکش کرتے ہیں کہ اتنے بچے سنبھا لیں گے۔ بہرحال وہ تو حکومت کی پالیسی ہے، کیابنتی ہے۔ لیکن کچھ تازہ تازہ واقعہ کی وجہ سے، کچھ رمضان کی وجہ سے، عبادتوں کی وجہ سے ،اس طرف توجہ بھی تھی تو اگر لے نہیں سکتے تو کم از کم مستقل توجہ دینی چاہئے۔ جماعت میں یتیموں کی پرورش کا نظام رائج ہے اس میںاللہ کے فضل سے لوگ رقمیں جمع کرواتے ہیں۔ تو جن کو اس نیکی کی توفیق ہے کہ وہ اس پرورش کے لئے  دے سکیں ان کو اب اس میں باقاعدگی اختیار کرنی چاہئے۔ بعض اَور  ادارے بھی ہیں اگر قابل اعتبار ہوں تو وہاں بھی  رقمیںدی جا سکتی ہیں ۔  دنیا میں ہر جگہ جماعت میں بہت سے یتیموں کی پرورش کی جاتی ہے۔ تو یہ جاری نیکیاں ہیں جو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بنانے والی ہوتی ہیں۔

               پھر فرمایا مسکینوںسے بھی احسان اور شفقت کا سلوک کرو۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرتؐ نے فرمایا کہ اگر تو چاہتا ہے کہ تیرا دل نرم ہو جائے تو مساکین کو کھانا کھلااور یتیم کے سر پر ہاتھ رکھ۔ اب یہ عید کا دن بھی آپ کو اس نیکی کے بجا لانے والا ، اس طرف توجہ دلانے والا ہونا چاہئے جونیکی آپ نے رمضان میں غریبوں اور مسکینوں کو کھانا کھلا کر ان کے روزے کا سامان کرکے کی تھی۔رمضان میں تو بہت سے دل نرم ہو جاتے ہیں جیسا کہ مَیں نے کہا غریبوں کا، ضرورت مندوں کا، روزہ رکھنے والوں کا خیال رکھنے والے بہت سارے لوگ ہو تے ہیں۔ جماعت میں تو ایسے نہیں لیکن دوسروں میں ایسے بھی ہیںجو خود چاہے عبادت کریں یا نہ کریں، روزے  رکھیں نہ رکھیں، قرآن پڑھیں نہ پڑھیں، لیکن عموماً دوسرے مذاہب والوں کوبھی کم از کم اس نیکی کا خیال آ جاتا ہے۔ تو عید کے دنوںمیں بھی مسکینوں کی خوشیوں میں شامل ہونا چاہئے۔ غریبوں کی خوشیوںمیں  بھی شامل ہونا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے{ وَیُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسْکِیْنًا وَّ یَتِیْمًا وَّ اَسِیْرًا}(الدھر:9 ) اور وہ کھانے کو اس کی چاہت کے ہوتے ہوئے بھی مسکینوں اور یتیموں اور اسیروں کو کھلاتے ہیں۔ تو اپنی ضروریات کے ہوتے ہوئے بھی اپنے مال میںسے خرچ کرکے مسکینوں یتیموں کا خیال رکھنا نیکی ہے کیونکہ یہ نیکی خدا کی خاطر کی جا رہی ہوتی ہے۔ پس جس طرح  گزشتہ دنوںمیںاس نیکی کے کرنے کی توفیق ملی تھی، اب بھی یہ نیکی جاری رہنی چاہئے۔ اور اس عید کی خوشی میں تو اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہئے۔جماعت تو حتی الوسع ضرورت مندوں کو عید کے دن ضروریات مہیا کرتی ہے، ان کا خیال رکھتی ہے۔کچھ نہ کچھ انتظام ہوتا ہے اور اللہ کے فضل سے صاحب حیثیت اس میں رقوم بھی بلکہ بعض اچھی رقوم بھجواتے ہیں۔ لیکن  انفرادی طور پر بھی ہر ایک کو کوشش کرنی چاہئے کہ اس نیکی کو جاری کرے اور صرف اس عید پر ہی یہ خیال نہ رکھے بلکہ جیسا کہ میں نے پہلے بھی ایک دفعہ کہا تھا کہ ایسا ذریعہ اختیار کرنا چاہئے کہ ضرورت مندوں کی ضرورت پوری ہوتی رہے۔ اور جن کو مدد دے کر پائوں پر کھڑا کیا جا سکتا ہے، ان کو کھڑا کیا جائے۔ پھر عید کے علاوہ بھی بعض خوشیاں ہیں، شادیاں ہیں، بیاہ ہیں۔ ضرورتمندوں کی شادی کروانا بھی  بہت ثواب کا کام ہے۔ اس کے لئے جماعت میں ایک فنڈ قائم ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کی جو سکیم ہے مریم شادی فنڈ اس میں بھی رقم دی جا سکتی ہے۔ حضرت مسیح موعود ؑ نے اس ہمدردی کو اس حد تک لے جانے کی اپنی جماعت کو تلقین کی ہے اور  خواہش ظاہر کی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ  تم جومیرے ساتھ تعلق رکھتے ہو۔ یاد رکھو کہ تم ہر شخص سے خواہ وہ کسی مذہب کا ہو ہمدردی کرو اور بلا تمیز ہر ایک سے نیکی کرو کیونکہ یہی قرآن شریف کی تعلیم ہے۔ پھر آگے آپ نے وہ آیت درج فرمائی{ وَیُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسْکِیْنًا وَّیَتِیْمًا وَّاَسِیْرًا}(الدھر:9 ) ۔

                پھر آپ فرماتے ہیں:’’ حقیقی نیکی کرنے والوں کی یہ خصلت ہے کہ وہ محض خدا کی محبت کے لئے وہ کھانے جو آپ پسند کرتے ہیں مسکینوں اور یتیموں اور قیدیوں کو کھلاتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ ہم تم پر کوئی احسان نہیںکرتے بلکہ یہ کام صرف اس بات کے لئے کرتے ہیں کہ خدا ہم سے راضی ہو اور اسی کے منہ کے لئے یہ خدمت ہے۔ ہم تم سے نہ تو کوئی بدلہ چاہتے ہیں اور نہ یہ چاہتے ہیں کہ تم ہمارا شکر کرتے پھرو۔ یہ اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ ایصال خیر کی تیسری قسم جو محض ہمدردی کی جوش سے ہے وہ طریق بجا لاتے ہیں‘‘۔( اسلامی اصول کی فلاسفی ۔روحانی خزائن جلد نمبر10صفحہ357)۔ پس اس نیکی کی بھی رمضان میںبہتوںکو عادت پڑی اوریہ نیکی جاری رہنی چاہئے۔

                پھر آپؑ نے امیروں کے لئے فرمایا:

               ’’اب تم میں (جماعت کی)  ایک نئی برادری اور نئی اخوت قائم ہوئی ہے۔پچھلے سلسلے منقطع ہو گئے ہیں۔ خداتعالیٰ نے یہ نئی قوم بنائی ہے جس میں امیر غریب بچے جوان بوڑھے ہر قسم کے لوگ شامل ہیں۔ پس غریبوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے معزز بھائیوں کی قدر کریں اورعزت کریں۔ اور امیروں کا فرض ہے کہ وہ غریبوں کی مدد کریں۔ ان کو فقیر اور ذلیل نہ سمجھیں۔ کیونکہ وہ بھی بھائی ہیں گو باپ جدا جدا ہوں۔ مگر آخر تم سب کا روحانی باپ ایک ہی ہے۔ اور وہ ایک ہی درخت کی شاخیں ہیں‘‘۔

(ملفوظات جلد دوم صفحہ 265جدید ایڈیشن)

                پھر ہمسایوں سے چاہے ان کو جانتے ہو یا نہیںجانتے نیک سلوک کرو ۔اس کا حکم ہے۔ عموماً رمضان میں نیکیاں کرنے کی طرف طبیعت ذرا مائل ہوتی ہے۔ بہت سے آپس کے  تعلقات بہتر ہوتے ہیں۔ تو اس نیکی کو عید کے دن خاص طور پر پہلے سے بڑھ کر جاری کرنا چاہئے اور پھر اس نیکی کو مستقل اپنا لینا چاہئے۔ جو تعلقات ٹوٹے ہوئے ہیں، بگڑے ہوئے ہیں ان کو بحال کرنا چاہئے۔ حضرت مسیح موعود ؑ نے جو ہمسائے کی تعریف کی ہے وہ اتنی وسیع ہے کہ آپ کی تعریف کے مطابق کوئی  اس سے باہر رہ ہی نہیں سکتا ۔فرمایا کہ سو کو س تک یعنی سو میل تک بھی تمہارے ہمسائے ہیں۔ اس لحاظ سے توکوئی بھی کسی احمدی سے بے فیض نہیں رہ سکتا ۔

               ایک روایت میں آتا ہے کہ آنحضرت  ؐ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ساتھیوں میں سے وہ ساتھی اچھا ہے جو اپنے ساتھیوں کے لئے اچھا ہے۔ اور پڑوسیوں میں سے وہ پڑوسی اچھا ہے جو اپنے پڑوسی سے اچھا سلوک کرے ۔کسی نے پوچھا کہ مجھے کس طرح پتہ چلے کہ مَیںاچھا پڑوسی ہوں یا نہیں۔ تو آپﷺ نے فرمایا کہ اگر تمہارے پڑوسی تمہاری تعریف کریں تو سمجھ لو کہ تم اچھے پڑوسی ہو۔ اگر وہ تمہاری برائیاں کر رہے ہوں تو پھر سمجھ لو کہ تم برے پڑوسی ہو۔ پھرآپؐ نے خاص طور پر عورتوں کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ کوئی عورت اپنی پڑوسن سے حقارت آمیز سلوک نہ کرے ۔اب یہ عورتوں کا خاص ذکر کیوں ہے؟ یہ بھی اس لئے کہ عورتوں میں عموماً تفاخر اور تکبر زیادہ ہوتا ہے۔ اپنی نیکی یا پیسے یا اور چیز  جو پاس ہو اور دوسرے کے پاس نہ ہو اس کا اظہار زیادہ ہوتا ہے۔ مثلاً زیور کپڑے وغیرہ ہی ہیں۔

                فرمایا کہ:عورتیں دوسری عورتوں پر جو ان سے مالی لحاظ سے کمزور ہیں ان سے حقارت آمیز سلوک نہ کریں۔ بلکہ اپنے اس رویے کو بہتر کرنے کے لئے تحفے بھیجو،چاہے چھوٹی سے چھوٹی سے چیز ہی ہو۔ حدیث میں ہے چاہے بکری کا پایہ ہی ہو۔ اس سے تمہارے اندر دوسرے کے لئے حقارت کا جذبہ بھی کم ہو گا۔  تم بھی دین میں اس کو اپنی بہن سمجھو گی۔ تمہارے دل میں انسانیت کے ناطے اس کے لئے ایک عزت قائم ہو گی انسانیت کے ناطے احترام قائم ہو گا۔ پس  یہ عیدعورتوں کو بھی خاص طور پر اپنی بہنوں سے، اپنی پڑوسنوں سے، محلے والیوں سے پیار محبت سے منانی چاہئے۔ اور پھر اس نیکی کو جاری رکھنا چاہئے۔ یہی نیکیاں ہیںجو اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے والی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بنانے والی ہیں۔

               پھر فرمایاکہ اپنے ساتھ بیٹھنے والوں، اپنے ساتھیوں، اپنے ساتھ دفتر میں کام کرنے والوں بلکہ جو سفر میں اکٹھے ہوں ان سے بھی نیک سلوک کرو۔ اس سے جہاں نیک سلوک کرنے والے کے اخلاق بہتر ہو رہے ہوں گے۔ وہاں وہ اللہ تعالیٰ سے ثواب بھی حاصل کر رہا ہو گا اور پھر ایک احمدی کے لئے تو اس طرح تبلیغ کے راستے  مزید کھل رہے ہوں گے۔ اب عید کے دن ہیں،مختلف لوگوں کے دفتر میں، کام کرنے والی جگہوں پر، ہمسائے وغیرہ ہیں، ان مغربی ممالک میں اگر  ایسے ہمسایوں کو عید کے حوالے سے تحفے وغیرہ بھجوائے جائیں، چاہے چھوٹی سی کوئی چیز ہو، چاہے مٹھائی وغیرہ  یاکچھ اس قسم کی چیز۔ اور پھر اس طرح تعارف بڑھائیں اور ذاتی تعلق قائم ہوں تو دعوت الی اللہ بھی کر رہے ہوں گے۔ اب یہیںUK میں مثلاً اگر دو ہزار گھر ہیں احمدیوں کے،  شاید اس سے زیادہ ہوںگے۔  وہ اپنے ہمسایوں کو یا اپنے کام کرنے کی جگہ کے ساتھیوں کو کوئی چھوٹا سا تحفہ ہی بھیجیں۔ حضرت مسیح موعود ؑ نے فرمایا کہ سو کوس تک ہمسائیگی ہے تو سو کوس  نہ سہی اگر پانچ چھ گھر تک بھی جاری رکھیں اور ایک دو کام کرنے والی جگہوں کے ساتھیوں کو چن لیں تو دس سے پندرہ ہزار گھروںتک ایک تعارف حاصل ہو جاتا ہے۔ اس حوالے سے پھر احمدیت کی تبلیغ کی طرف رستے کھلتے ہیں۔ ذاتی رابطے جو ہیں یہی کار آمد ہوتے ہیں۔ پھر یہ تعداد بڑھ سکتی ہے۔ اسی طرح باقی دنیا کے ممالک ہیں۔ مغربی ممالک میں خاص طور پر آپ  ایسے رابطے کریں جہاں آپ خوشیاں منا رہے ہوںگے وہاں دعوت الی اللہ کا حق بھی ادا کر رہے ہوں گے اس کے بھی میدان حاصل کر رہے ہوں گے۔ کچھ لوگ اس طرح کرتے بھی ہوں گے               ۔مَیں یہ نہیں کہتا کہ کوئی نہیں کرتا لیکن اگر باقاعدہ بڑی تعداد میں اس طرف توجہ دی جائے تو تعارف بہت بڑھ سکتا ہے۔ محلے میں ،علاقے میں جو اسلام کے خلاف بعض دفعہ اظہار ہو رہا ہوتا ہے، مسلمانوں کے خلاف اظہار ہو رہا ہوتا ہے، ایشین سوسائٹی کے خلاف اظہار ہو رہا ہوتا ہے۔ تو چاہے وہ ایشین ہوں، افریقن ہوں، یورپین ہوں، جب  آپس میں اس طرح تعلقات بڑھائیں گے اور احمدی کی حیثیت سے بڑھائیںگے توہر جگہ ایک احمدی کا تصور ابھر رہا ہو گا ۔ اور جہاں کہیں بھی ایسی باتیں ہوں گی اس تعلق کی وجہ سے اور ایک دوسرے سے ہمدردی کی وجہ سے انہیں لوگوں میں سے ایسے لوگ ان محلوں میں، جگہوں میں، علاقوں میں پیدا ہو جائیں گے جو آپ کی طرف داری کر رہے ہوں گے، آپ کے ساتھ ہمدردی کر رہے ہوںگے اور آپ کی طرف سے جواب دے رہے ہوں گے۔

                پھر حکم ہے کہ جو تمہارے ماتحت ہیں جو تمہارے ملازم ہیں جو مالی حیثیت میں کم طبقہ ہے تمہارے زیر نگر ہیں ان کا بھی خیال رکھو۔ ان سے بھی ہمدرد ی اور احسان کا سلوک کرو۔ تو یہ نیکیاں جو تم کر رہے ہو گے تو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے ہو گے۔ اس عاجزی اور نیکی کی وجہ سے خداتعالیٰ کا قرب پانے والے ہو گے۔ پس ابھی رمضان کے بعد  ہر ایک کے دل میں تازہ تازہ عبادتوں اور نیکیوں کا اثر قائم ہے اس کو ہمیشہ تازہ رکھیں اور عید کے دن سے ہی تازہ رکھیں۔ نمازوںمیں، تلاوت قرآن کریم میں ، اعلیٰ اخلاق میں کبھی کمی نہ آنے دیں۔ اصل نیکی یہ ہے کہ  دوسروں کے حقوق کا خیال رکھیںاور صر ف اپنے حقوق پر زور نہ دیں۔ کیونکہ بڑی نیکی یہی ہے کہ دوسروں کے حقوق کا خیال رکھا جائے نہ کہ اپنے حقوق کا خیال رکھا جائے۔ بلکہ کوشش یہ ہو کہ اپنے ذمّہ کسی کا حق نہ رہے۔ بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ ہونا چاہئے کہ صرف اپنے غموں کو ہی نہ روتے رہیں،اپنی تکلیفوں اور پریشانیوں کو ہی نہ روتے رہیں، بلکہ دوسروں کے غموں دکھوں اور تکلیفوں کو بھی محسوس کریں۔ جب ہم اس طرح کر رہے ہوں گے تو نہ صرف یہ ایک دن کی عید منا رہے ہوں گے بلکہ ہمارا ہر دن روز ِعید ہو گا ۔

               حضرت اقدس مسیح موعود ؑ فرماتے ہیںکہ :

               ’’سورۃ فاتحہ اس لئے اللہ تعالیٰ نے پیش کی ہے اور اس میں سب سے پہلی صفت رب العالمین بیان کی ہے جس میں تمام مخلوقات شامل ہے۔ اسی طرح پر ایک مومن کی ہمدردی کا میدان سب سے پہلے اتنا وسیع ہونا چاہئے کہ تمام چرند پرند اور کل مخلوق اس میںآ جاوے ۔پھر دوسری صفت رحمن کی بیان کی ہے جس سے یہ سبق ملتا ہے کہ تمام جاندار مخلوق سے ہمدردی خصوصاً کرنی چاہئے۔ اور پھر رحیم میںاپنی نوع سے ہمدردی کا سبق ہے۔ غرض اس سورہ فاتحہ میںجو اللہ تعالیٰ کی صفات بیان کی گئی ہیں یہ گویا خدا تعالیٰ کے اخلاق ہیں جن سے بندہ کو حصہ لینا چاہئے اور وہ یہی ہے کہ اگر ایک شخص عمدہ حالت میں ہے تو اس کو اپنی نوع کے ساتھ ہر قسم کی ممکن ہمدردی سے پیش آنا چاہئے۔ اگر دوسرا شخص جو اس کا رشتہ دار ہے یا عزیز ہے خواہ کوئی ہے اس سے بیزاری نہ ظاہر کی جاوے اور اجنبی کی طرح اس سے پیش نہ آئیں بلکہ ان حقوق کی پروا کریں جو اس کے تم پر ہیں۔ اس کو ایک شخص کے ساتھ قرابت ہے اور اس کا کوئی حق ہے تو اس کو پورا کرنا چاہئے‘‘۔(ملفوظات جلد دوم صفحہ 262جدید ایڈیشن)

                اللہ کرے کہ ہم سب یہ حقوق اداکرنے والے ہوں اور یہ حقوق ادا کرنے کی ہمیںعادت پڑ جائے اور مستقل زندگیوں کا حصہ بنا لیں۔ ا ب مَیں آپ سب کو  عید کی مبارکباد  دیتاہوں۔ انشاء اللہ ابھی دعا کے بعد مصافحہ بھی ہو گا۔ (حضور نے امیر صاحب سے دریافت فرمایا :ہے نا مصافحے کاایسا پروگرام؟)۔بہرحال، اس خطبے کے ذریعہ  باقی تمام دنیا کے احمدیوں کو بھی

 عید مبارک ہو۔

                اب دعاہو گی۔ دعا میں تمام جماعت احمدیہ عالمگیر کویاد رکھیں۔ عالم اسلام کو یاد رکھیں آج کل ان کی بھی کافی بری حالت ہے۔ان کے لئے بھی رحم کی صورت پیدا ہو ۔  اللہ تعالیٰ ان کو عقل اور سمجھ دے۔ اسیران راہ مولیٰ کے لئے دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ جلد ان کی رہائی کے سامان پیدا فرمائے۔ بعضوں پر بڑے سخت مقدمے ہو چکے ہیں۔ ان کے خلاف بڑے سخت فیصلے ہو چکے ہیں۔ آسمانی آفات کے متاثر ین کی تکلیف کم کرنے میں مدد بھی دیں اور ان کے لئے دعا بھی کریں۔ اللہ تعالیٰ سب پر رحم فرمائے۔ شہدائے احمدیت کے لئے دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ ان کی اولادوںمیں اور لواحقین کو صبر اور حوصلہ عطا فرمائے اور محض اور محض اپنے فضل سے ہمیشہ ان کی دستگیری فرماتا رہے۔ اور آئندہ ہر شر سے ہر احمدی کو محفوظ رکھے ۔اپنے لئے دعا کریں کہ

اللہ تعالیٰ نے جن نیکیوں کی توفیق دی ہے ان پر قائم رہنے کی بھی توفیق دے۔

               (خطبہ ثانیہ کے بعد حضور انور نے اجتماعی دعا کروائی)۔

اپنا تبصرہ بھیجیں