’’لوٹے والا واقعہ‘‘ ۔ ضروری تصحیح

حضرت سید عبدالستار شاہ صاحبؓ

(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، الفضل انٹرنیشنل، 24؍فروری 2025ء)

حضرت سیّدہ مہر آپا صاحبہ کے بارے میں ایک مضمون (مطبوعہ رسالہ ’’خدیجہ‘‘ 2013ء) کا خلاصہ اخبار ’’الفضل انٹرنیشنل‘‘ 16؍دسمبر2024ء کے ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘ میں شائع ہوا تھا جس میں حضرت سیّدہ مہر آپا صاحبہ کے حوالے سے بیان کیا گیا تھا کہ اُن کے دادا بزرگوار حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحبؓ جس مسجد میں نماز پڑھنے جاتے تو مسجد کے دروازے پر بیٹھ کر ایک بڑا زمیندار آپ کو گالیاں نکالتا رہتا مگر آپ نہایت صبر کے ساتھ برداشت کرتے رہتے مگر ایک دن اس نے حضرت مسیح موعودؑ کو گالیاں دینی شروع کردیں تو آپؓ نے پانی بھرا لوٹا اس کے سر پر دے مارا۔ ……

مذکورہ مضمون کی اشاعت کے بعد بعض قارئین کی طرف سے اس واقعے کے مختلف ورژن کا حوالہ دیتے ہوئے کنفیوژن کا اظہار کیا گیا تو متعلّقہ شعبہ سے اس بارے میں راہنمائی کی درخواست کی گئی۔ اُن کی طرف سے تحقیق کے بعد جو تفصیلی جواب موصول ہوا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ سب سے پہلے یہ واقعہ مکرم سیّد احمدعلی شاہ صاحب مربی سلسلہ نے 3؍جون1967ء کو مکرم چودھری عنایت اللہ صاحب امیر حلقہ جماعت احمدیہ دھرگ سے منسوب کرکے بیان کیا تھا جو یوں تھا کہ حضرت مولوی رحیم بخش صاحبؓ قبولِ احمدیت سے قبل حضرت سیّد عبدالستار شاہ صاحبؓ کے زیرتبلیغ تھے اور اکثر دعوت الی اللہ کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔ ایک دن کسی مسئلے پر مولوی صاحب نے جوش میں آکر حضرت شاہ صاحبؓ کے سر پر لوٹا دے مارا جس سے آپؓ زخمی ہوگئے اور ہسپتال سے فوری مرہم پٹی کروائی۔ پھر گھر سے خون آلود کپڑے تبدیل کرکے واپس مولوی صاحب کے پاس تشریف لائے اور کمال وسعتِ حوصلہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسکراکر فرمایا: مولوی صاحب! کیا غصہ ٹھنڈا ہوگیا ہے؟ آپؓ کے اس رویّے کے نتیجے میں حضرت مولوی رحیم بخش صاحبؓ احمدی ہوگئے۔ یہ واقعہ ’’لوٹے والا واقعہ‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔

سیّد احمدعلی شاہ صاحب

یہی واقعہ حضرت مولوی رحیم بخش صاحبؓ کے پوتے سکواڈرن لیڈر (ر)مکرم چودھری حنیف احمد صاحب کی زبانی کتاب ’’حضرت ڈاکٹر سیّد عبدالستار شاہ صاحبؓ‘‘ (مرتّبہ احمدطاہر مرزا صاحب) میں بھی شامل ہے۔
حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے محترم سیّدداؤد مظفر شاہ صاحب کی وفات پر خطبہ جمعہ میں یہ واقعہ یوں بیان فرمایا تھا کہ حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحبؓ جو سید داؤد مظفر شاہ صاحب کے دادا تھے۔ اُن کی وسعتِ حوصلہ اور صبر کا ایک واقعہ ہے۔ آپؓ ایک شخص کو تبلیغ کر رہے تھے۔ مسجد میں بیٹھے تھے۔ اُس وقت آپ سرکاری ہسپتال میں سول سرجن تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت اور دعویٰ پر بحث ہورہی تھی تو اس نے ایک وقت میں غصے میں آکر پکّی مٹی کا لوٹا اُٹھا کے آپ کی طرف زور سے پھینکا یا سر پہ مارا۔ بہر حال ماتھے پر لگا اور سر پھٹ گیا جس سے اِن کا خون بہنے لگا۔ تو حضرت ڈاکٹر صاحبؓ بغیر کچھ کہے وہاں سے سر پہ ہاتھ رکھ کے ہسپتال چلے گئے۔ وہاں جا کے پٹّی کروائی اور اس دوران میں اُس شخص کو بھی احساس ہوا کہ یہ مَیں نے کیا کیا؟ یہ تو بڑے سرکاری افسر ہیں اور پولیس آئے گی اور مجھے پکڑ کے لے جائے گی۔ بڑا خوفزدہ تھا۔ لیکن تھوڑی دیر بعد حضرت ڈاکٹر صاحب سر پہ پٹّی باندھے واپس تشریف لے آئے اور اُس شخص سے کہا کہ مجھے امید ہے تمہارا غصہ ٹھنڈا ہو گیا ہوگا، اب دوبارہ بات کرتے ہیں۔ وہ شخص کہتا ہے کہ میرا تو پہلے ہی بُرا حال تھا تو میں اُن سے معافیاں مانگنے لگ گیا اور اُس وقت شرمندگی سے بھی اور خوف سے بھی میری حالت عجیب تھی۔ (ماخوذ از خطبہ جمعہ فرمودہ11؍مارچ2011ء)
پس اصل واقعہ یہی ہے جو مذکورہ مستند روایات میں بیان ہوا ہے۔ جبکہ رسالہ خدیجہ کے مضمون میں درج شدہ واقعہ مکرمہ سعیدہ احسن صاحبہ کے اُس مضمون سے (حوالہ دیے بغیر) لیا گیا ہے جو موصوفہ کی یادداشتوں پر مشتمل تھا اور ماہنامہ ’’مصباح‘‘ ربوہ اپریل 1998ء میں شائع ہوا تھا۔ انہوں نے یہ واقعہ حضرت سیّدہ مہر آپا صاحبہ کی طرف منسوب کیا تھا جبکہ حضرت سیّدہ کی وفات ہوچکی تھی۔ نیز مضمون نگار کی عمر اُس وقت قریباً ستّر سال تھی اور غالب امکان ہے کہ انہیں اس واقعہ کی جزئیات یاد رکھنے میں ذہول ہوگیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں