مجلس انصاراللہ برطانیہ کے اڑتیسویں سالانہ اجتماع 2021ء کا کامیاب انعقاد

مجلس انصاراللہ برطانیہ کے اڑتیسویں سالانہ اجتماع 2021ء کا کامیاب انعقاد

فہرست مضامین show

سیّدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کا کسی بھی ذیلی تنظیم کے اجتماع سے پہلی بار virtual خطاب
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پُرمعارف اختتامی خطاب میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ارشاد کی روشنی میں انصار کو اپنے عہد بیعت اور مجلس انصاراللہ کے عہد کے مطابق اپنے علم اور عمل میں مطابقت پیدا کرنے اور ذاتی محبت سے خداتعالیٰ کی عبادات بجالانے کی نصیحت فرمائی اور حقیقی معنوں میں انصاراللہ بننے کی تلقین فرمائی

علمائے سلسلہ کی تعلیمی و تربیتی تقاریر، علمی و ورزشی مقابلہ جات، مختلف موضوعات پر ورکشاپس، اور خصوصی علمی، ادبی اور معلوماتی نشستوں کا انعقاد
ڈیڑھ ہزار سے زائد افراد کی شمولیت اور ساڑھے آٹھ ہزار سے زائد افراد کی انٹرنیٹ کے ذریعے شرکت
مجلس انصاراللہ ہارٹلے پُول نے مقابلہ عَلَمِ انعامی میں مسلسل دوسری دفعہ اوّل پوزیشن کا اعزاز حاصل کیا۔ مجلس بیت الفتوح دوم اور مجلس موسک ویسٹ سوم رہی ۔ ریجنز میں ساؤتھ ریجن کی پہلی اور چھوٹی مجالس میں ڈونکاسٹر کی اوّل پوزیشن

(محمود احمد ملک ناظم رپورٹنگ)

(مطبوعہ ’’الفضل انٹرنیشنل‘‘ لندن 3دسمبر 2021ء) (مطبوعہ ’’انصارالدین‘‘نومبر و دسمبر 2021ء)

الٰہی تائیدیافتہ روحانی قیادت کی حامل متقیوں کی جماعت کی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ دنیاوی حالات کیسے بھی مشکل کیوں نہ ہوں اور راہوں میں کیسے ہی کٹھن مراحل درپیش ہوں لیکن اُن جماعتوں کا ہر قدم کامیابی کی نئی منازل طے کرتے ہوئے اپنی منزل مقصود کی طرف رواں دواں رہتا ہے۔ چنانچہ عالمی وبا ’’کووِڈ‘‘ کی تباہ کاریوں کے پیش نظر گزشتہ سال کوئی اجتماعی سرگرمی ممکن نہیں ہوسکی۔ ایک لمبے عرصے کے بعد چند ہفتے قبل جب حکومت نے لاک ڈاؤن میں نرمی شروع کی اور حفاظتی انتظامات ملحوظ رکھتے ہوئے عوامی اجتماعات کی اجازت دی جانے لگی تو جماعت احمدیہ کے امام سیّدنا حضرت امیرالمومنین خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ہدایات کے مطابق اگست میں جماعت احمدیہ برطانیہ نے اپنے سالانہ جلسے کا محدود پیمانے پر کامیابی سے انعقاد کیا۔ پھر پیارے آقا کی منظوری اور رہنمائی میں خداتعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ ذیلی تنظیموں کے سالانہ اجتماعات بھی مخصوص حالات کو مدّنظر رکھتے ہوئے منعقد ہوئے۔ چنانچہ مجلس انصاراللہ برطانیہ کا اڑتیسواں سالانہ اجتماع Pandemic کے حوالے سے پیدا ہونے والی مخصوص صورتحال میں تمام معروف احتیاطی تدابیر اور تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے 11اور 12 ستمبر 2021ء (بروز ہفتہ و اتوار) کو مسجد بیت الفتوح اور اس سے ملحقہ طاہر ہال میں منعقد کیا گیا۔ امسال اجتماع دو روزہ تھا اور بہت محدود تعداد کو بذریعہ قرعہ اندازی اس میں شمولیت کی دعوت دی گئی تھی۔ چنانچہ مختلف حوالوں سے تاریخی اہمیت کا حامل بھی تھا۔ مثلاً اجتماع کی تمام تر کارروائی لائیو سٹریم کے ذریعہ یوٹیوب پر بھی نشر کی گئی جس سے نہ صرف گھروں میں رہنے والے مقامی انصار بلکہ دنیا بھر سے احمدیوں اور دیگر احباب نے استفادہ کیا۔ اجتماع کے وقفوں کے دوران لائیو سٹریم پر بہت ایمان افروز پروگرام دکھائے جاتے رہے۔
اس اجتماع کا مرکزی پروگرام سیّدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا اختتامی اجلاس سے خطاب تھا جو حضورانور نے اسلام آباد میں قائم کیے جانے والے ایم ٹی اے سٹوڈیو سے virtually براہ راست ارشاد فرمایا اور اس خطاب کے ساتھ ہی ایم ٹی اے سٹوڈیو اسلام آباد کا باقاعدہ افتتاح بھی عمل میں آیا۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ اختتامی اجلاس کی کارروائی اور حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا بصیرت افروز خطاب ایم ٹی اے کے مواصلاتی رابطوں کے علاوہ یوٹیوب اور دیگر آن لائن ذرائع سے براہ راست پیش کیا گیا۔

سیّدنا حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کا خطاب

حضورانور نے تشہد، تعوذ، تسمیہ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک موقع پر فرمایا کہ انبیاء کو بھی جب من انصاری الی اللّٰہ (یعنی کون ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف لے جانے میں میرے مددگار ہوں) کہنا پڑا تو اس لیے کہ عظیم بڑے کاموں کو چلانے کے لیے مددگاروں کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ قانون قدرت ہے کہ جو کام بہت سے لوگوں کے کرنے کا ہو، اُسے احسن رنگ میں کرنے کے لیے بہت سے لوگ چاہئیں۔ اور باوجود اس کے کہ انبیاء توکّل کے اعلیٰ معیار پر ہوتے ہیں، تحمّل اور مجاہدات کے اعلیٰ معیار پر ہوتے ہیں، وہ اسی قانونِ قدرت کے مطابق مددگاروں کو بلاتے ہیں۔
حضورانور نے فرمایا کہ پس آپ جو اپنے آپ کو انصاراللہ کہتے ہیں اس بات کو ہروقت سامنے رکھیں کہ انصاراللہ تبھی کہلا سکتے ہیں جب اس زمانے کے امام، اللہ تعالیٰ کے فرستادے مسیح موعود اور مہدی معہود کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اور اس کی روح کو سمجھتے ہوئے نحن انصاراللّٰہ کا نعرہ لگائیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں تکمیلِ اشاعتِ دین یعنی تبلیغِ اسلام کا عظیم کام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سپرد کیا ہے۔ اور یہی کام کرنے کی حضرت مسیح موعودؑ نے اپنی جماعت کے افراد سے توقع کی ہے۔ اور انصاراللہ کو سب سے بڑھ کر اس کا مخاطب اپنے آپ کو سمجھنا چاہیے۔ پس ہمیں اپنے عہد بیعت کو اور اپنے انصاراللہ کے عہد کو نبھانے کے لیے حضرت مسیح موعودؑ کا مددگار بننے کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ اس عظیم کام کو سرانجام دینے کے لیے میدان میں اترنا ہوگا تبھی ہم حقیقی انصاراللہ کہلا سکتے ہیں۔ صرف منہ سے دعویٰ کردینا کہ ہم انصاراللہ ہیں یہ کافی نہیں ہے۔ ہمیں اپنے جائزے بھی لینے ہوں گے کہ کس طرح ہم اس عظیم کام کو سرانجام دے سکتے ہیں۔ ہمیں اپنی حالتوں کو دیکھنا ہو گا کہ کیا وہ اس معیار کی ہیں جو بڑے بڑے کام سرانجام دینے کے لیے ہونی چاہئیں اور جس کی اس وقت دین کو ضرورت ہے۔
حضورانور نے فرمایا کہ دین کا پیغام دنیا کے کونے کونے میں پھیلانا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اس کے لیے ہمیں تعلق باللہ میں بھی ترقی کرنی ہو گی، تقویٰ میں بھی ترقی کرنی ہو گی، اپنے علم کو بڑھانے کی کوشش بھی کرنی ہو گی، اللہ تعالیٰ کے احکامات پر پوری طرح کاربند رہنے کے لیے بھی کوشش کرنی ہو گی۔ پس ہمیں اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم نے اپنی حالتوں میں وہ تبدیلی پیدا کر لی ہے یا اس تبدیلی کے پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو حضرت مسیح موعودؑ کے مشن کو آگے بڑھانے کے لیے اور آپؑ کا مددگار بننے کے لیے ضروری ہے۔ اگر نہیں تو ہمارا نحن انصاراللّٰہ کا نعرہ بے مقصد اور بے بنیاد ہے۔ ہمیں بہت گہرائی میں جا کر اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ ہم حضرت مسیح موعودؑ کے مدد گار کس طرح بن سکتے ہیں؟آپؑ ہم سے کیا چاہتے ہیں۔ ہمیں اس معیار کو حاصل کرنے کے لیے اپنے اندر جھانکنا ہو گا، تبھی ہمیں پتا چلے گا کہ کس قسم کے احمدی حضرت مسیح موعودؑ ہمیں دیکھنا چاہتے ہیں۔ آپؑ ایک موقع پر فرماتے ہیں: اس سلسلہ کو اللہ تعالیٰ نے خود اپنے ہاتھ سے قائم کیا ہے اور اس پر بھی ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے لوگ آتے ہیں اور وہ صاحب اغراض ہوتے ہیں۔ یعنی ان کا کوئی ذاتی غرضیں ہوتی ہیں۔ اگر اغراض پورے ہوگئے تو خیر ورنہ کدھر کا دین اور کدھر کا ایمان لیکن اگر اس کے مقابلہ میں صحابہ کی زندگی میں نظر کی جاوے تو ان میں ایک بھی ایسا واقعہ نظر نہیں آتا۔ انہوں نے کبھی ایسا نہیں کیا۔ فرمایا کہ ہماری بیعت تو بیعت توبہ ہی ہے لیکن ان لوگوں کی بیعت تو سر کٹانے کی بیعت تھی۔ میری بیعت کی ہے تم نے تو یہ اس لیے کہ ہم اپنے گناہوں سے توبہ کرتے ہیں ہم یہ عہد کرتے ہیں کہ نیکیوں کو قائم کریں گے ہم یہ عہد کرتے ہیں کہ اسلام کی تبلیغ کو دنیا میں پھیلائیں گے اور اپنی حالتوں کو بدلیں گے لیکن جو پرانے لوگ تھے صحابہ تھے انہوں نے جو بیعت کی تھی وہ زمانہ تو ایسا تھا جب ظلموں کی انتہا تھی اور جنگیں بھی ہو رہی تھیں جنگیں ٹھونسی جاتی تھیں اور سر کٹوائے جاتے تھے۔ فرمایا کہ ایک طرف بیعت کرتے تھے اور دوسری طرف اپنے سارے مال و متاع عزت وآبرو اور جان و مال سے دستکش ہوجاتے تھے گویا کسی چیز کے بھی مالک نہیں ہیں اور اس طر ح پر ان کی کل امیدیں دنیا سے منقطع ہوجاتی تھیں۔ ہر قسم کی عزت و عظمت اور جاہ و حشمت کے حصول کے ارادے ختم ہوجاتے تھے۔ کس کو یہ خیال تھا کہ ہم بادشاہ بنیں گے یا کسی ملک کے فاتح ہوں گے۔ یہ باتیں ان کے وہم وگمان میں بھی نہ تھیں بلکہ وہ تو ہر قسم کی امیدوں سے الگ ہو جاتے تھے اور ہر وقت خدا تعالیٰ کی راہ میں ہر دکھ اور مصیبت کو لذّت کے ساتھ برداشت کرنے کو تیار ہو جاتے تھے یہاں تک کہ جان تک دینے کو آمادہ رہتے تھے ان کی اپنی تو یہی حالت تھی کہ وہ اس دنیا سے بالکل الگ اور منقطع تھے لیکن یہ الگ امر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنی عنایت کی اور ان کو نوازا اور ان کو جنہوں نے اس راہ میں اپنا سب کچھ قربان کر دیا تھا ہزار چند کر دیا۔
حضورانور نے فرمایا کہ یہ تو ایک احمدی کا معیار ہے جو بیعت کر کے سلسلہ میں شامل ہوتا ہے جس کی حضرت مسیح موعودؑ اس سے توقع رکھ رہے ہیں لیکن جو لوگ اپنے آپ کو انصاراللہ کہتے ہیں ان کا کیا معیار ہونا چاہیے، خود ہی ہمیں اپنے جائزے لینے ہوں گے۔ ایک موقع پر آپؑ نے فرمایا کہ لو گ حقیقتِ اسلام سے بالکل دُور جا پڑے ہیں۔ اسلام میں تو حقیقی زندگی ایک موت چاہتی ہے جو تلخ ہے لیکن جو اس کو قبول کرتا ہے آخر وہی زندہ ہوتا ہے۔ حد یث میں آیا ہے کہ انسان د نیا کی خواہشوں اور لذتوں کو ہی جنت سمجھتا ہے حالانکہ وہ دوزخ ہے اور سعید آدمی خدا کی راہ میں تکالیف کو قبول کرتا ہے اور وہی جنت ہوتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا فانی ہے اور سب مر نے کے لیے پیدا ہوئے ہیں۔ آخر ایک وقت آجاتا ہے کہ سب دوست آشنا عزیز واقارب جدا ہوجاتے ہیں۔ اس وقت جس قد ر ناجائز خوشیوں اور لذتوں کو راحت سمجھتا ہے وہ تلخیوں کی صورت میں نمودار ہو جاتی ہیں۔ سچی خوشحالی اور راحت تقویٰ کے بغیر حاصل نہیں ہوتی اور تقویٰ پر قائم ہونا گویا زہر کا پیالہ پینا ہے بہت مشکل کام ہے۔ بہت محنت کرنی پڑتی ہے۔ فرمایا کہ متقی کے لیے خدا تعالیٰ ساری راحتوں کے سامان مہیا کر دیتا ہے۔

من یتق اللّٰہ یجعل لہ مخرجا و یرزقہ من حیث لایحتسب۔

پس خوشحالی کا اصول تقویٰ ہے لیکن حصولِ تقویٰ کے لیے نہیں چاہیے کہ ہم شرطیں باندھتے پھریں۔ تقویٰ اختیار کرنے سے جو مانگو گے ملے گا۔ خدا تعالیٰ رحیم وکریم ہے۔ تقویٰ اختیار کرو جو چاہو گے وہ دے گا۔ جس قدر اولیاء اللہ اور اقطاب گذرے ہیں انہوں نے جو کچھ حاصل کیا، تقویٰ ہی سے حا صل کیا۔ اگر وہ تقویٰ اختیار نہ کرتے تو وہ بھی دنیامیں معمولی انسانوں کی حیثیت سے زندگی بسر کرتے۔ دس بیس کی نوکری کر لیتے یا کوئی اور حرفہ یا پیشہ اختیار کر لیتے۔اس سے زیا دہ کچھ نہ تھا مگر آج جو عروج اُن کو ملا اور جس قدر شہرت اور عزت انہوں نے پائی یہ سب تقویٰ ہی کی بدولت تھی۔ انہوں نے ایک موت اختیار کی اس کے بدلہ میں پائی۔
حضورانور نے فرمایا کہ انصاراللہ کی عمر تو ایسی عمر ہے کہ جس میں اگلی زندگی کا سفر زیادہ واضح نظر آتا ہے اور آنا چاہیے۔ جتنی عمر بڑھتی ہے موت اتنی ہی قریب ہوتی جاتی ہے۔ اس میں ہماری ترجیحات کیا ہونی چاہئیں پھر میں کہوں گا اس کا اندازہ ہم خود ہی سوچ کر لگا سکتے ہیں۔ پھر انسانی پیدائش کے مقصد کے بارے میں حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ ایسے بنو کہ تا تم پر خدا تعالیٰ کی برکات اور اس کی رحمت کے آثارنازل ہوں۔ وہ عمروں کو بڑھابھی سکتا ہے مگر ایک وہ شخص جس کا عمر پانے سے مقصد صرف ورلی دنیا ہی کے لذائذاور حظوظ ہیں اس کی عمر کیا فا ئدہ بخش ہوسکتی ہے؟ اس میںتو خدا کا حصہ کچھ بھی نہیں۔ وہ اپنی عمر کا مقصد صرف عمدہ کھا نے کھانے اور نیندبھر کے سونے اور بیوی بچوں اور عمدہ مکان کے یا گھوڑے وغیر ہ رکھنے یا عمدہ باغات یا فصل پر ہی ختم کرتا ہے۔ وہ تو صرف اپنے پیٹ کا بندہ اور شکم کا عابد ہے۔ انہی کی عبادت کرتا ہے وہ اللہ کی عبادت تو نہیں کرتا۔ اس نے تو اپنا مقصد ومطلوب اور معبود صرف خواہشات نفسانی اور لذائذ حیوانی کو ہی بنایا ہوا ہے مگر خداتعالیٰ نے انسان کے سلسلہ پیدائش کی علت غائی صرف اپنی عبادت رکھی ہے۔

وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون۔

پس حصر کردیا ہے کہ صرف صرف عبادت الٰہی مقصد ہونا چاہیے۔ محدود کر دیا ہے انسان کو پابند کر دیا ہے کہ عبادت الٰہی تمہارا مقصد ہونا چاہیے اور صرف اسی کے لیے یہ سارا کارخانہ بنایا گیا ہے برخلاف اس کے اَور ہی اَور ارادے اور اَور ہی اَور خواہشات ہیں۔ سوچوتو سہی کہ ایک شخص ایک شخص کو بھیجتا ہے کہ میرے باغ کی حفاظت کرے۔ اس کی آبپاشی اور شاخ تراشی سے اسے عمدہ طور کا بنا اور عمدہ عمدہ پھول بیل بوٹے لگا کہ وہ ہرابھرا ہوجاوے۔ مگر بجائے اس کے وہ شخص آتے ہی جتنے عمدہ عمدہ پھل پھول اس میں لگے ہو ئے تھے ان کو کاٹ کرضائع کردے یا اپنے ذاتی مفاد کے لیے فروخت کرلے اور ناجائز دست اندازی سے با غ کو ویران کردے تو بتاؤ کہ وہ ما لک جب آوے گا تو اس سے کیسا سلوک کرے گا؟
حضورانور نے فرمایا کہ پس انصاراللہ کا کام تو اس باغ کی نگہداشت کرنا اور باغ کے پھل پھول کی حفاظت کرنا ہے۔ باغ کی نوجوان کلیوں کو سنبھالنا ہے۔ پس بہت سوچنے کا مقام ہے۔ خدا نے تو بھیجا تھا کہ عبادت کرے اور حق اللہ اور حق العباد کو بجا لاوے مگر یہ آتے ہی بیویوں میں مشغول، بچوں میں محو اور اپنے لذائذ کا بندہ بن گیا اور اصل مقصد تو بالکل بھول ہی گیا۔ بتاؤ اس کا خدا کے آگے کیا جواب ہوگا؟
حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا ہے کہ دنیا کے سامان اور یہ بیوی بچے اور کھانے پینے تو اللہ تعالیٰ نے بطور بھاڑا کے بنائے تھے۔ جس طرح ایک یکہ بان جب سمجھتا ہے کہ اس کے ٹانگے کا گھوڑا تھک گیا ہے تو اسے کچھ نہاری اور پانی وغیرہ دیتا ہے اور کچھ مالش کرتا ہے تا اس کی تھکان کا کچھ علاج ہو جاوے اور آگے چلنے کے قابل ہو اور درماندہ ہو کر کہیں آدھ میںہی نہ رہ جائے۔ سویہ دنیوی آرام اور عیش اور بیوی بچے اور کھا نے کی خوراکیں بھی اسی طرح اللہ تعالیٰ نے بھاڑے مقرر کیے ہیں کہ انسان تھک کراور درماندہ ہوکر بھوک سے پیاس سے مر نہ جاوے اور اس کے قویٰ کی تحلیل ہونے کی تلافی مافات ہوتی جاوے۔پس یہ چیزیں اس حدتک جائزہیں کہ انسان کو اس کی عبادت اور حق اللہ اور حق العباد کے پورا کرنے میں مدد دیں۔ مومن شخص کا کام ہے کہ پہلے اپنی زندگی کا مقصد اصلی معلوم کرے اور پھر اس کے مطابق کام کرے۔ اللہ تعالیٰ فر ما تا ہے کہ

قل ما یعبؤُا بکم ربی لولادعاؤکم۔

خدا کو تمہاری پروا ہی کیا ہے اگرتم اس کی عبادت نہ کرو اور اس سے دعائیں نہ مانگو۔ یہ آیت بھی اصل میں پہلی آیت

وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون

ہی کی شرح ہے۔ جب خدا تعا لیٰ کا ارادہ انسا نی خلقت سے صرف عبادت ہے تو مومن کی شان نہیں کہ کسی دوسری چیز کو عین مقصود بنالے۔ حقوق نفس تو جائز ہیں مگر نفس کی بے اعتدالیاں جا ئز نہیں۔
حضورانور نے فرمایا کہ پس یہ ہے وہ معیار جو ہم نے حاصل کرنے کی کوشش کرنی ہے اور کوشش کرنی چاہیے۔ اگر زندگی کے اس مقصد کو ہم سمجھ گئے تو ہم حقیقی انصار میں شامل ہو جائیں گے کیونکہ یہی معیار حاصل کرنے والے وہ لوگ ہیں جو نبی کے حقیقی مددگار بن سکتے ہیں۔ پھر عبادت کے معیار ایک حقیقی مؤمن کے کیا ہونے چاہئیں۔ آپؑ نے ہمیں سمجھایا کہ عبادت اللہ تعالیٰ کی محبت ذاتی سے رنگین ہو کر کرو جیسے ماں اپنے بچے کی پرورش کرتی ہے۔ کیا اس امید پر کہ وہ اسے کھلائے گا؟ نہیں، بلکہ وہ جانتی ہی نہیںکیوں اس کی پرورش کر رہی ہے یہاں تک کہ اگر بادشاہ اس کو حکم دے کہ تُو اگر بچے کی پرورش نہ کرے گی اور اس سے یہ بچہ مر بھی جاوے تو تجھ کو کوئی سزا نہ دی جاوے گی بلکہ انعام ملے گا۔ تو وہ اس حکم سے خوش ہو گی یا بادشاہ کو گالیاں دے گی۔ یہ محبت ذاتی ہے۔ اسی طرح خدا تعالیٰ کی عبادت کرنی چاہیے۔ جب وہ دشمنوں کو محروم نہیں کرتا تو دوستوں کو کب ضائع کر سکتا ہے۔ حضرت داؤد کا قول ہے کہ میں جوان تھا بوڑھا ہو گیا ہوں مگر میں نے متقی کو کبھی ذلیل و خوار نہیں دیکھا۔ پس اصل غرض انسان کی محبت ذاتی ہونی چاہیے اس سے جو کچھ اطاعت اور عبادت ہو گی وہ اعلیٰ درجہ کے نتائج اپنے ساتھ رکھے گی۔ ایسے لوگ خدا تعالیٰ کے مبارک بندے ہوتے ہیں وہ جس گھر میں ہوں وہ گھر مبارک ہو اور جس شہر میں ہوں وہ شہر مبارک۔ اس کی برکت سے بہت سی بلائیں دور ہو جاتی ہیں۔ اس کی ہر حرکت و سکون اس کے درودیوار پر خدا کی برکت اور رحمت نازل ہوتی ہیں۔ میں اسی راہ کو سکھانا چاہتا ہوں، اسی غرض کے لیے خداتعالیٰ نے مجھے مامور کیا ہے۔ فرمایا یقینا یاد رکھو کہ پوست کام نہیں آتا بلکہ مغز کی ضرورت ہے۔
حضورانور نے فرمایا کہ ناموں سے تو کچھ بھی نہیں ہوتا۔ تم نام کے مسلمان کہلاتے ہو، نام کے انصاراللہ کہلاتے ہو تو اس سے تو کچھ نہیں بنے گا جب تک کہ قول و فعل ایک نہیں ہو جاتے۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ نام کچھ حقیقت اپنے اندر نہیں رکھتا جب تک کام نہ ہو۔ اسی طرح پر خدا تعالیٰ مغز اور حقیقت کو چاہتا ہے رسم اور نام کو پسند نہیں کرتا۔ جب انسان سچے دل سے سچے اسلام کی تلاش کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ اس کو اپنی راہیں دکھا دیتا ہے جیسا کہ فرمایا:

والذین جاھدوا فینا لنھدینھم سبلنا۔

خدا تعالیٰ بخیل نہیں اگر انسان مجاہدہ کرے گا تو وہ یقینا اپنی راہ کو ظاہر کر دے گا۔
پھر آپؑ فرماتے ہیں: اس سلسلہ سے خدا تعالیٰ نے یہی چاہا ہے اور اس نے مجھ پر ظاہر کیا ہے کہ تقویٰ کم ہوگیا ہے۔ بعض تو کھلے طور پر بے حیائیوں میں گر فتار ہیں اور فسق وفجور کی زندگی بسر کرتے ہیں اور بعض ایسے ہیں جو ایک قسم کی ناپاکی کی ملونی اپنے اعمال کے ساتھ رکھتے ہیں مگر انہیں نہیں معلوم کہ اگر اچھے کھانے میں تھوڑا سا زہر پڑجاوے تو وہ سارا زہریلا ہوجاتا ہے اور بعض ایسے ہیں جو چھوٹے چھوٹے گناہ ریاکاری وغیرہ جن کی شاخیں باریک ہوتی ہیں ان میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ اب اللہ تعالیٰ نے یہ ارادہ کیاہے کہ وہ دنیا کو تقویٰ اور طہارت کی زندگی کا نمونہ دکھائے۔ اسی غرض کے لیے اس نے یہ سلسلہ قائم کیا ہے۔ وہ تطہیر چاہتا ہے اور ایک پاک جماعت بنانا اس کا منشا ہے۔
حضورانور نے فرمایا کہ پس اس بات کے بعد ہمیں اپنے جائزے لینے چاہئیں کہ کیا ہماری حقیقت میں تطہیر ہو گئی ہے اور ہم نے اپنی زندگیوں کو اتنا پاک کر لیا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہم سے چاہتے ہیں یا اس کے لیے کوشش کررہے ہیں۔ اگر نہیں تو اب ہم دوسروں کو حقیقی رنگ میں راستہ نہیں دکھا سکیں گے۔ پس ہمیں بڑے خوف سے بڑی دعاؤں اور استغفار کے ساتھ اپنے جائزے لیتے رہنے چاہئیں۔
پھر آپؑ فرماتے ہیں : یہ بھی یادرکھنا چاہیے کہ قرآن کریم میں عملی اور علمی تکمیل کی ہدایت ہے چنانچہ اِھدِنا الصِراط میں تکمیل علمی کی طرف اشارہ ہے اور تکمیل عملی کا بیان صِراط الذِین انعمت علیھِم میں فرمایا کہ جو نتائج اکمل اور اتم ہیں وہ حاصل ہوجائیں۔ جیسے ایک پودا جو لگایا گیا ہے جب تک پورا نشوونما حاصل نہ کرے اس کو پھل پھول نہیں لگ سکتے۔ اسی طرح اگر کسی ہدایت کے اعلیٰ اور اکمل نتائج موجود نہیں ہیں وہ ہدایت مُردہ ہے جس کے اندر کوئی نشوونما کی قوت اور طاقت نہیں ہے۔ قرآن شریف ایک ایسی ہدایت ہے کہ اس پر عمل کرنے والا اعلیٰ درجہ کے کمالات حاصل کرلیتا ہے اور خداتعالیٰ سے اس کا ایک سچا تعلق پیدا ہونے لگتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کے اعمالِ صالحہ جو قرآنی ہدایتوں کے موافق کیے جاتے ہیں وہ ایک شجرِ طیب کی مثال جوقرآن شریف میں دی گئی ہے، بڑھتے ہیں اور پھل پھول لاتے ہیں۔
پس یہ عمل ہونے چاہئیں ہمارے۔قرآن کریم کے حکموں کی تلاش کریں جو نواہی اور اوامر ہیں ان کو دیکھیں۔ جو نہ کرنے والی باتیں ہیں ان سے رُکیں اور جو کرنے والی باتیں ہیں ان کو اختیار کریں ۔اپنی حالتوں کو بہتر بنائیں تبھی ہم حقیقی بیعت کا حق ادا کر سکتے ہیں اور تبھی ہم حقیقی رنگ میں انصاراللہ بن کے یہ پیغام دنیا کو پہنچا سکتے ہیں اور دنیا کو سیدھے رستے پہ چلا سکتے ہیں۔ پھر آپؑ فرماتے ہیں ایک خاص قسم کی حلاوت اور ذائقہ ان میں پیدا ہوتا ہے۔ جو یہ سب کام کرتے ہیں وہ پھر ایسے پھل پیدا کرتے ہیں جس میں ایک خاص قسم کی حلاوت پیدا ہو جاتی ہے۔
فرمایا توا صو ابِالحقِ میں یہ فرمایا کہ وہ اپنے اعمال کی روشنی سے دوسروں کو نصیحت کرتے ہیں۔یعنی اپنے عمل جو ہیں اس سے دوسروں کو نصیحت کرتے ہیں صرف باتوں سے نہیں کرتے۔ اور پھر ان کا شیوہ یہ ہوتا ہے وتواصوا بِالصبر۔ یعنی صبر کے ساتھ وعظ و نصیحت کا شیوہ اختیار کرتے ہیں۔ صرف باتوں کے ذریعہ سے تبلیغ نہیں کرنی بلکہ اپنے عمل سے دوسروں کو قائل کرنا ہے اور پھر مستقل مزاجی سے اس پر قائم رہتے ہوئے ان کو نصیحت کرنا اور تبلیغ کرتے چلے جانا ہے۔ اگر مخالفت ہو تو جلدی غصہ میں نہیں آ جاتے۔ پس تبلیغ کے لیے یہ دو باتیں ہمیشہ یاد رکھنی چاہئیں کہ اپنے عمل اور تعلیم میں مطابقت پیدا کرنا اور دوسرے صبر سے کام لیتے ہوئے مستقل مزاجی سے اور برداشت سے تبلیغ کرتے چلے جانا ہے۔ پس ہمیں اس حوالے سے بھی اپنے جائزے لینے چاہئیں اور تبلیغ کے کام کو آگے بڑھانا چاہیے۔ یہاں تو مواقع ایسے ہیں کہ تبلیغ کے بہت سارے کام ہو سکتے ہیں۔ جہاں روکیں ہیں یعنی قانون اور حکومتیں اگر رستے میں حائل ہیں تو دوسری جگہ جہاں ہم فائدہ اٹھا سکتے ہیں کیوں نہ اٹھایا جائے۔ پس اِن ملکوں میں رہنے والے، جن کو آزادانہ طور پر تبلیغ کے مواقع میسر ہیں، ان کو چاہیے کہ پہلے سے بڑھ کر تبلیغ کے لیے میدان میں نکلیں اور اپنے عمل سے ثابت کر دیں کہ اسلام ہی وہ حقیقی مذہب ہے جو دنیا کو راہ راست پر لا سکتا ہے اور دنیا کو نجات دلا سکتا ہے۔
بہرحال یہ سب کام اللہ تعالیٰ کی محبت دل میں پیدا کرتے ہوئے کریں گے تو برکت ہوگی۔ ذاتی اغراض نہیں ہونی چاہئیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: انسان کو چاہیے کہ ساری کمندوں کو جلا دے اور صرف محبت الٰہی ہی کی کمندکو باقی رہنے دے۔ خدا نے بہت سے نمونے پیش کئے ہیں آدم سے لے کر نوح وابراہیم اورموسیٰ اور عیسیٰ اور حضرت محمد مصطفی علیہم الصلوٰۃوالسلام تک کُل انبیا اسی نمونہ کی خاطر ہی تو اس نے بھیجے ہیں تا لوگ ان کے نقش قدم پر چلیں۔جس طرح وہ خدا تک پہنچے اسی طرح اَور لوگ بھی کو شش کریں۔ سچ ہے کہ جو خدا کا ہو جاتا ہے خدا اس کا ہو جاتا ہے۔ یادرکھو کہ ایسا نہ ہو کہ تم اپنے اعمال سے ساری جما عت کو بدنام کرو۔ فرمایا کہ شیخ سعدی صاحب فرماتے ہیں کہ ایک برا آدمی کئی نیک ناموں کی بدنامی کا باعث بن جاتا ہے۔ پس ہمیں بہت سوچنے کی ضرورت ہے۔ حقیقی انصاراللہ بننے کے لیے بہت غور کرنے کی ضرورت ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کی محبت ہمیں اپنے دل میں پیدا کرنے کی بہت کوشش کرنی چاہیے کہ ہمارے عمل بھی اس وقت حقیقی عمل بنیں گے جب ہم خدا تعالیٰ کی محبت کی وجہ سے نیکیاں بجا لانے کی کوشش کریں گے۔ ہمارے کاموں میں برکت اس وقت پڑے گی جب اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے راستے پر چلیں گے۔ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس عظیم کام میں معاون و مددگار تبھی بن سکیں گے جب ہم اپنے ہر قول و فعل کو اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے حکموں کے مطابق کرتے ہوئے پھر اللہ تعالیٰ سے اس میں برکت کی دعائیں مانگیں گے اور اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگنے کا صحیح طریق اپنی عبادتوں کو اس کے حکم کے مطابق بجا لانا ہے یعنی پانچ وقت کی نمازوں کی حفاظت اور دلی سوز سے ادائیگی اور توجہ کے ساتھ ادائیگی۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک موقع پر فرمایا : سو تم نمازوں کو سنوارو اور خدا تعالیٰ کے احکام کو اس کے فرمودہ کے بموجب ادا کرو۔ اس کی نواہی سے بچے رہو اس کے ذکر اور یاد میں لگے رہو دعا کا سلسلہ ہروقت جاری رکھو۔ اپنی نماز میں جہاں جہاں رکوع وسجود میں دعا کا موقع ہے دعا کرو اور غفلت کی نماز کو ترک کردو۔ رسمی نما ز کچھ ثمرات مرتب نہیں لاتی رسمی نماز کچھ ثمران مرتب نہیں لاتی اور نہ وہ قبولیت کے لائق ہے۔ نماز وہی ہے کہ کھڑے ہونے سے سلام پھیرنے کے وقت تک پورے خشوع و خضوع اور حضورقلب سے ادا کی جائے اور عاجزی اور فروتنی اور انکسار اور گریہ وزاری سے اللہ تعالیٰ کے حضور میں اس طرح سے ادا کی جاوے کہ گویا اس کو دیکھ رہے ہو اگر ایسا نہیںتو کم ازکم یہ توہوکہ وہی تم کو دیکھ رہا ہے۔ اس طرح کما ل ادب اور محبت اور خوف سے بھری ہوئی نمازیں ادا کرو۔یہ ہے نماز کی حقیقت۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ بھی فرمایا کہ ہماری کامیابی دعاؤں سے ہی ہونی ہے۔ پس جب ہم اپنی عملی حالتوں کی تبدیلی کے ساتھ دعاؤں اور عبادات کے اعلیٰ معیار حاصل کرنے کی کوشش کریں گے تو تبھی ہم حضرت مسیح موعودؑ کے حقیقی انصار میں شمار ہو سکتے ہیں، تبھی ہم اپنی اگلی نسلوں کی اصلاح اور اُن کو جماعت سے جوڑنے کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔
حضورانور نے فرمایا کہ مَیں اس وقت ایم ٹی اے اسلام آباد کے نئے سٹوڈیو سے خطاب کررہا ہوں۔ اور آج پہلی دفعہ یہاں سے یہ پروگرام جاری ہو رہا ہے گویا کہ انصاراللہ کے اس اجتماع کے ساتھ اس کا افتتاح بھی ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ اس کو بھی اسلام کا پیغام، دین کا پیغام پہنچانے کا ذریعہ بنائے اور پہلے سے بڑھ کر ایم ٹی اے کے ذریعہ سے دنیا میں اسلام کا حقیقی پیغام پہنچ سکے۔
اس کے بعد حضورانور نے دعا کروائی ۔

اجتماع کا پہلا روز

سالانہ اجتماع کا باقاعدہ آغاز 11؍ستمبر 2021ء کی صبح دس بجے ہوا جب افتتاحی اجلاس سے قبل لوائے انصاراللہ لہرانے کی تقریب ہوئی جس کے لیے طاہرہال اور مسجد بیت الفتوح کے سنگم پر ایک چبوترہ تیار کیا گیا تھا۔ مکرم رفیق احمد حیات صاحب امیر جماعت احمدیہ برطانیہ نے لوائے انصاراللہ اور مکرم ڈاکٹر چودھری اعجازالرحمن صاحب صدر مجلس انصاراللہ برطانیہ نے برطانیہ کا قومی پرچم فضا میں بلند کیا۔ پھر مکرم امیر صاحب نے دعا کروائی۔ جس کے بعد طاہر ہال میں مکرم امیر صاحب کی زیرصدارت افتتاحی اجلاس کا انعقاد ہوا۔ تلاوت قرآن کریم مکرم داؤد احمد صاحب نے کی ۔ آیات کریمہ کاانگریزی ترجمہ مکرم جمیل موانجے صاحب نے پیش کیا۔ مکرم صدر صاحب مجلس انصاراللہ برطانیہ کی اقتدا میں حاضرین نے مجلس انصاراللہ کا عہد دہرایا۔ پھر مکرم مجاہد جاوید صاحب نے سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا پاکیزہ منظوم کلام پیش کیا:

عجب گوہر ہے جس کا نام تقویٰ
مبارک وہ ہے جس کا کام تقویٰ
سنو ہے حاصل اسلام تقویٰ
خدا کا عشق مے اور جام تقویٰ

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منظوم کلام کے بعد مکرم امیر صاحب نے اپنی افتتاحی تقریر میں سب سے پہلے شرکائے اجتماع سے عالمی وبا سے بچنے کے بارے میں اختیار کیے جانے والے حفاظتی انتظامات کو ملحوظ رکھنے کی درخواست کی۔پھر آپ نے پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے مظالم کا ذکر کیا اور کہا کہ ہمیں خداتعالیٰ کا شکرگزار ہونا چاہیے کہ ہم ایک ایسے ملک میں رہائش رکھتے ہیں جہاں سرکاری طور پر ہمیں تمام بنیادی انسانی حقوق میسر ہیں۔ بعدازاں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ایک خطبہ جمعہ سے ایک اقتباس پڑھ کر آپ نے انصار کو اپنی ذات میں تربیتی اور اخلاقی پہلوؤں کو اجاگر کرنے کی طرف توجہ دلائی تاکہ ہمارا خداتعالیٰ سے ایک مضبوط تعلق قائم ہوجائے اور ہمیں اُس کی محبت حاصل ہوجائے کیونکہ یہی وہ عظیم مقصد ہے جسے حاصل کرنے کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام مبعوث ہوئے ہیں اور حضرت اقدسؑ نے خود فرمایا ہے کہ خالق کے ساتھ مخلوق کا تعلق پیدا کرنے کے لیے مَیں آیا ہوں۔
اپنی تقریر کے اختتام سے قبل محترم امیر صاحب نے سلائیڈز کی مدد سے بیت الفتوح پراجیکٹ کی تکمیل کے حوالے سے مختلف مراحل پر تفصیل سے روشنی ڈالی اور بتایا کہ جلد ہی یہ سارا منصوبہ مکمل ہوجائے گا اور جماعت احمدیہ برطانیہ کے علاوہ اس علاقے کے لیے بھی ایک خوش کُن اضافہ ہوگا۔ آخر میں مکرم امیر صاحب نے دعا کروائی اور اس طرح افتتاحی اجلاس اختتام کو پہنچا۔

سالانہ اجتماع کا پہلا اجلاس

افتتاحی اجلاس کے فوراً بعد اجتماع کے پہلے اجلاس کا آغاز ہوا جس میں چند علمی اور ورزشی مقابلہ جات منعقد ہوئے جن میں تلاوت قرآن کریم، نظم، قصیدہ، تقریر اردو اور تقریر انگریزی، نیز پچاس میٹر اور دوسو میٹر کی دوڑیں، گولہ پھینکنا فٹ بال اور والی بال شامل ہیں۔علمی مقابلہ جات طاہر ہال اور مسجد بیت الفتوح کے مرکزی ہال میں جبکہ ورزشی مقابلہ جات مسجد کے کمپلیکس کے سامنے واقع وسیع و عریض پارک میں منعقد ہوئے۔
مقابلہ جات کے دوران طاہر ہال میں تین عوامی دلچسپی کے موضوعات پر نہایت مفید اور خوبصورت پریزنٹیشنز کا بھی اہتمام کیا گیا۔ پہلی پریزنٹیشن سائیکل چلانے کی افادیت اور اس حوالے سے حفاظت سے متعلق اہم معلومات پر مبنی تھی جو مکرم طارق نُور صاحب اور مکرم مرزا محمود احمد صاحب نے نہایت عمدگی سے سلائیڈز کی مدد سے پیش کی۔ دوسری پریزنٹیشن میں مکرم عمران علی صاحب نے ایک اہم موضوع یعنی اپنی زندگی میں ہی اپنی املاک اور دیگر وراثت سے متعلق قانونی تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے وصیت کرنے کے بارے میں مختلف اخلاقی اور قانونی پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔ تیسری پریزنٹیشن عمومی صحت کے بارے میں بہت مفید معلومات پر مشتمل تھی جسے مکرم ڈاکٹر حماد احمد صاحب اور مکرم ڈاکٹر محمود احمد صاحب (کارڈیالوجسٹ) نے پیش کیا۔ تینوں پریزنٹیشنز کے بعد شرکائے مجلس کو سوالات پوچھنے کی دعوت بھی دی گئی اور بعض احباب نے اپنے تجارب بھی بیان کیے۔ اس بہت مفید مجلس کے اختتام کے ساتھ سالانہ اجتماع کا پہلا اجلاس اپنے اختتام کو پہنچا۔

سالانہ اجتماع کا دوسرا اجلاس

کھانے اور نمازوں کے وقفے کے بعد اجتماع کا دوسرا اجلاس طاہر ہال میں مکرم ڈاکٹر سر افتخار احمد ایاز صاحب چیئرمین احمدیہ ہیومن رائٹس کمیٹی کی صدارت میں شروع ہوا۔ مکرم معید حامد صاحب نے تلاوت قرآن کریم کی۔ آیات کریمہ کا ترجمہ مکرم حکیم مینسا صاحب نے پڑھ کر سنایا۔ پھر مکرم آصف چغتائی صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منظوم کلام سے چند اشعار خوش الحانی سے پڑھے۔
اس اجلاس کے پہلے مقرر مکرم راجہ برہان احمد صاحب قائد تعلیم مجلس انصاراللہ برطانیہ تھے جنہوں نے مطالعہ کتب کے موضوع پر اردو زبان میں سیرحاصل تقریر کی۔ آپ نے کتب کے مطالعہ کی اہمیت کو بیان کرنے کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کے مطالعہ کی افادیت، ضرورت اور برکات پر تفصیل سے روشنی ڈالی اور اس حوالے سے حضور علیہ السلام اور خلفائے کرام کے متعدد ارشادات بھی پیش کرکے حاضرین کو حضورعلیہ السلام کی کتب اور خاص طور پر ’’حقیقۃالوحی‘‘ پڑھنے کی طرف توجہ دلائی جو اس وقت مجلس انصاراللہ برطانیہ کے نصاب کے طور پر زیرمطالعہ ہے۔ حضور علیہ السلام نے اپنی کتب کے بارے میں خود فرمایا ہے: ’’ میں تو ایک حرف بھی نہیں لکھ سکتا اگر خداتعالیٰ کی طاقت میرے ساتھ نہ ہو۔ بارہا لکھتے لکھتے دیکھا ہے ایک خدا کی روح ہے جو تیر رہی ہے، قلم تھک جایا کرتی ہے مگر اندر جوش نہیں تھکتا، طبیعت محسوس کیا کرتی ہے کہ ایک ایک حرف خداتعالیٰ کی طرف سے آتا ہے۔‘‘
اس اجلاس کے دوسرے مقرر مکرم آصف محمود باسط صاحب تھے جنہوں نے انگریزی زبان میں تقریر کی جس میں سوشل میڈیا کے خطرات پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ آپ نے بچوں پر سوشل میڈیا کے اثرات کو بیان کرنے کے بعد اس کے خوفناک نتائج کو بیان کیا جو انفرادی اور اجتماعی، ہر دو سطحوں پر تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ آپ نے بتایا کہ انصار کو سوشل میڈیا کے ذرائع کو خود بھی استعمال کرنے کی طرف توجہ دینی چاہیے تاکہ زیادہ بہتر انداز میں اپنے بچوں کی رہنمائی کرسکیں۔ مقرر موصوف نے حضورانور کی کتاب ’’سوشل میڈیا‘‘ کے مطالعے کی طرف بھی توجہ دلائی اور اپنی اولاد کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کرنے کے نفسیاتی حربوں پر بھی روشنی ڈالی تاکہ بچوں کی تعلیم، تربیت اور اصلاح کا عظیم مقصد آسانی سے حاصل ہوسکے۔

(فضل الرحمٰن ناصر)

اس اجلاس کی تیسری اور آخری تقریر اردو زبان میں تھی۔ مکرم فضل الرحمن صاحب قائد تربیت مجلس انصاراللہ برطانیہ نے ’’نظام وصیت کی اہمیت‘‘ پر بہت مؤثر انداز میں روشنی ڈالتے ہوئے اس نظام کے اغراض و مقاصد، اس کے لیے قربانی کی اہمیت، اس نظام میں شامل ہونے والوں کے لیے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی دعائیں اور بہت سے قربانی کرنے والوں کے واقعات بیان کئے۔ مقرر موصوف نے بتایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تین بار بڑے درد کے ساتھ اس بہشتی مقبرہ میں دفن ہونے والوں کے لیے دعا کی ہے اور ان دعاؤں سے بھی یہ واضح ہوجاتا ہے کہ اس نظام میں شامل ہونے والوں کے اندر کونسی تبدیلیاں پیدا ہونا ضروری ہیں۔ چنانچہ پہلی بار دعا کے الفاظ یہ ہیں: ’’میں دعا کرتاہوں کہ خدا اس میں برکت دے اور اسی کو بہشتی مقبرہ بنا دے۔اور یہ اس جماعت کے پاک دل لوگوں کی خوابگاہ ہو جنہوں نے درحقیقت دین کو دنیا پرمقدم کرلیا اور دنیا کی محبت چھوڑ دی اور خدا کے لیے ہوگئے اور پاک تبدیلی اپنے اندر پیدا کرلی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کی طرح وفاداری اور صدق کا نمونہ دکھلایا۔ آمین یَا رَبَّ الْعَالَمِیْنَ۔‘‘

پھر آپ نے دوسری بار یوں دعاکی کہ ’’میں پھر دعا کرتاہوں کہ اے میرے قادر خدا اس زمین کومیری جماعت میں سے اُن پاک دلوں کی قبریں بنا جو فی الواقع تیرے لیے ہو چکے اور دنیا کی اغراض کی ملونی اُن کے کاروبار میں نہیں۔ آمین یَارَبَّ الْعَالَمِیْن‘‘۔

اور تیسری بار پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یوں دعاکی کہ ’’پھر میں تیسری دفعہ دعا کرتاہوں کہ اے میرے قادر کریم! اے خدائے غفور ورحیم! توُ صرف ان لوگوں کو اس جگہ قبروں کی جگہ دے جو تیرے اس فرستادہ پر سچا ایمان رکھتے ہیں اور کوئی نفاق اور غرض نفسانی اور بدظنّی اپنے اندر نہیں رکھتے اور جیسا کہ حق ایمان اور اطاعت کا ہے بجا لاتے ہیں۔ اور تیرے لیے اور تیری راہ میں اپنے دلوں میں جان فدا کر چکے ہیں۔جن سے توُ راضی ہے اور جن کو توُ جانتاہے کہ بکلّی تیری محبت میں کھوئے گئے اور تیرے فرستادہ سے وفاداری اور پورے ادب اور انشراحی ایمان کے ساتھ محبت اور جانفشانی کا تعلق رکھتے ہیں۔ آمین یَا رَبَّ الْعَالَمِیْن‘‘۔

سالانہ اجتماع کا تیسرا اجلاس

ایک مختصر وقفے کے بعد اجتماع کے تیسرے اجلاس کا انعقاد مکرم ڈاکٹر چودھری اعجازالرحمن صاحب صدر مجلس انصاراللہ برطانیہ کی زیر صدارت تلاوت قرآن کریم سے ہوا جو مکرم عبدالسمیع عابد صاحب نے کی۔ آیات کریمہ کا انگریزی ترجمہ مکرم محمد زکریا چودھری صاحب نے پڑھا۔ جس کے بعد مکرم صدر صاحب نے چیریٹی واک کی تاریخ اور اس کے بابرکت اثرات کا اختصار سے ذکر کرتے ہوئے بیان کیا کہ یہ واک خلفائے کرام کی رہنمائی میں سالہاسال سے بنی نوع انسان کی خدمت کے علاوہ دعوت الی اللہ کا بھی بہت مؤثر ذریعہ ہے چنانچہ خصوصیت سے یہ امر قابل ذکر ہے کہ اس واک میں جمع کی جانے والی ساری کی ساری رقم چیریٹیز میں تقسیم کردی جاتی ہے اور کچھ بھی انتظامی معاملات کے لیے خرچ نہیں کیا جاتا۔ بعدازاں مکرم صدر صاحب نے سٹیج پر ایک پینل کو دعوت دی جس نے چیرٹی واک کے مختلف پہلوؤں پر تفصیل سے اظہار خیال کیا۔ آخر میں احباب کو سوالات کرنے کا موقع بھی دیا گیا۔ اس پینل کے میزبانی مکرم خلیل یوسف صاحب نے کی جبکہ دیگر شرکاء میں مکرم ظہیر احمد جتوئی صاحب چیئرمین چیرٹی واک فار پیس ، مکرم رفیع احمد بھٹی صاحب نائب چیئرمین اور مکرم اظہر منان صاحب قائد مال مجلس انصاراللہ یوکے شامل تھے۔ اجلاس کے دوران مختلف ریجنل ناظمین اعلیٰ نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا اور ریجنز کی سطح پر آئندہ چند ہفتوں میں منعقد ہونے والے پروگراموں پر روشنی ڈالی۔ قریباً ڈیڑھ گھنٹے تک جاری رہنے والے اس اجلاس کے اختتام سے قبل مکرم صدر صاحب نے مختلف علمی و ورزشی مقابلہ جات میں نمایاں کارکردگی دکھانے والے انصار اور مجالس کی شاندار کارکردگی کی بنیاد پر انعامات تقسیم کیے۔
پہلے روز کے تیسرے اجلاس کا آخری پروگرام ایک مجلس شعروادب کا اہتمام تھا۔ اس نشست کے میزبان مکرم وسیم احمد فضل صاحب مربی سلسلہ تھے جبکہ شرکاء میں مکرم محمد طاہر ندیم صاحب مربی سلسلہ اور مکرم میر انجم پرویز صاحب مربی سلسلہ شامل تھے۔ نشست کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جو مکرم ظفراللہ احمدی صاحب نے کی اور آیات کریمہ کا اردو ترجمہ پیش کیا۔ بعد ازاں مکرم مجاہد جاوید صاحب نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا منظوم کلام خوش الحانی سے پیش کیا۔ یہ نشست کئی پہلوؤں سے دلچسپی کی حامل تھی۔ شرکاء نے اپنا خوبصورت کلام پیش کرنے کے ساتھ ساتھ خلفائے سلسلہ اور بعض بزرگان دین کے ایمان افروز واقعات بھی بیان کیے۔ نیز مختلف علمی اور ادبی نکات پر روشنی ڈالتے ہوئے احمدیہ علمِ کلام کی امتیازی خصوصیات اور بامقصد ادبی خدمات پر بھی بہت دلنشیں پیرائے میں اظہار خیال کیا۔ اس نہایت دلچسپ نشست کا اختتام دعا کے ساتھ ہوا جو مکرم رفیق احمد حیات صاحب امیر جماعت احمدیہ برطانیہ نے کروائی اور اس کے ساتھ ہی سالانہ اجتماع 2021ء کے پہلے روز کا پروگرام بھی بخیروخوبی اختتام کو پہنچا۔
بعد ازاں انصار کی خدمت میں رات کا کھانا پیش کیا گیا جو پہلے سے پیک کرکے تیار رکھا گیا تھا۔ بعدازاں نماز مغرب و عشاء رات آٹھ بجے ادا کی گئیں۔

سالانہ اجتماع کا دوسرا روز

سالانہ اجتماع کا چوتھا اجلاس

12؍ستمبر 2021ء کو اجتماع کے دوسرے روز کا پہلا اور اجتماع کا چوتھا اجلاس مکرم ڈاکٹر چودھری اعجازالرحمن صاحب صدر مجلس انصاراللہ برطانیہ کی زیرصدارت حسب پروگرام صبح دس بجے تلاوت قرآن کریم سے شروع ہوا جو مکرم ظفراللہ احمدی صاحب نے کی اور مکرم عطاء القدوس صاحب ریجنل امیر اسلام آباد نے آیات کریمہ کا انگریزی میں ترجمہ پیش کیا۔ جس کے بعد مکرم ندیم زاہد صاحب نے سیّدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا منظوم دعائیہ کلام خوش الحانی سے پڑھا۔
اس اجلاس کی پہلی تقریر مکرم مولانا عطاء المجیب راشد صاحب نائب امیر و امام مسجد فضل لندن کی تھی۔ انگریزی زبان میں کی جانے والی اس تقریر کا عنوان تھا: ’’تربیتِ اولاد اور انصار کی ذمہ داری‘‘۔ اپنی تقریر کے آغاز میں مکرم امام صاحب نے یہ واقعہ بیان کیا کہ ایک بار حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے حضرت چودھری ظفراللہ خان صاحب ؓ اور محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب سے لفظ ’تربیت‘ کا انگریزی ترجمہ پوچھا۔ دونوں نے اپنے علم کے مطابق انگریزی میں جو الفاظ بتائے اُس پر حضورؒ نے فرمایا کہ دونوں تراجم درست ہیں لیکن تربیت کے لفظ میں جو معانی پنہاں ہیں اُن کا حق انگریزی کے الفاظ ادا ہی نہیں کرسکتے اس لیے آئندہ سے احمدیہ لغت میں ’تربیت‘ کا لفظ بھی شامل کرلیا جائے جس کا ترجمہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ پھر امام صاحب نے بہت مؤثر انداز میں انصار کو توجہ دلائی کہ اگر وہ اپنے کردار کو اسلامی اصولوں کے مطابق ڈھالیں گے تو اُن کو اپنے بچوں کی تربیت کرنے میں مشکل پیش نہیں آئے گی۔ جو والدین خدا تعالیٰ کے احکام کے مطابق نماز کو قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں، قرآن کریم کی تلاوت باقاعدگی سے کرتے ہیں اور عام اخلاق مثلاً سچ بولنے وغیرہ کو اپنا لیتے ہیں اُن کی اولادیں اپنے والدین کے اوصاف کو ہی اپنی زندگیوں کا حصہ بنالیتی ہیں۔ مقرر موصوف نے متعدد خوبصورت نکات بیان کرتے ہوئے اپنے مضمون کا حق ادا کرنے کی کوشش کی اور بتایا کہ انصار اپنی زندگیوں کے اُس دَور سے گزر رہے ہیں جہاں وہ اس دنیا سے رخصت ہونے کے وقت کے قریب پہنچ رہے ہیں اور ایسے میں ضروری ہے کہ اپنے بچوں کی اسی طرح حفاظت، نگرانی اور تربیت کریں جس طرح ایک مسافر اپنی منزل پر پہنچنے سے قبل اپنے سامان کی نگرانی کرتا ہے اور منزل پر پہنچ کر سواری سے اترنے کی ہرممکن تیاری کرتا ہے۔ مکرم امام صاحب نے بتایا کہ دعا کے ساتھ بچوں کی تربیت کرنے کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہیے جیسا کہ حضرت مسیح موعودؑ نے بھی فرمایا ہے کہ میری اپنی تو یہ حالت ہے کہ میری کوئی نماز ایسی نہیں جس میں مَیں اپنے دوستوں اور اپنی اولاد اور بیوی کے لیے دعا نہیں کرتا۔
اس اجلاس کی دوسری تقریر مکرم مولانا اخلاق احمد انجم صاحب مربی سلسلہ وکالت تبشیر لندن کی تھی۔ اردو زبان میں اس تقریر کا موضوع تھا: ’’برکاتِ خلافت‘‘۔ مقرر موصوف نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے بگڑی ہوئی امّت کی اصلاح اور اشاعتِ دین کے لیے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو اس زمانے کا امام اور مہدی بناکر بھیجا ہے۔ آپؑ کے ہی مقصدِ بعثت کو جاری رکھنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے تقویٰ شعاروں کی ایک جماعت قائم فرمائی جس میں نظام خلافت جاری فرمایا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس نظام کے ذریعے وہ تمام برکات بنی نوع انسان کو عطا فرمائیں جن کی دینی ترقیات اور دنیاوی معاملات کے لیے آپؑ کے پیروکاروں کو ضرورت تھی۔ مقرر موصوف نے وقت کی مناسبت سے سیّدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی دعاؤں کی قبولیت کے چند واقعات بھی بیان کیے جو دراصل مُردوں کے زندہ ہونے کا عظیم الشان نشان ہیں۔ آپ نے اپنی تقریر کا اختتام حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کے ایک نہایت پُرمعارف ارشاد پر کیا۔ حضورؒ نے احباب جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ’’خوب اچھی طرح اسے اپنی عقل و فراست کی گانٹھوں میں باندھ کر محفوظ کر لو کہ تمہاری شادابی اور تمہاری یہ بہارِ نو، تمہاری کلیوں کا چٹکنا اور شگوفوں کا پھوٹنا یہ سب سر تا پا خلافتِ محمدیہ کے دم قدم کی برکت سے ہے۔یہ نعمت تمہیں ہجر کی تیرہ طویل اور درد ناک صدیوں کی گریہ و زاری کے بعد نصیب ہوئی ہے۔اب اس نعمت کو سر آنکھوں پر بٹھانا، سینہ سے لگانا اور اپنے بچوں اور اپنی بیویوں اور اپنے باپوں اور اپنے ہر دوسرے پیارے سے ہزار بار بڑھ کر عزیز رکھنا۔ تمہارے احیا اور تمہاری بقا کی تمام کنجیاں خلافت میں رکھ دی گئی ہیں۔ سب تد بیریں قیامت تک کے لیے خلافت سے وابستہ ہو چکی ہیں،اُمتِ مسلمہ کی تقدیر اس نظام سے وابستہ ہے اور تمہاری غیر متناہی عظیم شاہراہ اس در سے ہو کر گزرتی ہے جسے خلافتِ راشدہ محمدیہ کہا جاتا ہے۔ جان دے کر بھی اس نعمت کی حفاظت کرو اور ایک کے بعد دوسرے آنے والے خلیفہ راشد سے انصار کی زبان میں بہ منّت عرض کرو کہ اے! خلیفۃ الرسول! ہم تمہارے آگے بھی لڑیں گے، ہم تمہارے پیچھے بھی لڑیں گے،ہم تمہارے دائیں بھی لڑیں گے اور تمہارے بائیں بھی لڑیں گے اور خدا کی قسم! خدا کی قسم! اب قیامت تک کسی دشمن کی مجال نہ ہو گی کہ محمدِ عربی ﷺ کی خلافت کو بُری نظر سے دیکھ سکے۔‘‘
اس اجلاس کی تیسری اور آخری تقریر مکرم ڈاکٹر چودھری اعجازالرحمن صاحب صدر مجلس انصاراللہ برطانیہ کی تھی ۔ مکرم صدر صاحب موصوف نے اپنی مختصر تقریر میں عالمی وبا کی آمد کے بعد بہت سی ظاہری مشکلات کے باوجود حاصل ہونے والی متفرق کامیابیوں اور ترقیات پر روشنی ڈالی۔ آپ نے بتایا کہ ان غیرطبعی حالات میں جسمانی طور پر اجلاسات میں حاضر ہونے کی پابندی کی وجہ سے آن لائن اجلاسات میں شامل ہونے والوں کی تعداد میں غیرمعمولی اضافہ دیکھنے میں آیا۔ اسی طرح گھروں میں نماز باجماعت کی ادائیگی اور دیگر تربیتی امور کی ادائیگی میں نمایاں ترقی مشاہدہ کی گئی۔ مالی معاملات کے حوالے سے مکرم صدر صاحب موصوف نے بتایا کہ اس عالمی وبا کے نتیجے میں متعدد افراد کی آمدنی میں کمی واقع ہوگئی، بعض کی ملازمتیں ختم ہوگئیں اور بعض اپنے کام کو پہلے کی طرح جاری نہ رکھ سکے۔ ان حالات کے پیش نظر شعبہ مال کو خدشہ تھا کہ ہمارے بجٹ پر منفی اثرات ظاہر ہوں گے اور اس کی تیاری کے لیے ہمیں اپنے اخراجات میں نمایاں کمی کرنا پڑے گی۔ تاہم مَیں نے عاملہ میں اُس وقت بھی عرض کیا تھا کہ مجھے خداتعالیٰ کے فضل اور احمدیوں کے اخلاص اور مالی قربانی کی روح پر اعتماد کرتے ہوئے یقین ہے کہ ہمارا بجٹ پورا ہوجائے گا۔ چنانچہ خداتعالیٰ کے فضل سے ہمارے بجٹ میں اضافی آمد ریکارڈ کی گئی ۔ مکرم صدر صاحب نے بتایا کہ یہ بیان کرنے کا مقصد خداتعالیٰ کی شکرگزاری اور اپنے دوستوں کا بھی شکریہ ادا کرنا ہے جن کی مالی قربانی کی وجہ سے ہمارا قدم پیچھے ہٹنے کی بجائے آگے بڑھتا جارہا ہے۔اور اگرچہ گزشتہ سال کے حالات کی وجہ سے ہم چیرٹی واک کو منعقد نہیں کرسکے تھے لیکن خداتعالیٰ کے فضل سے اپنے نصف ملین پاؤنڈ کے ٹارگٹ کو حاصل کرنے میں ہم نے کامیابی حاصل کرلی۔ اسی طرح حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے اسلام آباد میں تشریف لے جانے کے بعد مجلس انصاراللہ برطانیہ نے قریبی علاقے میں ایک گیسٹ ہاؤس خریدنے کی بھی توفیق پائی جس کا نام حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ’’سرائے ناصر‘‘ تجویز فرمایا ہے۔ اس گیسٹ ہاؤس کی خرید کے لیے اڑہائی لاکھ پاؤنڈ کی رقم مہیا کرنے کے علاوہ مجلس انصاراللہ نے پانچ لاکھ پاؤنڈ مرکز سے بطور قرض حاصل کیا۔ حضور انور نے ازراہ شفقت مجھ سے پوچھا کہ کیا دو سال میں یہ قرض واپس کردیں گے تو خاکسار نے اپنے مالی حالات کے پیش نظر عرض کیا کہ حضور! پانچ سال میں ادا کرسکیں گے۔ لیکن خداتعالیٰ نے حضورانور کی زبان مبارک سے ادا ہونے والے الفاظ میں ایسی برکت رکھ دی کہ نصف قرض ہم نے پہلے ہی سال میں ادا کردیا اور باقی نصف اس سال ادا کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ انشاء اللہ
مکرم صدر صاحب موصوف نے مزید بتایا کہ جتنے انصار نے بھی آن لائن درخواست کے ذریعے سالانہ اجتماع میں شمولیت کے لیے خواہش کا اظہار کیا ہے، ہم نے انہیں دعوت نامے جاری کردیے تاہم عمر کی جو حد (یعنی ستّر سال) مقرر کی گئی ہے یہ فیصلہ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اور بعض عمررسیدہ افراد کو مہمان یا مقرر کے طور پر مدعو کرنے کے لیے حضورانور سے خصوصی اجازت حاصل کی گئی ہے۔ مکرم صدر صاحب نے متنبہ کیا کہ حاضرین کا فرض ہے کہ وہ احتیاطی تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے اجتماع میں شامل ہوں۔ چونکہ کھانے کی مارکی میں ساڑھے چھ صد افراد کے بیٹھ کر کھانا کھانے کی گنجائش ہے اور آج حاضرین کی تعداد زیادہ ہے اس لیے مارکی سے باہر بھی کھانے کا انتظام کیا گیا ہے۔
اس کے بعد علمی اور ورزشی مقابلہ جات میں اوّل آنے والے انصار اور بعض شعبہ جات میں نمایاں کارکردگی دکھانے والی مجالس میں مکرم رفیق احمد حیات صاحب امیر جماعت احمدیہ برطانیہ نے انعامات تقسیم کیے۔
اجلاس کے اختتام سے قبل ایک خصوصی نشست کا انعقادکیا گیا جس میں مجلس انصاراللہ برطانیہ کی زیرنگرانی اور غیرمعمولی مالی معاونت سے برکینافاسو (افریقہ) میں قائم ہونے والے نُور آئی ہسپتال کی تعمیر و تزئین اور اس میں مہیا کیے جانے والے جدید طبّی آلات سے متعلق تفصیلی معلومات مہیا کی گئیں۔ اس نشست کے میزبان مکرم سیّد کلیم اللہ صادق صاحب تھے۔ جبکہ شرکاء میں مکرم ڈاکٹر اعجازالرحمن صاحب صدر مجلس انصاراللہ برطانیہ، مکرم ڈاکٹر عمران مسعود صاحب اور محترم صاحبزادہ مرزا وقاص احمد صاحب شامل تھے۔ سلائیڈز کی مدد سے اس پراجیکٹ کے مختلف مراحل دکھائے گئے اور محترم صدر صاحب نے حاضرین کو بتایا کہ 2016ء میں یہ ہسپتال بنانے کی ذمہ داری مجلس انصاراللہ برطانیہ کو حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی طرف سے سونپی گئی تھی۔ 2017ء میں حضورانور نے ایک اینٹ پر دعا کرکے خاکسار کو دی جسے خاکسار نے برکینافاسو جاکر ہسپتال کی بنیاد میں رکھا۔ خداتعالیٰ کے فضل سے یہ بلڈنگ مکمل ہوچکی ہے اور بیرونی تزئین جاری ہے ۔ ساڑھے چار ایکڑ پلاٹ کے ایک حصے میں تعمیر کی جانے والی یہ دو منزلہ عمارت ہے جس میں دو آپریشن تھیٹر اور مریضوں کا معائنہ کرنے کے لیے چھ کمرے تعمیر کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ چند سٹورز، کچن اور دیگر کمرے تعمیر کیے گئے ہیں۔ دو گھر بھی اس زمین میں تعمیر کیے جائیں گے۔ اس منصوبے کے حوالے سے حضورانور نے بھی بارہا خوشنودی کا اظہار فرمایا ہے اور ہسپتال کی تعمیر کے بعد اس کو مستقل پیمانے پر چلانے کی ذمہ داری بھی مجلس انصاراللہ برطانیہ کے سپرد کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ مجلس انصاراللہ کا پراجیکٹ تھا اور رہے گا۔ خداتعالیٰ کے فضل سے بہت سے احباب نے اس حوالے صدقات کی مستقل ادائیگی کا پروگرام بنایا ہے اور ہماری آنکھوں کے آپریشن کی سکیم میں بھی بہت مستعدی سے حصہ لے رہے ہیں۔ کئی دیگر دوست بھی اس حوالے سے Standing Order کے ذریعے مالی قربانی کررہے ہیں، چند ایک اپنے وقت کی قربانی کرتے ہوئے وقف عارضی پر جاتے ہیں جن میں مکرم چودھری وسیم احمد صاحب سابق صدر مجلس انصاراللہ برطانیہ کی خدمات نمایاں ہیں۔ اس کے علاوہ مکرم ڈاکٹر مرزا خالد تسلیم صاحب اور خاکسار نے میڈیکل کے شعبے میں زیرتعلیم متعدد واقفین نَو کو جماعتی ضروریات کے حوالے سے سپیشلائزیشن کرنے کے سلسلے میں بھی رہنمائی کی ہے کیونکہ مستقبل میں ہسپتال کو کامیابی سے چلانے کے لیے ہر متعلقہ شعبے کے لیے افرادی قوّت کی بھی ضرورت ہوگی۔
اس خصوصی نشست کے بعد یہ اجلاس اختتام پذیر ہوا۔ کھانے اور تیاری نماز کے وقفے کے بعد تین بجے نماز ظہر و عصر باجماعت ادا کی گئیں جس کے بعد اختتامی اجلاس کا انعقاد ہوا۔
سالانہ اجتماع کا اختتامی اجلاس
سالانہ اجتماع کا اختتامی اجلاس 12؍ستمبر2021ء بروز اتوار قریباً ساڑھے تین بجے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی زیر صدارت منعقد ہوا جب پیارے آقا اسلام آباد (یوکے) میں نئے تعمیر کیے جانے والے ایم ٹی اے کے سٹوڈیو میں رونق افروز ہوئے۔ پروگرام کا باقاعدہ آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جو مکرم حافظ طیب احمد صاحب نے طاہرہال (بیت الفتوح لندن) سے کی اور بعدازاں آیات کریمہ (سورۃ آل عمران:102-106) کا اردو ترجمہ بھی پڑھ کر سنایا۔ اس کے بعد حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کی اقتدا میں انصار نے کھڑے ہوکر اپنا عہد دہرایا۔ پھر مکرم عمرشریف صاحب نے سیّدنا
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا پاکیزہ کلام خوش الحانی سے پیش کیا:

ہمیں اُس یار سے تقویٰ عطا ہے
نہ یہ ہم سے کہ احسانِ خدا ہے

نظم کے بعد مکرم ڈاکٹر چودھری اعجازالرحمن صاحب صدر مجلس انصاراللہ برطانیہ نے اجتماع کی مختصر رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور حضورانور کی دعاؤں کے طفیل امسال کا اجتماع ایک مرتبہ پھر مجلس انصار اللہ برطانیہ کے لیے تاریخی حیثیت کا حامل ہے۔ 2019ء میں حضورانور نے ازراہِ شفقت مجلس انصاراللہ یوکے کی اجتماع گاہ سے خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا تھا۔ اور ہم ایک بار پھر بہت خوش قسمت ہیں کہ امسال ہمیں یہ منفرد اعزاز حاصل ہورہا ہے کہ ہم وہ پہلی ذیلی تنظیم ہیں جس کے اجتماع میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ آن لائن رونق افروز ہو رہے ہیں اور virtually خطاب فرمانے جارہے ہیں۔ خاکسار مجلس انصاراللہ کی طرف سے حضورانور کا شکرگزار ہے کہ حضور انور نے ہماری کمزوریوں سے درگزر فرماتے ہوئے ہم پر شفقت فرمائی ہے۔ نیز خدمت اقدس میں دعا کی درخواست کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں حضور انور کی توقعات اور اعتماد پر پورا اترنے کی توفیق عطا فرمائے۔
مکرم صدر صاحب نے بتایا کہ مجلس انصاراللہ برطانیہ نے اس سال کے لیے اپنا موضوع (theme) ’’تقویٰ‘‘ سال کے آغاز میں ہی مقرر کردیا تھا۔ امسال کُل 145 مجالس میں سے 75 مجالس اور کُل 18 ریجنز میں سے 15 ریجنز نے عالمی کرونا وبا کے باوجود اپنے اجتماعات منعقد کرنے کی توفیق پائی۔ جون میں حضورانور کی طرف سے سالانہ اجتماع کی منظوری ملنے کے بعد مکرم فہیم احمد انور صاحب (ناظم اعلیٰ اجتماع) کی قیادت میں ایک ٹیم نے موجودہ حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اجتماع کے کامیاب انعقاد کو ممکن بنانے کے لیے غیرمعمولی محنت کی۔ اجتماع کے دوران علماء سلسلہ کی تقاریر، مختلف علمی و ورزشی مقابلہ جات کے علاوہ چند ورکشاپس بھی منعقد کی گئیں جن کے ذریعے انصار کو سائیکل کے استعمال کے فوائد ، عمومی صحت کی بہتری اور وصیت لکھنے کے حوالے سے قانونی پہلوؤں کے متعلق آگاہی دی گئی۔ اجتماع کے دوران شعبہ تبلیغ کے علاوہ مسرور آئی انسٹیٹیوٹ برکینافاسو اور چیرٹی واک کے حوالے سے خصوصی نشستوں کا اہتمام بھی کیا گیا۔
مکرم صدر صاحب موصوف نے رپورٹ کے اختتام پر حضورانور کی خدمت میں ایک بار پھر دعا کی درخواست کرتے ہوئے عرض کیا کہ خداتعالیٰ ہمیں حقیقی معنوں میں انصاراللہ بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ نیز بتایا کہ امسال مقام اجتماع میں حاضرین کی کُل تعداد 1573 رہی ہے جبکہ ساڑھے آٹھ ہزار سے زیادہ انصار یوٹیوب کے ذریعے اجتماع کے پروگرام میں شامل ہیں۔
اس کے بعد حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشاد پر مکرم محمد محمود خان صاحب قائد عمومی مجلس انصاراللہ برطانیہ نے گزشتہ سال کی کارگزاری کے حوالے سے مقابلہ بین المجالس و ریجنز(برائے علم انعامی) کے نتائج کا اعلان کیا جو درج ذیل ہے:
گزشتہ سال کے دوران مجموعی کارگزاری کی بنیاد پر ریجنز کی پوزیشن یہ رہی:
اوّل: ساؤتھ ریجن۔ دوم: فضل ریجن۔ سوم: نارتھ ویسٹ ریجن
چھوٹی مجالس کے مقابلے میں پوزیشن یوں رہی:
اوّل: ڈونکاسٹر Doncaster (نارتھ ایسٹ ریجن)
دوم: لیڈز Leeds (نارتھ ایسٹ ریجن)
سوم: جامعہ احمدیہ یوکے(مقامی ریجن)
جبکہ بڑی مجالس کے علم انعامی کے مقابلے میں پوزیشن یہ تھی:
اوّل: ہارٹلے پُول Hartlepool(نارتھ ایسٹ ریجن)
دوم: مجلس بیت الفتوح (بیت الفتوح ریجن)
سوم: موسک ویسٹ Mosque West (فضل ریجن)
یہ امر قابل ذکر ہے کہ مجلس ہارٹلے پُول نے کارگزاری کی بنیاد پر اوّل آکر مسلسل دوسرے سال علم انعامی حاصل کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان تمام مجالس کے لیے یہ اعزازات بابرکت فرمائے۔ آمین
بعدازاں تین بج کر ستاون منٹ پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خطاب کا آغاز فرمایا جو قریباً چالیس منٹ تک جاری رہا۔

اجتماع کے بعض قابل ذکر کوائف

یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ دونوں دن اجتماع کا آغاز نماز تہجد سے ہوتا رہا۔ نماز فجر کے بعد درس دیا جاتا۔ بعدازاں پُرتکلّف ناشتے کے ساتھ ساتھ رجسٹریشن کا مرحلہ شروع ہوجاتا۔ اجتماع میں شامل ہونے والوں کے لیے اُن کی سہولت کے مطابق کسی مخصوص دن کے حوالے سے پہلے سے ہی دعوت نامے جاری کیے جاچکے تھے۔ چنانچہ انصار کے تشریف لانے کے بعد Covid Management کی نظامت کے تحت پہلے ٹمپریچر چیک کیا جاتا، ڈبل ویکسین کا سرٹیفکیٹ اورکووِڈ لیتھل فلو ٹیسٹ کے نتائج دیکھنے کے بعد ایک کارڈ جاری کیا جاتا۔ یہ کارڈ رجسٹریشن ٹیم کو دکھاکر رجسٹریشن کا عمل مکمل ہوتا جس کے بعد انصار کو مقام اجتماع یعنی طاہر ہال میں داخل ہونے کی اجازت تھی۔ ہال میں چار صد کرسیاں ترتیب سے لگائی گئی تھیں۔ سٹیج کے ایک جانب ایک بہت بڑی ٹی وی اسکرین (TV screen) نصب کی گئی تھی جس سے ہال کے پچھلے حصہ میں بیٹھے احباب بھی اجتماع کی کارروائی سے مستفید ہورہے تھے۔ نیز یہ ٹی وی اسکرین پریزنٹیشنز (Presentations) کے دوران مختلف گرافس اور تصاویر پیش کرنے کے لیے بھی استعمال کی جارہی تھی۔
جیسا کہ قبل ازیں بیان کیا جاچکا ہے کہ امسال سالانہ اجتماع کا theme (یعنی مرکزی عنوان) تقویٰ رکھا گیا تھا۔سٹیج کے بیک گراؤنڈ میں کینوس پر سورۃ آل عمران کی آیت نمبر 103 مع اردو و انگریزی تراجم کے درج کی گئی تھی۔ یہ آیت درج ذیل ہے:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ وَلَاتَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ۔

(ترجمہ: اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کا ایسا تقویٰ اختیار کرو جیسا اس کے تقویٰ کا حق ہے اور ہرگز نہ مرو مگر اس حالت میں کہ تم پورے فرمانبردار ہو۔)
اسی طرح طاہر ہال کے اطراف میں تقویٰ کے موضوع پر قرآن کریم کی منتخب آیات، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے زرّیں ارشادات کے نہایت دیدہ زیب بینرز آویزاں تھے۔ مثلاً:
٭ ’’اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور صادقوں کے ساتھ ہوجاؤ۔‘‘ (سورۃالتوبہ)
٭ ’’پس اللہ کا تقویٰ اختیار کرو جس حد تک تمہیں توفیق ہے اور سنو اور اطاعت کرو اور خرچ کرو (یہ) تمہارے لیے بہتر ہوگا۔ (سورۃالتغابن)
٭ ’’بلاشبہ اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے۔‘‘ (سورۃالحجرات)
٭ ’’اور جو اللہ کا تقویٰ اختیار کرے اللہ اپنے حکم سے اس کے لیے آسانی پیدا کردے گا۔‘‘ (سورۃالطلاق)
٭ ’’اگر شریعت کو مختصر طور پر بیان کرنا چاہیں تو مغز شریعت تقویٰ ہی ہوسکتا ہے۔‘‘ (حضرت مسیح موعود علیہ السلام)
٭ ’’اگر تم اپنی اصلاح کرلوگے اور خداتعالیٰ سے دعائیں کروگے تو تمہارا اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم ہوجائے گا اور اگر تم حقیقی انصاراللہ بن جاؤ اور خداتعالیٰ سے تعلق پیدا کرلو تو تمہارے اندر خلافت بھی دائمی طور پر رہے گی اور وہ عیسائیت کی خلافت سے بھی لمبی چلے گی۔‘‘ (حضرت مصلح موعودؓ)

تقویٰ کی جڑ یہی ہے کہ خالق سے پیار ہو
گو ہاتھ کام میں ہوں مگر دل میں یار ہو

(حضرت مصلح موعودؓ)

امسال کاروں کی پارکنگ کا انتظام مسجد بیت الفتوح کے سامنے والی گراسی فیلڈ میں کیا گیا تھا جس کی اس مقصد کے لیے کونسل سے منظوری حاصل کی گئی تھی۔ اسی فیلڈ میں ورزشی مقابلہ جات بھی منعقد ہوئے۔
مسجد بیت الفتوح کے داخلی دروازے کے قریب مسرور آئی ہسپتال برکینافاسو کے حوالہ سے بھی جس معلوماتی نمائش کا اہتمام کیا گیا تھا اس میں ہسپتال کی عمارت کے ماڈل کے علاوہ ہسپتال کی تعمیر کے مختلف مدارج کی تصاویر نیز آئندہ کے لیے اس ہسپتال کی ضروریات کے حوالہ سے معلومات پیش کی گئی تھیں۔
امسال اجتماع کے موقع پر رہائش کا انتظام نہیں کیا گیا تھا۔ ایک بڑی مارکی کو طعامگاہ کے طور پر استعمال کیا جارہا تھا۔ جس میں مجموعی طور پر 95؍میزیں اور 625؍کرسیاں لگائی گئی تھیں۔ اضافی مہمانوں کے لیے مارکی کے باہر بیٹھ کر کھانے کا انتظام بھی تھا۔ نیز بزرگان اور کارکنان کے لیے کھانے کا علیحدہ انتظام بھی کیا گیا تھا۔ گرم چائے کا انتظام بہت عمدہ تھا۔ اسی طرح ماحول کی صفائی کا خاص طور پر اہتمام کیا گیا تھا۔ اجتماع کی کارروائی کے دوران حاضرین کے لیے پانی کی بند بوتلیں وافر مقدار میں مہیا کی جاتی رہیں۔ امسال بھی اردو زبان میں کی جانے والی تمام تقاریر کا Live (براہ راست) انگریزی زبان میں ترجمہ کا انتظام تھا۔ حسب ضرورت انگریزی کے پروگرام کے تراجم کا بھی انتظام کیا گیا تھا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں