مجلس انصاراللہ برطانیہ کے 33 ویں سالانہ اجتماع 2015ء کا بابرکت انعقاد
(مطبوعہ ہفت روزہ ’’الفضل انٹرنیشنل‘‘ لندن بتاریخ 11؍مارچ 2016ء)
(مطبوعہ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ بتاریخ 15؍اپریل 2016ء)
مجلس انصاراللہ برطانیہ کے 33 ویں سالانہ اجتماع 2015ء کا بابرکت انعقاد
امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کا پُرمعارف خطاب اور نہایت اہم نصائح
علمی و ورزشی مقابلوں اور رُوح پرور ماحول میں تربیتی و تعلیمی اجلاسات کا انعقاد۔
مختلف موضوعات پر علماء سلسلہ کی پُرمغز تقاریر۔ 15 ممالک سے نمائندگان کی شمولیت۔
مجلس انصاراللہ برطانیہ کا 33واں سالانہ اجتماع نہایت کامیابی کے ساتھ مسجد بیت الفتوح مورڈن کے احاطہ میں 18، 19اور 20؍ستمبر 2015ء کو منعقد ہوا۔ امسال اجتماع کا انعقاد مجلس عالمگیر کی 75 سالہ تاریخ کے حوالہ سے خصوصی اہمیت کا حامل تھا۔ سیّدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی دُوررس نگاہ نے 1940ء میں مجلس انصاراللہ کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا تھا کہ لجنہ اماء اللہ، خدام الاحمدیہ، اطفال الاحمدیہ کے بعد انصاراللہ کے قیام کے ساتھ احمدیت کی عمارت کی چاروں دیواریں مکمل ہوگئی ہیں۔
خلفاء احمدیت نے متعدد خطبات، خطابات اور پیغامات کے ذریعہ انصار کو اُن کی ذمہ داریوں سے آگاہ کرنے کا سلسلہ بھی ہمیشہ جاری رکھا ہے۔ بلکہ تین خلفاء کرام اپنے دَور خلافت میں یا اُس سے قبل صدر مجلس انصاراللہ مرکزیہ کی حیثیت سے بھی انصار کی رہنمائی فرماتے رہے ہیں۔
اجتماع گاہ کا خوشنما منظر
مسجد بیت الفتوح مورڈن کے احاطہ میں دو وسیع و عریض مارکیاں نصب کی گئی تھیں جن میں سے ایک اجتماع گاہ اور دوسری طعام گاہ کے طور پر استعمال ہورہی تھی۔ اجتماع کی خصوصی اہمیت اور بیرونی ممالک سے تشریف لانے والے مہمانوں کی وجہ سے نہ صرف مارکی کا بلکہ سٹیج کا سائز بھی گزشتہ سال کی نسبت نمایاں بڑا تھا۔ سٹیج کے پس منظر میں سورۃ آل عمران کی آیت 104 میں سے
’’وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّلَاتَفَرّقُوْا‘‘
کے الفاظ (اردو اور انگریزی تراجم کے ساتھ) درج تھے۔ دراصل یہ وہ بنیادی پیغام تھا جو اس تاریخی اجتماع کے حوالہ سے دیا جانا مقصود تھا۔ اجتماع کی مارکی کی دونوں اطراف میں مختلف بینرز لگائے گئے تھے جن پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے سلسلہ کے پاکیزہ ارشادات درج تھے۔ اجتماع گاہ کے آخری حصہ میں ایک خوبصورت اور نہایت مفید نمائش کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں دعوت الی اللہ اور قرآن کریم کے حوالہ سے دیدہ زیب چارٹس اور بینرز کی شکل میں دلچسپ معلومات پیش کی گئی تھیں۔ اس کے علاوہ مغربی افریقہ کے مختلف ممالک میں تعمیر کئے جانے والے ماڈل ویلیجز (Model Villages) کے حوالہ سے بھی بہت دلچسپ معلومات پیش کی گئی تھیں۔ نیز مالی میں بنائے جانے والے ایک ماڈل ویلیج کا ماڈل بھی نمائش کے لئے رکھا گیا تھا جو خاص طور پر دلچسپی کے ساتھ دیکھا گیا۔
اجتماع کا پروگرام، حاضری اور انتظامیہ
امسال اجتماع کے تینوں ایام میں نہایت روح پرور ماحول میں برطانیہ کے طول و عرض سے تشریف لانے والے 2202 ؍ انصار کے علاوہ 15 بیرونی ممالک سے شامل ہونے والے معزز نمائندگان نیز خدام اور بچوں کی ایک بڑی تعداد بھی شامل ہوئی۔ کُل حاضری 3100 سے زائد تھی۔ اس اجتماع میں جرمنی، کینیڈا، آسٹریلیا، پاکستان، ہالینڈ، ڈنمارک، ملائشیا، ناروے، سپین اور سویڈن کے صدور نیز فرانس، غانا، نائیجیریا، شام اورامریکہ کے نمائندگان نے شرکت کی۔
تینوں دن نماز تہجد باجماعت ادا کی گئی اور نماز فجر کے بعد درس (قرآن کریم، حدیث النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ملفوظات حضرت اقدس مسیح موعودؑ) کا پروگرام ہوتا رہا۔
ہفتہ اور اتوار کے دونوں دن ناشتہ کے بعد قریباً ساڑھے نو بجے بیک وقت مختلف علمی اور ورزشی مقابلہ جات کا انعقاد عمل میں آتا رہا۔ اس موقعہ پر منعقد ہونے والے علمی مقابلہ جات میں تلاوت، نظم خوانی، تقریر، فی البدیہہ تقریر، پیغام رسانی اور حفظ قرآن کے مقابلے شامل تھے جبکہ ورزشی مقابلوں میں والی بال، رسّہ کشی اور گولہ پھینکنا کے علاوہ ایتھلیٹکس سے متعلق بعض مقابلے بھی منعقد ہوئے۔ انفرادی مقابلہ جات کے دو معیار مقرر تھے۔ یعنی یوکے سے تعلق رکھنے والے انصار اور بیرونی ممالک سے آنے والے مہمانان۔ اسی طرح مہمانوں کے والی بال کے نمائشی مقابلے بھی کروائے گئے۔ ان مقابلہ جات کے فائنل میں یوکے نے جرمنی کو ہرا کر پہلا انعام حاصل کیا۔
علمی مقابلے اجتماع گاہ کے علاوہ ناصر ہال اور نُور ہال میں منعقد کئے گئے جبکہ ورزشی مقابلہ جات کے لئے مسجد کے سامنے واقع وسیع گراؤنڈ میں انتظام کیا گیا تھا۔ اسی گراؤنڈ میں پارکنگ کا بھی انتظام کیا گیا تھا۔ دورانِ اجتماع رات کو قیام کرنے والے انصار کی رہائش کا انتظام طاہر ہال کے ایک حصہ میں کیا گیا تھا۔ قریباً ساڑھے تین صد انصار نے یہاں قیام کیا۔
طعام گاہ کے طور پر ایک علیحدہ مارکی لگائی گئی تھی جو 20 میٹر چوڑی اور 80 میٹر لمبی تھی۔ اس مارکی میں 1700 کرسیاں لگائی گئی تھیں۔ مارکی میں سروس کیلئے 8 پوائنٹس بنائے گئے تھے اور دو صد انصار کھانا کھلانے کی ڈیوٹی پر متعیّن تھے۔ نیز چائے وغیرہ کا انتظام ہمہ وقت موجود رہا۔ مقامی مجالس کی سہولت کے لئے مختلف قیادتوں نے اپنے سٹالز بھی لگائے تھے۔ ان میں قیادت تعلیم، مال، تجنید، تبلیغ، تعلیم القرآن، عمومی اور نومبایعین کے شعبہ جات کے سٹالز شامل تھے۔
اس اجتماع کے ناظم اعلیٰ مکرم ڈاکٹر چودھری اعجازالرحمن صاحب نائب صدر اوّل تھے۔ جن کے ساتھ8 نائب ناظمین اعلیٰ اور125 ناظمین اور نائب ناظمین تھے اس کے علاوہ تقریباً 300 انصار نے انتظامات کو احسن رنگ میں سرانجام دے کر اس تاریخی اجتماع کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا۔ اللہ تعالیٰ ان تمام خدمت کرنے والوں کی مساعی کو قبول فرمائے۔ آمین
افتتاحی اجلاس
18؍ستمبر 2015ء کو قریباً پونے چار بجے سہ پہر اجتماع کے افتتاحی اجلاس کے باقاعدہ آغاز سے قبل لوائے انصاراللہ لہرانے کی تقریب مسجد بیت الفتوح کے احاطہ میں نصب کی جانے والی وسیع و عریض مارکی میں عمل میں آئی۔
افتتاحی اجلاس کی صدارت مکرم رفیق احمد حیات صاحب امیر جماعت احمدیہ برطانیہ نے کی۔
کارروائی کا باقاعدہ آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا۔ تلاوت و نظم کے بعد مکرم امیر صاحب نے انگریزی میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ خلافت پر ایمان رکھنے والے ہی کامیابی اور ترقیات کا منہ دیکھتے ہیں لیکن خلافت پر ایمان رکھنے کے نتیجہ میں ہم پر بعض ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں۔ آپ نے مختلف اخلاقی پہلوؤں مثلاً سچائی اور دیانتداری پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ جھوٹ اور بدعنوانی میں مبتلا لوگوں کی اولاد پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ قول سدید کہنے کے حکم پر عمل نہ کرنے سے معاشرتی تعلقات متأثر ہوتے ہیں۔ اَنا کے نتیجہ میں گھر برباد ہونے لگتے ہیں۔پس آئندہ نسلوں کی تربیت کی خاطر ہمیں اپنے عمل پر غور کرنا چاہئے۔ بچوں کی نیک راہوں کی طرف رہنمائی کرنی چاہئے اور ان کے لئے دعا کرنی چاہئے۔ تعلیمی میدان میں بھی اُن کا خیال رکھنا چاہئے اور برطانیہ میں جاری تعلیمی نظام سے استفادہ کرنا چاہئے۔ اس وقت دنیا کی 20 بہترین یونیورسٹیوں میں سے 5 کا تعلق برطانیہ سے ہے۔ اور یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ خلافت احمدیہ کی وجہ سے احمدی مسلمانوں کو اس معاشرہ میں احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔
تقریر کے اختتام پر مکرم امیر صاحب نے دعا کروائی۔
اسلام کی امتیازی خصوصیات
باقاعدہ افتتاح کے بعد اجتماع کی پہلی تقریر سلسلہ کے جیّد عالم اور بزرگ محترم سیّد میرمحمود احمد صاحب ناصر نے موازنہ مذاہب کے حوالہ سے اسلام کی امتیازی خصوصیات کے موضوع پر نہایت دلنشیں انداز میں اردو زبان میں کی۔ آپ نے اسلام کی اعلیٰ و ارفع تعلیم کا عیسائیت اور یہودیت کی تعلیم سے تقابلی جائزہ پیش کرتے ہوئے 20 سے زیادہ نکات بیان فرمائے۔
محترم میر صاحب نے بتایا کہ اسلام کا بنیادی عقیدہ توحید ہے جو واضح اقرار کے ساتھ اور بغیر کسی شک و شبہ اور ابہام کے ہونی چاہئے۔ اگرچہ بعض عیسائی بھی خدا کو ایک مانتے ہیں لیکن وہ تثلیث کے بھی قائل ہیں۔ یہودی بھی انسانی بزرگوں کی تحریر کردہ کتب کو خدا کی کتب قرار دیتے ہیں۔ پھر اسلام ایک ایسے نبی کو پیش کرتا ہے جو اسوۂ حسنہ اور کامل ترین نمونہ ہے۔ لیکن اہل کتاب اپنے نبیوں پر خود ہی شرک، جھوٹ اور بدکاری کے الزامات لگاتے ہیں۔ پھر اسلام ہر قوم، ہر نسل اور ہر زبان بولنے والے سے خطاب کرتا ہے لیکن اہل کتاب صرف اپنی قوم سے ہی مخاطب ہوتے ہیں۔ پھر قرآن کریم ہر قسم کی تحریف، تضاد اور تبدیلی سے پاک ہے۔ اور قرآن کریم کا یہ بھی چیلنج ہے کہ اس کی طرح کی ایک سورۃ ہی بناکر لے آؤ۔ اسی طرح قرآن کریم کی زبان ہر لحاظ سے پاکیزہ اور مہذّب ہے اور اس کے مضامین نہایت اعلیٰ، تحقیقی اور زبان دانی کے لحاظ سے عمدہ ہیں جبکہ بائبل کے محققین نے بھی بائبل کی زبان کو ادنیٰ قرار دیا ہے۔ پھر قرآن کریم قطعی طور پر جارحانہ حملہ کرنے سے منع کرتا ہے۔ صرف اُن سے لڑائی کرنے کا حکم دیتا ہے جو حملہ کرتے ہیں۔ جبکہ بائبل میں ایسے مظالم کا حکم ہے جس میں شہر کے تمام مردوں، عورتوں، بچوں اور جانوروں کو قتل کرکے شہر کو جلاکر خاکستر کردینے کا حکم ہے۔ جبکہ قرآن کریم عمداً قتل کرنے والوں کے علاوہ کسی کو قتل کرنا جائز قرار نہیں دیتا اور قاتل کے لئے معافی اور دیت وغیرہ کے راستے کھلے رکھے ہیں۔پھر اسلام میں جنگ کے علاوہ کسی کو قیدی بنانے کی اجازت نہیں۔ اور رحم کرکے یا فدیہ لے کر رہا کرنے کا حکم بھی دیا بلکہ پرانے قیدیوں (غلاموں) کو مکاتبہ کے ذریعہ رہا کرنے کا حکم بھی دیا۔
اسلام کی ایک خوبی اہل لوگوں کو ذمہ داریاں سپرد کرنے کا حکم ہے۔ ایک حدیث کے مطابق تباہی کی گھڑی اُس وقت آئے گی جب لوگ امانات ضائع کرنے لگیں گے۔ عہدے بھی امانت ہیں اور ان کو صرف اہل لوگوں کے سپرد کرنے کا حکم ہے جبکہ بائبل میں سارے انتظامی اختیارات ایک ہی قبیلہ کے سپرد کئے جانے کا حکم ہے خواہ وہ کسی قابل ہو یا نہ ہو۔
اسی طرح اسلام نے سب سے بڑے گناہ یعنی شرک کی سزا مقرر نہیں کی بلکہ سزا صرف اُس کے لئے ہوگی جو کسی دوسرے کے بدن پر، اُس کے مال پر یا اُس کی عزت پر حملہ کرے۔ اس کے علاوہ کسی جرم کی سزا نہیں دی گئی۔ لیکن بائبل میں شرک کی سزا بھی موت رکھی گئی ہے۔
پھر اسلام ظاہری صفائی کا بھی حکم دیتا ہے جو دیگر مذاہب میں نظر نہیں آتا۔ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے مَردوں کو خاص طور پر صاف رہنے کا ارشاد فرمایا ہے اور گھروںکے صحنوں کی صفائی کا بھی حکم دیا ہے۔ نیز خوراک میں ایسی اشیاء حرام قرار دی ہیں جو جسم، دماغ، اخلاق یا روحانیت کے لئے مُضر ہوں۔
پھر اسلام میں مجددین کا نظام قائم ہے۔ اسی طرح معاشیات کے بارہ میں دو بنیادی اصول ہیں۔ اوّل یہ کہ زمین میں جو کچھ ہے وہ سب انسانوں کی ملکیت ہے نہ کہ کسی ایک گروپ کی۔ اور دوسرا یہ کہ محنت اور کوشش کے نتیجہ میں ذاتی ملکیت میں کمی بیشی ہوسکتی ہے۔ اسی طرح سود سے ممانعت اور ورثہ کی تقسیم کے اصول بھی اسلام نے بیان فرمائے ہیں۔
آپ نے بتایا کہ عیسائیت نے Faith اور Reason کے دائروں کو الگ الگ کردیا ہے مگر اسلام نے الہام اور عقل کے درمیان ایک لطیف تعلق قائم کیا ہے۔ نیز قرآن کریم نے سائنسی قواعد کے حوالہ سے بنیادی طور پر تین امور بیان فرمائے ہیں اوّل یہ کہ ساری کائنات میں ہر جگہ ایک ہی اصول جاری ہوگا اور کوئی تضاد نہیں ہوگا۔ دوسرا ارتقاء کا اصول ہے اور تیسرا اصول یہ ہے کہ Cause اور Effect لازم و ملزوم ہیں۔
نماز باجماعت کی ادائیگی اور انصار کی ذمہ داری
اجلاس کی دوسری تقریر مکرم مولانا عطاء المجیب راشد صاحب نائب امیر و امام مسجد فضل لندن کی انگریزی زبان میں تھی۔
آپ نے عبادت (خصوصاً نماز باجماعت) کے حوالہ سے انصار کو اُن کی ذمہ داریوں کی طرف نہایت احسن رنگ میں توجہ دلائی۔
آپ نے کہا کہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے بارہا نماز باجماعت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے واضح طور پر فرمایا ہے کہ کام کے لئے نماز کو نہ چھوڑو بلکہ نماز کے لئے کام کو چھوڑ دو۔
آپ نے بتایا کہ نماز کو دین کا ستون قرار دیا گیا ہے چنانچہ اگر نماز قائم نہ رہے اور شرائط کے مطابق وضو کرکے، کھڑے ہوکر اور توجہ سے ادا نہ کی جائے تو دین کی عمارت قائم نہیں رہ سکتی۔ جلدی میں نماز ادا کرنا اقامۃالصلوٰۃ نہیں ہے۔ انصار اپنے مقام کے لحاظ سے اس سوال کا جواب خود تلاش کریں کہ کیا وہ نماز کا حق ادا کررہے ہیں۔
مکرم امام صاحب نے قرآن کریم، اسوۂ نبویؐ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کے حوالہ سے نماز باجماعت کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ آپ نے بتایا کہ مسجدوں کی تعمیر اصل چیز نہیں ہے بلکہ مسجدوں کو نمازیوں سے بھرنا اصل کام ہے اور یہ انصاراللہ کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ تجربہ اور حکمت کے ساتھ اس بارہ میں دوسروں کی راہنمائی کرنے کا فرض ادا کریں۔
مجلس انصاراللہ کے قیام کے بعد حضرت مصلح موعودؓ نے انصار کو اُن کی بنیادی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے یہ بھی فرمایا تھا کہ ’’اس فیصلہ کے ذریعہ اس امر کی بھی نگرانی رکھی جائے گی کہ کوئی شخص ایسا نہ رہے جو مسجد میں نماز باجماعت ادا کرنے کا پابند نہ ہو‘‘۔ پس نماز باجماعت کا قیام انصاراللہ کی تنظیم کا ایک اہم مقصد ہے۔ اور جب انصار اپنی زندگی کے اختتام کی طرف بڑھ رہے ہوں تو اُن کا فرض ہے کہ اپنے خاندان میں اور نسلوں میں نماز باجماعت کی اہمیت کو قائم کریں اور اس مقصد کے لئے بچوں پر سختی کرنے کی بجائے اپنا نمونہ پیش کریں۔ انہیں چاہئے کہ قرآن کریم میں بیان فرمودہ دو انبیاء کی مثالیں ہمیشہ پیش نظر رکھیں جن کی نماز اور عبادت کی مثال خدا تعالیٰ نے بیان فرمائی ہے۔ یہ انبیاء حضرت اسماعیل علیہ السلام اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔
انصاراللہ کا قیام۔ حضرت مصلح موعودؓ کا عظیم احسان
اس اجلاس کی آخری تقریر مکرم ڈاکٹر محمد احمد اشرف صاحب نائب صدر مجلس انصاراللہ پاکستان کی تھی
جس میں آپ نے مجلس انصاراللہ کے قیام کے حوالہ سے حضرت مصلح موعودؓ کے عظیم احسان کا ذکر کیا اور مجلس انصاراللہ کی ذمہ داریوں اور اس کی خدمات کا تذکرہ کیا۔ یہ تقریر الفضل انٹرنیشنل کے 26فروری 2016ء شمارہ میں شائع کی جاچکی ہے۔
چند مہمان نمائندگان کا اظہار خیال
بعدازاں چند مہمان نمائندگان نے حاضرین سے مختصراً اپنے خیالات کا اظہار کیا اور اپنے ملک میں انصاراللہ کے تحت ہونے والی چیدہ چیدہ سرگرمیوں پر روشنی ڈالی۔ جن میں مکرم شاہد منصور صاحب صدر انصاراللہ کینیڈا، مکرم فیروز علی صاحب صدر مجلس انصاراللہ آسٹریلیا اور نائیجیریا مجلس عاملہ کے رُکن خصوصی مکرم Sanusi Ahmed Babatunde صاحب نے اپنے صدر مجلس مکرم Alhaji Mikail Babatunde Odukoya صاحب کا مرسلہ پیغام پڑھ کر سنایا ۔
اجلاس کے بعد نماز مغرب و عشاء باجماعت ادا کی گئیں۔
بروز ہفتہ 19؍ستمبر 2015ء
صبح ساڑھے نو بجے مختلف علمی اور ورزشی مقابلہ جات کا آغاز ہوا جو دوپہر کے کھانے تک جاری رہے۔ بعد ازاں نماز ظہر و عصر باجماعت ادا کی گئیں اور اس کے بعد پونے تین بجے دوسرے اجلاس کی کارروائی شروع ہوئی جو مکرم حافظ مظفر احمد صدر مجلس انصاراللہ پاکستان کی زیرصدارت منعقد ہوا۔ اجلاس کا آغاز تلاوت قرآن کریم اور نظم سے ہوا۔
ذکرحبیب۔ دعوت الی اللہ کے آئینہ میں
اس اجلاس کے پہلے مقرر مکرم مولانا عبدالماجد طاہر صاحب ایڈیشنل وکیل التبشیر لندن تھے۔ آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوت الی اللہ کے لئے جوش کو بیان کرکے انصار کو بھی اس میدان میں آگے بڑھنے کی تلقین کی۔
آپ نے بتایا کہ اگرچہ دین اسلام اپنے دلائل اور تعلیم کی رُو سے دیگر ادیان پر حاوی ہے تاہم اس کی کامل طور پر دنیا بھر میں اشاعت ایسے وقت کو چاہتی تھی جب دنیا ایک Global Village کی شکل اختیار کرلے۔ چنانچہ یہ وقت مسیح موعودؑ کے دَور میں آیا جو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بروز کامل تھے اور آپؑ کو بھی تبلیغِ دین کا وہی جوش عطا ہوا تھا جو انبیاء کا ہی خاصا ہے۔ آپؑ نے بارہا فرمایا کہ ’’اِس راہ میں اگر مجھے اپنی جان بھی قربان کرنی پڑے تو کوئی فکر نہیں‘‘۔ ایک بار فرمایا کہ ’’خطرہ ہوتا ہے کہ تبلیغ کے جوش کی وجہ سے میرا دماغ نہ پھٹ جائے‘‘۔
مقرر موصوف نے حضرت اقدسؑ کی نثر اور نظم میں سے ایسے کئی اقتباسات اور اشعار پیش کئے جن سے حضور علیہ السلام کے جوش کا اندازہ ہوتا تھا۔ مثلاً ایک بار فرمایا: ’’جب کوئی دینی ضروری کام آپڑے تو مَیں اپنے اوپر کھانا پینا اور سونا حرام کردیتا ہوں جب تک وہ کام نہ ہوجاوے‘‘۔
چنانچہ قادیان کے ہندو لالہ ملاوامل کے ساتھ حضور علیہ السلام کے تعلق کا آغاز بھی حضورؑ کی تبلیغ کا ہی نتیجہ تھا۔
پھر جب بٹالہ کے قدرت اللہ نے اسلام ترک کرکے عیسائیت قبول کرلی تو حضورؑ اس قدر بے قرار ہوئے کہ آپؑ نے منشی نبی بخش صاحب کو بھیجا کہ اُن کو واپس اسلام میں لائیں اور یہ دلائل پیش کریں۔ فرمایا کہ اگر میری ضرورت ہو تو مَیں بھی وہاں آجاؤں گا۔ تاہم منشی صاحب کی کوشش کامیاب ہوئی اور قدرت اللہ مسلمان ہوگیا۔
ایک بار حضورؑ کو شدید کمزوری اور ضعف کا غلبہ تھا۔ آپؑ نے قریب بیٹھنے والوں سے فرمایا کہ اگر انہیں اسلام پر کوئی اعتراض یاد ہو تو وہ کیا جائے۔ جب کسی کو یاد نہ آیا تو پھر رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح میں نعت سننی شروع کی اور اس کے بعد ایک اعتراض کا جواب دیتے ہوئے ایسا جوش پیدا ہو اکہ دورہ جاتا رہا۔
حضرت اقدسؑ کی دلی تمنّا تھی کہ اسلام کا ساری دنیا میں بول بالا ہو۔ چنانچہ ایک بار جب حضرت مصلح موعودؓ نے حضرت اقدسؑ سے کرکٹ کا میچ دیکھنے کے لئے میدان میں آنے کی درخواست کی تو حضورؑ نے فرمایا: تمہارا گیند تو گراؤنڈ کے باہر نہیں جائے گا لیکن مَیں وہ کرکٹ کھیل رہا ہوں جس کا گیند ساری دنیا میں جائے گا۔
اسی طرح ایک بار کسی نے جوش سے حضورؑ کا دروازہ کھٹکھٹایا اور ایک مناظرہ میںمخالف کی پسپائی کی خبر پہنچائی۔ آپؑ کو اطلاع دی گئی تو آپؑ نے مسکراکر فرمایا کہ ہم سمجھے کہ شاید وہ یہ خبر لائے ہیں کہ یورپ مسلمان ہوگیا ہے۔
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے تھے کہ ایسے آدمیوں کی ضرورت ہے جو زبانی نہیں بلکہ عملی طور پر کچھ کرکے دکھانے والے ہوں اور اپنی زندگیاں وقف کریں۔ آپؑ نے مبلغین کیلئے جو خصوصیات بیان فرمائیں اُن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی مثال دیتے ہوئے بتایا کہ قناعت کا مادہ سرفہرست ہے۔پھر تقویٰ کی خوبی ہو کیونکہ متقی میں قوّتِ جذب ہوتی ہے اور وہ اکیلا رہتا ہی نہیں۔ پھر صبر اور شکر کا شاندار مظاہرہ کرنے والے ہوں۔ اخلاقی حالت بھی اچھی ہو۔
حضرت مسیح موعودؑ کے بعض صحابہ رضوان اللہ علیہم نے حضور علیہ السلام کے ارشادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے واقعۃً تبلیغ کا حق ادا کردیا۔ چنانچہ حضرت عبیداللہ صاحب ماریشس تشریف لے گئے تو دسمبر 1923ء میں صرف 32 سال کی عمر میں وہیں وفات پاکر دفن ہوئے۔ اسی طرح حضرت حافظ جمال احمد صاحبؓ کو ماریشس بھجوایا گیا تو انہوں نے اپنے مخصوص حالات کے پیش نظر اپنی فیملی لے جانے کی اجازت چاہی۔ اس پر اُن کو جماعت کی مالی حالت کے پیش نظر بتایا گیا کہ فیملی لے جانے کی صورت میں اُنہیں کبھی واپس نہیں بلایا جاسکے گا۔ چنانچہ وہ فیملی سمیت ماریشس چلے گئے اور 1947ء میں وہیں وفات پاکر دفن ہوئے۔ اسی طرح حضرت مولوی ظہور حسین صاحبؓ آف بخارا نے جب ایران سے روس میں داخل ہونے کی کوشش کی تو جاسوس سمجھ کر گرفتار کرلئے گئے اور نہایت دردناک حالات سے گزرنا پڑا۔ دو سال کی سخت اذیّتناک قید کے دوران بھی آپؓ نے تبلیغ کا کام جاری رکھا اور کئی قیدیوں کو مسلمان کرلیا۔ قید کے دوران آپؓ کو ایسے مظالم کا نشانہ بنایا گیا کہ سن کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ آخر آپؓ کی دعا کے نتیجہ میں حضرت مصلح موعودؓ کو رؤیا میں اُن حالات کی خبر دی گئی جن میں حضرت مولوی صاحبؓ گرفتار تھے اور اس کے بعد پھر کوشش شروع ہوئی اور آپؓ کی رہائی عمل میں آئی۔
موصوف مقرر نے بتایا کہ وہ داعیان الی اللہ بھی تھے جو افریقہ میں پانچ سال تک صرف پتّے کھاکر گزارا کرتے رہے۔ اسی طرح وہ مبلغین بھی تھے جو تبلیغ کی پاداش میں بلند عمارتوں اور چلتی ہوئی بسوں سے نیچے گرادیئے گئے۔ لیکن اُن کے پائے استقامت میں لغزش نہ آئی اور عزم صمیم کے ساتھ اپنے مقصد کے لئے سرگرم عمل رہے۔
آخر میں مکرم مولانا عبدالماجد طاہر صاحب نے ایک اقتباس پیش کیا جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آج عمر بڑھانے کا نسخہ تبلیغ ہی کو قرار دیا ہے۔
ابتلاؤں پر الٰہی جماعتوں کی استقامت اور اس کی برکات
اجلاس کی دوسری تقریر مکرم مولانا اخلاق احمد انجم صاحب کی تھی جس میں آپ نے الٰہی جماعتوں پر آنے والے ابتلاؤں کے نتیجہ میں نازل ہونے والی برکات کا احاطہ کرنے کی کوشش کی اور بتایا کہ ابتلاؤں کے نتیجہ میں وہ قومیں تیار ہوتی ہیں جو دنیا کی تقدیر بدلنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ آغازِ اسلام میں بھی توحید کے مقابل جو آندھی چلی تو وہ کونسا دُکھ تھا جو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیا گیا۔ اُن مظالم کا تصوّر کرکے دل کانپ اٹھتا ہے لیکن وہ کوہِ وقار اپنے منصب کے ادا کرنے میں کبھی سست اور غمگین نہیں ہوا۔جس طرح شیریںپانی حاصل کرنے کیلئے زمین کو کھودنا پڑتا ہے اسی طرح مصائب اٹھائے بغیر وہ لذّت نہیں مل سکتی۔ لیکن اس کیلئے خدا کی محبت اور اُس پر توکّل بہت ضروری ہے۔
انبیاء کی بعثت کے آغاز سے قربانیوں کی تاریخ بھی شروع ہوتی ہے۔ یہی تاریخ ایک سو سال قبل قادیان میں بھی جاری ہوئی۔ بے شمار دوسرے مصائب کے ساتھ کابل میں جو دردناک واقعہ پیش آیا اُسے حضرت مسیح موعودؑ نے صدق و صفا کا راستہ قرار دیا اور حضرت سید عبداللطیف شہیدؓ کے بارہ میں فرمایا کہ وہ جوانمرد اور ربّ کریم کا محبوب تھا۔
خدا تعالیٰ ہر قربانی کا اجر دیتا ہے اور ان مظالم کا سامنا کرتے ہوئے حضورؑ نے بھی یہ دعویٰ فرمایا تھا کہ ’’اے تمام لوگو! سن رکھو، یہ اُس کی پیشگوئی ہے … وہ اس جماعت کو تمام دنیا میں پھیلادے گا اور غلبہ بخشے گا‘‘۔
بیرونی ابتلاؤں کے ساتھ ساتھ دینی جماعتوں میں اندرونی فتنے بھی جنم لیتے ہیں جن کے ساتھ بھی کامیابیاں وابستہ ہوتی ہیں۔ چنانچہ خلافت اولیٰ میں جب منافقین نے سر اٹھایا تو یورپ میں تبلیغ کی نوید ملی اور پہلا احمدی مبلغ لندن بھجوایا گیا۔ پھر خلافت ثانیہ میں انکارِ خلافت کے فتنہ کے نتیجہ میں فتوحات کا دروازہ کھل گیا۔ 1934ء میں احرار نے قادیان پر دھاوا بولا تو حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا کہ تم سب مخالف متحد ہوجاؤ اور قادیان کے منافقوں کو بھی اپنے ساتھ ملالو لیکن یہ خدا کا لگایا ہوا پودا ہے۔ ساری قومیں مل کر اس کا کچھ بگاڑ نہیں سکتیں۔ چنانچہ اس ابتلا کے نتیجہ میں تحریک جدید کا قیام عمل میں آیا۔ 1953ء کے فسادات ہوئے تو عدالتی کارروائی کی رپورٹ میں ثابت ہوگیا کہ یہ فتنہ مولوی کی کُوکھ سے پھوٹا ہے لیکن اس فتنہ کے نتیجہ میں جماعت کو وقف جدید کے قیام کی خوشخبری عطا ہوئی۔ 1974ء میں وسیع پیمانہ پر منظم مظالم کا بازار گرم کیا گیا تو خدا تعالیٰ نے احمدیوں کو دنیابھر میں پھیلا دیا۔ 750 سال بعد سپین میں مسجد کی تعمیر ہوئی۔ مجلس نصرت جہاں سکیم کے تحت بے شمار طبّی اور تعلیمی ادارے قائم ہوئے۔
آج خلافت خامسہ میں بھی ظلم و جور کا بازار گرم ہے۔ 28مئی 2010ء کو لاہور کی دو مساجد میں 86 احمدیوں کو شہید کردیا گیا۔ اس واقعہ کے بعد ایک ماں نے اپنے نو دس سالہ بچے کو اگلے جمعہ ہی مسجد میں بھیجا اور کہا کہ تم نے وہیں کھڑے ہوکر نماز ادا کرنی ہے جہاں پچھلے جمعہ تمہارے باپ نے شہادت پائی تھی۔ حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے یہ واقعہ سن کر فرمایا تھا کہ جب تک احمدی ماؤں میں یہ روح زندہ رہے گی تب تک دنیا کی کوئی طاقت احمدیت کو شکست نہیں دے سکتی۔
مقرر موصوف نے تاریخ احمدیت سے متعدّد واقعات بیان کرکے بتایا کہ ہر قربانی اور ابتلاء کے نتیجہ میں ترقیات کی نئی سیڑھیاں جماعت کو عطا ہوتی رہی ہیں۔ پس یہ مخالفتیں اور ظلم و جور جماعت کا بال بھی بیکا نہیںکرسکتیں ۔ ان کے پھل جماعت کی کامیابی کی صورت میں لگنے ہیں اور لگ رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے اندر وہ رُوح زندہ رکھیں اور استقامت ، صبر اور دعاؤں کے ساتھ ایسی تکالیف کا مقابلہ کرتے چلے جائیں۔
الٰہی جماعتیں اور دعوت الی اللہ کی ذمہ داریاں
اس اجلاس کی تیسری تقریر مکرم حافظ مظفر احمد صاحب کی تھی جس میں آپ نے قرآن کریم، سنّت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعودؑ کے ارشادات کے حوالہ سے انصار کو دعوت الی اللہ کی ذمہ داریاں ادا کرنے کی طرف توجہ دلائی۔
مقرر موصوف نے قرآن کریم کے حوالہ سے بتایا کہ تبلیغ کے تین اصول بیان ہوئے ہیں۔ اوّل: تبلیغ خدا کی خاطر ہو۔ دوم: عمل صالح کا بہترین نمونہ بھی ہو۔ اور سوم: مسلمان امن و آشتی کا علمبردار رہے۔
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت حکمت کے ساتھ دنیا کو امن کی دعوت دی اور اپنا بہترین نمونہ دکھایا بلکہ سابقہ انبیاء کے نمونے اپنی زندگی میں پیش کردیئے۔
قرآن کریم نے حضرت نوحؑ کی تبلیغ کو عزم و استقلال کا نمونہ ٹھہرایا ہے۔ آپؑ نے دن رات اعلانیہ اور مخفی، اجتماعی اور انفرادی، ہر سطح پر اتمام حجّت کردی۔ پھر حضرت ابراہیمؑ نے گھر سے تبلیغ کا آغاز کیا اور بادشاہ نمرود کو بھی تبلیغ کی۔ قوم کے ساتھ مناظرے بھی کئے۔ داعیان کی جماعت کی تربیت بھی کی جن کے ذریعہ لمبا عرصہ تک تبلیغ کا کام جاری رکھا۔ حضرت یوسفؑ نے جیل میں بھی تبلیغ جاری رکھی۔ حضرت صالحؑ نے ایک دَر بند ہونے پر تبلیغ کے نئے دروازے تلاش کئے۔ اونٹنی کو تبلیغ کے لئے استعمال کیا۔ حضرت موسیٰؑ نے جرأت کے ساتھ سلطان کے سامنے کلمۂ حق کہا۔ ان سب انبیاء کے نمونے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم میں جمع کردیئے گئے۔آپؐ نے حکمت کے ساتھ غرباء کو بھی اور امراء کو بھی تبلیغ کی۔ بادشاہوں کو بھی تبلیغی خطوط لکھے۔ کبھی بشیر بن کر خوشخبری دی اور کبھی نذیر بن کر ڈرایا۔ حتّٰی کہ ایک پہلوان رکانہ کے ساتھ بھی اس کے کہنے پر کُشتی کی اور تین بار اُس کو پچھاڑ دیا اور اُس نے اسلام قبول کرلیا۔حج اور میلوں کے دنوں میں وہاں جاتے اور تبلیغ کرتے۔ طائف میں لہولہان ہوگئے۔ اس حالت میں ایک باغ میں پناہ لی جہاں ایک خادم ترس کھاکر انگوروں کا خوشہ آپؐ کے لئے لایا تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو بھی تبلیغ کی اور وہ مسلمان ہوگیا۔ مدینہ آنے کے بعد نجران کے عیسائیوں اور طائف کے مشرکین کو تبلیغ کی۔ یہودی خادم بیمار ہوا تو اُس کے گھر گئے اور اُس کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔ خیبر کے میدان میں ایک حبشی چرواہا ملا تو اُسے تبلیغ کی اور وہ مسلمان ہوکر خیبر کی لڑائی میں ہی شہادت پاگیا۔ آپؐ کسی کو بھی تبلیغ کے حوالہ سے حقیر نہیں جانتے تھے۔
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ کا آغاز انفرادی تبلیغ سے کیا۔ یہ دراصل ایسا انداز ہے جس کے بارہ میں حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ فرمایا کرتے تھے کہ جتنی مرضی پابندیاں لگ جائیں لیکن انفرادی تبلیغ کا ذریعہ کبھی ختم نہیں کیا جاسکتا۔
مخالفت بھی تبلیغ کا ذریعہ ہے چنانچہ حضرت مسیح موعودؑ مہمانوں سے اُن کے علاقوں میں مخالفت کا بھی پوچھا کرتے تھے۔ چنانچہ کئی مخالفین آتے لیکن اسلام قبول کرلیتے۔
اسی طرح مظلومیت بھی بہت بڑی طاقت ہے۔ حضرت حمزہؓ نے یہی دیکھ کر اسلام قبول کیا تھا کہ ابوجہل نے ناحق آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دُکھ پہنچایا ہے۔
ہجرت بھی اسلام کے لئے طاقت کا سبب بنی اور اسی کے نتیجہ میں مرکزِ اسلام مدینہ بھی عطا ہوا۔
آج حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ ندا دی ہے کہ زمین پر اب سچا مذہب صرف اسلام ہے۔ آپؑ نے فرمایا کہ ہمارے اختیار میں ہو تو ہم فقیروں کی طرح گھر بہ گھر پھر کر سچے دین کی تبلیغ کریں۔ حضرت مسیح موعودؑ کے بعد تبلیغ کا یہ سلسلہ خلافت کے ذریعہ جاری رہا اور جس طرح حضرت اقدسؑ نے ملکہ وکٹوریہ کو تبلیغ فرمائی تھی، اسی طرح حضور انور نے بھی امن کے قیام کی خاطر دنیا کے اہم ممالک کے سربراہان کو خطوط لکھے۔ نیز کئی ممالک اور یورپین پارلیمنٹس کے علاوہ کیپیٹل ہِل میں خطاب فرمائے اور ان کوششوں کے نتیجہ میں امن کا سفیر کہلائے۔
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ دعوت الی اللہ کی کامیابی کے لئے اپنے دل میں درد پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ لوگ ہدایت پاجائیں۔
ایک اسیر راہ مولیٰ کے رات دن
اگلے اجلاس میں مکرم محمد الیاس منیر صاحب مربی سلسلہ جرمنی نے اپنے دَورِ اسیری کے حوالہ سے نہایت ایمان افروز واقعات بیان کئے۔ آپ کو اکتوبر 1984ء میں اس واقعہ کے بعد گرفتار کرلیا گیا تھا جس میں مکرم رانا نعیم الدین صاحب نے مسجد احمدیہ ساہیوال میں اپنی حفاظت میں گولی چلائی تھی۔ اس کے نتیجہ میں گیارہ احمدیوں پر سراسر جھوٹا مقدمہ درج کرکے فیصلے میں مکرم رانا صاحب اور مکرم الیاس منیر صاحب کو سزائے موت اور چار احمدیوں کو سات سات سال قید بامشقّت سنائی گئی۔ جھوٹے گواہوں کی مدد سے سماعت جاری تھی کہ فیصلہ سے قبل ہی عدالت نے احمدیوں سے دریافت کیا کہ کیا وہ رحم کی اپیل کرنا چاہتے ہیں۔ احمدیوں کا فیصلہ تھا کہ ضیاء جیسے فرعونوں کے سامنے ہمارے سر کٹ تو سکتے ہیں لیکن جُھک نہیں سکتے۔یہ فیصلہ ایسا تھا جو توثیق کے لئے جب گورنر غلام جیلانی کے پاس گیا تو انہوں نے اس کو مسترد کرتے ہوئے نظرثانی کا حکم جاری کیا۔ اس پر ضیاء نے یہ معاملہ اپنے ہاتھ میں لے کر نئے فیصلہ میں سزائے موت پانے والوں کے جرمانہ کی سزا میں اضافہ کردیا اور سات سال کی قید پانے والوں کی سزا کو عمر قید میں بدل کر جرمانہ میں بھی اضافہ کردیا۔ اور پھر یہ فیصلہ اپنے دستخط سے جاری کیا۔
مقرّر موصوف نے اس ابتلا کے دوران جماعت کے عمومی ردّعمل اور خصوصاً حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ کی ہدایات اور دعاؤں سے طے ہونے والے مراحل کا ذکر کیا۔ حضورؒ نے ایک طرف تو اسیران کو ’’تذکرۃالشہادتین‘‘ کا بکثرت مطالعہ کرنے کی تحریک فرمائی اور خطوط میں ڈھارس دیتے ہوئے یہ بھی فرمایا کہ ’’بہت دعا کریں کہ میرا اور اس پیاری جماعت کا سر ہر ابتلا میں بلند رہے اور کبھی غیراللہ کے سامنے نہ جھکے‘‘۔ دوسری طرف حضورؒ نے اپنے مولیٰ کے حضور دعاؤں اور آہ و فغاں کی انتہا کردی۔
ضیاء الحق کے فیصلہ کے بعد اسیران کو کال کوٹھڑی میں بند کردیا گیا۔ اسیران نے رحم کی اپیل کی بجائے فیصلہ کو چیلنج کیا تو نظرثانی کی درخواست مسترد کرکے دونوں کو سزائے موت پانے والوں کی پھانسی گھاٹ میں بند کردیا گیا اور بتایا گیا کہ سات دن بعد پھانسی دیدی جائے گی۔ مکرم الیاس منیر صاحب نے بیان کیا کہ ایسے وقت میں مَیں نے پھانسی کے مقام پر جاکر بالکل بے خوف ہوکر سارے نظام کو اچھی طرح دیکھا اور پھر ایک روز اپنی آنکھوں کے سامنے موت کو سرپٹ بھاگتے ہوئے بھی دیکھا۔ اسیری کے دوران متعدد بار خوابوں میں مشکلات سے نجات کے نظارے بھی اللہ تعالیٰ نے دکھائے۔
اسیری میں تبلیغ کے مواقع بھی ہاتھ سے نہ جانے دیتے۔ اس وجہ سے ہمیں مارا پیٹا بھی گیا، قید تنہائی میں بھی ڈالا گیا، بیڑیاں بھی لگائی گئیں۔ صوبائی انتظامیہ کو ہمارے خلاف درخواستیں دی گئیں۔ دھمکیاں بھی دی جاتیں۔ جب ایک غریب آدمی کی درخواست پر ہم نے اُسے اپنے کھانے میں شریک کرلیا تو مخالفین نے اُسے لعن طعن کرکے ہم سے دُور کردیا۔ ایک شخص کے کہنے پر مَیں نے اُسے قرآن پڑھانا شروع کیا تو بھی یہی ردّعمل دیکھنے میں آیا۔ پھر حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کو ہماری جیل سے رہائی کی قبل از وقت خوشخبری دیدی گئی اور جس دن ہماری باعزت رہائی عمل میں آئی تو رمضان کو گزرے تین چار روز ہوئے تھے۔ حضورؒ نے مسجد میں فرمایا کہ اس رمضان میں مَیں نے بہت دعا کی کہ خدایا اگلا رمضان ان کو جیل میں نہ آئے۔
مجلس انصاراللہ یوکے کی متفرق مساعی
اس کے بعد مجلس انصاراللہ برطانیہ کے قائد تبلیغ مکرم شکیل احمد بٹ صاحب اور قائد مال مکرم عبدالمنان ا ظہر چوہدری صاحب نے اپنے اپنے شعبہ جات میں کارکردگی کی رپورٹس پیش کیں اور مکرم حافظ مظفر احمد صاحب نے عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے قائدین اور زعماء میں سندات امتیاز تقسیم کیں۔
پھر مکرم ڈاکٹر اعجازالرحمن صاحب نائب صدر مجلس انصاراللہ یوکے نے مجلس انصاراللہ برطانیہ کی متفرق سرگرمیوں اور اُن کے خوش کُن نتائج پر مختصراً روشنی ڈالی۔ آپ نے بیان کیا کہ اس وقت انصار اللہ یوکے کی Charity Walk for Peace جماعت کے تعارف کا سب سے مؤثر ذریعہ ہے۔
قاتلانہ حملہ سے معجزانہ شفاء
مکرم شفقت صاحب آف ڈاور (ربوہ) نے ایک ذاتی واقعہ بیان کیا کہ جب احمدی ہونے کی وجہ سے چنیوٹ میں اُن پر ٹوکہ سے حملہ کرکے گردن میں گہرا گھاؤ لگایا گیا تو گردن کا بڑا حصہ کٹ گیا۔ چنیوٹ ہسپتال والوں نے بتایا کہ یہ چند منٹ سے زیادہ زندہ نہیں رہ سکتا۔ کوشش کرکے فیصل آباد لے جاؤ۔ چنانچہ فیصل آباد پہنچے تو ڈاکٹر نے پہلے تو مایوسی کا اظہار کیا بعد میں ساڑھے پانچ گھنٹے کا آپریشن کیا اور 17 بوتلیں خون کی انہیں لگائی گئیں۔ ڈاکٹر نے آپریشن کے بعد بتایا کہ اگر یہ زندہ بھی رہا تو یادداشت ختم ہوجائے گی اور بایاں حصہ فالج زدہ ہوجائے گا۔ ساری عمر لقویٰ کے باعث منہ کھلا رہے گا اور بائیں آنکھ بند نہیں ہوسکے گی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے غیرمعمولی فضل کیا اور خلیفۂ وقت کی دعاؤں سے معجزانہ صحت عطا فرمائی۔
دہشتگردی کی کہانی۔ ایک شامی احمدی کی زبانی
اس اجلاس کی آخری تقریر ڈاکٹر محمد المسلم الدروبی صدر جماعت احمدیہ شام (سیریا) کی تھی جو 28مئی 2010ء کے دہشتگردی کے واقعہ کے وقت احمدیہ مسجد دارالذکر لاہور میں موجود تھے۔
آپ نے بتایا کہ اگرچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہاماً بتایا گیا کہ شام کے بزرگ اور صلحاء آپؑ کے لئے دعا کرتے ہیں تاہم حضور علیہ السلام کے زمانہ میں شام کے کسی شخص کو قبولِ احمدیت کی توفیق نہیں ملی تھی۔ ایک لمبے عرصہ بعد پہلے شامی شخص نے جس کا تعلق Tripoli سے تھا، احمدیت قبول کی۔ 1925ء میں حضرت مصلح موعودؓ نے شام کا دورہ فرمایا اور وہاں کے علماء کو دعوت الی اللہ کی لیکن انہوں نے پیغام قبول کرنے کی بجائے مخالفت میں پورا زور لگادیا۔ تاہم آج مَیں عینی شاہد ہوں کہ خدا کے فضل سے وہ پیشگوئیاں پوری ہوچکی ہیں۔
حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمسؓ پہلے مبلغ تھے جنہیں شام بھجوایا گیا اور آپؓ کی قربانی، محنت اور دعاؤں سے بہت سے شامیوں نے احمدیت قبول کرلی۔ آپؓ کے واپس آنے کے بعد محترم منیرالحصنی صاحب شام کے پہلے امیر مقرر ہوئے۔اس دَور میں احمدیت کو ترقیات عطا ہوئیں لیکن عوام اور حکومت کی طرف سے مخالفت بھی زورشور سے ہونے لگی۔ کئی احمدیوں کو مشق ستم بنایا گیا اور بہت سے احمدیوں کو اسیرانِ راہ مولیٰ ہونے کی سعادت ملی۔
1989ء میں مجھے بھی 25 روز جیل میں گزارنے کا موقع ملا جب مَیں صد سالہ جوبلی جلسہ دیکھ کر لندن سے واپس پہنچا۔ سنگین حالات کے پیش نظر حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے شام کے احمدیوں کو غیرضروری طور پر متحرّک ہونے سے منع فرمادیا۔ حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ نے خدائی اشاروں کو دیکھتے ہوئے ہمیں پھر تبلیغ کی طرف توجہ کرنے کی ہدایت فرمائی۔ 2007ء میں مجھے جماعت احمدیہ شام کا صدر مقرر کیا گیا۔ ہم نے تازہ جذبہ کے ساتھ دعوت الی اللہ کا آغاز کیا تو اللہ تعالیٰ نے غیرمعمولی کامیابیاں بھی عطا فرمائیں لیکن عوام اور حکومت نے مخالفت اور ظلم میں بھی انتہا کردی۔
2010ء میں مجھے پاکستان جانے کا موقع ملا۔ 28 مئی کو مَیں دارالذکر لاہور میں نماز جمعہ ادا کرنے پہنچا اور محراب کے سامنے کھڑا ہوکر نوافل ادا کرنے لگا۔ یہ میری زندگی کے عجیب نوافل تھے کہ نصف گھنٹہ روحانیت کے ایسے ماحول میں گزرا جو میری زندگی میں پہلی بار آیا تھا۔ اس مختصر وقت میں مَیں نے جتنی بھی دعائیں کرنے کی توفیق پائی، خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے میری ہر دعا کو شرفِ قبولیت بخشا۔ یہ نماز واقعی ایک عجیب پُرسرور تجربہ تھا۔ جب حملہ شروع ہوا تو مَیں پہلی صف میں بیٹھا تھا۔ امام نے سب کو لیٹنے اور درودشریف پڑھنے کا کہا لیکن اُن کے اردو میں الفاظ مجھے سمجھ نہیں آرہے تھے اس لئے انہوں نے مجھے ہاتھ سے لیٹنے کا اشارہ کیا۔ اسی اثناء میں میرے قریب ہی ایک زوردار دھماکہ ہوا اور میری ایک ٹانگ شدید زخمی ہوگئی اور مَیں خون میں نہا گیا۔ مَیں نے وہاں دہشتگردی کے گھناؤنے کھیل کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھا۔ شدید فائرنگ اور دھماکوں کے دوران بھی احمدیوں کی طرف سے کوئی شور یا آہ و فغاں نہیں تھا بلکہ خاموشی سے سب درودشریف اور استغفار میں مشغول تھے۔ جب بھی کسی تہ خانہ میں یا دوسرے کمرہ میں جانے کا اشارہ ہوتا تو کسی دھکم پیل کے بغیر ایک دوسرے کی مدد کرتے ہوئے عمل ہوتا۔ ایک نوجوان کے پاس پانی کی بوتل تھی جو اُس نے آگے پکڑائی تو شدید گرمی کے باوجود لوگ صرف ایک ایک گھونٹ پی کر آگے دوسرے کو پکڑانے لگے۔ یہ ایثار دیکھ کر عجیب احساس ہوتا تھا۔ اسی دوران دوسرے دھماکہ سے میری دوسری ٹانگ بھی زخمی ہوگئی۔ جب دہشتگردوں کی گولیاں تھم گئیں تو زخمیوں کو باہر نکالا جانے لگا۔ مجھے بھی سہارا دے کر باہر لایا گیا۔ مسجد کا فرش شہداء کی لاشوں سے بھرا ہوا اور بہنے والے خون سے سرخ تھا۔ جب مجھے باہر لایا گیا تو اندر سے ایک نوجوان میرا موبائل فون لے کر آیا اور مجھے دیتے ہوئے بتایا کہ یہ مَیں نیچے تہ خانہ میں بھول آیا تھا۔ پھر مجھے ہسپتال لے جایا گیا جہاں عملہ کے ایک فرد نے فون کرنے کے بہانے سے مجھ سے فون لیا اور پھر وہ شخص مجھے دوبارہ نظر نہیں آیا اور نہ ہی فون ملا۔ اس وقت مجھے احمدیوں اور غیروں کے درمیان فرق کا صحیح اندازہ ہوا۔
ہسپتال میں مجھے بتایا گیا کہ میری ٹانگوں کے اندر کتنے سپلنٹرز ابھی تک موجود ہیں اور یہ بھی کہ ہڈی بھی فریکچر ہوچکی ہے۔ چنانچہ میرا آپریشن کیا گیا۔ آپریشن سے قبل ایک ڈاکٹر نے مجھ سے معذرت کی کہ میرے ساتھ یہ سلوک کرنے والے واقعی انسانیت کے دشمن ہیں۔ مَیں سوچنے لگا کہ پاکستانی قوم میں ابھی بھی اچھے لوگ موجود ہیں۔
مقرّر موصوف نے کہا کہ احمدیوں پر حملہ کرنے والے دہشتگرد دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اسلام کے مبلغ ہیں حالانکہ وہ نفرت پھیلانے کا کام کرتے ہیں اور اُن کا عمل اس بات کا گواہ ہے کہ یہ گھناؤنا کردار بھی شدید نفرت کا ہی نتیجہ ہے۔
شہدائے احمدیت کے حوالہ سے مشاعرہ کا انعقاد
آج کا آخری پروگرام ایک مختصر مشاعرہ تھا جو شہدائے احمدیت کے حوالہ سے منعقد کیا گیا۔ اس مشاعرہ میں نظامت کے فرائض معروف شاعر مکرم مبارک احمد صدیقی صاحب نے سرانجام دیئے۔ شعراء میں اُن کے علاوہ مکرم راجہ محمد سلیمان صاحب (جرمنی)، مکرم خواجہ عبدالمومن صاحب (ناروے)، مکرم ڈاکٹر وسیم احمد طاہر صاحب (جرمنی)، مکرم آدم چغتائی صاحب (برمنگھم) اور مکرم عبدالقدوس طاہر صاحب شامل تھے۔
قریباً سوا سات بجے شام یہ پروگرام اختتام کو پہنچا جس کے بعد نماز مغرب و عشاء ادا کی گئیں اور پھر کھانا پیش کیا گیا۔
اتوار 20ستمبر 2015ء
مختلف علمی و ورزشی مقابلے صبح سے نماز ظہروعصر تک جاری رہے۔ بعد دوپہر محترم چودھری وسیم احمد صاحب صدر مجلس انصاراللہ یوکے کی زیرصدارت منعقد ہونے والے اجلاس کا آغاز تلاوت و نظم سے ہوا۔
صف دوم کے انصار کا کردار اور ذمہ داریاں
پہلی تقریر مکرم ٹومی کالون صاحب نائب صدر صف دوم کی تھی جنہوں نے صف دوم کے انصار کی ذمہ داریوں پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ آپ نے بتایا کہ صف دوم کے انصار نسبتاً بہتر صحت کے مالک ہوتے ہیں اور جسمانی مشقّت کی خدمت بہتر انداز میں کرسکتے ہیں نیز قربانیاں پیش کرنے کا اُن کا معیار بھی بہت عمدہ ہوتا ہے۔ عموماً صف دوم کے انصار وہ ہیں جو اس ملک میں پیدا ہوئے یا لمبے عرصہ سے یہاں مقیم ہیں اور معاشرتی طور پر سرگرم عمل ہیں۔ چنانچہ اُن کی انگریزی زبان بھی بہتر ہے اور وہ دعوت الی اللہ اور دیگر پروگراموں میں بھی زیادہ بہتر انداز میں خدمت کرسکتے ہیں۔ یہی وہ انصار ہیں جنہوں اللہ تعالیٰ کے فضل سے آئندہ مجلس انصاراللہ اور جماعت احمدیہ کی خدمت کی توفیق پانی ہے اس لئے ان کو اپنی ذمہ داریوں کو خاص طور سمجھنا چاہئے اور خلیفۂ وقت کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنی اور اپنی آئندہ نسلوں کی تعلیم و تربیت اور اخلاقی و روحانی ترقیات کے لئے کوشاں رہنا چاہئے۔
دعوت الی اللہ کے میدان میں تجربات
دوسری تقریر مکرم جاوید حیدر حمید صاحب کی تھی جنہوں نے اپنے تبلیغی تجربات کو مختصراً بیان کیا اور اس ضمن میں بہت سی تاریخی تصاویر بھی حاضرین کو دکھائیں۔ انہوں نے بتایا کہ میرے والد چودھری حمید احمد لائلپوری صاحب 1961ء میں برطانیہ آئے تھے اور مَیں نے اس ملک میں احمدیت کی حیرت انگیز ترقیات کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔
دو سال قبل مجھے یہ ہدایت ملی کہ چیریٹی واک سے جمع ہونے والی کچھ رقم ایسی کونسلز کی چیریٹیز کو دینے کا اہتمام کیا جائے جہاں احمدیوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے تاکہ وہاں کے مقامی مستحق افراد بھی ہماری طرف سے جمع کی جانے والی رقم سے استفادہ کرسکیں۔ چنانچہ ایسی تقاریب کا اہتمام کیا گیا اور ان کونسلوں کے تمام کونسلرز کو دونوں کتب “Life of Muhammad” اور “Pathway to Peace” تحفۃً دی گئیں۔ مجھے حیرانی اس بات پر تھی کہ ان تقاریب کے انعقاد کے لئے زیادہ محنت نہیں کرنی پڑی اور ایسے محسوس ہوتا تھا کہ جیسے یہ کام خودبخود ہورہے تھے اور ہم صرف دعائیں کرتے ہوئے یہ نظارے دیکھتے رہے۔
خدا تعالیٰ نے حقیقی اسلام کا پیغام پہنچانے کا غیرمعمولی انتظام فرمایا۔ کونسلز کے اجلاسات میں انسانیت کی خدمت کے لئے چیریٹی کی رقم بھی پیش کی گئیں۔ جماعت کی سرگرمیوں سے آگاہ کیا گیا۔ شجرکاری کی مہم اور بسوں پر محبت اور امن کے پیغامات کی تشہیر کا بھی بہت فائدہ ہوا۔ نمائشیں اور سٹالز بھی لگائے گئے۔بے شمار افراد نے یہ اظہار کیا کہ انہیں مسلمانوں میں کسی ایسے پُرامن فرقہ کی موجودگی کا علم ہی نہیں تھا اور وہ احمدیت کی متأثرکُن تعلیم سے بے خبر تھے۔ چنانچہ ان میٹنگز کے نتیجہ میں تعلقات میں غیرمعمولی وسعت پیدا ہوئی اور بہت سی مثبت سرگرمیوں نے جنم لیا۔ کئی میٹنگز میں کونسلرز نے اپنے تعلق سے مہمانوں کو دعوت دی کہ وہ بھی ہماری بات سنیں۔ کئی مہمانوں نے بعد ازاں ہمارے جلسہ سالانہ میں بھی شرکت کی۔
مقرّر موصوف نے انگریزی زبان بولنے والے انصار کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وہ ارشاد یاد دلایا جس میں آپؑ نے اس تمنّا کا اظہار فرمایا تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ آپؑ کو انگریزی کا علم عطا فرمادے تو آپؑ اپنی ساری زندگی انگریزی بولنے والے ممالک میں تبلیغ کرتے ہوئے گزار دیں گے۔ چنانچہ آج ہمارا فرض ہے کہ ہم حضور علیہ السلام کی تڑپ کو سامنے رکھ کر اِس ملک میں تبلیغ کریں۔ اس کے علاوہ اب برطانیہ میں ہر نیشنیلٹی اور ہر زبان بولنے والے لوگ موجود ہیں اس لئے تمام انصار کے لئے اپنی زبان میں تبلیغ کرنے کے مواقع بھی موجود ہیں۔
قرآن کریم کی پاکیزہ تعلیم کے اثرات
اس اجلاس کی تیسری تقریر مکرم عارف احمد صاحب آف سپن ویلی کی تھی۔ آپ نے بھی اپنے تبلیغی تجربات کو بیان کیا۔ آپ نے بتایا کہ امریکی پادری Terry Jones کی طرف سے قرآن کریم کے خلاف چلائی جانے والی مُہم نے میری زندگی کا رُخ بدل کر رکھ دیا اور پھر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کی روشنی میں قرآن کریم کے نسخوں اور تعلیمات کو پھیلانے کے لئے زیادہ سے زیادہ نمائشوں کا اہتمام کرنے کا جذبہ مجھ میں پیدا ہوگیا۔ اگرچہ نمائش لگانا بہت مشکل معلوم ہوتا تھا لیکن آغاز میں ہی مجھے اندازہ ہوا کہ یہ کام میری سوچ کی نسبت سے بھی بہت آسان تھا۔ پہلے کونسل سے رابطہ کرکے ٹاؤن ہال کی بُکنگ کروائی اور پھر مہمانوں یعنی اپنے دوستوں کو بذریعہ فون مدعو کرنا شروع کیا۔ کونسلرز، ممبر پارلیمنٹ اور میئر وغیرہ کو بذریعہ ای میل دعوت دی اور نمائش کے لئے مواد جمع کرنا بھی شروع کردیا۔ لیکن اسی اثناء میں مُلّاؤں نے کونسل پر نمائش کینسل کرنے کے لئے دباؤ ڈالا اور متنبّہ کیا کہ اس نمائش کے لگانے سے فساد بھڑک اُٹھے گا۔ مُلّاؤں نے MP پر بھی دباؤ ڈالا کہ وہ نمائش دیکھنے نہ جائے۔ ان حالات میں نمائش مُلتوی کردی گئی لیکن ہم نے لائبریریوں میں اور انفرادی ملاقاتوں کے ذریعہ سے قرآن کریم اور اس کی صحیح تعلیم سے متعلق لٹریچر لوگوں کو دینا شروع کیا۔ اس کا ردّعمل بہت خوش کُن تھا۔ ایک خاتون پادری نے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ قرآن کریم میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ذکر بھی آیا ہے۔ چنانچہ ایسے شہر میں جہاں پہلے لائبریریوں میں قرآن کریم یا دینی کتب قبول نہیں کی جاتی تھیں وہاں کی گیارہ لائبریریوں میں قرآن کریم کے قریباً 30 نسخے شکریہ کے ساتھ قبول کئے گئے۔
پھر ہم نے کتاب “Life of Muhammad” کی تقسیم بڑے پیمانے پر شروع کی۔ اس کا ردّعمل اتنا مثبت تھا کہ مقامی کونسلرز کی حمایت ہمیں حاصل ہوگئی۔ اسی دوران ہم نے میئر کو چیریٹی کے لئے چیک بھی پیش کیا۔ میئر، کونسلرز اور دیگر مقامی رہنماؤں کی طرف سے نہایت حوصلہ افزا پیغامات موصول ہوئے۔ سب ہی نے دل کھول کر قرآن کریم کی تعلیم اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ کو سراہا اور حضور انور ایدہ اللہ کی کتاب “World Crisis and the Pathway to Peace” کو بہت پسند کیا۔ چرچ اور کونسل سے متعلّق کئی افراد (بشمول میئر آف ڈرہم) نے احمدیہ مسجد کا وزٹ کیا۔ نیز لائبریریوں کے کونسلر انچارج نے ہماری کتب پر بہت عمدہ خیالات کا اظہار کیا۔
آپ نے بتایا کہ تبلیغی کاموں کے نتیجہ میں روحانی سکون حاصل ہوتا ہے اور مادی دنیا سے دل اُچاٹ ہونے لگتا ہے۔ اگر آپ اپنی فیملی کو بھی اس کام میں شامل کرلیں تو سب کی تربیت ہونے لگتی ہے۔ افطار پارٹیاں، عید ملن پارٹیاں، کافی مارننگ کے نتیجہ میں اسلام کی حقیقی تعلیم کو اپنے معاشرہ میں پھیلانے کی خوب کوشش کرنی چاہئے اور حقیقی معانی میں انصاراللہ بن جانا چاہئے۔
انٹرنیٹ کے نقصانات اور انصار کا کردار
اجلاس کی چوتھی تقریر مکرم نثار آرچرڈ صاحب سیکرٹری تربیت جماعت احمدیہ یوکے کی تھی۔ آپ نے گرافس اور اعدادوشمار کی مدد سے انٹرنیٹ اور دیگر اسی قسم کی ایجادات کے بارہ میں نہایت مفید امور حاضرین کے سامنے پیش کئے اور بتایا کہ انٹرنیٹ کی مدد سے نئی چیزوں اور ڈیزائن وغیرہ کی تخلیق کے علاوہ رابطوں کی بھی بہت آسانی ہوگئی ہے۔ بینکنگ اور بزنس سے متعلقہ امور نمٹانے بھی آسان ہوگئے ہیں۔ لیکن ان فوائد کے ساتھ جو نقصانات پہنچ رہے ہیں اُن کی فہرست بھی کافی طویل ہے۔ نیز موبائل فون بھی آجکل اسی زمرے میں آتا ہے جس کی مدد سے Messaging، سوشل سائٹس پر جانے اور ویڈیو گیمز کھیلنے کا شوق بڑھ جاتا ہے۔ انٹرنیٹ کے منفی اثرات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 26 فیصد بچوں کا خیال ہے کہ جو کچھ وہ انٹرنیٹ پر دیکھتے ہیں اس کا علم اُن کے والدین کو نہیں ہونا چاہئے۔ اسی طرح 55 فیصد بچوں نے اپنا نام اور دیگر معلومات اجنبی لوگوں کو مہیا کیں۔
آپ نے بتایا کہ دراصل انٹرنیٹ اور موبائل وغیرہ نشہ کا رنگ اختیار کرچکے ہیں۔ اس کے خطرات کے نتیجہ میں غیرمناسب جنسی مواد تک رسائی، نفرت، نسل پرستی اور تشدّد میں اضافہ وغیرہ شامل ہیں۔ بچے مذہب سے دُور اور آزادی کی طرف جارہے ہیں اور سوال کرتے ہیں کہ اگر اخلاقی تعلیم موجود ہے تو پھر مذہب کی کیا ضرورت ہے۔ والدین اور گھر سے رابطہ میں مسلسل کمی آرہی ہے۔ حضرت چودھری سر محمد ظفراللہ خان صاحبؓ فرمایا کرتے تھے کہ لوگوں کے پاس بچے پیدا کرنے کے لئے تو وقت ہے لیکن بچوں کی دیکھ بھال کے لئے وقت نہیں ہے۔ پس آج ضرورت ہے کہ بعض چیزیں گھر میں ایسی اختیار کی جائیں جو فیملی یونٹ کو تقویت دیں۔ ان میں MTA دیکھنے کے علاوہ نماز باجماعت کا قیام بھی شامل ہے۔ اسی طرح کھانا اکٹھے کھانے کی روایت بھی ڈالنی چاہئے۔
تقریر کے آخر میں آپ نے انٹرنیٹ کے استعمال کے متعلق انصار کو ہمیشہ اپنے پیش نظر رکھنے کے لئے ایک سنہرا اصول بیان کیا اور کہا کہ انٹرنیٹ کے استعمال کا ایک ہی معیار ہونا چاہئے یعنی جو چیز ایک ناصر کے لئے دیکھنا ٹھیک ہے وہی چیز اُس کے بچوں کے لئے دیکھنا بھی ٹھیک ہے۔ اس طرح انصار کو اپنی اخلاقی اور روحانی ترقی کی طرف بھی توجہ ہوگی۔ نیز ہمیں یہ بات بھی ہمیشہ ذہن میں رکھنی چاہئے کہ نماز فحشاء اور ناپسندیدہ باتوں سے روکتی ہے۔
مہمان نمائندگان کی تقاریر
بعد ازاں مکرم افتخار احمد صاحب صدر مجلس انصاراللہ جرمنی نے اپنے ملک میں تعمیراتی سرگرمیوں اور انصار کی اس میں قربانیوں کو بیان کیا۔ مکرم انور احمد رشید صاحب صدر مجلس انصاراللہ سویڈن نے اپنے ملک میں مجلس کے تحت ہونے والے امور بیان کئے۔ مسجد کی تعمیر اور فِن لینڈ کے زیرانتظام ایک خودمختار ریاست کے طور پر موجود ایک جزیرہ میں (جہاں کی زبان سویڈش ہے) تبلیغی کوششوں اور کامیابیوں کا ذکر بھی کیا۔
مکرم رائے عبدالقدیر صاحب صدر مجلس انصاراللہ ناروے نے مسجد کی تعمیر کے بعد سے ہر ماہ ہونے والے ’اوپن ڈے‘ کی کامیابی کا ذکر کیا۔ نیز اب ناروے کے انتہائی شمال میں واقع علاقہ میں بھی مسجد کی تعمیر کے منصوبہ پر عملدرآمد ہورہا ہے۔
مکرم Miljuan Hadjiran صاحب نمائندہ صدر مجلس انصاراللہ ملائشیا نے ملائشیا میں تبلیغ پر پابندی اور دیگر مشکلات کا ذکر کرکے دعا کی درخواست کی۔ نیز بتایا کہ 39؍احمدیوں کو نماز جمعہ کی ادائیگی کے الزام میں ایک مقدمہ کا سامنا ہے۔
مجلس انصاراللہ غانا کے نائب صدر اوّل مکرم محمد افورن صاحب نے بتایا کہ غانا میں ایک ٹی وی سٹیشن کے قیام کی کوششیں کی جارہی تھیں کہ اس دوران مقامی ٹی وی چینل سے بہت کامیاب معاہدہ طے پاگیا ہے۔
٭ اجلاس کی آخری تقریر مکرم ڈاکٹر چودھری اعجاز الرحمن صاحب نائب صدر اوّل مجلس انصاراللہ یوکے کی تھی۔ آپ نے سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ کے پُرشوکت الفاظ میں انصار کو اُن کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی۔
٭ نماز اور طعام کے وقفہ کے بعد مکرم شمیم احمد خانصاحب (انچارج دفتر مجلس انصاراللہ مرکزیہ) نے مختلف علمی و ورزشی مقابلوں میں دوم و سوم آنے والے انصار کو انعامات دیئے۔
ایثار و قربانی کی زندہ حکایات
بعد ازاں مکرم چودھری وسیم احمد صاحب صدر مجلس انصاراللہ یوکے نے مختصر مگر بہت پُراثر تقریر کی۔ آپ نے ایثار و قربانی کی چند روایات بیان کرتے ہوئے توجہ دلائی کہ آج ہمیں بھی اُنہی مقدّس وجودوں کے نقش قدم پر چلنے کی ضرورت ہے۔آپ نے بتایا کہ کس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جلسہ سالانہ پر آنے والے مہمانوں کیلئے اپنا بستر بھی دے دیا اور خود سخت سردی کی ساری رات یونہی بیٹھ کر گزار دی۔ اسی طرح لنگرخانہ کا بجٹ ختم ہونے پر حضرت امّاں جانؓ نے اپنا زیور پیش کردیا۔
1922ء کی مجلس شوریٰ میں حضرت مصلح موعودؓ نے ارشاد فرمایا کہ چونکہ بجٹ کے مطابق چندہ اکٹھا نہیں ہوسکا اس لئے نظارتیں اپنے بجٹ میں 30 فیصد کمی کریں۔ اس کے بعد ایک خصوصی کمیٹی نے مزید کمی کی اور پھر حضرت مصلح موعودؓ نے خود جائزہ لے کر بجٹ میں مزید کٹوتی کی۔ وہ دَور ایسا تھا جب جماعت کے ملازمین کو پانچ پانچ ماہ سے تنخواہیں نہیں مل سکی تھیں۔ ایسے میں کسی مخیّر شخص نے معمولی رقم ایک ایسے دوست کو دی جن کے گھر چند روز سے چولہا نہیں جلا تھا۔ ایثار کا یہ عالم تھا کہ اُس دوست نے اُس معمولی رقم میں سے نصف آگے ایک ایسے دوست کو پیش کردی جس کے بارہ میں وہ جانتا تھا کہ وہ کئی وقت کا بھوکا ہے۔ ایثار کے یہی مظاہرے ہر سطح پر جاری تھے۔ چنانچہ جب ایک دوست بھوک کی وجہ سے بیہوش ہوئے تو حضرت مصلح موعودؓ نے اپنا سارا کھانا اٹھاکر اس حکم کے ساتھ بھجوایا کہ اُس دوست کو ضرور کھلادیا جائے۔
مکرم صدر صاحب نے بتایا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دَور میں بھی صحابہ نے نہایت تنگی کا زمانہ دیکھا تھا۔ چنانچہ بعد میں ایک بار حضرت عبدالرحمن بن عَوف نے اپنا دسترخوان بھرا ہوا دیکھا تو روپڑے۔ دوسروں کے پوچھنے پر بتایا کہ مجھے اُحد کا وقت یاد آگیا تھا جب ہمارے پاس اپنے شہیدوں پر ڈالنے کے لئے پوری چادر بھی نہ ملتی تھی۔
حضرت مصلح موعودؓ نے جب مسجد فضل لندن کی تعمیر کیلئے احمدی خواتین کو مالی قربانی کرنے کی تحریک فرمائی تو ایک پٹھان عورت حضور کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اپنی ٹوٹی پھوٹی زبان میں بتایا کہ اُس کی ہر چیز دفتر سے مِلی ہوئی ہے۔ اُس کے کپڑے، چادر حتّٰی کہ قرآن کریم بھی دفتر نے دیا ہے۔ اُس کے پاس سوائے ایک دو مرغیوں کے کچھ نہیں۔ پھر اُس نے دو روپے حضورؓ کی خدمت میں پیش کئے کہ یہ مسجد کی تعمیر کیلئے قبول فرمالیں۔
ایک ماں کے جذبات کا اظہار کرنے والا یہ واقعہ بھی ہے کہ جب حضرت مصلح موعودؓ نے فرقان فورس میں شمولیت کے لئے نوجوانوں کو تحریک فرمائی تو ایک وفد ضلع گوجرانوالہ پہنچا اور وہاں ایک مقام پر جب حضورؓ کا ارشاد پہنچایا گیا تو جلسہ میں کسی نے بھی حامی نہ بھری۔ اس پر پردہ کے پیچھے سے ایک بیوہ عورت نے اپنے اکلوتے بیٹے کو آواز دی کہ او فلاں! کیا تُو نے خلیفۃالمسیح کا پیغام نہیں سنا؟ اُٹھ اور لبیک کہہ۔
جب یہ واقعہ حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں تحریر کیا گیا تو حضورؓ فرماتے ہیں کہ میرا دل جذبات سے اس قدر مغلوب ہوگیا کہ مَیں نے دعا کی کہ اے خدا! میرا بھی حق ہے کہ مَیں قربانی کروں، تُو میرے بیٹے کی جان لے لیجیو لیکن اس ماں کا سہارا نہ چھیننا۔
مکرم صدر صاحب نے بتایا کہ گزشتہ ایک سال میں دس ہزار مرتبہ انصار تبلیغ کے لئے باہر نکلے ہیں لیکن دراصل یہ صرف 700؍ انصار کی مساعی تھی۔ چنانچہ اگر انصار کی تعداد بڑھ جائے تو دعوت الی اللہ کے نہایت خوش کُن اثرات ظاہر ہوں گے۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ اپنی ذمہ داریوں کا جائزہ لیں۔ ہماری میٹنگز آمدن، نشستن اور برخواستن نہیں ہونی چاہئیں۔آج جو لوگ جماعتی کاموں میں حصہ نہیں لیتے، اُن کی اولادیں آئندہ ملنے والے انعامات سے محروم ہوجائیں گی۔
پاکستان میں ہونے والے مظالم اور شہادتوں کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے بتایا کہ احمدی شہداء کا خون ہم سے کچھ مطالبہ کرتا ہے۔ چاہئے کہ ہم یہ کہہ سکیں کہ تم سے خون مانگا گیا اور تم نے خون دیا، ہم سے وقت مانگا گیا اور ہم نے وقت پیش کیا۔ حضرت مصلح موعودؓ نے بھی انصار کے لئے ارشاد فرمایا تھا کہ وہ روزانہ نصف گھنٹہ یا ہر ماہ تین دن خدمت دین کیلئے پیش کیا کریں۔
اختتامی اجلاس
سہ پہر3 بج کر 40 منٹ پر حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اجتماع گاہ میں تشریف لائے تو احباب نے پُرزور نعروں سے اپنے پیارے آقا کا استقبال کیا۔ حضور انور کی زیرصدارت اختتامی اجلاس کی کارروائی کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جو مکرم معاذ احمد نوید صاحب آف ملائشیا نے کی۔ مکرم جلال الدین لطیف صاحب آف امریکہ نے آیات کا انگریزی ترجمہ پیش کیا۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی اقتداء میں انصار نے اپنا عہد دہرایا۔ پھر مکرم اکبر بیگ صاحب آف جرمنی نے حضرت مصلح موعودؓ کا منظوم کلام پیش کیا۔
اس کے بعد مکرم چودھری وسیم احمد صاحب صدر مجلس انصاراللہ یوکے نے رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ امسال 13 میں سے 12 علاقائی مجالس نے اجتماعات منعقد کرنے کی توفیق پائی۔ اس اجتماع کو پلاٹینم جوبلی کے حوالہ سے منانے کے لئے حضور انور کی اجازت سے دیگر ممالک کے نمائندگان کو بھی اجتماع میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی چنانچہ 15 ممالک سے نمائندگان شامل ہوئے۔
اس کے بعد علمی و ورزشی مقابلہ جات میں اوّل آنے والے انصار کے علاوہ اعلیٰ کارکردگی کی بنیاد پر مختلف مجالس کے زعماء کو بھی سندات و انعامات حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائے۔ امسال مجموعی کارکردگی کی بنیاد پر چھوٹے ریجنز میں ساؤتھ ویسٹ ریجن سرفہرست رہا۔ جبکہ بڑے ریجنز میں ساؤتھ ریجن اوّل، لندن ریجن دوم اور بیت النور ریجن سوم قرار پائے۔ چھوٹی مجالس میں اوّل مجلس براملے ولیوشم، دوم مجلس سوانسی اور سوم مجلس وُلورہیمپٹن رہیں۔ جبکہ عَلمِ انعامی کے مقابلہ میں مجلس حلقہ مسجد فضل سوم آئی، مجلس ناربری دوم قرار پائی اور مجلس مچم اوّل آکر علم انعامی اور سند خوشنودی کی حقدار ٹھہری۔
اس کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطاب فرمایا۔
[ حضور انور کے اس نہایت اہم اور زرّیں نصائح پر مشتمل روح پرور خطاب کا مکمل متن الفضل انٹرنیشنل کے شمارہ 16؍اکتوبر 2015ء میں شائع ہوچکا ہے۔]