مکرم ناصر احمد صاحب ظفر بلوچ

روزنامہ الفضل ربوہ 4 اپریل 2012ء میں مکرم ابن کریم صاحب کے قلم سے مکرم ناصر احمد ظفر صاحب بلوچ کا ذکرخیر کیا گیا ہے۔

مکرم ناصر احمد ظفر صاحب

مکرم ناصر احمد بلوچ صاحب بڑی حکمت کے ساتھ بڑے زمینداروں اور سیاستدانوں کا رُخ خلافت کی طرف اس طرح موڑتے تھے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ اور آپ کے بعد موجودہ امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کو دعا کے خطوط لکھنے کے بارے راغب کرتے بلکہ لکھوا کر فیکس کرواتے اور پھر جو جواب آتا وہ اُن تک پہنچاتے۔ سرکاری اداروں کے ساتھ تعلقات اور امور کے خاص ماہر تھے۔ آپ کے اخلاق سلیقہ اور نیکی و خلوص اور مہمان نوازی کی و جہ سے دوسرے آپ کی طرف کھنچے چلے آتے تھے۔ یہ فن خدا نے آپ کی مدبرانہ صلاحیتوں اور عاجزانہ و منکسرانہ مزاج کی وجہ سے ودیعت کیا ہوا تھا۔ عاجزی اور انکساری کا عالم یہ تھا کہ بعض تیز مزاج لوگ آپ کو اپنے مسائل کے سلسلہ میںمنہ پر سخت الفاظ کہہ دیتے تھے مگر اس مخلص خادم سلسلہ کی پیشانی پر کوئی بل نہ آتا۔
ایک سابق صدر صاحب عمومی نے بتایا کہ ان کے کاموں میں برکت کا راز یہ تھا کہ کسی بھی انتظامی اور سیاسی معاملہ میں کوئی بڑے سے بڑا افسر بھی کوئی بات کہتا تو جواب میں کہتے کہ مَیں اپنے افسر سے بات کرنے کے بعد جواب دوں گا۔ پھر نہایت عاجزی سے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے وہ معاملہ متعلّقہ عہدیدار کے سامنے رکھتے اور پھر جو نظام جماعت کہتا وہ موقف بلا چون و چرا اپنا لیتے۔ آپ کے بیٹے بیان کرتے ہیں کہ مرحوم کی آخری بیماری میں گھر پر ایک کانسٹیبل آیا اور اس نے ڈی ایس پی صاحب کی طرف سے ایک پیغام دیا۔ آپ نے اس کو کہا کہ جس طرح تم اپنے افسر کے ماتحت ہو میں بھی بالکل اسی طرح اپنے نظام اور اپنے افسر کے ماتحت ہوں۔ مَیں یہ معاملہ صدر صاحب عمومی کو بھجواتا ہوں جو وہ ارشاد فرمائیں گے اس کے مطابق عمل ہو گا۔
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: اطاعت کوئی چھوٹی بات نہیں اور سہل امر نہیں، یہ بھی ایک موت ہوتی ہے۔ جیسے ایک زندہ آدمی کی کھال اتار دی جائے ویسے ہی اطاعت ہے۔ دراصل یہی وہ بنیادی عنصر ہے جس کی وجہ سے نظام جماعت کی رُوح قائم ہے۔
مراد آباد کے مشہور مصنف جناب اشفاق حسین صاحب ممتاز (سابق میونسپل کمشنر مرادآباد) اپنے کتابچہ خون کے آنسو میں لکھتے ہیں: ہم سات کروڑ توہیں لیکن ہم سات کروڑ آدمیوں کی بھیڑ ہیں۔ ہم اپنے آپ کو جماعت نہیں کہہ سکتے۔ البتہ احمدی صاحبان اپنے آپ کو جماعت کہہ سکتے ہیں۔
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب کی ایک خوبی کا اظہار کچھ اس طرح بھی فرمایا تھا کہ وہ تمام معاملات خلیفۃالمسیح کو بھجوا دیتے تھے۔ دعاؤں کا رُخ، لوگوں کا رُخ خلیفۃالمسیح کی طرف کرتے تھے۔
اسی انداز کی جھلک نمایاں طور پر مکرم ناصر احمد ظفر صاحب میں بھی دیکھی جاسکتی تھی۔ ایک معزز سیاسی شخصیت جو تعزیت کے لئے آئی۔ وہ بھری مجلس میں حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ، حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ اور حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ کا نام نہایت احترام سے اور بڑی محبت سے حضرت کا لقب استعمال کرتے ہوئے لے رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ مرحوم ہمارے اور جماعت کے درمیان پل کا کردار ادا کرتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ مرحوم کے توجہ دلانے پر وہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ اور حضورانور ایدہ اللہ سے لندن جاکر بھی مل چکے ہیں۔
مکرم ناصر احمد ظفر صاحب کے ڈرائنگ روم میں آویزاں ایک تصویر کا پس منظر یہ تھا کہ حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے آپ کو اپنی زمین پراحمدنگر بلایا اور کھڑا کر کے کیمرہ سیٹ کیااور خود آکر ازراہ شفقت ساتھ کھڑے ہوگئے اور اپنے ساتھ تصویر بنوانے کی سعادت عطافرمائی۔
مرحوم بیشمار خوبیوں کے مالک تھے۔ باطنی خوبیاں توتھیں ہی ظاہری صفائی ستھرائی خوش لباس خوش ذوقی خو ش گفتاری بھی آپ کی زندگی کا مرصع تھی۔ ذوقِ عبادت جوانی سے ہی تھا۔ تہجد اور پنج وقتہ نماز کے پابند تھے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں