ایک طعنہ جو موجب ہدایت بن گیا

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 3؍اگست2006ء میں مکرم راجہ محمد مرزا خان صاحب کا ایک ایمان افروز واقعہ شائع ہوا ہے۔
آپ بیان کرتے ہیں کہ قریباً بارہ برس کی عمر میں مَیں اپنے گاؤں (موضع عادو وال ضلع جہلم) کے کھیتوں میں کچھ لڑکوں کے ہمراہ اپنے مویشی چرا رہا تھا ۔ ہم لڑکوں نے باہم کوئی کھیل کھیلنا شروع کر دیا جس کی وجہ سے مویشیوں کی طرف توجہ نہ رہی ۔ تھوڑی دیر کے بعد دیکھا تو میرے مویشی کچھ فاصلے پر ہماری برادری کے ایک بزرگ راجہ حیات خاں کی فصل میں پہنچ گئے تھے ۔ میں مویشیوں کی طرف دوڑا۔ اُدھر راجہ حیات خاں بھی اپنے ڈیرہ سے بھاگتا ہوا آیا اور نہایت غصے اور سخت ناراضگی کے لہجہ میں مجھے کہا ’’او مرزیا قادیانیا‘‘۔ میں بچہ بھی تھا اور قصوروار بھی ۔ خاموشی سے اپنے مویشی لے کر واپس آ گیا اور اُس کے الفاظ پر غور کرنے لگا۔ ’’اومرزیا‘‘ تو میرے نام کا حصہ بنتا تھا مگر ’’قادیانیا‘‘ کی سمجھ نہ آئی۔ یہ طعنہ اس سے پہلے کبھی سنا نہ تھا۔ بہرحال یہ الفاظ ہمیشہ کیلئے میرے ذہن اور قلب پر ثبت ہو گئے۔
جنگ عظیم دوم 1939ء میں شروع ہوئی اور میں 1940ء میں 19سال کی عمر میں فوج میں بھرتی ہو گیا۔1942ء میں ہمیں اٹلی لے جایا گیا۔ اس دوران مصر، لیبیا وغیرہ ممالک میں بھی رہے۔ اٹلی میں میرے ساتھ ایک دوست مکرم سید شبیر حسین شاہ صاحب حوالدار آف سیالکوٹ بھی رہتے تھے۔ ایک دن اُن کے پاس کتاب ’’کشتی نوح‘‘ دیکھی۔ مصنف کا نام ’’مرزا غلام احمد قادیانی‘‘ پڑھ کر تقریباً دس سال پرانا طعنہ ’’ اومرزیا ، قادیانیا‘‘ یاد آگیا۔ چنانچہ ارادہ کیا کہ کتاب کو غور سے پڑھوں گا تاکہ پتہ چلے کہ یہ شخص کون ہے اور کیا کہتا ہے تاکہ آئندہ موقع ملے تو راجہ حیات خان کو اُس کے طعنہ کا جواب دے سکوں۔ لیکن جوں جوں کتاب پڑھتا گیا مجھے شرح صدر ہوتا گیا کہ اس کتاب میں درج تعلیم حق ہے اور اس کا مصنف بھی کبھی جھوٹا نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ اسی روز 1945ء میں بیعت کا خط قادیان لکھ دیا ۔ 1945ء کے آخر پر اٹلی سے واپس ہندوستان آئے۔ جنگ ختم ہو گئی تو میں چند دن اپنے گھر ٹھہرنے کے بعد قادیان گیا ۔ قادیان کا ماحول دیہاتی اور سادہ سا تھا۔ جب حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کو دیکھا تو بالکل ایسا لگا کہ یہ تو کوئی قرون اولیٰ کا بزرگ ہے۔ بہشتی مقبرہ کے ساتھ ایک مکان میں مجھے ٹھہرایا گیا۔ کھانا بہت اچھا ملتا تھا مگر اس وقت ابھی مجھے یہ شعور نہ تھاکہ ساتھ قبرستا ن ہے وہاں جا کر حضرت مسیح موعود کے مزار پر دعا کروں۔ جوں جوں احمدیت نے میری تربیت کی تو تمام دینی احکام کی حقیقت کا پتہ چلا۔ اب کبھی کبھی اب بھی اپنے ماضی میں گم ہوتا ہوں تو راجہ حیات خاں کو دعا ہی دیتا ہوں جس کے طعنے نے میری زندگی بدل دی۔
اٹلی سے ہی میں نے اپنے والدین کو اپنے قبول احمدیت کی اطلاع دیدی تھی۔ واپس آکر مَیں نے گاؤں والوں کو بہت دعوت الی اللہ کی۔ لیکن وہ دین سے ایسے لاتعلق لوگ تھے کہ نہ وہ میرے خلاف کوئی بات کرتے اور نہ میری باتوں کا کوئی اثر ان پر ہوتا تھا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے احمدیت کی بدولت مجھ پر بے شمار افضال نازل فرمائے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں