تعارف کتاب: ’’براہین احمدیہ اور مولوی عبدالحق‘‘

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 25مارچ 2022ء)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اسلام کی خاطر جو شاندار علمی خدمات سرانجام دیں اُن میں حضورؑ کی تصنیف ’’براہین احمدیہ‘‘ کو غیرمعمولی مقام حاصل ہے۔ لیکن بعض مخالفین نے اس کتاب کی عظیم الشان علمی حیثیت کو متأثر کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان مخالفین میں ایک نام مولوی عبدالحق کا ہے جو بابائے اردو کہلاتے ہیں۔

تفصیل اس اجمال کی یوں ہے کہ پادری میلکم میکال کی طرف سے 1881ء میں اسلام پر چند اعتراضات کیے گئے جن کا جواب (سرسید احمد خان صاحب کی علیگڑھ تحریک سے تعلق رکھنے والے) مولوی چراغ علی نے اپنی ایک انگریزی تصنیف میں دیا۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ مولوی عبدالحق نے ’’اعظم الکلام فی ارتقاء والاسلام‘‘ کے نام سے 1910ء میں آگرہ سے شائع کیا۔
مولوی عبدالحق جامعہ عثمانیہ حیدرآباد دکن کے گریجوایٹ تھے اور اسی لیے مولوی کہلاتے تھے ورنہ ان کو دینی علم سے کوئی مناسبت نہیں تھی۔ انہوں نے ’’اعظم الکلام‘‘ کے حصہ دوم کے مقدمے میں حضرت مسیح موعودؑ کے خطوط کے اقتباس پیش کرتے ہوئے لکھا کہ ’’جس وقت ہم مولوی (چراغ علی) صاحب مرحوم کے حالات کی جستجو میں تھے تو ہمیں مولوی صاحب کے کاغذات میں سے چند خطوط مرزا غلام احمد قادیانی مرحوم کے بھی ملے جو انہوں نے مولوی صاحب کو لکھے تھے اور اپنی مشہور اور پُرزور کتاب ‘براہین احمدیہ’ کی تالیف میں مدد طلب کی تھی۔ … ان تحریروں سے ایک بات تو یہ ثابت ہوتی ہے کہ مولوی صاحب مرحوم نے مرزا صاحب مرحوم کو ‘براہین احمدیہ’کی تالیف میں بعض مضامین سے مدد دی ہے۔‘‘ (مقدمات عبدالحق صفحہ 23, 26)
مولوی عبدالحق کی اس تحریر کے حوالے سے بہت سے مخالفین نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی حمایتِ اسلام میں کی جانے والی عظیم الشان مساعی کو داغدار کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن تاریخ سے ثابت ہے کہ ‘براہین احمدیہ’ کی اشاعت پر اس کتاب کے مضامین کو ہر طبقۂ فکر نے خوب سراہا لیکن کسی ایک نے بھی یہ اظہار نہیں کیا کہ اس عظیم الشان تصنیف میں فلاں شخص کی علمی مدد شامل تھی۔ چنانچہ اہل حدیث کے مولوی محمد حسین بٹالوی نے اپنے رسالہ میں یہاں تک لکھا کہ ’’ہماری رائے میں یہ کتاب اس زمانہ میں اور موجودہ حالت کی نظر سے ایسی کتاب ہے جس کی نظیر آج تک اسلام میں تالیف نہیں ہوئی… اس کا مؤلف بھی اسلام کی مالی و جانی، قلمی و لسانی و قالی نصرت میں ایسا ثابت قدم نکلا جس کی نظیر پہلے مسلمانوں میں بہت کم ہی پائی گئی۔‘‘
مولانا ابوالکلام آزاد نے لکھا: ’’بزرگانِ اسلام اب براہین احمدیہ کے بُرا ہونے کا فیصلہ دے دیں محض اس وجہ سے کہ اس میں مرزا صاحب نے اپنی نسبت بہت سی پیشگوئیاں کی تھیں اور بطور حفظ ماتقدم اپنے آئندہ دعاوی کے متعلق بہت کچھ مصالہ فراہم کرلیا تھا۔ لیکن اس کا بہترین وقت 1880ء تھا جبکہ وہ کتاب شائع ہوئی۔ مگر اس وقت مسلمان بالاتفاق مرزا صاحب کے حق میں فیصلہ دے چکے تھے۔‘‘
دراصل جب اسلام پر عیسائی پادریوں اور ہندوؤں کی تحریکوں آریہ سماج اور برہمو سماج نے اعتراضات کی یلغار کردی تو حضرت مسیح موعودؑ نے اسلام کے دفاع میں ’’براہین احمدیہ‘‘ کی اشاعت کا اعلان کرتے ہوئے اشتہار دیے اور اسلام کی ہمدردی میں مسلمانوں سے اپیل کی کہ اس کتاب کی خریداری قبول کریں اور مالی معاونت بھی کریں۔ پھر ان افراد کا ذکر شکریہ کے ساتھ اپنی کتاب میں بھی کیا۔ چنانچہ مولوی چراغ علی کی مالی معاونت کا بھی ذکر کیا جو دس روپے تھی۔
حیرت ہے کہ مولوی چراغ علی کی وفات 1895ء میں ہوئی اور انہوں نے کبھی اپنے دوستوں کو یہ نہ بتایا کہ مسلمان جس کتاب کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملارہے ہیں اُس کا فلاں فلاں حصہ تو میرا مرہون منّت ہے۔
’’براہین احمدیہ‘‘ پر ہونے والے مذکورہ اعتراض کے جواب میں مکرم عاصم جمالی صاحب کے قلم سے دو صدگیارہ صفحات پر مشتمل ایک تحقیقی کتاب بعنوان ’’براہین احمدیہ اور مولوی عبدالحق بابائے اردو‘‘ شائع ہوئی ہے۔ اس کتاب پر مکرم قمرالزمان مرزا صاحب کا تبصرہ روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ 3؍ستمبر 2013ء میں شائع ہوا ہے۔
عاصم جمالی صاحب نے حضرت مسیح موعودؑ اور مولوی چراغ علی کے نظریات کی متعدد مثالیں دے کر بھی ثابت کیا ہے کہ مولوی صاحب نے علمی یا تحریری طور پر حضورعلیہ السلام کی کوئی مدد نہیں کی تھی۔ مثلاً مولوی چراغ علی صاحب قرآن مجید کو آنحضرتﷺ کا کلام قرار دیتے تھے۔ ملائکہ کے وجود کے منکر تھے اور معجزات کے انکاری تھے۔ وحی و الہام کو دل کے خیالات قرار دیتے تھے اور پیشگوئیوں کے بھی منکر تھے۔ عصمت انبیاء کے انکاری تھے۔ جبکہ حضور علیہ السلام نے ان سب کے اثبات میں دلائل دیے ہیں۔
مصنف نے مولوی چراغ علی اور حضرت مرزا صاحب کے اسلوبِ نگارش یعنی طرز تحریر کا موازنہ کرکے بھی اپنا مؤقف ثابت کیا ہے۔
عاصم جمالی صاحب نے یہ بھی ثابت کیا ہے مولوی عبدالحق دوسروں کی تحریرات اور تحقیق کو خاموشی سے ہضم کرجاتے ہیں اور اگر کوئی توجہ دلائے تو ایسے انداز سے جواب دیتے ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ جبکہ حضرت مسیح موعودؑ کا طریق یہ تھا کہ جہاں آپ دوسرے مصنفین کی تحریر شاملِ کتاب کرتے ہیں وہاں بطور خاص اس شخص کا نام بھی تحریر فرماتے ہیں۔ مصنف نے اس کی کئی مثالیں بھی پیش کی ہیں۔ پس مولوی چراغ علی نے جتنی مدد پیش کی تھی اس کا ذکر حضورؑ اپنی کتاب میں شکریہ کے ساتھ فرماچکے ہیں۔
مولوی عبدالحق نے حضرت مسیح موعودؑ کے حوالے سے اپنے مقدمے میں چار خطوط کا ذکر کیا ہے جبکہ دراصل یہ دو خطوط ہیں جن کے مضمون میں تحریف کرکے انہوں نے غلط فہمی پیدا کرنے کی دانستہ کوشش کی ہے۔ حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ نے 1926ء میں ‘حیاتِ احمدؑ ’ میں بھی یہ مسئلہ اٹھایا تھا اور مولوی عبدالحق کو دو خطوط بھی لکھے تھے جن کا مولوی صاحب کوئی تسلّی بخش جواب نہ دے سکے اور آخری خط میں لکھا کہ ’’جن صاحب کے پاس وہ خطوط تھے ان کا انتقال ہوگیا۔ اب ان خطوں کا ملنا محال ہے۔ مولوی چراغ علی مرحوم کے بیٹوں میں کسی کو اس کا ذوق نہیں۔ آپ نے ‘براہین احمدیہ’ کے سلسلے کے متعلق دریافت فرمایا مجھے مطلق یاد نہیں اور نہ مجھے اب ان چیزوں سے کوئی سروکار ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ ان امور میں مَیں آپ کی کوئی مدد نہیں کرسکتا۔‘‘
عاصم جمالی صاحب نے مولوی عبدالحق کے حوالے سے ایک سو سال سے پھیلائی گئی مخالفین کی ایک بڑی غلط فہمی کو کماحقہٗ اور مدلّل انداز میں بالبداہت غلط ثابت کیا ہے اور تاریخ کی غلطی کو درست کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ خداتعالیٰ اُمّت مسلمہ کو وہ شعور عطا کرے کہ وہ مامور زمانہ کو پہچان سکے اور وہ یہ ادراک کرسکیں کہ ایمان کو ثریا سے واپس لانے اور اسلام کی حقیقی تعلیمات کو دوبارہ دنیا تک پہنچانے کے لیے کس قدر عظیم الشان خدمات حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے سرانجام دی ہیں۔ آمین

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں