جلسہ اعظم مذاہب لاہور

آج ہم ماہنامہ ’’انصاراللہ‘‘ جون 1996ء (خصوصی اشاعت بحوالہ جلسہ اعظم مذاہب لاہور) میں شامل اشاعت مضامین کا جائزہ لیں گے جو اس جلسہ کے کئی پہلوؤں کا بخوبی احاطہ کرتے ہیں۔
حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانیؓ بیان کرتے ہیں کہ 1896ء کے نصف دوم میں ایک سادھو منش انسان جن کا نام شوگن چندر تھا، تلاشِ حق میں قادیان آئے۔ وہ تعلیم یافتہ تھے اور کبھی سرکاری ملازم بھی رہے تھے لیکن بعض حوادث اور عیال و اطفال کی وفات کی وجہ سے اُن کے خیالات کا رُخ بدل گیا اور وہ صداقت کی تلاش میں مارے مارے پھرنے لگے۔ جب قادیان پہنچے تو حضرت مسیح موعودؑ کے وہ ایسا گرویدہ ہوئے کہ یہیں رہ جانے پر آمادہ ہو گئے۔
اُن کی یہ خواہش بھی تھی کہ وہ جلسہ اعظم مذاہب منعقد کرائیں۔ حضورؑ کی بھی شاید یہ خواہش تھی کہ مذاہب عالم کی ایسی کانفرنس منعقد ہو جس میں قرآن شریف کے فضائل کے بیان اور اسلام کی برتری ثابت کرنے کا موقع ملے۔ چنانچہ حضورؑ کی خواہش کی تکمیل کے لئے (سوامی) شوگن چندر نے اپنی خدمات پیش کیں اور بہت جلد انہوں نے ہندوؤں کے ہر طبقہ میں رسوخ حاصل کر کے اس جلسہ کی تجویز پیش کر دی اور اس جلسہ کے انعقاد کو ممکن بنانے کے لئے حضور علیہ السلام کی طرف سے ہر رنگ میں مدد اور حوصلہ افزائی کی گئی۔
آخر 26 تا 28؍ دسمبر 1896ء کی تاریخوں میں ٹاؤن ہال لاہور میں اس جلسہ کے انعقاد کا فیصلہ ہوا تو حضرت اقدس علیہ السلام بہت خوش ہوئے اور بیماری کے باوجود ایک مضمون قلمبند کرنا شروع کیا جسے حضرت مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوٹیؓ نے جلسہ میں پڑھ کر سنانا تھا۔ اسی دوران حضرت مولانا صاحبؓ سیالکوٹ میں بیمار ہو گئے چنانچہ مکرم خواجہ کمال الدین صاحب کو متبادل کے طور پر تیاری کروائی جانے لگی۔ اگرچہ انہیں اردو خوانی کا ملکہ حاصل تھا لیکن آیات قرآنی کی تلاوت میں خامی تھی۔ چنانچہ حضرت مولانا عبد الکریم صاحبؓ بیماری کے باوجود لاہور تشریف لے آئے اور حضورؑ کی خواہش کے مطابق مضمون پڑھنے کے لئے تیار ہو گئے۔
جلسہ سے قبل ہی حضورؑ کو الہام ہوا ’’یہ مضمون ہے جو سب پر غالب آئے گا‘‘۔ چنانچہ حضورؑ نے 21؍دسمبر 1896ء کو ایک اشتہار شائع کرکے تاکید فرمائی کہ اس کی زیادہ سے زیادہ اشاعت کی جائے۔ اس اشتہار میں اس مضمون کے سب مضمونوں پر غالب رہنے کی الہامی خبر بیان کی گئی تھی۔
اس جلسہ کے انعقاد کی راہ میں مخالفین کی طرف سے بہت روکیں پیدا کی گئیں جو خدا تعالیٰ کے فضل سے دُور ہوتی چلی گئیں۔ حتیٰ کہ پروگرام کے مطابق ٹاؤن ہال نہ مل سکا تو اسلامیہ ہائی سکول کی زیادہ وسیع عمارت مل گئی۔
جلسہ کے دوران حضورؑ کے مضمون کا وقت ہوا تو اتنی مخلوق وہاں آئی کہ گنجائش نکالنے کے لئے سمٹنا اور سکڑنا پڑا۔ مضمون شروع ہوا تو بے اختیار لوگوں نے سبحان اللہ، سبحان اللہ کہنا شروع کیا۔ ہزاروں انسانوں کا مجمع بے حس و حرکت ہمہ تن گوش بیٹھا تھا۔ وقت ختم ہوگیا لیکن مضمون ابھی باقی تھا اس لئے حضورؑ کے مضمون کے لئے وقت مزید بڑھایا گیا اور پھر اس مضمون میں لوگوں کی دلچسپی دیکھتے ہوئے منتظمین نے جلسہ کے پروگرام میں ایک دن کا اضافہ بھی کردیا۔ مضمون ختم ہوا تو اپنوں کے ساتھ غیروں کی زبانیں بھی اس مضمون کی تعریف میں رطب اللسان ہو گئیں۔
سوامی شوگن چندر جلسہ کی رپورٹ کی اشاعت تک تو قادیان آتے جاتے رہے پھر نہ معلوم وہ کہاں چلے گئے اور پہلے کی طرح غائب ہو گئے۔
– … ٭ … ٭ … ٭ … –
محترم امین الرحمان شاہد صاحب اپنے مضمون میں جلسہ میں مختلف مذاہب کے نمائندگان کی تفصیل بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس جلسہ میں دس مذاہب کے 16 نمائندگان شریک ہوئے۔ عیسائیوں نے ایک میٹنگ کی اور متفقہ فیصلہ کرتے ہوئے اس جلسہ میں شمولیت سے انکار کر دیا تاہم دو عیسائی لیڈروں نے ذاتی طور پر اس جلسہ میں شرکت کی جن میں سے ایک نے اظہار خیال بھی کیا۔
– … ٭ … ٭ … ٭ … –
محترم عبد السمیع خان صاحب اپنے مضمون میں لکھتے ہیں کہ سر سید احمد خان صاحب نے جلسہ میں شریک ہونے سے انکار کیا اور کہا کہ یہ کام واعظوں اور ناصحوں کا ہے۔ اسی طرح دیگر کئی مشہور مسلم علماء مثلاً مولوی احمد حسین صاحب عظیم آبادی، مولوی عبد الحق صاحب محدث دہلوی اور سید محمد علی صاحب کانپوری نے اس جلسہ کی طرف توجہ ہی نہیں کی اور ایسا شکست خور دہ کردار اپنایا گویا ان کی دینی غیرت سوئی ہوئی ہے۔
– … ٭ … ٭ … ٭ … –
محترم شبیر احمد ثاقب صاحب اس جلسہ میں پڑھے جانے والے مضامین پر عمومی تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اکثر مضامین نے اصل سوالوں کی بجائے ضمنی باتیں بیان کیں یا جزوی طور پر کسی ایک سوال پر ہی اپنی رائے دی یا اپنے مضمون کے آغاز میں بیان کی جانے والی دلیل کو خود ہی بعد میں ردّ کر دیا۔
مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب نے نبوت اور معجزہ کی غیر متعلق بحث کرتے ہوئے کہا کہ ’’انبیاء فوت ہو چکے، امت محمدیہ کے بزرگ ختم ہو چکے۔ وارث انبیاء ولی تھے وہ کرامات رکھتے تھے لیکن وہ نظر نہیں آتے، زیر زمین ہو گئے۔ آج اسلام ان کرامت والوں سے خالی ہے…‘‘۔
حضرت میاں خیرالدین صاحب سیکھوانیؓ فرماتے ہیں کہ مولوی صاحب کے مذکورہ دعویٰ کے بعد حضرت اقدس علیہ السلام کا مضمون پڑھا گیا جس میں حضورؑ نے فرمایا کہ ’’اندھا ہے جو کہتا ہے کہ ہم کہاں سے نشان دکھلائیں، آؤ میں نشان دکھاتا ہوں اور میں اندھوں کو آنکھیں بخشنے کے لئے آیا ہوں‘‘۔ یہ فقرات بذاتِ خود نشان تھے کیونکہ حضورؑ کا مضمون مولوی صاحب کے مضمون کے بعد پڑھا گیا تھا۔
– … ٭ … ٭ … ٭ … –
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے مضمون میں انسانی کردار پر ہونے والے غذاؤں کے اثرات کو بھی بیان فرمایا ہے۔ حضورؑ کے مضمون کی روشنی میں مکرم محمود احمد اشرف صاحب اپنے مضمون میں غذاکے ایک ماہر کا یہ بیان نقل کرتے ہیں کہ:
’’دماغ کی کیمیائی ترکیب اور اس کے افعال کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ آپ نے کیا کھایا ہے، جو چیز بھی آپ مونہہ میں ڈالتے ہیں وہ آپ کی طبیعت، بیدار مغزی، حافظے اور صحیح فکر میں تبدیلیاں پیدا کر سکتی ہے‘‘۔
غذا کے اخلاق پر اثر انداز ہونے کا ناقابل تردید ثبوت ہومیوپیتھک ادویات بھی ہیں جن کا دماغی رحجانات، کیفیات بلکہ مزاج پر بھی گہرا اثر ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں