حضرت عزیز الرحمن منگلا صاحب کا قبول احمدیت

حضرت عزیزالرحمٰن منگلا صاحب دسمبر 1922ء میں چک منگلا ضلع سرگودھا میں پیدا ہوئے۔ مڈل کے بعد اپنے پیر منورالدین صاحب کے مدرسہ میں دینی تعلیم حاصل کی۔ حافظہ ایسا تھا کہ سوا تین ماہ میں قرآن کریم حفظ کرلیا۔ جلد ہی پیر صاحب کے معاونِ خاص اور خلیفہ بن گئے۔
ماہنامہ ’’انصاراللہ‘‘ دسمبر 1995ء میں شائع شدہ آپ کی قبول احمدیت کی داستان میں آپ کا بیان تحریر ہے کہ ’’پیر صاحب نے مولویوں کا اشتہار پڑھ کر ایک جلسہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر آنحضورﷺ کی ہتک کرنے کا الزام لگایا تو وہاں موجود ایک احمدی نے اسے لغو ثابت کردیا چنانچہ پیر صاحب نے یہ عہد کیا کہ آئندہ مولویوں کے اشتہارات کا اعتبار نہ کریں گے اور حضرت اقدسؑ کے خلاف کبھی نہ بولیں گے۔ کچھ عرصہ بعد پیر صاحب کا لاہور جانا ہوا تو وہ احمدیہ بلڈنگز جاکر مولوی محمد علی صاحب سے ملے اور ڈاکٹر یعقوب صاحب سے کئی کتب تحفتہً لائے جو لائبریری کے منتظم ہونے کی وجہ سے میرے پاس آئیں اور میں ہی یہ کتب انہیں سنایا کرتا تھا۔ ان کتب کے مطالعہ نے ہمارے دلوں میں حضرت اقدس ؑ اور احمدیہ عقائد کے لئے محبت پیدا کردی۔ دوسرے علماء کو علم ہوا تو وہ ہمیں نصیحت کرنے کے لئے چک منگلا آتے لیکن دلائل میں لاجواب ہوکر بھاگ جاتے۔ اسی دوران سلانوالی جانے کا اتفاق ہوا جہاں ہمیں مرزائی مشہور کرکے مناظرہ کی طرح ڈال دی گئی۔ مناظرہ میں احمدی نہ ہونے کے باوجود ہم نے وفات مسیحؑ اور حضرت اقدسؑ کی صداقت پر دلائل دیئے۔
قیام ربوہ کے بعد مزید کتب کے مطالعہ کا موقع ملا جس نے خلافت اور مصلح موعود کے مسئلہ میں حق واضح کردیا۔ یہاں سے پیر صاحب کے ساتھ میرا اختلاف شروع ہوگیا۔ ان کا خیال تھا کہ خلافت اور بیعت کی ضرورت نہیں۔ کچھ عرصہ بعد لاہور جاکر میں حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں حاضر ہوا تو ان کا گرویدہ ہوکر واپس آیا۔ 1950ء میں میں حج پر گیا تو خوب دعا کی کہ احمدی ہونا اگر رضا الٰہی کا موجب ہے تو ضرور ہو جاؤں۔ واپس آکر پیر صاحب سے لاحاصل بحث ہوتی رہی اور آخر کار 1954ء میں جلسہ سالانہ کے موقعہ پر حضرت مصلح موعودؓ کی دستی بیعت کی سعادت حاصل ہوگئی اور پھر پیر صاحب کے اکثر مرید بھی میرے ذریعہ سے جماعت میں شامل ہوگئے‘‘۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں