حضرت قاضی امیر حسین شاہ صاحبؓ

حضرت قاضی امیر حسین شاہ صاحبؓ بھیروی کا ذکر خیر قبل ازیں ’’الفضل انٹرنیشنل‘‘ 18؍اپریل 1997ء کے اسی کالم میں کیا جاچکا ہے۔ آپؓ کے بارہ میں مکرم ملک محمد اکرم صاحب کے قلم سے ایک مضمون روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 5؍جولائی 2000ء کی زینت ہے۔

ملک محمد اکرم صاحب

آپؓ 1848ء میں پیدا ہوئے۔ آپؓ کے والد صاحب گھوڑوں کی تجارت کیا کرتے تھے۔ اگرچہ آپؓ کا خاندان علمی لحاظ سے ممتاز نہ تھا لیکن آپؓ نے علم میں خاص امتیاز حاصل کیا۔ ابتدائی کتب آپؓ نے بھیرہ میں ہی پڑھیں اور پھر سہارنپور آگئے۔ پھر اور بھی کئی مدارس میں تعلیم حاصل کی۔ اس راہ میں آپؓ نے شدید مشکلات برداشت کیں۔ تعلیم مکمل کرکے واپس بھیرہ آگئے اور محلہ قاضیاں میں اپنی خاندانی مسجد میں حدیث کا درس شروع کردیا۔ اُن دنوں حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحبؓ بھی بھیرہ میں تشریف رکھتے تھے۔ حضرت قاضی صاحبؓ نے حضورؓ کی صحبت سے بھی بہت فائدہ اٹھایا اور حضورؓ نے آپؓ میں رشد و سعادت کے آثار دیکھے تو اپنی بھانجی آپؓ کے نکاح میں دیدی۔
حضرت قاضی صاحبؓ نے بطور پیشہ تدریس کو اختیار کیا اور مدرسۃالمسلمین امرتسر میں ملازم ہوگئے۔ 1893ء میں جب امرتسر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور عبداللہ آتھم کے درمیان مباحثہ ہوا تو اسی دوران آپؓ نے قبول احمدیت کی توفیق پالی۔ پھر آپؓ کی شدید مخالفت شروع ہوگئی۔ اس مخالفت کو دیکھ کر حضرت یعقوب علی عرفانی صاحبؓ نے لوگوں کو منظم کرکے ایک انجمن فرقانیہ کے نام سے قائم کی تاکہ آپس میں اخوت کے تعلقات بڑھیں۔ حضرت قاضی صاحبؓ کو اس انجمن کا صدر مقرر کیا گیا۔ ایام صدارت میں آپؓ کا یہ پہلو نمایاں ہوا کہ اپنی ذات کے لئے کسی قسم کی نمائش یا تکلّف کا پہلو آپؓ میں نہیں تھا۔
جلد ہی آپؓ ملازمت ترک کرکے قادیان تشریف لے آئے اور تعلیم الاسلام ہائی سکول میں دس روپے کے معمولی مشاہرہ پر کام شروع کردیا۔ آپؓ فرمایا کرتے تھے کہ اگر میرے بیوی بچے نہ ہوتے تو مَیں دس روپیہ تنخواہ بھی نہ لیتا۔ … مدرسہ احمدیہ کی ابتدا ہوئی تو آپؓ کو وہاں تبدیل کردیا گیا اور یہیں سے آپؓ نے پنشن پائی۔ حضرت مصلح موعودؓ اور حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ کے علاوہ بہت سے علماء سلسلہ آپؓ کے شاگردوں میں شامل تھے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی درس و تدریس کا سلسلہ آپؓ نے جاری رکھا۔
1922ء اور 1923ء کی مجالس شوریٰ میں آپؓ نے مرکزی نمائندہ کے طور پر شرکت کی جبکہ 1924ء میں قادیان جماعت کے نمائندہ کے طور پر شامل ہوئے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے اپنے سفر یورپ کے دوران قادیان میں جو مجلس شوریٰ تجویز فرمائی تھی اُس کے ایک رُکن آپؓ بھی تھے۔
آپؓ وفات سے قبل ایک لمبا عرصہ علیل رہے لیکن رضاء بالقضاء کا ثبوت دیا۔ 24؍اگست 1930ء کو آپ کی وفات ہوئی۔ بہشتی مقبرہ قادیان کے قطعہ صحابہؓ میں آپؓ کو دفن کیا گیا۔
آپؓ کی سیرت کا ایک روشن پہلو یہ تھا کہ جس چیز کو آپؓ نے حق سمجھا اُسے مخالفت کی پرواہ کئے بغیر قبول کرلیا۔ آپؓ نے علمِ حدیث میں ایک خاص مقام پیدا کیا۔ نبی کریمﷺ سے خاص محبت تھی۔ آپؓ کی زندگی بہت سادہ اور ریاکاری سے مبرا تھی۔ خاموش طبیعت کے مالک تھے۔ انتظامی معاملات میں احباب کی رائے کی قدر کرتے اور کبھی اپنی بات منوانے کی کوشش نہیں کرتے تھے البتہ دینی معاملات میں وہ اپنی تحقیقات پر مُصر ہوتے تھے۔ اطاعت کا بے مثال جذبہ تھا۔ جب آپؓ کو مدرسہ احمدیہ میں تبدیل کیا گیا تو مدرسہ کے ہیڈماسٹر شیخ عبدالرحمن صاحب مصری تھے جو آپؓ کے شاگرد اور عمر میں بھی چھوٹے تھے لیکن آپؓ نے اپنے قول یا فعل سے ہمیشہ بشاشت سے اُن کی ماتحتی کو قبول کیا۔
آپؓ کو حضرت مسیح موعودؑ سے بہت محبت تھی۔ حضورؑ کی مجلس میں کبھی سوال نہ کرتے تھے ۔ حضرت خلیفہ اوّلؓ سے علمی مذاکرہ کیا کرتے تھے لیکن جب حضورؓ خلیفہ ہوئے تو اپنی حالت میں تبدیلی پیدا کرلی۔ حضرت خلیفہ ثانیؓ کے متعلق بھی یہی طریق تھا۔ فتنہ کے زمانہ میں آپؓ نے کسی شخصیت کا ساتھ نہیں دیا بلکہ حق کی تائید میں جرأت کے ساتھ کھڑے رہے۔ صاف گوئی کے لئے ہمیشہ مشہور رہے۔ اگرچہ غصہ میں آجاتے لیکن انتقام کے جذبات پیدا نہیں ہوتے تھے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں