حضرت قاضی زین العابدین صاحب

ماہنامہ ’’خالد‘‘ ستمبر 2004ء میں حضرت قاضی زین العابدین صاحبؓ کی سیرۃ پر ایک مضمون مکرم غلام مصباح بلوچ صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
حضرت قاضی صاحب حضرت صوفی احمد جان صاحبؓ کے مرید تھے جنہوں نے اپنے کثیر ارادتمندوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے حضرت مسیح موعودؑ کے دامن سے وابستگی اختیار کر لی تھی۔ آپ حضرت صوفی صاحبؓ کے ساتھ 1885ء میں حج پر بھی تشریف لے گئے جس کے لئے حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے قلم سے ایک دردانگیز دعا تحریر کرکے حضرت صوفی صاحبؓ سے فرمایا تھا کہ انہی الفاظ میں بیت اللہ شریف میں کریں۔ چنانچہ حضرت صوفی صاحبؓ نے جب یہ دعا بیت اللہ شریف میں پڑھی تو حضرت قاضی صاحب بھی اُن بیس افراد میں شامل تھے جو اس دعا میں شامل ہوئے۔
حضرت قاضی صاحب بڑے وجیہہ، خوش شکل اور خوبصورت لحن کے مالک تھے۔ آپؓ کے کے والد محترم غلام حسین صاحب خانپور ریاست پٹیالہ ڈاکخانہ سرہند کے رہنے والے تھے۔
آپؓ فرماتے تھے کہ حضرت منشی احمد جان صاحبؓ نے حضرت مسیح موعودؑ کی ابتدائی حالت کو ہی دیکھ کر لوگوں کی بیعت لینا چھوڑ دی تھی اور جو کوئی آتا اس کو آپ فرمایا کرتے تھے کہ اب جس کو یادالٰہی کا شوق ہو وہ قادیان مرزا غلام احمد صاحب کے پاس جائے۔ ہم مخلوقِ خدا کو ایک ایک قطرہ دیا کرتے تھے مگر یہ شخص یعنی حضرت مسیح موعودؑ تو ایسا عالی ہمت پیدا ہوا ہے کہ اس نے تو چشمہ پر سے پتھر ہی اٹھادیا اب جس کا جی چاہے سیر ہو کر پئے۔ حضرت صوفی صاحبؓ کی وفات (27؍دسمبر 1885ء ) کے بعد حضرت قاضی صاحب حضرت مجدد الف ثانیؒ کے مزار پر جا کر مراقبہ کیا کرتے۔ اس دوران کئی بار قادیان آئے اور آکر ہفتہ ہفتہ ٹھہر کر واپس چلے جاتے۔ بالآخر فرماتے ہیں کہ ’’حضرت منشی احمد جان صاحب سے عقیدت کی وجہ سے میں نے حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کرلی۔ پھر حضرت اقدس کی مجلس کا جو رنگ مجھ پر چڑھا اس کے آگے پھر پہلی رنگت پھیکی نظر آنے لگی‘‘۔
حضرت قاضی صاحبؓ نے 21؍فروری 1892ء کو کپورتھلہ میں بیعت کا شرف حاصل کیا جبکہ حضورؑ سیالکوٹ سے واپسی پر وہاں مقیم ہوئے۔ پھر دسمبر 1892ء میں آپؓ جلسہ سالانہ میں شمولیت کے لئے قادیان تشریف لائے۔ چنانچہ آپ کا نام شاملین جلسہ کے اسماء مندرجہ ’’آئینہ کمالات اسلام‘‘ میں 78ویں نمبر پر درج ہے۔ حضورؑ نے آپ کا نام 313؍کبار صحابہ مندرجہ کتاب ’’انجام آتھم‘‘ میں بھی 50ویں نمبر پر رقم فرمایا ہے۔ اسی طرح حضورؑ نے اپنے ایک اشتہار میں اپنے خاندان اور سلسلہ کے صحیح حالات بیان فرمائے تھے اور بطور نمونہ اپنے 312؍ صحابہ کے نام درج فرمائے تھے جن میں آپؓ کا نام 231ویں نمبر پر موجود ہے۔ یہ اسماء ’’کتاب البریہ‘‘ میں موجود ہیں۔
آپؓ کے داماد حضرت میاں محمد ظہور الدین صاحبؓ آف ڈولی کہار آگرہ فرماتے ہیں کہ قاضی زین العابدین صاحب مجھے بہت محنت سے پڑھاتے تھے۔ کچھ عرصہ بعد میں ایسا بیمار ہوا کہ بڑے بڑے حکماء نے جواب دیدیا۔ میرے والدین کے اس وقت کوئی نرینہ اولاد نہ تھی اور میرے خسر قاضی زین العابدین کو بے حد صدمہ تھا کہ ایک روز انہوں نے اپنے برادر حضرت قاضی نظام الدین صاحبؓ (یہ بھی سلسلہ میں داخل تھے) سے کہا کہ حکماء نے تو جواب دیدیا ہے، میرے خیال میں ظہورالدین کا طب روحانی سے علاج کیا جائے ممکن ہے اللہ تعالیٰ شفا بخشے۔ چنانچہ انہوں نے علاج شروع کیا تو خدا تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے بلا کسی اور دوا کے شفا دیدی۔ جب روبصحت ہوا تو آپؓ نے حضورؑ کی کتاب ’’انوار الاسلام‘‘ مجھے لاکر دی جسے پڑھ کر 1905ء میں مَیں نے بھی بیعت کرلی۔ اس سے ڈیڑھ دو سال قبل انہوں نے ایک بار مجھے فرمایا کہ یہاں گردونواح میں طاعون کا زور ہے ہم قادیان جارہے ہیں اگر تم بخوشی اجازت دو تو میں اپنی لڑکی کو بھی اپنے ہمراہ لے جاؤں۔ میں نے کہا کہ آپ کو مجھ سے اجازت لینے کی کیا ضرورت ہے آپ چاہیں تو لے جاسکتے ہیں چنانچہ وہ قادیان چلے گئے۔
حضرت قاضی صاحبؓ کو قبول احمدیت کی وجہ سے بعض مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔ 1897ء میں مولویوں کے لوگوں کو بدظن کرنے پر ایسی ہی ایک صورتحال سے آپ کو گزرنا پڑا لیکن آپ نے صبر سے کام لیا۔ آپؓ کے داماد حضرت مسیح موعودؑ کے ساتھ آپؓ کی محبت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ حضورؑ کے وصال کی خبر سن کر آپؓ دیوانوں کی طرح ہوگئے۔ ہماری ایسی حالت کودیکھ کر بہت سے غیراحمدی ہمارے پیچھے ہنسی مذاق کرتے ہوئے چلے آرہے تھے۔ جو جس کے دل میں آتا بکواس کرتا تھا۔ بعد میں ہم سب نے حضرت خلیفہ اوّلؓ کی بیعت کرلی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں