حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 30؍جولائی 1998ء میں حضرت شیخ محمد احمد مظہر صاحب اپنے ایک مضمون میں تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ اپنے اوصاف اور اخلاق کریمہ کی وجہ سے ایسے انسان تھے جو احسن التقویم کا زندہ نمونہ تھے- اسی وجہ سے آپؓ حضرت مصلح موعودؓ کے معتمد علیہ رفیق اور دست راست تھے-ابتلاؤں میں آپؓ کے اندر ایک عجیب شجاعت اور توکّل علی اللہ کی روح پیدا ہو جاتی تھی- آپؓ قرآن و حدیث کے متبحر عالم اور عربی، اردو، انگریزی میں تقریر و تحریر پر پوری قدرت رکھتے تھے- آپؓ کی تحریر کسی کی دلآزاری کا موجب نہ بن سکتی تھی بلکہ نرم، برمحل اور جچی تلی ہوتی تھی- آپؓ کی تصانیف گواہ ہیں کہ آپؓ ایک تاریخ دان، زبان کے استاد، تحقیقی مسائل میں دوررس نظر رکھنے والے تھے- بہت سے مواقع پر قانونی نکات بیان فرماتے میں نے انہیں سنا ہے-
دوسروں کے جذبات کا خیال رکھنا آپؓ کا ایک خاص وصف تھا- ایک دفعہ میں نے آپؓ کو خط لکھا جس میں کسی کے متعلق میرے قلم سے بعض تیز الفاظ لکھے گئے جو آپؓ کو پسند نہ آئے- اب یہ بھی ضروری تھا کہ مجھے ٹوکا جائے اور یہ بھی کہ میرے جذبات کا لحاظ رکھا جائے- چنانچہ آپؓ نے مجھے لکھا ’’میں تو سمجھتا تھا کہ آپ کی طبیعت میں جمال ہے- لیکن خط سے معلوم ہوتا ہے کہ جلال بھی ہے‘‘-
قادیان اور درویشانِ قادیان سے آپؓ کو بہت محبت تھی- قادیان کے ہر درویش کے حالات کو نگاہ میں رکھنا اور اُس کی اور اُس کے متعلّقین کی مشکلات کو دور کرنا ، حکومت سے ربط و ضبط رکھنا، جلسہ سالانہ پر وفود بھجوانا وغیرہ سینکڑوں کام آپؓ تن تنہا سرانجام دیا کرتے تھے-
آپؓ بڑے صبار و شکور تھے- ایک شخص نے آپؓ کو بہت تنگ کیا، خطوں میں دھمکیاں بھی دیں- خاکسار نے اینٹ کا جواب کم از کم اینٹ سے دینے کا مشورہ دیا لیکن آپؓ کے مدنظر یہی بات تھی کہ بعید کو بعید تر نہ کیا جائے-
حضرت میاں صاحبؓ اور حضرت چودھری محمد ظفراللہ خان صاحبؓ میں بہت محبت اور یکرنگی تھی- چودھری صاحبؓ کے متعلق جو کام ہوتا حضرت میاں صاحبؓ اُن کی طرف سے اس کا ذمہ لے لیتے گویا آپؓ اور چودھری صاحبؓ کوئی دو وجود نہیں ہیں-
مضمون نگار آخر پر بیان کرتے ہیں کہ 1962ء اور 1963ء میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کی طرف سے جو خطوط آتے اُن میں اکثر یہ بات درج ہوتی کہ آپؓ کے انجام بخیر کے لئے دعا کی جائے- ایسا خط پڑھ کر میرا ماتھا ٹھنکتا اور دل دھڑکتا کیونکہ حکیم کی بات حکمت سے خالی اور بلاوجہ نہیں ہوتی-

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں