حضرت مسیح موعودؑ کے پُرمعارف لطائف

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 25؍مارچ 2024ء)
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 14؍دسمبر 2013ء میں مکرم محمد اشرف کاہلوں صاحب کے قلم سے ’’مکتوباتِ احمدؑ (جلد دوم)‘‘ میں سے حضرت مسیح موعودؑ کے چند پُرمعارف حقائق و لطائف کا انتخاب پیش کیا گیا ہے۔


حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں:
٭…’’اعمال صالحہ جو شرط دخولِ جنت ہیں دو قسم کے ہیں۔ اوّل وہ تکلیفات شرعیہ جو شریعت نبویہؐ میں بیان فرمائی گئی ہیں اور اگر کوئی ان کے ادا کرنے میں قاصر رہے یا بعض احکام کی بجاآوری میں قصور ہوجائے اور وہ نجات پانے کے پورے نمبر نہ لے سکے تو عنایت الٰہیہ نے ایک دوسری قسم جو بطور تتمہ اور تکملہ شریعت کے اس کے لیے مقرر کردی ہے اور وہ یہ کہ اس پر کسی قدر مصائب ڈالی جاتی ہیں اور اس کو مشکلات میں پھنسایا جاتا ہے … بلکہ اَور مکروہات بھی اور کئی جسمانی عوارض بھی اس کی جان کو تحلیل کرتے ہیں۔ تب خدا کے کرم اور فضل اور عنایت کا وقت آجاتا ہے اور دردانگیز دعائیں اس قفل کے لیے بطور کنجی کے ہوجاتی ہیں۔ معرفت زیادہ کرنے اور نجات دینے کے لیے یہ خدائی کام ہیں۔‘‘ (صفحہ293)
٭… ’’آپ کو یاد رہے ہمارا آقا و مولیٰ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ نہایت درجہ کا مہربان اور رحیم و کریم ہے …کبھی کبھی وہ اپنے بندہ کی آزمائش بھی کرتا ہے لیکن آخرکار رحم کی چادر سے ڈھانک لیتا ہے۔ اس پر جہاں تک ممکن ہو توکّل رکھو اور اپنے کام اس کو سونپ دو۔ اُس سے اپنی بہبودی چاہو مگر دل میں اُس کی قضاءوقدر سے راضی رہو۔ چاہئے کہ کوئی چیز اُس کی رضا سے مقدّم نہ ہو۔ … آپ درویشانہ سیرت سے ہر یک نماز کے بعد گیارہ دفعہ لَاحَوْلَ وَلَاقُوَّۃَ اِلّا بِاللّٰہِ الْعَلِیّ الْعَظِیْم پڑھیں اور رات کو سونے کے وقت معمولی نماز کے بعد کم سے کم اکتالیس دفعہ درودشریف پڑھ کر دو رکعت نماز پڑھیں اور ہر یک سجدہ میں کم سے کم تین دفعہ یہ دعا پڑھیں: یَاحَیُّ یَا قَیُّوْمُ بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْثُ۔ پھر نماز پوری کرکے سلام پھیر دیں اور اپنے لیے دعا کریں۔‘‘ (صفحہ291)
٭…مولوی مبارک علی صاحب کی طویل رخصت پر اُن کی ملازمت سے برخاستگی کا معاملہ پیش ہوا تو حضورعلیہ السلام نے فرمایا: ’’عفو اور کرم سیرت ابرار میں سے ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے …عفو اور درگذر کی عادت ڈالو۔ کیا تم نہیں چاہتے کہ خدا بھی تمہاری تقصیریں معاف کرے اور خدا تو غفوررحیم ہے۔ پھر تم غفور کیوں نہیں بنتے۔ اس بناء پر ان کا یہ معاملہ درگذر کے لائق ہے۔ … ایسا نہ ہو کہ آپ کی سخت گیری کچھ آپ ہی کی راہ میں سنگ راہ نہ ہو۔ ایک جگہ مَیں نے دیکھا ہے کہ ایک شخص فوت ہوگیا جس کے اعمال کچھ اچھے نہ تھے۔ اُس کو کسی نے خواب میں دیکھا کہ خدا تعالیٰ نے تیرے ساتھ کیا معاملہ کیا؟ اس نے کہا کہ خداتعالیٰ نے مجھے بخش دیا اور فرمایا کہ تجھ میں یہ صفت تھی کہ تُو لوگوں کے گناہ معاف کرتا تھا اس لیے مَیں تیرے گناہ معاف کرتا ہوں۔ سو میری صلاح یہی ہے آپ اس امر سے درگزر کرو تا آپ کو خداتعالیٰ کی جناب میں درگزر کرانے کا موقع ملے۔‘‘ (صفحہ287)
٭… ’’بغیر استخارہ کے کوئی سفر جائز نہیں۔ ہمارا اس میں طریقہ یہ ہے کہ اچھی طرح وضو کرکے دو رکعت نماز کے لیے کھڑے ہوجائیں۔ پہلی رکعت میں سورۃ قُلْ یٰااَیُّھَا الْکٰفِرُوْنَ پڑھیں …اور دوسری رکعت میں سورۃفاتحہ پڑھ کر سورۃ اخلاص … التحیات میں آخر میں اپنے سفر کے لیے دعا کریں کہ یاالٰہی! مَیں تجھ سے کہ تُو صاحب فضل اور خیر اور قدرت ہے۔ اس سفر کے لیے سوال کرتا ہوں کیونکہ تُو عواقب الامور کو جانتا ہے اور مَیں نہیں جانتا۔ اور تُو ہر ایک امر پر قادر ہے اور مَیں قادر نہیں۔ سو یا الٰہی! اگر تیرے علم میں یہ بات ہے کہ یہ سفر سراسر میرے لیے مبارک ہے، میری دنیا کے لیے، میرے دین کے لیے اور میرے انجام امر کے لیے اور اس میں کوئی شر نہیں۔ تو یہ سفر میرے لیے میسر کردے اور پھر اس میں برکت ڈال دے اور ہر ایک شر سے بچا۔ اور اگر تُو جانتا ہے کہ یہ سفر میرا میری دنیا یا میرے دین کے لیے مضر ہے اور اس میں کوئی مکروہ دہ امر ہے تو اس سے میرے دل کو پھیر دے اور اس سے مجھ کو پھیر دے۔ آمین
یہ دعا …تین دن کرنے میں حکمت یہ ہے کہ تا بار بار کرنے سے اخلاص میسر آوے۔ آج کل اکثر لوگ استخارہ سے لاپرواہ ہیں حالانکہ وہ ایسا ہی سکھایا گیا ہے جیسا کہ نماز سکھائی گئی ہے۔…خداتعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ استخارہ کے بعد متولّی اور متکفّل ہوجاتا ہے اور اس کے فرشتے اس کے نگہبان رہتے ہیں جب تک اپنی منزل تک نہ پہنچے۔‘‘ (صفحہ241)
٭… حضورؑ فرماتے ہیں: ’’دعاؤں میں اثر ہوتے ہیں مگر صبر سے ان کا ظہور ضرور ہوتا ہے۔…دعا سے بڑے بڑے انقلاب پیدا ہوجاتے ہیں۔ دعا زمین سے لے کر آسمان تک اپنا اثر رکھتی ہے۔ عجیب کرشمے دکھاتی ہے۔ ہاں پورے طور پر اس زندہ دعا کا ظہور میں آجانا اور ہوجانا ہی خداتعالیٰ کے فضل پر موقوف ہے۔‘‘ (صفحہ383)
٭… حضورعلیہ السلام فرماتے ہیں: ’’محبت ایک خاص حق اللہ جلّشانہٗ کا ہے۔ جو شخص اس کا حق دوسرے کو دے گا وہ تباہ ہوگا۔ تمام برکتیں جو مردانِ خدا کو ملتی ہیں، تمام قبولیتیں جو اُن کو حاصل ہوتی ہیں، کیا وہ معمولی وظائف سے یا معمولی نماز روزہ سے ملتی ہیں؟ ہرگز نہیں۔ بلکہ وہ توحید فی المحبت سے ملتی ہیں۔ اُسی کے ہوجاتے ہیں، اُسی کے ہورہتے ہیں۔ اپنے ہاتھ سے دوسروں کو اس کی راہ میں قربان کرتے ہیں۔ مَیں خوب اس درد کی حقیقت کو پہنچتا ہوں کہ جو ایسے شخص کو ہوتا ہے کہ یکدفعہ وہ ایسے شخص سے جدا کیا جاتا ہے جس کو وہ اپنے قالب کی گویا جان جانتا ہے۔ لیکن… ہمیشہ سے میرا دل یہ فتویٰ دیتا ہے کہ غم سے مستقل محبت کرنا کہ جس سے للّٰہی محبت باہر ہے خواہ وہ بیٹا ہو یا دوست، کوئی ہو۔ ایک قسم کا کفر اور کبیرہ گناہ ہے جس سے اگر شفقت و رحمتِ الٰہی تدارک نہ کرے تو سلب ایمان کا خطرہ ہے۔‘‘ (صفحہ 535)
٭… ’’ہر ایک شخص فانی لذّت کا طالب اور شیطانی خیال اس پر غالب ہے۔ مومن پر شیطان غالب نہیں آتا کیونکہ وہ خداتعالیٰ سے بیعت الموت کرچکا ہے۔ شیطان پر وہی فتح پاتا ہے جو بیعت الموت کرے۔‘‘ (صفحہ571)
٭… ’’وحی میں ضروری نہیں ہوتا کہ الفاظ بھی خداتعالیٰ کی طرف سے ہوں بلکہ بعض وحیوں میں صرف نبی کے دل میں معانی ڈالے جاتے ہیں اور الفاظ نبی کے ہوتے ہیں۔ اور تمام پہلی وحییں اسی طور کی ہیں۔ مگر قرآن کریم کے الفاظ اور معانی دونوں خداتعالیٰ کی طرف سے ہیں۔ اور اس میں شک نہیں کہ پہلی وحیوں کے معانی بھی معجزہ کے حکم میں تھے مگر قرآن کریم شریف معانی اور الفاظ دونوں کی رُو سے معجزہ ہے۔اور تورات میں یہ خبر دی گئی تھی۔‘‘ (صفحہ617)

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں