حکم اطاعت اور جماعت احمدیہ (غیروں کے اعترافات)

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 17؍مارچ 2008ء میں مکرم ریاض محمود باجوہ صاحب کا ایک مضمون شامل اشاعت ہے جس میں احمدیوں کی بے مثال اطاعت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: ’’خدانے مجھے ایک مخلص اور وفا دار جماعت عطا کی ہے‘‘۔ قرآن کریم اور احادیث میں مسلمانوں کو خدا اور رسول کے بعد امیر کی اطاعت کی پُرزور تلقین کی گئی ہے۔ حتّی کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ سنو اور اطاعت کو اپنا شعار بناؤ خواہ ایک حبشی غلام جس کا سر کشمش کے دانے جتنا ہو، تمہارا افسر مقرر کر دیا جائے۔
دراصل اطاعت ایک ایسا حکم یا عمل ہے جس کے بغیر کوئی نظام چل نہیں سکتا کوئی پروگرام پایۂ تکمیل تک نہیں پہنچ سکتا۔
حضرت مسیح موعودؑاحمدیوں کا ذکر کرتے ہوئے ایک جگہ فرماتے ہیں: ’’… میں دیکھتا ہوں کہ ان میں ایک صدق اور اخلاص پایا جاتا ہے۔ میری طرف سے کسی امر کا ارشاد ہوتا ہے اور وہ تعمیل کے لئے تیار‘‘۔
اپنے ایمان کی خاطر بے شمار احمدیوں نے جانی، مالی اور اپنے جذبات کی قربانی حضور علیہ السلام کی زندگی میں ہی پیش کردی تھی۔ یہی سلسلہ بعد ازاں بھی جاری رہا اور خلفاء کی تحریکات پر بھی احمدیوں نے ہمیشہ والہانہ لبیک کہنے کی سعادت پائی حتّٰی کہ اپنی جان کی بھی پرواہ نہیں کی۔ چنانچہ حضرت مصلح موعودؓ کے دَور میں امیر امان اللہ خاں شاہ افغانستان کے حکم سے کابل میں ایک فدائی مخلص احمدی حضرت مولوی نعمت اللہ خاں صاحب کو 31؍اگست 1924ء کو محض احمدی ہونے کی بنا پر سنگسار کر دیا گیا تو حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کے احباب جماعت کے نام ایک پیغام کے جواب میں بے شمار احمدیوں نے افغانستان جاکر دعوت الی اللہ کے نتیجے میں شہادت قبول کرنے کے لئے پیش کیا۔
احمدیوں کی اطاعت اور قربانی کے حوالہ سے عبدالرحیم اشرف صاحب مدیر ’’المنبر‘‘ فیصل آباد نے 2؍مارچ 1956ء کے پرچہ میں لکھا:’’قادیانیوں نے گزشتہ پچاس سال میں اندرون اور بیرون ملک اپنی قومی زندگیوں کو قائم رکھنے والے قادیانی تحریک کو عام کرنے کے سلسلہ میں جو جدوجہد کی ہے اس کا یہ پہلو نمایاں ہے کہ انہوں نے اس کے لئے ایثار و قربانی سے کام لیا ہے۔ ملک میں ہزاروں اشخاص ایسے ہیں جنہوں نے اس نئے مذہب کی خاطر اپنی برادریوں سے علیحدگی اختیار کی۔ دنیوی نقصانات برداشت کئے اور جان و مال کی قربانیاں پیش کیں… ہم کھلے دل سے اعتراف کرتے ہیں کہ قادیانی عوام میں ایک معقول تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو اخلاص کے ساتھ اس سراب کو حقیقت سمجھ کر اس کے لئے جان و مال اور دنیوی وسائل و علائق کی قربانی پیش کرتی ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے بعض افراد نے کابل میں سزائے موت کو لبیک کہا۔ بیرون ملک دور دراز علاقوں میں غربت و افلاس کی زندگی اختیار کی‘‘
مسٹر سرت چندر پوس جو بابو سبھاش چندر بوس صدر آل انڈیا کانگریس کے بھائی تھے۔ انہوں نے احمدیہ مشن کلکتہ میں خطاب کرتے ہوئے کہا: ’’جماعت احمدیہ میں بکثرت ایسے اہل علم، قربانی کرنے والے اور ایثار پیشہ اصحاب موجود ہیں جن کی متواتر سرگرمیوں کے باعث آپ کی جماعت کے بانی کی تبلیغ زمین کے آخری کناروں تک پہنچ چکی ہے۔‘‘
مولوی حبیب الرحمان صاحب لدھیانوی صدر مجلس احرار کہتے ہیں: ’’ہم میاں محمود کے دشمن ہیں۔ وہاں ہم اس کی تعریف بھی کرتے ہیں۔ دیکھو اس نے اپنی جماعت کو جو کہ ہندوستان میں ایک تنکے کی مانند ہے کہا کہ مجھے ساڑھے ستائیس ہزار روپیہ چاہئے جماعت نے ایک لاکھ دے دیا۔ اس کے بعد گیارہ ہزار کا مطالبہ کیا تو اسے دگنا تگنا دے دیا‘‘۔
مولوی ظفر علی خانصاحب نے 13مارچ 1936ء کو مسجد خیرالدین امرتسر میں تقریر کرتے ہوئے کہا: ’’احراریو! کان کھول کر سن لو! تم اور تمہارے لگے بندھے مرزا محمود کا مقابلہ قیامت تک نہیں کرسکتے۔ مرزا محمود کے پاس ایسی جماعت ہے جو تن من دھن اس کے اشارے پر اس کے پاؤں میں نچھاور کرنے کو تیار ہے‘‘۔
مارچ 1935ء میں حضرت مصلح موعودؓ کو ایک مقدمہ میں شہادت کے لئے تین دفعہ گورداسپور جانا پڑا۔ اس موقعہ پر ہزار ہا کی تعداد میں احمدیوں کا اپنے امام کا دیدار کرنے کے لئے حاضر ہونے کے جو ایمان افروز نظارے دیکھنے میں آئے ان سے متأثر ہو کر سردارارجن سنگھ ایڈیٹر اخبار ’’رنگین‘‘ امرتسر نے اپنی کتاب ’’خلیفہ قادیان‘‘ میں لکھا: ’’یہ بات تو ظاہر ہے کہ مولوی … کا دعویٰ ہے کہ وہ آٹھ کروڑ ہندوستانی مسلمانوں کے نمائندہ ہیں۔ برخلاف اس کے خلیفہ قادیان کے تابعدار ایک لاکھ کے قریب ہوں گے۔ مگر ناظرین یہ سن کر حیران ہوں گے کہ ان تاریخوں پر جب کہ خلیفہ صاحب شہادت دینے کے لئے آتے رہے۔ گورداسپور میں احمدیوں کی تعداد دس ہزار کے قریب ہوتی تھی۔ جب کہ دوسرے مسلمان شاید ایک سو بھی موجود نہ ہوتے تھے۔ اس سے خلیفہ صاحب اور مولوی صاحب کے اثر کا موازنہ ہوسکتا ہے۔… صاف واضح ہوتا ہے کہ مولوی صاحب کا دعویٰ حقیقت سے کوسوں دُور ہے اور خلیفہ صاحب کے مرید ان کے حقیقی جاں نثار اور سچے دل سے وفادار ہیں۔
اس منظر کو دیکھنے سے دل پر ایک خاص اثر ہوتا تھا۔ میں خود آخری روز وہاں موجود تھا۔ مجھے رہ رہ کر خیال آتا تھا کہ آخر اس شخص نے پہلی جون میں کون سے ایسے کرم کئے ہیں جن کے صلہ میں اسے یہ عقل کو حیران کرنے والا عروج حاصل ہوا ہے۔ میں ہی اس نظارہ کو دیکھ کر حیران نہ تھا بلکہ میں نے دیکھا کہ غیراحمدی مسلمان بھی (یہ) اثر لے رہے تھے۔ میں نے بازار میں لوگوں کو باتیں کرتے سنا۔ کوئی ظاہراً شان و شوکت کی تعریف کرتا تھا کوئی مریدوں کی عقیدت کو سراہ رہا تھا۔ کوئی جماعت کی تنظیم کی داد دیتا تھا۔ کوئی کہتا تھا کہ آخر یہ گروہ عبادت میں اس کے احکام کی پیروی میں امتیاز رکھتا ہے۔‘‘

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں