سیرۃ حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 24مئی 2012ء میں مکرم مقصود الحق صاحب (سابق صدر مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی) کے محرّرہ ایک مضمون میں حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی یادوں کے حوالہ سے متفرق مشاہدات بیان کئے ہیں۔
٭ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے جرمنی کے دوروں پر بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملتا رہا۔ حضورؒ عہدیداران کی تربیت اور اصلاح ساتھ ساتھ فرمایا کرتے تھے۔ چنانچہ خدام الاحمدیہ کے ایک اجتماع کے دوران جب جمعہ کی نماز کے لئے اذان کا وقت آیا تو حضورؒ نے نیشنل امیر صاحب سے پوچھا کہ آپ نے جمعہ کی اذان دینے کے لئے کسی کو مقرر کردیا ہے؟ امیر صاحب نے عرض کیا کہ نہیں، میرا خیال ہے کہ خدام الاحمدیہ نے انتظام کر دیا ہوگا۔ تو مَیں چونکہ پاس ہی بیٹھا تھا اس لئے میں نے عرض کیا کہ جی حضور! مَیں نے انتظام کر دیا ہوا ہے۔ پہلے تو مجھے ایسے محسوس ہوا جیسے حضورؒ نے میری بات نہیں سنی کیونکہ حضورؒ کی توجہ امیر صاحب کی طرف ہی رہی۔ مگر تھوڑی دیر بعد امیر صاحب کی طرف سے توجہ پھیر کر اپنا رُخ میری طرف کیا اور فرمایا کہ آپ کی بات بھی درست ہے، لیکن جہاں تک جمعہ کا تعلق ہے جب میرا دورہ ہو تو اس وقت اوّل ذمہ داری امیر ملک کی ہوتی ہے کہ وہ یہ انتظام کریں۔
٭ ایک اجتماع کے دوران عہدیداران کے مابین ایک فٹبال میچ ہوا۔ میچ کے بعد حضورؒ مجھ سے فرمانے لگے: وہ آپ ہی تھے ناں جو پہلے اٹیک کرنے کے لئے جاتے تھے اور پھر تیزی سے پیچھے دوڑتے تھے تاکہ جاکے دفاع کریں۔ انسان اگر ایسی سوچ کے ساتھ چلے تو کامیاب رہتا ہے۔ جب حملہ کرنے کا وقت آئے تو بھرپور حملہ کرے اور جب اس پر حملہ ہو تو وہ فوراً اپنا دفاع کرے۔
٭ جب رسالہ ’’نورالدین‘‘ کا اجراء ہوا تو ہمارے کاتب صاحب نے صفحوں کو پورا کرنے کے لئے کچھ ادبی مواد بھی رسالہ میں ڈال دیا اور اس طرح رسالہ میں ادبی مواد کچھ زیادہ ہی ہوگیا۔ جب یہ رسالہ حضور اقدس کی خدمت میں بھیجا گیا تو حضورؒ نے فوراً خط کے ذریعے ہماری اصلاح فرمائی کہ مجھے آپ کا رسالہ ملا ہے۔ لیکن مَیں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جو ہماری روایت ہے اس کے حوالے سے یہ نہ ادبی رسالہ بن سکا ہے اورنہ جماعتی رہ سکا ہے۔ تو اگر آپ نے ادبی رسالہ نکالنا ہے تو پھر علیحدہ سے نکالیں جس میں صرف اردو ادب ہو۔ اگر جماعتی رسالہ نکالنا ہے تو پھر اس میں جماعتی رنگ ہونا چاہئے۔ ہماری کچھ روایات ہیں، ہمارا انداز ہے۔ …
٭ پیار کے مختلف انداز ہوتے ہیں۔ جب 1991ء میں حضورؒ قادیان تشریف لے گئے اور ابھی دہلی کے مشن ہاؤس میں ہی مقیم تھے تو اتفاقاً خاکسار بھی دہلی مشن ہاؤس پہنچا۔ جب حضورؒ دہلی کی سیر کے لئے نکلے تو ہم بھی مصافحہ کرنے کے لئے کھڑے ہوگئے۔ جب حضورؒ نے مصافحہ کا شرف بخشا تو فرمانے لگے کہ آپ بھی ساتھ چل رہے ہیں نا!۔ یہ حضرت صاحب کا اس ادنیٰ خادم سے پیار کا ایک نرالا سلوک تھا۔ خاکسار قافلہ کا ممبر نہیں تھا لیکن حضورؒ نے خود شامل فرمایا اور اس طرح اس تاریخی دورے میں تمام وقت خاکسار کو حضور کے ساتھ رہنے کا موقع مل گیا۔
٭ ایک دفعہ UK میں ہونے والے خدام کے یورپین اجتماع میں ہم اس طرح شامل ہوئے کہ ویزے وغیرہ کے بعض مسائل کی وجہ سے بمشکل کھلاڑی وہاں لے کر جاسکے۔ چنانچہ کبڈی کا میچ ہم ہار گئے۔ جب خاکسار نے حضورؒ سے اپنے مسائل کا ذکر کرکے عرض کیا کہ پوری کوشش کے باوجود ہم مکمل ٹیمیں نہیں لاسکے تو حضورؒ نے فرمایا کہ ’’اس کا مطلب ہے کہ اِنہوں نے جو کبڈی کھیلنے کے لئے کپڑے اتارے ہیں یہ تو پھر آپ کو شرمندہ کرنے کے لئے اتارے ہیں‘‘۔ اس میں ایک گہرا سبق تھا کہ صرف خانہ پوری نہ کی جائے بلکہ مکمل تیاری کے ساتھ گراؤنڈ میں اتر اجائے۔ نیز یہ کہ کھیل بھی عزت کا حصہ ہے اس لئے کوشش ہونی چاہئے کہ اس وقت کھیل کے میدان میں اترا جائے جب ٹیم مکمل ہو اور پوری تیاری ہو۔
٭ حضورؒ جب صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ تھے تو آپؒ نے ہمارے محلہ کے ایک اجلاس میں یہ واقعہ بیان فرمایا کہ ایک بہت شرارتی بچہ تھا جو ہر روز نئی نئی شرارتیں سوچا کرتا تھا۔ ایک دن اُس نے دیکھا کہ ایک آدمی مسجد میں آیا اور باہر جوتے اتار کر مسجد کے اندر چلا گیا۔ لڑکا بہت خوش ہوا کہ چلو آج شرارت کا موقع ملے گا۔ اور اُس نے اس کے جوتوں میں کانٹے رکھ دیئے تاکہ جب وہ واپس آکر جوتے میں پاؤں ڈالے تو چیخے۔ پھر وہ اُس کے انتظار میں کافی دیر تک بیٹھا رہا مگر وہ شخص باہر نہ آیا۔ لڑکے نے اندر جا کر دیکھا تو وہ شخص سجدے میں گرا رورہا تھا۔ ایک تو اس بات کا اُس کے دل پر بہت اثر ہوا۔ دوسرے اِس واقعہ کو ایک بزرگ بھی دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے اِس لڑکے سے کہا کہ چلو آج ایک تجربہ کرتے ہیںاور دیکھتے ہیں کہ نیکی کا زیادہ مزا ہے یا شرارت کا! یہ وقت چونکہ فرض نماز کا وقت نہیں ہے اس لئے ممکن ہے کہ اُسے مدد کی ضرورت ہو۔ ایسا کرتے ہیں کہ اُس کے جوتوں میں کانٹوں کی بجائے کچھ پیسے رکھ دیتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ اس شخص کو واقعی روپوں کی ضرورت تھی۔ جب وہ نماز سے فارغ ہوکر آیا اور جوتوں میں پاؤں ڈالے اور وہاں روپے دیکھے تو وہ واپس بھاگا اور جا کر دوبارہ سجدہ میں گرگیا۔ اس واقعہ کا اس لڑکے کے دل پر اتنا اثر ہوا کہ اُس نے دل میں فیصلہ کرلیا کہ وہ آئندہ سے شرارتیں چھوڑ کر نیک کام کرے گا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں