محترم چودھری محمد احمد صاحب شہید

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 8 ستمبر 2010ء میں مکرم محمد شفیق صاحب نے اپنے ایک مضمون میں سانحہ لاہور کے دوران مسجد بیت النور میں شہادت پانے والے محترم چودھری محمد احمد صاحب کا ذکرخیر کیا ہے۔
پاکستان ایئرفورس کے ریٹائرڈ وارنٹ آفیسر اور آرمامنٹ ٹریڈ کے مایہ ناز اور ہر لحاظ سے آؤٹ سٹینڈنگ ڈپلومہ انجینئر محترم چودھری محمد احمد صاحب 28 مئی 2010ء کو خطبہ جمعہ کے دوران دہشتگردوں کی اندھادھند فائرنگ سے شدید زخمی ہوگئے۔ آپ کے پیٹ میں گولیاں لگی تھیں۔ آپ نے ایک نوجوان سے کہا کہ میرے پیٹ میں گولیاں لگی ہیں اس پر کپڑا باندھ دو۔ پھر زخمیوں کو پانی پلانے کے لئے کہا لیکن خود پانی نہیں پیا۔ اس دوران جب دہشتگرد اپنی گن دوبارہ لوڈ کرنے کے لئے جھکا تو یہ 82 سالہ بوڑھا زخمی شیر اُس پر جھپٹا اور اس کی گردن کو دبوچ کر قابو کرلیا۔ اتنے میں دیگر خدام بھی آگئے اور دہشتگرد پر قابو پالیا۔ تاہم اس ہاتھا پائی کے دوران آپ کو مزید گولیاں بھی لگ چکی تھیں۔ ایک ہتھیلی میں سے پار ہوئی، دوسری بازو میں کلائی کے پاس لگی اور تیسری پسلیوں میں پیٹ کے ایک طرف۔ لیکن اس حالت میں بھی دہشتگرد کی بارودی جیکٹ کو ناکارہ بنانے کی ہدایات دیتے رہے۔ آپ نے دھماکہ خیز مواد کو ناکارہ بنانے کے کورسز ایئرفورس کی طرف سے امریکہ میں کئے ہوئے تھے۔
1965ء میں شہید مرحوم اور خاکسار سرگودھا ایئربیس پر تعینات تھے۔ کوارٹرز بھی قریب قریب مل گئے۔ دونوں باجماعت نماز ادا کرتے۔ بعد میں دو اور دوست بھی وہاں آگئے۔ پھر چھٹی کے روز اللہ تعالیٰ کے فضل سے تہجد کی بھی توفیق مل جاتی تھی۔
شہید مرحوم نے 1965ء اور 1971ء کی جنگوں میں حصہ لیا تھا۔ آپ اپنے شعبہ آرمامنٹ یعنی شعبہ اسلحہ میں فرنٹ لائن کے ٹاپ کلاس ڈپلومہ انجینئر تھے۔ آپ اعلیٰ درجہ کے ذہین تھے ہر ٹیکنیکل اور غیرٹیکنیکل بات کی گہرائی تک فوراً پہنچ جایا کرتے تھے اور فوری فیصلہ کرنے کی صلاحیت بھی بہت زیادہ تھی۔
1965ء کی جنگ میں پاکستانی فضائیہ نے انڈین فضائیہ پر برتری حاصل کرلی تھی۔ انڈین فضائیہ کے چیف نے اپنی پارلیمنٹ میں بیان دیا تھا کہ ہم پاکستانی فضائیہ کے لڑاکا جہازوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے کیونکہ وہ فضا سے فضا میں مار کرنے والے میزائلوں سے لیس ہیں۔ یہ وہ میزائل تھا کہ جس کی Tip پر ایسے سنسرز نصب تھے جو دشمن کے جہاز کی ایگزاسٹ میں سے نکلنے والی الٹرا وائلٹ ریز کو Detect کرکے اُس کا پیچھا کرتے اور اگر اس دوران دشمن کا جہاز اپنی سمت بدلتا تو میزائل بھی اپنی سمت بدل لیتا اور آخر کار جہاز کی ایگزاسٹ پائپ میں داخل ہو کر پھٹ جاتا۔ یہ سارا عمل چند سیکنڈ میں مکمل ہو جاتا۔
1965ء کی جنگ کے دوران انڈین فضائیہ کے پاس لڑاکا جہازوں کی تعداد بھی زیادہ تھی اور زیادہ رفتار والے جہاز بھی تھے مگر فضا سے فضا میں مار کرنے والے میزائل نہ تھے۔ جنگ سے قبل ہی امریکہ نے پاکستان ایئرفورس کو سپیئر پارٹس کی سپلائی بند کر دی تھی۔ اس لئے پاکستان نے چین سے F6 لڑاکا جہاز حاصل کرلئے مگر چونکہ چین کے پاس مذکورہ میزائل نہیں تھے اس لئے یہ میزائل ان جہازوں پر نصب کرنے کی جگہ نہیں تھی۔ پاکستانی فضائیہ کے کئی قابل انجینئرز نے سرتوڑ کو شش کی کہ اس میزائل کو نصب کرنے کے لئے کوئی جگہ تلاش کی جائے مگر ناکام رہے۔ یہ لوگ چوہدری محمد احمد صاحب کو بوجہ احمدی ہونے کے بلانا نہیں چاہتے تھے لیکن آخر مجبوراً انہیں بلانا ہی پڑا۔ خداتعالیٰ کے خاص فضل اور مسیح موعودؑ کی برکتوں سے آپ نے آتے ہی جگہ کی نشاندہی کردی۔ چنانچہ یہ میزائل نصب کر دیا گیا اور اس کا تجربہ کامیاب رہا۔
دھماکہ خیز مادہ جات، بم ڈسپوزل وغیرہ اور متعلقہ امور میں اعلیٰ مہارت کے باعث ایئرفورس سے ریٹائرمنٹ کے بعد آپ سول ڈیفنس لاہور میں ملازم ہوگئے۔ شہید مرحوم نے جب علامہ اقبال ٹاؤن لاہور میں اپنا مکان بنوایا تو ساتھ ہی ایک چھوٹی سی مسجد بھی بنوائی۔ آپ کو دعوت الی اللہ کا بہت شوق تھا۔ سرگودھا سے بھی غیرازجماعت افراد کو ربوہ لایا کرتے تھے۔
محترم چوہدری محمد احمد صاحب شہید کے والد محترم ڈاکٹر نور احمد صاحب اور دادا محترم چوہدری فضل داد صاحب نے 1921-22ء میں بیعت کی توفیق پائی تھی۔ شہید کے والد نے حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ کے ساتھ جونیئر ڈاکٹر کے طور پر بھی کام کیا تھا ۔ انہوں نے شدھی تحریک کے دوران ایک سال سے زائد عرصہ وقف بھی کیا تھا۔ شہید مرحوم، آپ کے والد اور آپ کے داداجان، یہ تینوں موصی تھے۔
شہید مرحوم بہت صاف گو اور منکسرالمزاج تھے۔ کبھی غیبت نہ کرتے تھے۔ جھوٹ نہ بولتے تھے۔ کینہ پروری ان میں بالکل نہ تھی۔ کبھی کسی سے رنجش نہ رکھی۔ غرضیکہ ان میں ہر وہ خوبی موجود تھی جو ایک سچے احمدی میں ہونی چاہئے۔ اپنے اہل و عیال کے ساتھ مثالی نیک سلوک کرتے تھے۔ آپ کی چار بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ سب بچوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت کا بہت خیال رکھا۔ سب کو اعلیٰ تعلیم دلوائی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں