مکرم ماسٹر راجہ ضیاء الدین جنجوعہ صاحب شہید

روزنامہ الفضل ربوہ 28مارچ 2012ء میں مکرم لطیف احمد صاحب کے قلم سے مکرم راجہ ضیاء الدین جنجوعہ صاحب شہید کا ذکرخیر شامل اشاعت ہے۔
مضمون نگار بیان کرتے ہیں کہ خاکسار 1950ء میں تعلیم الاسلام ہائی سکول چنیوٹ کی پانچویں جماعت میں داخل ہواتو اس کے انچارج محترم راجہ ضیاء الدین جنجوعہ صاحب تھے۔ بڑی شفقت اور پیارے انداز میں بچوں پر توجہ فرماتے تھے۔ ہر طالبعلم پر فرداً فرداً نگاہ رکھتے تھے۔ جو زیادہ کمزور ہوتے تھے ان پر زیادہ شفقت فرماتے۔ ان میں غصہ نام کی کوئی چیز نہ تھی۔ ہر بچہ بھی اپنے شفیق ماسٹر صاحب سے پیار کرتا تھا۔ 1952ء میں سکول ربوہ منتقل ہو گیا۔ ماسٹر صاحب محترم 1970ء میں پنشن پر ریٹائر ہو گئے۔ چونکہ صحت اچھی تھی اس لئے حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے آپ کو محمود آباد سندھ کے سکول میں تعینات فرمادیا اور آپ وہاں تدریسی خدمات سرانجام دیتے رہے۔ بعدازاں ربوہ تشریف لے آئے۔
قیام پاکستان کے موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی تحریک پر محترم راجہ ضیاء الدین صاحب اپنی سرکاری ملازمت چھوڑ کر حاضر ہو گئے تھے۔اور معمولی تنخواہ پر صابر و شاکر ہو گئے۔
1974ء میں پاکستان میں احمدیوں کے خلاف فسادات کی آگ بھڑکائی گئی تو کئی نوجوانوں پر مقدمہ دائر کرکے سرگودھا جیل میں بھجوا دیا گیا۔ ان میں آپ کے بیٹے مکرم راجہ نعیم احمد صاحب بھی شامل تھے۔ جیل میں جانے والوں کو دو ماہ تک کسی سے ملاقات کی اجازت نہ ملی۔ جب اجازت مل گئی تو سب افراد کے عزیز و اقارب اور بزرگ ملاقات کی غرض سے سرگودھا گئے۔ دورانِ ملاقات آپ نے بیٹے کو تسلّی دی کہ قید کے دن بیشک کٹھن ہیں لیکن عارضی ہیں اور اس راہ میں اگر جان بھی چلی جائے تو سعادت اور خوش نصیبی ہے۔ پھر بعد ملاقات سب افراد ربوہ واپس آنے کے لئے سرگودھا ریلوے سٹیشن پہنچے تو وہاں شرپسندوں نے فائرنگ کردی اور محترم ماسٹر صاحب نے سر میں گولی لگنے سے شہادت پائی۔
محترم ماسٹر صاحب کے فرزند راجہ نعیم احمد صاحب میٹرک پاس کرکے کچھ عرصہ جماعتی دفاتر میں کام کرتے رہے۔ بعدازاں مشرقی پاکستان میں ملازمت کی اور بنگلہ دیش بنا تو واپس ربوہ آکر نعیم جنرل سٹور کے نام سے اپنا کاروبار شروع کر دیا۔ میاں بیوی دونوں نظام وصیت سے منسلک تھے ہی اور جونہی کوئی بچہ یا بچی بلوغت کی عمر کو پہنچتا تو اُسے بھی نظام وصیت میں شامل کر دیتے۔ چنانچہ نو کے نو بچے بھی نظام وصیت سے منسلک ہیں اور سب بچے اپنے اپنے گھروں میں خوش باش زندگی گزار رہے ہیں۔ آپ خود لمبے عرصہ سے جماعت کینیڈا کے دفاتر میں بطور والنٹیئر متفرق خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
مکرم راجہ نعیم احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضرت مولانا غلام رسول صاحبؓ راجیکی کا گھر میرے بہنوئی مکرم چوہدری فرزند علی صاحب کے گھر کے نزدیک تھا اور چوہدری صاحب موصوف روزانہ مکھن اور لسّی حضرت مولانا صاحب کی خدمت میں میرے ہاتھ بطور تحفہ بھجواتے تھے۔ ایک دن حضرت مولانا کی نظر شفقت مجھ پر پڑی تو اپنے پاس بلوایا۔ اُس وقت وہاں حضرت چوہدری سرمحمد ظفراللہ خان صاحبؓ اور حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحبؒ بھی تشریف فرما تھے۔ پوچھا: بیٹا! کیا حال ہے اور کیا کرتے ہو؟ جواباً عرض کیا کہ پڑھتا ہوں اور چند دنوں بعد دسویں کا امتحان دینا ہے لیکن دو مضامین میں کمزور ہوں۔ حضرت نے فرمایا کہ آؤ دعا کر لیتے ہیں۔ چنانچہ بعد دعا فرمایا کہ ہلکی سی روشنی ہوئی ہے۔ پاس تو ہو جاؤگے لیکن نمبر تھوڑے آئیں گے۔ چنانچہ جب نتیجہ نکلا تو میری تھرڈ ڈویژن تھی۔ علاوہ ازیں حضرت مولانا نے فرمایا کہ تمہاری عمر کافی لمبی ہوگی 100 سال کے لگ بھگ۔ سو الحمدللہ خاکسار صحت، اولاد اور دینی خدمات سے بھرپور زندگی گزار رہا ہے۔ اس وقت عمر75 سال ہے۔
مکرم راجہ صاحب مزید بیان کرتے ہیں کہ ربوہ کے قیام کے اوّلین دنوں کی بات ہے کہ سقّہ صاحبان نزدیکی آبادی احمد نگر سے یا دریا سے پانی لا کر فروخت کرتے تھے۔ ایک دن ہمارے محلہ میں لجنہ کا اجلاس تھا جس میں حضرت امّاں جانؓ بھی تشریف لائیں۔ دوران اجلاس آپؓ نے پانی طلب فرمایا۔ اتفاقاً میری والدہ اپنے گھر سے پانی اجلاس میں لے کر گئی تھیں اور انہوں نے وہ حضرت امّاں جانؓ کی خدمت میں پیش کیا۔ نوش فرمانے پر اُن کومحسوس ہوا کہ یہ پانی ذائقہ میں اچھا ہے۔ دریافت فرمایا کہ یہ پانی کہاں سے آیا ہے؟ تو میری والدہ نے بتایا کہ یہ پانی میرا بیٹا عزیزم نعیم احمد ریلوے کے انجن سے لاتا ہے۔ اُس وقت تقریباً سارے انجن اُن لوگوں کے برتنوں میں پانی دے دیتے تھے جو سٹیشن پر حاضر ہوتے تھے۔ حضرت اماں جانؓ نے یہ سُن کر مجھے اپنے گھر بلایا اور نہایت پیارے سے سر پر ہاتھ پھیرا اور فرمایا کہ بیٹا آج سے میرے لئے بھی انجن سے پانی لایا کرو۔ اور مجھے ایک سٹیل کی بالٹی ڈھکن والی دی اور نصیحت فرمائی کہ جونہی بالٹی بھر جائے ڈھکن فِٹ کرکے گھر تک احتیاط سے لانا۔ چنانچہ حسب ہدایت حضرت امّاں جانؓ یہ خدمت کافی دنوں تک کرنے کا موقع ملا۔ انہوں نے اس پانی کو ابال کر الائچی اور دارچینی شامل کرکے حضرت مصلح موعودؓ کو بھی پلانا شروع کیا تو اس پانی سے حضرت خلیفۃالمسیح الثانی کو بھی فائدہ ہوا۔ میں یہ خدمت کرتا رہا اور دعاؤں کا ایک ذخیرہ میرے حق میں جمع ہوتا رہا جو آج تک میرے لئے باعث برکت ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں