مکرم محمد عیسیٰ جان خان صاحب

مکرم محمد عیسیٰ جان خان صاحب حال کینیڈا نے حضرت مصلح موعودؓ کے دور خلافت میں قبول احمدیت کی سعادت پائی۔ آپ اپنی خودنوشت سوانح حیات ماہنامہ ’’احمدیہ گزٹ‘‘ کینیڈا اکتوبر 1997ء میں یوں بیان کرتے ہیں کہ میں 1911ء میں موصل (عراق) میں پیدا ہوا۔ میرے والدین عیسائی کُرد تھے اور انہوں نے میرا نام عیسیٰ رکھا اور بعد میں میری والدہ نے محبت سے ’جان‘ کا اضافہ میرے نام میںکردیا۔ میرے والد سلطنت عثمانیہ میں فوجی افسر تھے۔
جنگ عظیم اول میں برطانیہ نے سلطنت عثمانیہ کے بعض حصوں پر دسترس حاصل کرلی جن میں بغداد اور بصرہ کے علاقے شامل تھے۔ 1918ء میں ترک حکومت نے میرے والد کو برطانیہ کی حمایت کرنے کے جرم میں سزائے موت دے دی اوراس طرح میری والدہ بے یار و مددگار رہ گئیں۔ چنانچہ انہوں نے مدد کیلئے برطانوی انتظامیہ سے رجوع کیا۔ ان دنوں خانہ جنگی کے حالات تھے اور روزمرہ کا کام چلانے کے لئے ہندوستان سے جو منتخب سول افسران وہاں متعین کئے گئے تھے ان میں بصرہ کے ڈپٹی کمشنر خان صاحب میاں محمود گُل بھی تھے جو ایک رحمدل شخص تھے۔ انہیں میری والدہ کی سرگزشت نے اگرچہ بہت متاثر کیا لیکن اس سلسلہ میں کوئی مدد کرسکنا ان کے دائرہ کار میں نہیں تھا۔ تاہم انہوں نے میری والدہ کو شادی کی پیشکش کی جو میری والدہ نے قبول کرلی اور پھر جلد ہی اسلام بھی قبول کرلیا۔ جب میرے سوتیلے والد کی محکمانہ تبدیلی تہران ہوگئی تو ہمارا گھرانہ وہاں منتقل ہوگیا۔
کچھ عرصے بعد مجھے مناسب تعلیم کے لئے لاہور بھجوادیا گیا جہاں میرے ایک سوتیلے بھائی ڈاکٹر میاں غلام سمدانی پہلے سے زیر تعلیم تھے۔ انہوں نے مجھے مسلم ہائی سکول میں داخل کروادیا اور داخلے کے وقت میرے نام سے پہلے ’محمد‘ کا اضافہ بھی کردیا۔ سکول میں تعلیم سے زیادہ میری دلچسپی کھیل کے میدان میں تھی۔ چنانچہ باکسنگ اور فٹ بال میں میں نے کئی اعزازات حاصل کئے۔ میری رہائش بورڈنگ ہاؤس میں تھی جس کے سپرنٹنڈنٹ ایک شفیق بزرگ سید غلام مصطفی صاحب تھے۔میری تربیت چونکہ ایسے رنگ میں ہوئی تھی کہ میں اگرچہ مذہبی اقدار سے ناآشنا تھا لیکن مذہب کا احترام میرے دل میں بہت تھا۔ سید صاحب نے ایک بار مجھے ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ مطالعہ کے لئے دی جسے پڑھ کر میں بہت متاثر ہوا اور اس کا اظہار میں نے سید صاحب سے کردیاتاہم مذہب کے بارے میں میرے بنیادی خیالات میں کوئی تبدیلی نہ آئی۔ بہرحال سید صاحب نے مجھے احمدیت میں شمولیت کی دعوت دی اور میں نے بغیر کچھ سوچے سمجھے صرف اسلئے ہاں کر دی کہ میں سید صاحب جیسے نیک انسان کا دل نہیں دکھانا چاہتا تھا۔ چنانچہ وہ اگلے جمعے ہی مجھے لاہوری جماعت کے امیر مولوی محمد علی صاحب کے پاس لے گئے۔ مولوی صاحب نے جذبات سے عاری لہجے میں سید صاحب کی بات سنی اور اپنے سیکرٹری کو میرے نام کا اندراج کرنے کو کہا۔ سیکرٹری نے مجھ سے کچھ سوالات کرکے ایک رجسٹر میں خانہ پُری کرلی۔ اس واقعہ کے بعد میری زندگی میں سوائے اس کے کوئی تبدیلی نہ آئی کہ میں کبھی کبھار سید صاحب کے ساتھ مسجد چلا جاتا۔ میں اس بات سے بخوبی واقف تھا کہ عام مسلمانوں کا ہمارے بارے میں کیا خیال ہے اور یہ کہ مذہبی ماحول شدید نفرتوں کا شکار ہے۔ لیکن چونکہ مجھے مذہب سے کوئی دلچسپی ہی نہیں تھی اس لئے میں نے کبھی تحقیق کی کوشش ہی نہیں کی اور میرا علم صرف سنی سنائی باتوں اور سید صاحب کی دی گئی معلومات تک محدود رہا۔انہی دنوں میرے سوتیلے والد برٹش انڈین کونسلیٹ میں وائس کونسل مقرر ہوئے۔ میں اپنی تعطیلات میں ایران چلا جاتا یا اپنے سوتیلے بھائی کے ساتھ ان کے گھر مردان آ جاتا۔ بعض دفعہ سید صاحب کے ساتھ ان کے ہاں سرگودھا بھی جانے کا اتفاق ہوا۔
سکول کی تعلیم مکمل کرکے میں اسلامیہ کالج میں داخل ہوگیااور کالج کے ہاسٹل میں رہائش اختیار کرلی جہاں طلبہ بعض اوقات مذہبی بحثوں میں الجھے رہتے اور یہاں پہلی دفعہ مجھے عیسائی تعلیمات کا بھی علم ہوا۔ نوجوان لڑکیاں ہاتھوںمیں بائبل تھامے ہاسٹل آکر نوجوان طلبہ کو تبلیغ کیا کرتیں۔ غالباً انہیں کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوئی لیکن میں حیران تھا کہ لڑکوں کے ہاسٹل میں اس طرح آزادی کے ساتھ لڑکیوں کو تبلیغ کے لئے بھیج دینا کیا مناسب تھا؟
گریجوایشن سے قبل میںاپنے ایک دوست کے ہمراہ اسکے گھر بہاولپور گیا جن کی شہر کے وسط میں ایک بڑی فرم تھی۔ فرم کے ایک مالک نے مجھے ایسی پُرکشش شرائط پر ملازمت کی پیشکش کی کہ میں انکار نہ کرسکا اور اس طرح میری عملی زندگی کا آغاز ہوگیا۔ فرم کے ساتھ ہی ایک عمدہ رہائش مجھے فراہم کردی گئی اور جلد ہی ترقی پاکر میں وہاں جنرل مینجر ہوگیا۔
میرے سوتیلے والد ملازمت کے سلسلے میں اب کوئٹہ منتقل ہوگئے تھے۔ کوئٹہ کو 1935ء کے زلزلے کے بعد جدید طرز پر تعمیر کیا گیا تھا اور یہ ایسا پُرامن شہرتھا جہاں کئی قومیں آباد تھیں اور یہاں کا موسم بھی بہت عمدہ تھا چنانچہ میری اکثر گرمیاں وہاں بسر ہوتیں چنانچہ میرے نام کو کوئٹہ کے ساتھ ایک نسبت پیدا ہوگئی۔
بہاولپور میں میری زندگی بہت آرام دہ تھی۔ فرم کے مالکان کا اعتماد حاصل تھا اور وہ میری محنت اور دیانتداری کی قدر کرتے تھے۔ مجھے عربی، فارسی، پشتو اور انگریزی پر عبور حاصل تھا چنانچہ میرے مراسم نواب آف بہاولپور کے خاندان سے بھی پیدا ہوگئے۔… اس دور میں میری ذاتی زندگی ایک کھلنڈرے لڑکے کے سوا کچھ بھی نہ تھی۔
1940ء کی بات ہے جب ایک روز شریفانہ لباس میں ملبوس ایک شخص ہمارے سٹور کے دروازے پر کھڑے ہوکر مصنوعات کا جائزہ لے رہا تھا۔ پھر وہ روزانہ آنے لگا اور اسی جگہ کھڑے ہوکر شو کیسز میں دیکھتا رہتا۔ یہ چیز میرے لئے پریشان کن تھی چنانچہ ایک روز میں نے اس شخص کو اندر آنے کی دعوت دی۔ وہ بلاتردد میرے ساتھ میرے دفتر میں چلے آئے۔ میرے استفسار پر انہوں نے بیان کیا کہ ان کا نام سیف اللہ فاروق ہے اور وہ مدرس تھے لیکن احمدی ہونے کی وجہ سے ان کو شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا اور ملازمت سے محروم کردیئے گئے… ان کی کہانی سن کر مجھے افسوس ہوا اور میں نے انہیں اپنی فرم کی عمارت میں ہی رہائش کی پیشکش کی جو کچھ پس و پیش کے بعد انہوں نے قبول کرلی۔
فاروق صاحب پنجوقتہ نمازی اور صبح و شام تلاوت قرآن کے عادی تھے۔ ان کی شخصیت بڑی دلکش اور مذہبی علم وسیع تھا۔ بعض اوقات ہم مذہبی بات چیت بھی کرتے تھے۔ایسے ہی ایک موقعہ پر انہوں نے نبوت کے جاری رہنے کے بارے میں بات شروع کردی۔ چونکہ یہ بات میرے اعتقاد کے خلاف تھی اس لئے میں نے غصہ سے کہا کہ اگر وہ ایک آیت بھی دکھلادیں تو میں اسی وقت احمدی ہو جاؤں گا۔انہوں نے مجھے ناراض دیکھ کر بات بدلنا چاہی لیکن میں نے ان کا پیچھا نہ چھوڑا چنانچہ انہوں نے مجبوراً سورہ اعراف کی آیت 36 مجھے پڑھنے کو دی۔ میں نے آیت پڑھی اور حیرت میں ڈوب کر پھر بار بار پڑھی۔اگرچہ میں نے قرآن کریم کا دور کئی بار مکمل کیا تھا لیکن اس آیت پر میری توجہ کبھی گئی ہی نہیں تھی اور مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا گویا یہ آیت پہلی بار میری نظر سے گزری ہے۔ حقیقت کی اس دریافت نے مجھے شرم سے خاموش رہنے پر مجبور کردیا تھا۔ فاروق صاحب کے دریافت کرنے پر بھی میں پہلے تو خاموش ہی رہا لیکن پھر کہا کہ میں اپنے وعدہ کے مطابق بیعت کرنے کے لئے تیار ہوں۔ …
اس ساری رات میں سو نہ سکا اور دعائیں کرتے ہوئے اپنی سابقہ زندگی پر حیران ہوتا رہا کہ کیوں کبھی میں نے مذہبی امور پر غور ہی نہیں کیا اور وقت اور پیسہ خلافِ اسلام امور میں ضائع کرتا رہا۔ پھر میں نے خدا کے وجود اور اس کے ہدایت دینے کے طریق پر غور شروع کیا۔ فاروق صاحب کی زندگی کا مشاہدہ کیا جو بیکار ہونے کے باوجود کتنی مطمئن زندگی بسر کر رہے تھے اور میں سب کچھ میسر ہونے کے باوجود غیرمطمئن تھا۔ میں نے اللہ تعالیٰ کے احسانات کو یاد کرنا شروع کیا… اچھی خوراک، عمدہ لباس، شاندار رہائش … ۔ ساری رات سوچنے کے بعد صبح تک میں ایک انقلابی فیصلے پر پہنچ چکا تھا چنانچہ صبح ہوتے ہی میں نے سادہ لباس خریدا، سگریٹ نوشی ترک کردی، داڑھی بڑھانی شروع کردی اور بری عادتوں سے توبہ کرلی۔ ساتھ ہی بیعت فارم پُر کرکے قادیان پوسٹ کردیا اور چند روز بعد قادیان جاکر حضرت مصلح موعودؓ کے ہاتھ پر بھی بیعت کی سعادت حاصل کرلی۔
حضورؓ کی مقناطیسی شخصیت میں کبھی بھلا نہ سکوں گا۔مجھے حضورؓ کے اندر ایک باپ، ایک استاد، ایک مبلغ، ایک دوست اور ایک راہنما نظر آرہا تھا۔ کہانیوں میں بیان شدہ روحانی روشنی حضورؓ کے چہرے پر عیاں تھی۔ … میں واپس بہاولپور آگیا لیکن میرا دل قادیان میں ہی تھا۔ اب میں نے اپنے اوقات کا زیادہ حصہ مطالعہ میں صرف کرنا شروع کیا اور اتنا علم حاصل کرلیا جو تبلیغ کیلئے ضروری تھا۔ اسی دوران میرے سوتیلے والد ریٹائرڈ ہوکر مردان کے ایک گاؤں میں آبسے جہاں میرا اکثر آنا جانا رہتا تھا۔ میری منگنی بھی قریبی گاؤں کے متمول زمیندار کی بیٹی سے کردی گئی تھی۔ میں نے اپنے والدین کو اپنے قبولِ احمدیت کے بارے میں جب لکھا تو میرا خیال تھا کہ وہ میرے ایک اچھا مسلمان بننے پر بہت خوش ہونگے لیکن صورتحال غیرمتوقع طور پر اس کے برخلاف تھی۔ چند ہی روز بعد میری والدہ بہاولپور پہنچ گئیں۔ انہوں نے آہ و زاری کرتے ہوئے مجھ سے ’’قادیانیت‘‘ سے توبہ کرنے پر زور دیا اور دھمکی دی کہ ان کی بات نہ ماننے کی صورت میں وہ عمارت کی بلند چھت سے کود کر خودکشی کرلیں گی۔ ان دھمکیوں نے میرے دل کو دھلا دیا لیکن میری کوشش کے باوجود بھی وہ میری بات سمجھنے پر تیار نہ ہوئیںاور اس بات پر زور دینے لگیں کہ میں اپنے عقیدے یا اپنی والدہ میں سے کسی ایک کا انتخاب کرلوں۔ خدا کے فضل سے جب میں اپنے ایمان میں ثابت قدم رہا تو میری والدہ نے میری فرم کے مالکان کو مجھے ملازمت سے برخواست کرنے کی درخواست کی۔ مالکان کے لئے یہ قدم اٹھانا آسان نہ تھا تاہم انکی طرف سے مجھے یہ تنبیہ کی گئی کہ میں اپنے اعتقادات کے بارے میں بحث مباحثہ میں نہ پڑوں تاکہ مجھے کوئی گزند نہ پہنچ جائے۔
میری والدہ مایوسی کے عالم میں واپس گاؤں چلی گئیں اور جاتے ہوئے میرے دو چھوٹے بھائیوں کو بھی میری ’’بدصحبت‘‘ کے اثر سے بچانے کے لئے ہمراہ لے گئیں جو تعلیم کے سلسلے میں میرے پاس ٹھہرے ہوئے تھے۔ واپس جاکر میری والدہ نے میرے والد کو میری شادی جلد کردینے پر زور دیا چنانچہ مجھے فوری طور پر شادی کے لئے چھٹی لے کر گاؤں پہنچنے کا پیغام ملا۔ جب میں گاؤں پہنچا اور شادی کی تیاریاں شروع ہوئیں تو ہر شخص مجھ سے احمدیت کے بارے میں پوچھ رہا تھا اور پھر شادی والے روز اسی معاملہ کی بنیاد پر ایک جھگڑا کھڑا ہوگیا۔ میرے سوتیلے والد نے مجھے مہمانوں کے سامنے جاکر یہ وضاحت کرنے کو کہا کہ میں اب احمدی نہیں رہا۔ میں نے نرم لہجے میں انہیں بتایا کہ میں کسی صورت جھوٹ نہیں بول سکتا۔ یہ سن کر وہ غصے میں اندر گئے اور بندوق لے کر واپس آئے جسے مجھ پر تان کرکہنے لگے کہ میرے پاس توبہ کا آخری موقعہ ہے ورنہ مجھے اپنی زندگی سے ہاتھ دھونے پڑیں گے۔ میں خاموش کھڑا رہا۔ چند ثانیے بعد بندوق نیچے ہوگئی، وہاں موجود مہمان واپس جانے لگے اور میرے والد بھی کچھ دیر ٹھہر کر خاموشی سے گھر کے اندر چلے گئے۔ پھر میرے سسر میرے پاس آئے اور بہت دوستانہ لہجے میں باتیں کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انہیں میرے احمدی ہونے پر کوئی اعتراض نہیں ہے اور یہ کہ اگر میں اپنے سوتیلے والد کے کہنے پر مہمانوں کے سامنے بے شک دکھاوے کے لئے ہی وہ اعلان کردوں تو شادی کے بعد میرے اعتقادات میرا ذاتی معاملہ ہوں گے۔ میں نے انہیں بھی وہی جواب دیا جو میں اپنے سوتیلے والد کو دے چکا تھا۔… مختصر یہ کہ شادی منسوخ ہوگئی اور میں واپس بہاولپور آگیا۔
بہاولپور واپس آکر میری زندگی کا نیا دور شروع ہوا۔ اب میں ہر اس شخص سے مذہبی بحث کے لئے تیار رہتا جو معمولی سی دلچسپی کا اظہار کرتا۔میرے دوست میرے رویے سے کچھ پریشان تھے اور ایک ایک کرکے وہ سب مجھ سے ترک تعلق کر بیٹھے۔ اگرچہ فرم کا کاروبار اچھا جا رہا تھا لیکن بعض لوگوں کے دلوں کی عداوت یوں ظاہر ہوئی کہ انہوں نے میری شکایت مالکان سے کی کہ میں کاروبار سے زیادہ مذہبی امور میں دلچسپی لے رہا ہوں۔ بعض نے چوری کے جھوٹے الزامات بھی لگائے۔ چنانچہ ایک روز فرم کے ایک مالک نے مجھے بلاکر کہا کہ لوگ جو کچھ کہتے ہیں اس پر انہیں یقین نہیں ہے کیونکہ وہ مجھے اچھی طرح جانتے ہیں لیکن جب تک میں اس فرم کے لئے کام کر رہا ہوں اس وقت تک مجھے اپنے اعتقادات کو اپنے تک ہی محدود رکھنا چاہئے۔ میں نے ان کی بات سے اس وقت تو اتفاق کیا لیکن جب کچھ ہی دیر بعد مجھے محسوس ہوا کہ عملاً ایسا کرنا میرے لئے ناممکن ہوگا تو میرے سامنے دو ہی راستے تھے یعنی خاموش رہ کر ملازمت یا استعفیٰ۔ اور میں نے دعاؤں اور سوچ بچار کے ساتھ اپنی ملازمت سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کرلیا۔ مالکان میرے فیصلے سے حیران رہ گئے، انہوں نے مجھ سے بات چیت کی بہت کوشش کی لیکن میں نے واضح کردیا کہ میرا یہ فیصلہ اٹل ہے۔ آخرکار مجھے اس سہولت کے ساتھ جانے کی اجازت دے دی گئی کہ اگر میں کبھی بھی اپنے فیصلے پر نظرثانی کرلوں تو مجھے فرم میں خوش آمدید کہا جائے گا۔
اس کے بعد میں قادیان آگیا۔ یہاں میری دنیاوی خواہشات دم توڑنے لگیں اور میں نے قادیان میں ہی بس جانے اور خدمت دین کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ لیکن حضرت مصلح موعودؓ نے میری راہنمائی فرمائی اور فوج میں بھرتی ہونے کا مشورہ دیا۔ اس وقت جنگ عظیم دوم عروج پر تھی چنانچہ مجھے بآسانی منتخب کرلیا گیا۔… قادیان میں مجھے بہت سے صحابہؓ سے بھی ملنے کا اتفاق ہوا جو سب انسان کے روپ میں فرشتے تھے۔ میرے فوج میں بھرتی ہونے سے قبل حضرت مولوی عبداللطیف صاحب بہاولپوری نے حضرت مولانا عطا محمد صاحب کی بیٹی کے ہمراہ میری شادی کا اہتمام کروادیا۔
کلکتہ میں مختصر تربیت کے بعد میری یونٹ کو برما بھیج دیا گیا جہاں ہم جنگ کے اختتام تک مقیم رہے۔ اسی دوران میں نے فیصلہ کرلیا کہ جنگ سے واپسی کے بعد مجھے کاروبار شروع کرنا چاہئے۔ اس مقصد کے لئے میں اپنی فیملی کو ہمراہ لے کر کوئٹہ چلا گیا جہاں میرے بہت سے دوست رہتے تھے۔وہاں میں نے احمدی دوستوں کے تعاون سے چھوٹا سا کاروبار شروع کرلیا۔ لیکن اگست 1947ء میں تقسیم ملک کے وقت جب حضرت مصلح موعودؓ نے رضاکاروں کے لئے اپیل کی تو میں نے فوراً کاروبار بند کیا اور فیملی کو اللہ کے سپرد کرکے قادیان جا پہنچا۔… وہاں اپنے فرض کی ادائیگی میں بندوق کی گولیاں لگنے سے میری ٹانگ شدید زخمی ہوگئی اور ملٹری ہسپتال میں میرا علاج ہوتا رہا۔ حضرت مصلح موعودؓ نے اس وقت میرے ساتھ خصوصی شفقت کا سلوک فرمایا اور ڈاکٹروں نے میری دوبارہ زندگی کو عظیم معجزہ قرار دیا۔ کیونکہ امرتسر سے لاہور تک کے طویل سفر میں سارا وقت میرے جسم سے خون بہتا رہا تھا لیکن حضورؓ کی دعاؤں نے موت کے مونہہ سے مجھے نکال لیا۔ میری کوئٹہ سے غیرحاضری میں میرا کاروبار لوٹ لیا گیا تھا۔ میں نے دوبارہ اسے شروع کرنے کی کوشش کی لیکن سرمایہ کی کمی کی وجہ سے کامیابی نہ ہوسکی چنانچہ میں نے ملازمت اختیار کرلی جو 20 سال تک جاری رہی۔
میں سوچتا ہوں کہ میری سابقہ زندگی کا ہر دور خدا کے فضلوں کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ جب میں بچہ تھا تو بصرہ کے قریب ایک دریا میں ڈوب گیا۔ جب ہوش آیا تو پتہ چلا کہ ایک مچھیرے نے میرے نیم مردہ جسم کو دریا سے نکالا تھا۔ ایک اور موقع پر میں اپنے مکان کی چھت سے سر کے بل نیچے گرا۔ لوگ میری زندگی سے مایوس ہوگئے لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے بچا لیا۔ نوجوانی میں ایک بار میں ایک تیزرفتار گھوڑے کی پیٹھ سے اس طرح گرا کہ میرا پاؤں رکاب میں پھنسا ہوا تھا اور میں بہت دور تک زمین پر گھسٹتا رہا اور پھر بے ہوش ہوگیا۔ اسی طرح 1953ء میں ملاّنوں کی احمدیت کے خلاف تحریک کے دوران میں اس وقت میجر ڈاکٹر محمود احمد صاحب کے ہمراہ تھا جب جلوس نے ہم پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں میجر صاحب کو شہادت نصیب ہوئی اور یہ واقعہ ساری عمر کے لئے میرے ذہن پر نقش ہوگیا۔
اللہ تعالیٰ نے مجھے پانچ لڑکوں، تین لڑکیوں اور ان کی اولادوں سے نوازا ہے۔ 1975ء سے میں کینیڈا میں مقیم ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے کبھی نہیں چھوڑا اور میرے ہر قسم کے معاملات میں بارہا واضح خوابوں کے ذریعے راہنمائی بخشی ہے۔ لیکن میں جانتا ہوں کہ مجھ پر یہ ساری عنایات احمدیت کی برکت اور خلافت سے تعلق کا نتیجہ ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں