وفادار کتّے اور ان کا استعمال

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 13؍مارچ 2006ء میں مکرم بریگیڈیئر (ر) سید ممتاز احمد صاحب وفادار کتّوں کے استعمال سے متعلق اپنے مضمون میں لکھتے ہیں کہ کتا خونخوار ہونے کے ساتھ ساتھ وفادار بھی ہے۔ چنانچہ خونخوار ہونے کی وجہ سے اس کو حفاظتی کاموں میں بہترین سمجھا جاتا ہے۔ اپنی عقل اور قوّت شامہ کی بدولت قانون شکن افراد کو پکڑنے کیلئے کتّے بہترین ثابت ہوتے ہیں۔ مشہور ادیب ایڈمرل شفیق الرحمٰن کو جب ایک بڑے میڈیکل سٹور کا انچارج بنایا گیا تو ادویات کی چوری کو وہ تلاشی کے باوجود نہ روک سکے۔ چنانچہ انہوں نے آرمی ڈاگ سینٹر سے کتے منگوالئے جو ملازموں کو سونگھ کر جانے کی اجازت دیتے، اس طریق سے چوریاں پہلے دن سے رُک گئیں۔
دوسری جنگ عظیم میں جرمنوں نے فرانس کے شمالی علاقہ پر قبضہ کیا تو برطانیہ جہاز سے پیراشوٹ کے ذریعے اس علاقے میں اپنے جاسوس رات کو اتار دیتا تھا جو پھر ریل کی پٹڑیوں، پلوں وغیرہ کو تباہ کرتے تھے۔ اس کے سدّباب کیلئے جرمنوں نے بڑی تعداد میں خونخوار کتّے حاصل کئے جو پیراشوٹ کو سونگھ کر جاسوس کو تلاش کرلیتے تھے۔ ان کتّوں کی مدد سے برطانیہ کے بہت سے جاسوس پکڑے گئے۔ چنانچہ برطانیہ کے سائنسدانوں نے کتوں کو بہکانے کیلئے کئی ماہ کے تجربات کے بعد ایک دوا تیار کی جس کے چھڑکنے سے کتے انسان کی بو میں تمیز کرنے سے عاجز آجاتے۔ جاسوس یہ دوا اپنے ساتھ لے جاتے، جہاں اترتے وہاں دوائی اچھی طرح چھڑک کر رخصت ہوتے۔

صدر محمد ایوب خان

جنرل ایوب خان 1951ء میں یورپ کے کئی ممالک کے دورے پر گئے وہاں کی فوجی صلاحیتوں کا جائزہ لیا۔ واپس آتے ہی انہوں نے پاکستانی فوج میں بھی کتوں کے یونٹ کو قائم کرنے کا فیصلہ کیا اور اس مقصد کے لئے مضمون نگار اور کیپٹن عبدالسلام سہیل صاحب کو آٹھ دیگر جوانوں کے ساتھ جرمنی بھیجا جنہوں نے کتّوں کو فوجی مقاصد کے لئے استعمال کرنے کے طریق سیکھے اور واپسی پر ان دس فوجیوں کے ساتھ بیس کتّے بھی تھے۔ اس طرح راولپنڈی میں آرمی ڈاگ سینٹر قائم ہوا جو آج بھی موجود ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں