کینسر سے بچاؤ اور علاج – جدید تحقیق کی روشنی میں

کینسر سے بچاؤ اور علاج – جدید تحقیق کی روشنی میں
(شیخ فضل عمر)

٭ ایک تحقیقی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ انگور کے بیج میں سرطان کے مرض کو جڑ سے ختم کردینے کی صلاحیت موجود ہے۔ امریکی طبی ماہرین کے مطابق سرطان کے خاتمے کے لئے انگور کے بیجوں کا گودا نہایت کارآمد ثابت ہوا ہے۔ یونیورسٹی آف کینٹیکی کے پروفیسر زینگ لینگ شائی نے جب لیبارٹری میں تجرِبات کرتے ہوئے خون کے سرطان پر انگور کے بیجوں کے گودے کو آزمایا تو صرف 24گھنٹوں میں سرطان کے خلیوں کی 76 فیصد تعداد کو کم ہوتے ہوئے دیکھا جبکہ خون کے اندر صحت مند خلیے کسی نقصان سے محفوظ رہے۔ ان تجرِبات کے بعد امید ظاہر کی گئی ہے کہ عالمی سطح پر اب خون کے سرطان کے علاج کی نئی دوا تیار کرنے میں مدد ملے گی۔ طبی ماہرین نے کہا ہے کہ انگور کے بیج میں جسم کے فاسد مادے خارج کرنے کی بھرپور صلاحیت موجود ہے اور دل کو مضبوط بنانے کے لئے بھی یہ بہترین ٹانک ثابت ہوتے ہیں۔ ان بیجوں میں جلد، چھاتی، مثانے، پھیپھڑوں اور مادے کے سرطان کے خلاف بھی مدافعتی قوت دیکھی گئی ہے۔ چوہوں پر کئے جانے والے تجرِبات میں بھی مشاہدہ کیا گیا کہ اُن کی چھاتی اور جلد کے ٹیومر کا سائز ان بیجوں کے استعمال سے کم ہو گیا۔
٭ نیویارک میڈیکل سینٹر کی تحقیق کے مطابق چائنیز کھانوں میں استعمال کی جانے والی ایک خاص مشروم “مائی تاکے” کینسر کی رسولیوں کو 75فیصد تک چھوٹا کردینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ماہرین نے دیکھا کہ آٹھ انچ قطر والی اس مشروم کے عرق کی معمولی مقدار ایک کینسر کُش پروٹین کے ساتھ ملاکر استعمال کروانے سے ایک ایسا اینزائم جسم میں پیدا ہوا جس نے کینسر کے خُلیات کی افزائش پر قابو پالیا اور اِس طریقۂ علاج سے مثانے اور پروسٹیٹ کے کینسر کے مریضوں کو خاص طور پر فائدہ ہوا۔ یہ رپورٹ برٹش جرنل آف یورالوجی میں شائع ہوئی ہے۔
٭ ایک طبی تحقیق کے مطابق زیتون کی چھال سے حاصل کیا جانے والا ایک مادہ ’’ماسلینک ایسڈ‘‘ مثانے کے سرطان کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ طبّ کی تاریخ میں اس نئی دریافت سے یہ اُمید پیدا ہوگئی ہے کہ سرطان کی ادویات تیار کرنے میں زیتون سے بھرپور استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ یہ ایسڈ مکمل طور پر قدرتی اجزاء پر مشتمل ہے اور مثانے کے سرطان کا باعث بننے والے خلیے ’’HT29‘‘ کو ختم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ طبی ماہرین نے کہا ہے کہ اس ایسڈ کے ذریعے سرطان کے خلیوں کو ختم کرنے کی نئی تکنیک سامنے لائی جاسکے گی۔ اس تحقیق کو یونیورسٹی آف گرینیڈا اینڈ بارسلونا کے طبی ماہرین نے مکمل کیا ہے جن کا کہنا ہے کہ قدرتی غذاؤں کے بہت سے اجزاء ہماری روزمرہ خوراک کا حصہ ہیں لیکن ہمیں اُن کی افادیت کا علم نہیں ہوتا۔ جبکہ یہ قدرتی اجزاء، لیبارٹری میں تیار کئے جانے والے اجزاء سے کہیں بہتر، ارزاں اور بیماریوں پر قابو پانے میں زیادہ کارگر ثابت ہوتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ قدرتی اجزاء پر مشتمل چیزوں کے ذریعے علاج کرنے کی نئی راہ پر چل کر سرطان سمیت دیگر بیماریوں کا علاج بھی ممکن ہے۔
٭ امریکہ میں اوہائیو کی ویسٹرن ریزرو یونیورسٹی اور یونیورسٹی ہاسپٹلز آف کلیولینڈ کے ماہرین پر مشتمل ٹیم نے حلق کے سرطان کے واقعات کا جائزہ لینے کے بعد بتایا ہے کہ اس بیماری کا تعلق خوراک میں مجموعی طور پر اور ریفائنڈ کاربوہائیڈریٹس لینے اور موٹاپے کی شرح میں اضافے سے بھی ہوسکتا ہے۔ محققین نے نیشنل کینسر انسٹیٹیوٹ کے 1973ء سے 2001ء تک کے ریکارڈ اور نیشنل نیوٹرینٹ ڈیٹا بینک میں موجود 1909ء سے 1997ء تک کی معلومات کا جائزہ لینے کے بعد بتایا ہے کہ اس عرصے کے دوران امریکہ میں حلق کے کینسر کے واقعات میں نمایاں اضافہ ہوا جس کا گہرا تعلق لوگوں کی خوراک میں شامل کاربوہائیڈریٹس کی مجموعی مقدار کے ساتھ ہے۔ تاہم تحقیقی ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر تھامپسن کا کہنا ہے کہ یہ تحقیق حلق کے سرطان کی وجہ بننے والے کسی ایک خطرے کی نشاندہی نہیں کرتی کیونکہ زیادہ مقدار میں کاربوہائیڈریٹس لینے کے علاوہ حلق کے سرطان کا تعلق موٹاپے کی شرح میں اضافے کے ساتھ بھی ہے۔
٭ ایک تحقیق جسے ڈاکٹر سومیاناتھن نے مکمل کیا ہے، اِس میں یہ بتایا گیا ہے کہ کچے پھلوں اور سبزیوں ، خصوصاً آموں کو ، درختوں سے کچا اتارنے کے بعد کیمیائی مادوں کی مدد سے پکانے کے نتیجے میں اِن غذاؤں سے کینسر لاحق ہونے کے خطرات میں نمایاں اضافہ ہوجاتا ہے۔ طبّی زرعی ماہرین کے مطابق جو کیمیائی مادہ یعنی کیلشیم کاربائیڈ اِس مقصد کے لئے استعمال کیا جاتا ہے یہی کیمیائی مادہ ویلڈنگ کے عمل اور کھادیں تیار کرنے کے دوران بھی استعمال ہوتاہے۔ اور جب درختوں سے اتارے گئے کچے پھلوں اور سبزیوں خصوصاً آموں کو اِس کیمیائی مادے کی مدد سے پکایا جاتا ہے تو یہ مادہ اُن کے اندر بھی داخل ہوجاتا ہے اور کینسر کے خطرے کا باعث بن سکتا ہے۔ جبکہ قدرتی طور پر کچے اور کھٹے آموں میں بھی یہ مادہ نسبتاً زیادہ موجود ہوتا ہے لیکن درختوں پر پکنے اور تیار ہوکر اُترنے والے آم میں اِس مادے کی موجودگی میں کمی واقع ہوجانے سے کینسر کے خطرات میں بھی 65 سے 85 فیصد تک کمی واقع ہوجاتی ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ مصنوعی طریقے سے پکائی جانے والی سبزیاں اور پھل معدے کے السر، گردوں کے امراض، بلڈپریشر میں اضافے، سرطان، مسوڑھوں کی تکالیف اور جوڑوں کے درد کے علاوہ خون کی بیماریوں میں اضافے کا بھی باعث بنتے ہیں۔
٭ چوہوں پر کی جانے والی ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ انار کا رَس، مثانے کے کینسر کے پھیلنے کی رفتار کو سست کرسکتا ہے۔ وسکنسن یونیورسٹی کی یہ تحقیق نیشنل اکیڈمی آف سائنسز نے پیش کی ہے۔ ماہرین کے مطابق انار میں اینٹی اوکسیڈینٹس اور اینٹی انفلیمیٹری ایجنٹس پائے جاتے ہیں۔ اور دوران تحقیق دیکھا گیا کہ کس طرح انار کے رس نے نہ صرف کینسر پر قابو پالیا بلکہ اس کی مقدار زیادہ کرنے سے کینسر مکمل طور پر ختم ہوگیا۔ قبل ازیں کی گئی ایک تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوا تھا کہ انار کا رس چوہوں کی جلد میں پیدا ہونے والے ٹیومر کے خلاف بھی مؤثر پایا گیا ہے۔ ماہرین کے مطابق انار کے رس کا ایک گلاس روزانہ پینے سے دل کی شریانوں کی بیماری کا خطرہ بھی کم کیا جا سکتا ہے۔
٭ ایک تحقیقی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سبزیاں، پھل اور دودھ دوسرے امراض کے ساتھ ساتھ جگر کے کینسر سے محفوظ رکھنے میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس مقصد کے لئے ماہرین نے 185 مریضوں اور 412 صحت مند افراد کی خوراک کا جائزہ لیا جس سے یہ بات ظاہر ہوئی کہ سبزیوں، پھلوں اور دودھ کا استعمال جگر کا کینسر ہونے کا خطرہ 78 فیصد تک کم کر دیتا ہے جبکہ ان چیزوں کا استعمال کم کرنے سے جگر کے سرطان میں مبتلا ہونے کا خطرہ 56فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔ بلکہ صرف پھلوں کا استعمال کم کرنے سے بھی دیکھا گیا کہ اس مرض کے لاحق ہونے کا خطرہ 52 فیصد بڑھ گیا۔ ماہرین کے مطابق پھلوں اور دودھ کا استعمال ہیپاٹائٹس B اور C کے مریضوں کے علاج میں بھی معاون ثابت ہوتا ہے۔
٭ ایک تحقیق کے مطابق سرطان سمیت کسی بھی مرض کے لئے بلڈبینک میں محفوظ خون کی بجائے تازہ خون 60 فیصد زیادہ مؤثر ثابت ہوتا ہے۔ اس تحقیق کے سربراہ ایووی یونیورسٹی کے ایک پروفیسر ہیں جنہوں نے دورانِ علاج محسوس کیا کہ تازہ خون دینے سے مریض کو تیزی سے افاقہ ہوتا ہے جبکہ بلڈبینک میں محفوظ رکھے گئے خون کی افادیت نسبتاً کم ہے۔ انہوں نے کہا کہ دورانِ آپریشن جو سرجن تازہ خون پر اصرار کرتے ہیں وہ مریض کے حق میں بہتر ہوتا ہے اور ویسے بھی بلڈ بینک میں محفوظ خون عموماً 40 روز بعد ضائع ہوجاتا ہے جس سے اس بات کی گواہی ملتی ہے کہ ہر آنے والا دن خون کی تازگی کو کم کرتا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ اگر دنیا بھر میں تازہ خون کی فراہمی کو یقینی بنایا جاسکے تو سرطان سمیت دیگر امراض کی شرح میں نمایاں کمی واقع ہو سکتی ہے۔
٭ نیشنل کینسر انسٹیٹیوٹ کے جریدے میں شائع ہونے والی ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق جسم میں انسولین کی زیادتی پراسٹیٹ کینسر کا سبب بن سکتی ہے۔ ماہرین کو سیرم انسولین اور گلوکوز کے درمیان تعلق کا جائزہ لینے پر معلوم ہوا ہے کہ انسولین میں اضافے سے پراسٹیٹ گلینڈ میں سرطان کے خلیے متحرک ہوجاتے ہیں۔ ماہرین طب نے کہا ہے کہ مردوں کو مناسب وقفوں کے بعد جسم میں انسولین کی سطح سے آگاہ رہنا چاہئے تاکہ اِس مرض سے محفوظ رہا جاسکے۔
٭ پپیتے کا شمار زرد سبزیوں میں ہوتا ہے اور یہ کیروٹین کا بہترین ذریعہ ہونے کے ساتھ ساتھ کینسر کے مریض کے لئے بھی بے حد مفید ہے۔
٭ امریکہ کے نیشنل سینٹر برائے کمپلیمینٹیری اینڈ انٹرنیٹو میڈیسن کے ماہرین غذائیات نے کہا ہے کہ ادرک کا استعمال انسانی صحت کے لئے بہت مفید ہے اور اِس کے طبّی خواص زیادہ ہونے کے علاوہ اس کے کوئی مضر اثرات بھی نہیں ہیں۔ ایک مطالعاتی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ادرک کا استعمال، عمر بڑھنے کے ساتھ لاحق ہونے والے ممکنہ دردوں سے بچانے میں بھی معاون ثابت ہوتا ہے اور اِس کا باقاعدہ استعمال کئی دیگر بیماریوں سے بھی محفوظ رکھتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ادرک کا استعمال معدے کا درد روکنے، نشہ کرنے پر قابو پانے اور کِیموتھراپی کے اثرات پر قابو پانے میں مؤثر ثابت ہوچکا ہے۔
یونیورسٹی آف مشی گن کے میڈیکل اسکول کی پروفیسر ڈاکٹر ربیکا لیو کا خیال ہے کہ بیضہ دانی کے کینسر کے اکثر واقعات میں عام طور آخری مرحلے میں کیموتھراپی بے اثر ہوجاتی ہے اور ایسے مریضوں کے لئے ادرک کا استعمال فائدہ مند ہوسکتا ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں