ایفل ٹاور پیرس

1889ء میں فرانسیسی انقلاب کی پہلی صدی کو شاندار طریقے سے منانے کیلئے حکومت فرانس نے ایک یادگار کی تعمیر کا فیصلہ کیا تو ایک انگریز انجینئر نے ٹاور کی تعمیر کی تجویز پیش کی۔ پھر ایک عالمی مقابلہ کے نتیجہ میں جس میں 700 ماہرین نے حصہ لیا، فرانس کے انجینئر گستو ایفل کا نقشہ منظور کیا گیا اور ٹاور کا نام بھی ایفل کے نام پر ہی رکھ دیا گیا۔
26 جنوری 1887ء ٹاور کی تعمیر شروع ہوئی اور دو سو مزدوروں نے اسے 6 ماہ میںمکمل کیا۔ اس کا افتتاح وزیر اعظم فرانس نے کیا اور 15 مئی 1889ء کو اسے عوام کے لئے کھول دیا گیا۔ جلد ہی گردو نواح کے عوام نے اس کے گرنے کے خوف سے ٹاور ہٹانے کا مطالبہ کیا اور جب امریکہ اور جرمنی نے بھی زور دیا تو مجبوراً حکومت فرانس نے 1910ء میں ٹاور کو گرانے کا فیصلہ کرلیا لیکن ابھی اس فیصلہ پر عمل نہ ہوسکا تھا کہ جنگ عظیم اول میں ٹاور کو ملٹری ریڈیو اور ٹیلی گراف مرکز کے طور پر استعمال کیا گیا اور یہی چیز ایفل ٹاور کو گرانے سے بچاگئی۔ دوسری جنگ عظیم میں یہ ٹاور جرمن اور پھر مارچ 1946ء تک امریکی فوج کے کنٹرول میں رہا جس کے بعد عوام کے لئے کھول دیا گیا۔ اب اس ٹاور کو فرانسیسی محکمہ موسمیات کے علاوہ وزارت داخلہ بھی حفاظتی مقاصد کے لئے استعمال کرتی ہے۔ ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے کئی چینلز کے پروگرام بھی یہاں سے نشر ہوتے ہیں۔ نیزسیاحوں کی آمد کی وجہ سے کروڑوں ڈالر سالانہ آمد اسی کی وجہ سے ہوتی ہے۔
ایفل ٹاور چار ستونوں پر لوہے کے 15 ھزار حصوں پر مشتمل ہے اور اس کی تین منازل ہیں۔دوسری منزل سے تیسری منزل تک دنیا کی منفرد ہائیڈرالک لفٹ لگائی گئی ہے۔ ٹاور کی اونچائی 984 فٹ ہے اور اس میں 7 ھزار ٹن لوہا اور فولاد استعمال ہوا ہے اور یہ ایک وقت میں دس ھزار سے زائد آدمیوں کا وزن برداشت کر سکتا ہے۔ اسے ہر سات برس بعد 45 ٹن پینٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔
ماہنامہ ’’تشحیذالاذہان‘‘ ربوہ فروری 1997ء میں ہی محترم منور احمد ظفرصاحب کا یہ معلوماتی مضمون شائع ہوا ہے ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں