ایک واقف زندگی کی بیوی کی ڈائری

(مطبوعہ انصارالدین یوکے ستمبر و اکتوبر 2021ء)

محمد یوسف ناصر

خاکسار کی والدہ محترمہ مبشرہ بیگم صوفی صاحبہ کی وفات 4 جنوری 2016ء کو ہوئی۔ آپ مکرم صوفی محمداسحاق صاحب مبلغ سلسلہ کی اہلیہ تھیں۔ مرحومہ کی وفات کے بعد ان کے کاغذات میں ان کے اپنے ہاتھ سے لکھے ہوئے حالات زندگی ملے۔ قربانیوں سے عبارت یہ تحریر بڑی ایمان افروز ہے۔ اس کا کچھ حصہ دعا کی اس درخواست کے ساتھ ہدیۂ قارئین ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحومہ کے ساتھ مغفرت کا سلوک فرمائے اور اُن کے درجات بلند فرماتا جائے اور ان کی اولاد کو ان نیکیوں کو جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

محترم صوفی محمد اسحاق صاحب

محترمہ مبشرہ بیگم صوفی صاحبہ رقمطراز ہیں:
سب سے پہلے تو یہ خاکسار انتہائی عجز اور فخر کے ساتھ یہ کہہ سکتی ہے کہ میں نے جو کچھ کیا احمدیت کی برکت سے کیا اور حضرت مسیح موعودؑ کے اس الہام کو کہ ’’میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا‘‘ اپنا مطمع نظر رکھا۔نیز یہ کہ مجھے شہرت ذرا پسند نہیں۔ اب یہ جو چند لفظ لکھنے کی جسارت کر رہی ہوں یہ بھی مجھے لکھنے پر مجبور کیا گیا ہے ورنہ میرا تو سب کچھ اللہ تعالیٰ کا ہے اور اسی سے خیر کی طالبہ ہوں۔
خاکسار 1934ء مئی قادیان میں پیدا ہوئی۔ میرے والد کانام چوہدری جان محمد اور دادا کا نام میاں دین محمد تھا جنہیں حضرت مسیح موعودؑ کے ابتدائی صحابہ میں شامل ہونے کا شرف حاصل ہے اور جو بہشتی مقبرہ قادیان میں مدفون ہیں۔میرے دادا جان مجھ سے بہت پیار کرتے تھے اور میری دینی تربیت میں ان کا بہت دخل ہے۔ شاید یہ اسی کا نتیجہ تھا کہ مجھے بچپن میں ہی سچی خوابیں آیا کرتی تھیں۔ میرا خیال ہے کہ آٹھ یا غالبا ًنو سال کی عمر میں مَیں نے جیسے اللہ تعالیٰ کو خواب میں دیکھا۔ وہ چہرہ تو آج بھی اسی طرح میرے دل پر نقش ہے لیکن جو نظم درثمین کی اللہ تعالیٰ کو سنائی وہ بھول گئی ہوں۔ یہ میر ی خواب سن کر میرے دادا جان نے میری امی جان کو کہا کہ اس بچی کی شادی سبز پگڑی والے مبلغ سے ہوگی اور وہ میرے لئے دعا بھی کیا کرتے تھے۔ یہ ان کی دعا ہی کا نتیجہ ہے کہ میری شادی جولائی 1952ء میں ایک مربی سلسلہ صوفی محمد اسحاق صاحب کے ساتھ ہوئی جو شادی سے پہلے بھی بسلسلہ تبلیغ قریباً سات سال مغربی افریقہ میں رہ کر آئے تھے اور شادی کے دواڑھائی سال بعد دوبارہ مغربی افریقہ بغرض تبلیغ چلے گئے اور مَیں دو ننھے بچوں کے ساتھ اکیلی کوارٹر تحریک جدید ربوہ میں رہنے لگی۔ پھر کیا تھا! میرا اللہ تھا اور میں تھی۔ دونوں بچے دودھ پینے والے تھے۔ 25روپے الاؤنس ملتا تھا۔ کوئی بھی عزیز رشتہ دار مدد کرنے والے نہیں تھے سوائے میرے پیارے اللہ تعالیٰ کے۔ نہ میکے والے صاحب حیثیت تھے نہ سسرال والے۔میں ہی حق داروں کے حق ادا کرنے کی پوری کوشش کر کے ان کے حق ادا کرتی تھی۔ حضرت صاحبزادہ میاں بشیر احمد صاحب ؓ،حضرت مولانا راجیکی صاحبؓ اور حضرت مولانا بقاپوری صاحب ؓ کے پاس مَیں دعا کے لئے جایا کرتی تھی۔ حضرت میاں بشیر احمد صاحب ؓ انتہائی شفقت سے مجھے پوچھا کرتے تھے کہ کتنا الاؤنس ملتا ہے اور کتنا ایندھن لیتی ہو،کتنا گھی لیتی ہو،کتنا دودھ لیتی ہو؟ ہر چیز بتانے پر پھر کہتے کہ گذارہ کیسے کرتی ہو؟جس پر میں نے ان کو بتایا کہ میں روزانہ ڈائری لکھتی ہوں جو چیز منگواتی ہوں جب ٹوٹل کرتی ہوں تووہ زیادہ ہوتا ہے، اور یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے مجھے نہیں پتہ کہ یہ کیا معاملہ ہے۔ تو اب میں نے حساب لکھنا چھوڑ دیا ہے۔ اس پر وہ بہت خوش ہوئے۔
ایک واقعہ تحدیث نعمت کے طورپر بیان کرتی ہوں نہ کسی شہرت یا نمود کی خاطر۔ رمضان المبارک کا مہینہ تھا۔ میری ایک بہن بھی میرے پاس تھی اور میرے سسر صاحب بھی ان دنوں میرے پاس تھے۔ سخت گرمی کے روزے تھے۔ درس القرآن سے واپس آئی۔ روزہ رکھا ہوا تھا۔ مہینے کی غالبا ً26 یا 27 تاریخ تھی۔ میرے پاس دو پیسے نہ تھے کہ برف منگوا کر ٹھنڈے پانی سے روزہ افطار کرسکوں۔ اسی طرح قرآن مجید بھی ہاتھ میں تھا، برقعہ بھی پہنا ہو اتھا۔ اس قدر مجھ پر رقت طاری ہوئی اور خوب دل کھول کر اللہ تعالیٰ کے حضور گڑ گڑائی کہ میرے پیارے اللہ میاں جی! مَیں کس طرح روزہ افطارکروں! مجھے سمجھ نہیں آئی کہ مجھے کیا ہوا اور مَیں نے پرانے بوسیدہ کپڑوں والا صندوق کھول کر کپڑوں کو الٹ پلٹ کر دیکھنا شروع کردیا۔ دوتین کپڑے اٹھائے تھے کہ ایک روپے کا نیا نوٹ مجھے مل گیا جس کو پکڑ کر پہلے تو مَیں نے اسی جگہ کچے فرش کی زمین پرسجدۂ شکر کیا۔ پھر میں نے برف منگوئی اور روزہ افطار کیا بلکہ مہینے کے باقی دن بھی ان پیسوں کے ساتھ گذرے۔ میرے اس واقعہ کا علم گھر میں موجود کسی کو نہیں ہوا، نہ میں نے کسی پر ظاہر ہونے دیا کہ مجھے کوئی پریشانی ہے۔
جب میری نئی نئی شادی ہوئی تو ان دنوں مبلغین کے گذارہ الاؤنس اس قدر قلیل ہو ا کرتے تھے کہ موجودہ وقت میں کسی کو یہ یقین نہیں آئے گا کہ ہم پر تنگی کے کیسے سخت دن تھے۔ لیکن یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ اس کے باوجود یہ محض اللہ تعالیٰ کی عنایت ہے اور اس کا فضل ہے، اس کی رحمت ہے کہ اس نے مجھے یہ ایام پورے صبر اور شکر کے ساتھ بسر کرنے کی توفیق دی اور میرا دھیان اور توکّل ہمیشہ اللہ تعالیٰ پر ہی رہا۔ فالحمد للہ علیٰ ذالک۔
مکرم صوفی محمد اسحق صاحب نے جو پہلا تبلیغی سفر میری شادی کے بعد کیا، وہ قریباً ساڑھے چار سال کا عرصہ تھا۔ یہ عرصۂ جدائی، دو ننھے بچوں کی پرورش، ساتھ سسرال کے حقوق و فرائض اور پھر اپنی کم عمری وناسمجھی کے باوجود میرے پیارے مولیٰ نے مجھے اپنی انگلی پکڑائے رکھی اور قدم قدم پر میرا ساتھ دیا اور اپنے خاص الخاص فضل سے عہدہ برآ ہونے کی توفیق دی۔ جب یہ پہلے دورے سے واپس آئے تو خاکسار نے ان کو گھر میں آنے پر پھولوں کے ہار پہنائے اور پاس کھڑی تھی کہ انہوں نے مجھے پہچانا نہیں تھااور اپنی والدہ سے پوچھا کہ مبشرہ کہاں ہے؟ تو جتنی میری سہیلیاں مبلغین کی بیگمات آئی ہوئی تھی وہ سب حیران رہ گئیں کہ صوفی صاحب اپنی والدہ سے پوچھ رہے ہیں، انہوں نے پہچانا نہیں۔
اس عرصۂ جدائی میں گھر یلوذمہ داریوں کے علاوہ پانچ وقت نماز کی ادائیگی کے ساتھ تہجدبھی باقاعدہ پڑھتی اور استطاعت بھر نماز ظہر کے بعد اور عشاء کے بعد بیس سے تیس نفل پڑھ کو سوتی۔ پھر الفضل میں میرے میاں کی جو تبلیغی رپورٹ چھپتی اس کے مطابق جتنی بیعتیں ہوتیں، ہر ایک بیعت کے لئے دس نفل شکرانہ کے ادا کرتی۔ پھر صوفی صاحب کو حضور کی طرف سے لائبریا میں مشن کھولنے کا حکم ملا تو لائبیریا پہنچنے پر ابھی مجھے ان کا خط نہیں ملا تھاکہ میرے اللہ تعالیٰ نے مجھے ان کا سارا ایڈریس پہلے بتا دیا تھا۔
شادی سے پہلے مَیں اپنے بہن بھائیوں اور والدین سے کبھی ایک رات بھی جدا نہیں ہوئی تھی اور ماشاء اللہ میرے نو بہن بھائی تھے۔ سب سے بڑی پلوٹھی مَیں ہی تھی۔ اسی طرح سسرال میں بھی گھر میں ماشاء اللہ کافی افراد تھے۔ وہ سب لاہور میں رہتے تھے۔ میرے میاں کو جب کوارٹر مل گیا تو مَیں ربوہ آگئی۔مجھے یہ بھی یقین نہیں تھا کہ میرے میاں کے جانے بعد مجھے تنہا چھوڑ دیا جائے گا۔ بہرحال مَیں بہت ڈرا کرتی تھی۔ ساری رات جاگتے گذرتی۔ دوسا ل کے بعد ایک عشاء کی نماز کے بعد مَیں نے رو کر اپنے پیارے اللہ تعالیٰ سے کہا کہ مَیں تو میٹھی نیند بھی نہیں سوئی۔ میرے اللہ تعالیٰ کاپیا ر دیکھیں کہ جب مَیں چارپائی پر لیٹی تو مجھے یوں لگا جیسے مَیں بچے کو گود میں سلاتی تھی اسی طرح میرے پیارے اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنی گود میں سلایا۔ وہ اتنی میٹھی نیند تھی کہ میں بیان نہیں کرسکتی۔ اس طرح کی نیند بس کبھی کبھی آتی ہے۔پھر میں نے خواب میں حضرت رسول کریم ﷺ کو دعا کے لیے کہا کہ میرے لئے دعا کریں کہ میں اپنے میاں کے ساتھ چلی جاؤں۔ اسی طرح حضرت مسیح موعود ؑکے پاس گئی خواب میں ان کو دعا کے لئے کہا کہ جہاں صوفی صاحب ہیں مَیں ان کے پاس چلی جاؤں۔ پھر جب میرے اللہ کے نزدیک بہتر تھا، یہ واپس آئے۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے بیٹا دیا۔ پھر دوبارہ یہ تبلیغی دورہ پر مشرقی افریقہ، کینیا گئے۔ ان کے جانے کے چھ مہینے بعد اللہ تعالیٰ نے مجھے چوتھا بچہ اور تیسرا بیٹا دیا جس کی پیدائش کے ایک ہفتہ بعد مَیں ایک خطرناک نسوانی مرض میں مبتلا ہوگئی اور تین ہفتے فضل عمر ہسپتا ل میں داخل رہی۔ معجزانہ طور پر اللہ تعالیٰ نے شفا دی۔ پورے تین ہفتے کے بعد ہسپتال سے گھر آئی۔ اُن دنوں نہ ہسپتال میں کوئی لیڈی ڈاکٹر تھی، نہ اتنی سہولیات تھیں۔ تیس سال ہوچکے ہیں لیکن میری ٹانگ پر اس بیماری کا اثر اب بھی ہے۔
اس زندگی میں بہت کٹھن مرحلے اور دشوار گذار گھڑیاں بھی آئیں۔ اگر تو دنیا کی نظر سے دیکھوں تو ایک لمحہ کاٹنا بھی مشکل ہوتا تھا لیکن اپنے خدا کا پیار جو چھپا ہوتا ہے اس کے آگے یہ دنیا کی چمک دمک سب ہیچ بیکارلگتی ہے۔ اس میں مزہ تھا بلکہ اب بھی ہے جس میں میرے پیارے اللہ تعالیٰ کے پیار کی نظر مجھ پر اٹھتی ہے۔
اب کی باری یہ جدائی میرے لئے کچھ اَور مشکل محسوس ہوئی کیونکہ اب مجھ پر دومزید بچوں کی پرورش، دو کی تعلیم کا بھی بوجھ تھا۔ یہ محض اللہ تعالیٰ کا احسان تھاکہ اس نے مجھ ناچیز کی دعاؤ ں کو شرف قبولیت سے نوازا اور پھر تین سال کے بعد صوفی صاحب کو حکم ملا کہ آکر اپنے عزیزواقارب سے ملو اور اپنے اہل وعیال کو ساتھ کینیا لے جاؤ جہاں وہ اُن دنوں مبلغ انچارج اور امیر جماعت ہائے کینیا تھے۔ چنانچہ خاکسار ان کے ہمراہ جولائی 1965ء میں نیروبی پہنچی۔ وہاں کی صدر صاحبہ لجنہ نے مجھے ناصرات الاحمدیہ کی سیکرٹری بنا دیا۔ احمدی اور غیر از جماعت 27 بچے میرے پاس قرآن مجید پڑھتے تھے۔ پھر باری باری غیر از جماعت لوگوں کے گھروں میں بغرض تبلیغ بھی جاتی اور صدر صاحبہ کے ساتھ بعض احمدی گھروں میں تربیت اور اصلاح کے لئے بھی جاتی۔ بلکہ میں صدر صاحبہ کو تبلیغ کے لئے غیر احمدی گھروں میں بھی لے جاتی۔ دوسال کے بعد حضور کے حکم سے ہمیں یوگنڈا بھجوادیا گیا جہاں سارے مشرقی افریقہ کا ہمارا پہلا اور تنہا سیکنڈری سکول مشکلات سے دوچار تھا۔ اس لیے یوگنڈا میں مکرم صوفی صاحب نہ صرف یوگنڈا کی احمدی جماعتوں کے امیر ومشنری انچارج تھے بلکہ بشیر سیکنڈری سکول کے مینیجر بھی تھے۔
یوگنڈا میں جاتے ہی مجھے یوگنڈا کی صدر لجنہ اماء اللہ مقرر کردیا گیا۔ بعض اوقات یوگنڈا کی تین چار بڑی مجالس کی لجنہ اماء اللہ کے دورہ پر جاتی اور مستورات اور بچوں کی تعلیم وتربیت کا فریضہ بھی ادا کرتی۔ یہاں بھی غیر احمدی بہت سارے بچے قرآن بھی پڑھتے اور پھر ان سب کے گھروں میں باری باری تبلیغ کے لئے بھی جاتی بلکہ ساتھ اپنے میاں کو بھی لے جاتی اور پردے میں بیٹھ کر خوب تبلیغ ہوتی۔ پینسٹھ سال کی ایک احمدی عورت کو بھی قرآن پڑھایا۔ پھر بعض بچوں کے باپ پیغام بھجوادیتے کہ آپ آئیں اور فلاں فلاں مسئلہ ہماری بیوی کو سمجھائیں۔اسی طرح ایک غیر احمدی سنّی جو ہماری جماعت کا سخت مخالف تھا بلکہ وہاں کی جماعت نے مجھے بتایا کہ جب حضرت خلیفۃالمسیح الثانی ؓ فوت ہوئے تھے تو اس شخص نے مٹھائی بانٹی تھی، اتفاق کی بات ہے کہ مجھ خاکسار کے ساتھ اس کی بیوی کی دوستی ہوگئی اور آہستہ آہستہ وہ مجھ سے اس قدر متا ثر ہوئی کہ اس کے تین بچے میرے پاس قرآن مجید پڑھنے کے لئے آنے لگے۔ دو بچوں نے مکمل کر لیا اور وہ ابھی دہرائی کررہے تھے جبکہ ایک ابھی پڑھ رہا تھاکہ ان بچوں کی والدہ جو اپنی ماں کی اکلوتی بیٹی تھی فوت ہو گئی۔ وہ قریباً دس دن ہسپتال رہی اور روزانہ اس کا میاں آتا اور دعا کے لئے کہتا لیکن وہ بچاری دس دن کے بعد اللہ تعالیٰ کو پیاری ہو گئی۔ افسوس کے لئے لوگ بھی جاتے تھے، اسی طرح مَیں بھی گئی۔ حسب دستور انہوں نے سیپارے رکھے ہوئے تھے۔ جو عورت آتی اس کو سیپارہ پڑھنے کے لئے دیاجاتا۔ چنانچہ مجھے بھی دیا جو مَیں نے لے کر آرام سے پڑھ لیا۔ جب مَیں واپس رکھنے لگی تو مرنے والی کی امی نے مجھے کہا کہ یہ تو ابھی نہیں پڑھے گئے، آپ ادھر رکھیں جو پڑھے گئے ہیں۔ اس پر مَیں نے کہا مَیں احمدی مسلمان ہوں، مَیں نے تو ادھر رکھنا ہے جہاں ابھی پڑھنے والے ہیں۔ وہ کہنے لگی کہ آپ نے پڑھا نہیں؟ مَیں نے کہا یہ اللہ تعالیٰ کا کلا م ہے مَیں نے پڑھناکیوں نہیں تھا، مَیں نے پڑھ لیا ہے آپ کے سامنے لیکن میں نے اسے گنتی میں شامل نہیں کرنا کیونکہ میرے نزدیک یہ بدعت ہے۔ جس پر بہت لمبی چوڑی بحث ہوئی۔ بالآخر میں نے کہا کہ دیکھو حضرت رسول کریم ﷺ نے نہ ایساکیا نہ کروایا۔ مَیں نے جہاں تک کتابوں میں پڑھا ہے کہ جب حضرت رسول کریم ﷺ فوت ہوئے تھے تو حضرت عمر ؓ نے کہا کہ جو کہے گا کہ رسول پاکؐ فوت ہوگئے ہیں میں اس کی گردن تلوار سے اڑا دوں گا تو پھر حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے یہ آیت پڑھی وَمَامُحَمَّدٍ اِلّارَسُوْل… انہوں نے یہ نہیں کہا کہ تھاکہ آؤ سارے بیٹھ کر قرآن مجید پڑھ کر بخشیں۔ پھر مَیں نے کہاکہ یہ کلا م قرآن مجید جن پر نازل ہوا تھا (کوئی چالیس کے لگ بھگ وہاں عورتیں بیٹھی تھیں) آپ سب میں سے کوئی قسم کھا کر مجھے بتا ئے کہ سال میں کتنی مرتبہ پڑھ کر اُن کو بخشتی ہو؟ کیاوہ اس کے حقدار نہیں! تو سب عورتیں خاموش رہیں اور کسی نے بھی میری بات کا جواب نہ دیا۔ اور دوسرے کمرے سے مرنے والی کا خاوند بول اٹھاکہ بہن جی! آپ سچ کہتے ہو، یہاں تک تو میں نے بھی پڑھا ہے کہ ہمارے مولویوں نے حلوے کھانے کے لئے یہ باتیں گھڑی ہوئی ہیں۔ مَیں نے کہا کہ یہ مَیں نے ان کے لئے پڑھا ہے اور میں روزانہ پڑھتی ہوں۔ اسی طرح یہ عاجزہ ٹوٹی پھوٹی سواحیلی زبان میں افریقی مردوں اورعورتوں کو بھی تبلیغ کرنے سے گھبراتی نہیں تھی کہ میرے منہ سے کوئی غلط فقرہ نکلا تو یہ لوگ ہنسیں گے بلکہ اس قدر وہ لوگ مجھ سے متأثر تھے کہ مَیں جب کبھی باہر نکلتی، پردہ بھی خداتعالیٰ کے فضل سے پکّا کرتی اور احتراما ًوہ ادھر ادھر ہو کر راستہ دیتے کہ یہ خدا کا بندہ ہے۔ مشن ہاؤس کے پاس ایک ٹیکسی سٹینڈ تھا اور اس کے اندر سے گذر کر آگے جانا پڑتا تھا۔ ان افریقن لوگوں نے میرا نام رکھا ہو ا تھا ’’موٹویا مونگو‘‘ جو سواحیلی میں خدا کے بندے کو کہتے ہیں۔ تو اسی طرح مکرم صوفی صاحب کے لئے بھی تبلیغی مواقع پیدا کرتی۔
یوگنڈا میں مجھے سانس کی تکلیف ہو گئی جو ابھی تک بھی ہے۔ 1971ء اگست یا شاید ستمبر میں ہم حضور کے حکم سے واپس پاکستان آگئے اور ہم نے دارالعلوم غربی میں اپنا مکان بنا کر وہاں رہائش اختیا ر کرلی۔ یہاں پر صدر صاحبہ لجنہ نے تحریک جدید، وقف جدید کی سیکرٹری بنا دیا جو قریبا ًچھ سال رہی۔ پھر 1977ء میں مجھے حضرت صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ نے محلہ کی صدر بنا دیا اور نو سال تک باوجود سانس کی مستقل بیماری کے خدا تعالیٰ کے فضل سے خو ب خوب اس عہدہ کو نبھایا۔ نومبر 1986ء میں مَیں نے صحت زیادہ خراب ہونے پر خود کہہ کر انتخاب کروایا اور اسی لیے بعد میں کوئی عہدہ نہیں لیا ۔ لکھنے کو تو بہت کچھ لیکن بہت مختصر اور تھوڑا لکھ رہی ہوں۔ نہ تو اب میں نے تبلیغ چھوڑی ہے نہ میں چھوڑ سکی ہوں اور نہ اللہ تعالیٰ سے تعلق توڑ سکتی ہوں۔ خدا تعالیٰ کے فضل اور اس کی دی ہوئی توفیق سے پکا ساتھ ہے پکی دوستی ہے اللہ تعالیٰ سے جو کبھی نہیں چھوٹ سکتی۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ میری حقیر خدمات کو قبول کرے اور مجھے مزید توفیق سے نوازے۔آمین

ایک واقف زندگی کی بیوی کی ڈائری” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں