ایک کپ چائے کی خاطر!

(مطبوعہ رسالہ ’’طارق‘‘ جلد سال 1998ء، شمارہ نمبر2)

(تحریر : ناصرمحمود پاشا)

کسی چائے کے رسیا کو اگر کبھی صبح کی چائے نہ ملے تو اس کی بے تابی کی کیفیت کیا ہوتی ہے؟!

اس کا احساس گزشتہ دنوں ہمیں اس وقت ہوا جب ہمارے آبائی قصبے کے آخری ہوٹل نے بھی (ناقابل اصلاح) نادہندہ قرار دے کر ہمارے نام کا کھاتہ بند کرکے حساب فہمی کا نوٹس ہاتھوں میں تھما دیا۔ چنانچہ ہم سر جھکائے ہوئے سڑکیں ماپنے لگے اور کسی دوسرے قصبے کی طرف ہجرت کر جانے کی پلاننگ کرنے لگے۔ لیکن سچی بات تو یہ ہے کہ چائے کے بغیر منصوبہ بندی کرنا بھی حد درجہ مشکل کام ہے! اسی اثناء میں ہمارے دوست ’’ع‘‘ کے انکل ہمیں سر راہ مل گئے اور ہماری طرف یوں لپکے گویا آخری بار ملنے کا ارادہ ہو۔
کچھ ہی دیر میں ہمیں اندازہ ہوگیا کہ وہ واقعی آخری بار ملنے کے ارادے سے ہی لپکے ہیں کیونکہ انہوں نے ہمارے دوست کو اس کی غیرموجودگی میں بےنقط سنائیں۔ اول تو چائے نہ ملنے کی وجہ سے نیم غنودگی کی کیفیت ہم پر طاری تھی اور ہم اِس اچانک حملے کی وجوہات جاننے سے یکسر قاصر تھے۔ دوسرے موصوف کے دہنِ مبارک سے متواتر نکلنے والی بوچھاڑ ہمیں مسلسل پیچھے ہٹنے پر مجبور کر رہی تھی۔ بالآخر جب پسپائی اختیار کرتے کرتے ہماری پشت ایک درخت سے جاٹکرائی تو انکل موصوف بھی ہمارے غیرمتوقع صبر پر حیران ہوئے اور کہنے لگے ’’تم بھی تو اس کے دوست ہو اور آدمی اپنی صحبت سے ہی پہچانا جاتا ہے‘‘۔ ہم اب تک جو خاموشی اختیار کئے ہوئے تھے، اُن کے اِس فقرے میں پوشیدہ طنز برداشت نہ کرسکے چنانچہ چائے کے ٹوٹتے ہوئے اپنے نشے کو نفسیاتی سہارا دیتے ہوئے ہم نے غصے سے عرض کیا کہ اس مثال کے مطابق آدمی ہونا شرط اوّل ہے اور دوست ہونا شرط ثانی اور چونکہ ’’ع‘‘ سے ہمارے تعلقات کی نوعیت ان دونوں شرائط پر پورا نہیں اترتی اس لئے یہ مثال بھی ہم پر صادق نہیں آتی کیونکہ ’’ع‘‘ کے ساتھ ہمارے تعلقات ہمیشہ سے باہم خودغرضی پر مبنی رہے ہیں اور بعض وجوہات کی بنا پر ہم اس کو آدمی سمجھنے سے بھی قاصر ہیں …۔ یہ سن کر انکل واقعی خوش ہوگئے اور ہم نے ان کی خوشی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں قریبی ریستوران میں لا بٹھایا اور ان کے مسلسل انکار کے باوجود ان کی طرف سے اپنے لئے چائے کا آرڈر بھی دے دیا۔

’’ع‘‘ کے ساتھ اپنے تعلقات کی وضاحت کرتے ہوئے ہم نے انکل کو بتایا کہ ہم ہر معاملے میں اُس سے متضاد و برعکس ہیں، مثلاً یہی دیکھ لیجئے کہ برس ہا برس سے ’’ع‘‘ مختلف تھانوں کی حوالات کو رہائشگاہ کے طور پر استعمال کرتا چلا آ رہا ہے جبکہ ہم ایک لمبے عرصے سے ریلوے سٹیشن کی انتظارگاہ میں مقیم ہیں۔ پھر یہ کہ ہم سالہا سال سے مسلسل قرض اٹھا کر گزر بسر کر رہے ہیں جبکہ ’’ع‘‘ ہاتھ کی صفائی پر ایمان رکھتا ہے اور حوالات میں اس کی رہائش کی بڑی وجہ بھی اس کی یہی خوبی ہے۔
انکل سے ہمیں جلد ہی یہ معلوم ہوگیا کہ ’’ع‘‘ کے ساتھ ان کے بگڑنے کی بڑی وجہ بھی اُس کمبخت کے ہاتھ کی صفائی ہی ہے۔ ہوا یوں کہ چند روز قبل انکل پاپیادہ اپنے گھر جا رہے تھے کہ راستے میں ’’ع‘‘ سے ملاقات ہوگئی اور اس نے اپنی اشد مجبوریوں کی دردناک روداد کچھ اس طرح سے بیان کی کہ بزرگ موصوف کچھ عرصے کے لئے ایک معقول رقم ’’ع‘‘ کو بطور قرض دینے کے لئے رضامند ہوگئے۔ لیکن جب اسے معلوم ہوا کہ انکل اس وقت بنک سے اپنی پنشن لے کر آ رہے ہیں تو گھر پہنچنے سے قبل ہی اُسے اچانک ایک ضروری کام یاد آگیا اور وہ جبری الوداعی معانقہ کرنے کے لئے انکل سے لپٹ گیا اور کہنے لگا کہ ’’انکل جی! آپ سے ملنے کے بعد تو میرا سینہ ٹھنڈا اور مٹھی گرم ہوگئی ہے، اگر ضرورت باقی رہی تو قرض کی رقم کے لئے بھی حاضر ہو جاؤں گا‘‘۔ انکل نے اسے نیک دعاؤں سے رخصت کیا لیکن اُس کی کہی ہوئی بات گھر پہنچ کر سمجھ میں آئی جب انکل نے رقم نکالنے کے لئے جیب میں ہاتھ ڈالا…۔ چنانچہ اپنوں کے ہاتھوں لُٹنے کی المناک داستان سنا کر انہوں نے ایک مرتبہ پھر ’’ع‘‘ کو بری طرح کوسا اور ہم نے چائے کی چسکی لیتے ہوئے ان کا اچھی طرح ساتھ دیا۔
’’ع‘‘ کے ساتھ ہماری دوستی لڑکپن کے اس زمانہ میں ہی کھیل کے میدان میں ہوگئی تھی جب وہ پھڈے باز مشہور تھا اور اُس کی اِس خوبی کی بِنا پر ہمیشہ وہی ٹیم جیتا کرتی جس میں وہ شامل ہوتا تھا۔ ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ہر میچ میں وہ کسی ٹیم کا کھلاڑی بھی ہوتا تھا اور زبردستی ریفری کے فرائض بھی انجام دیا کرتا تھا اور ظاہر ہے ریفری کے فیصلوں کے خلاف کسی کو بولنے کی اجازت نہیں تھی۔
جب وہ بڑا ہوا تو اس نے اپنے جھگڑالوپن کو منطقی رنگ دینا شروع کردیا۔ تب نامی گرامی حکماء اور دانشوروں کی بےشمار ضرب الامثال اس کی نوکِ زبان پر رکھی رہا کرتی تھیں۔ ایک تو ’’ع‘‘ کی گرم مزاجی کے خوف سے اور دوسرے ان عظیم فلاسفروں کے ناموں کے احترام کی خاطر باقی دوست اس کے سامنے خاموشی اختیار کرنا ہی قرین مصلحت خیال کرتے تھے۔ حقیقت یہ تھی کہ بہت سے مفکرین کے اسمائے گرامی ہم نے پہلی بار ’’ع‘‘ سے ہی سنے تھے بلکہ بعض نام تو وہ یوں لیا کرتا تھا کہ وہ اپنے ہی قریبی عزیز معلوم ہونے لگتے تھے اور خوامخواہ انسیت کا تعلق قائم ہو جاتا تھا۔ برنارڈ شا کو وہ ہمیشہ سید برنارڈ شاہ صاحب کہا کرتا اور یہ امکان ظاہر کرتا تھا کہ ایسا عظیم مفکر اگر یورپ میں پیدا ہوا ہے تو یقینًا سپین کے عظیم مسلم حکمرانوں کی نسل میں سے ہی پیدا ہو سکتا ہے!!۔
’’ع‘‘ اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے نت نئی ضرب الامثال کچھ ایسے وقت تراشا کرتا کہ ہم سوچ بھی نہ سکتے تھے۔ سردیوں کی ایک شام جب وہ دوستوں سے برفی کھلانے کی شرط ہارا تو اس نے حکیم جالینوس کا یہ قول بیان کیا ’’جس طرح میرے ہاتھ کو ہاتھی سے ایک نسبت ہے اسی طرح برف کا بھی برفی سے ایک رشتہ ہے‘‘۔ چنانچہ اُس نے برفی کی بجائے برف کھلائی بلکہ حقیقت یہ ہے کہ زبردستی کھلاکے چھوڑی۔
ہاسٹل میں قیام کے دوران ’’ع‘‘ ذوق و شوق سے اذان دیا کرتا لیکن تکبیر کہنے کے لئے کسی دوسرے کو کہتا- ایک بار امام صاحب نے اس سے اس کی وجہ پوچھی تو معلوم ہوا کہ اس کے خیال میں اذان دینے والا عربی زبان میں مؤذن کہلاتا ہے جبکہ تکبیر کہنے والا متکبر- اور ظاہر ہے کہ وہ متکبر نہیں کہلانا چاہے گا۔
اسی طرح کے اقوال سن کر اگرچہ بارہا ہم پر یہ عقدہ کھلا کہ برسوں سے یونانی فلاسفروں سے لے کر یورپ کے مفکرین تک کے جو ہزارہا اقوال ’’ع‘‘ یکطرفہ طور پر ہم پر برساتا چلا آ رہا ہے وہ اکثر خودساختہ ہیں۔ لیکن اُس کے ساتھ بحث کرنا اس لئے بے کار تھا کہ اول تو اسے اپنے ہر قول کی تائید میں بھی بے شمار اقوال ازبر تھے اور دوسرے وہ اپنے مقولہ کو حرف آخر ثابت کرنے کے لئے دست و بازو سے مدد لینے میں کبھی قباحت محسوس نہیں کرتا تھا۔
یہ بھی ہمیں ’’ع‘‘ سے ہی معلوم ہوا کہ دنیا میں ’’ڈ‘‘ سے شروع ہونے والے تین پیشہ ور لوگ ہمیشہ سے معزز اور ہردلعزیز رہے ہیں یعنی ڈاکٹر، ڈاکیا اور ڈاکو۔ جب ہم نے ’’ڈاکو‘‘ کے لفظ پر نقطہ اعتراض اٹھایا تو اس نے پھولن دیوی کی مثال دی جو کبھی ڈاکو تھی اور اب اسمبلی کی منتخب رکن ہے۔ ویسے پھولن دیوی تو تیسری دنیا کی اسمبلیوں میں ان چند اراکین میں سے ایک ہے جو پہلے ڈاکو تھے اور بعد میں اسمبلی کے رکن بنے جبکہ اکثر اراکینِ اسمبلی پہلے رکن منتخب ہوتے ہیں اور پھر ڈاکو بن جاتے ہیں۔
بہرحال ذکر ہو رہا تھا ’’ع‘‘ کا۔ شیکسپئر کے ایک قول کے تحت وہ قرض کو دوستانہ تعلقات کی قینچی قرار دیتا تھا چنانچہ جب بھی ہم نے اپنی عادت سے مجبور ہوکر اس سے قرض کے لئے درخواست کی تو اس نے مندرجہ بالا مقولہ کے تحت رد کردی۔ البتہ وہ خود دوستوں سے رقم مانگنے میں بہت فیاضی کا مظاہرہ کیا کرتا تھا اور اسے بجائے قرض کے امداد اور تالیف قلوب تصور کرتا تھا چنانچہ اُس رقم کی واپسی کی کبھی نوبت نہ آتی۔
چائے کی آخری چسکی لیتے ہوئے اور چائے کا بِل انکل کے سامنے رکھتے ہوئے ہم نے عرض کیا کہ ’’ع‘‘ کی گھٹیا حرکتوں سے مجبور ہوکر اور اس کی ناقابلِ اصلاح عادات سے دلبرداشتہ ہوکر ہم نے باضابطہ طور پر اس کی دوستی سے نجات حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کی تھی لیکن اس نے یونانی فلاسفر ارسطو کا یہ قول سنا کر کہ ’’ہر نئی چیز اچھی ہوتی ہے لیکن دوستی جتنی پرانی ہو اتنی ہی زیادہ اچھی ہوتی ہے‘‘ ہماری ایک نہ چلنے دی بلکہ یہ بھی کہا کہ اسے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا ہماری دوستی اتنی پرانی ہے جیسے پچھلے جنم سے چلی آ رہی ہو۔ چنانچہ اب ہم اس جنم جنم کی دوستی کی خاطر اسے برداشت کرتے چلے آ رہے ہیں… ورنہ انکل جی! اب تو آپ خود بھی جانتے ہیں کہ وہ کس قدر بےہودہ انسان ہے!!۔
انکل نے ہماری بات کی زوردار تائید کرتے ہوئے چائے کی قیمت نکال کر بیرے کے ہاتھ پر رکھ دی اور باقی رقم احتیاط سے اپنی اندر والی جیب میں رکھتے ہوئے شک بھری نظروں سے پہلے مجھ پر نگاہ ڈالی اور پھر اپنے اطراف میں نظر دوڑائی … یقین جانیے کہ اُس روز انکل سے الوداعی معانقہ کرتے ہوئے ہم نے سوچا ’’کاش ہم بھی ان کے بھتیجے کی طرح ہاتھ کی صفائی کے فن سے آگاہ ہوتے تو انکل کے ساتھ آج کے اِس پُرزور معانقے کے بعد ہمارے مزید چند روز باعزت طور پر اپنے آبائی قصبے میں ہی گزر جاتے …‘‘
مگر اس کے ساتھ ہی ہمیں ’’ع‘‘ کا بیان کردہ فرائیڈ کا یہ مقولہ یاد آگیا کہ ’’پوری نہ ہوسکنے والی انسانی خواہشات اور آرزوئیں کسی کی زندگی کا قیمتی سرمایہ ہوتی ہیں اور اگر ساری خواہشیں پوری ہوجائیں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ اپنے قیمتی سرمائے سے کلیۃً محروم ہوگئے ہیں‘‘، اور ایسی محرومی کون چاہے گا بھلا؟!!۔

اپنا تبصرہ بھیجیں