برّصغیر کی پہلی مسلمان خاتون صحافی – محترمہ بیگم شفیع صاحبہ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 13؍ اگست 1997ء کا شمارہ پاکستان کے یوم آزادی نمبر کے طور پر شائع ہوا ہے جس میں تحریک پاکستان کی نامور مجاہدہ اور برصغیر کی پہلی مسلمان صحافی خاتون محترمہ قریشیہ سلطانہ المعروف بیگم شفیع کے بارے میں ایک تفصیلی مضمون آپ کی بیٹی مکرمہ سیدہ نسیم سعید صاحبہ کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
محترمہ بیگم شفیع صاحبہ 1898ء میں میرٹھ میں پیدا ہوئیں۔ آپ کے دادا خان بہادر غلام نبی رئیس اعظم میرٹھ تھے جو ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر، ریاست بہاولپور کے وزیر خزانہ اور وزیر اعظم رہے۔ آپ کے والد سجاد نبی قریشی باوجود تحصیلدار ہونے کے صوفی منش انسان تھے اور کثرت سے نوافل اور وظائف میں مشغول رہتے تھے۔ 16 برس کی عمر میں آپ کی شادی دہلی کے حضرت سید شفیع احمد صاحبؓ سے ہوگئی جو حضرت خواجہ میر دردؒ کے خاندان سے تھے اور حضرت مسیح موعودؑ کی حرم حضرت اماں جان کے کزن کے بیٹے تھے اور 1903ء میں قبولِ احمدیت کی سعادت حاصل کرچکے تھے۔ خاوند کے احمدی ہونے کا علم بیگم شفیع کو شادی کے بعد ہوا لیکن وہ اپنے خاوند کی نفلی عبادات ، تلاوت قرآن ا ور اعلیٰ اخلاق سے بہت متاثر تھیں۔ جب یہ بات آپ کے گھر والوں کے علم میں آئی تو انہوں نے صاف کہہ دیا کہ یہ نکاح ٹوٹ چکا ہے۔ لیکن بہت مشکلات کے بعد آپ واپس اپنے خاوند کے پاس آگئیں اور کہا کہ دونوں اپنے اپنے عقائد پر چلیں گے۔ حضرت سید شفیع احمد صاحبؓ ان دنوں پہلی احمدیہ پاکٹ بک ’’محقق‘‘ لکھ رہے تھے۔ انہوں نے بڑی حکمت سے اپنی بیوی سے کہا کہ آپ تلاوت کرتی ہیں ذرا میرے ساتھ کتاب لکھنے میں مدد کریں اور تلاوت کے دوران نبیوں پر ایمان لانے والوں اور انکار کرنے والوں کے انجام کی آیات ایک کاپی پر لکھتی جائیں۔ اس طرح بیگم شفیع احمد کے دل کی گرہیں کھلتی چلی گئیں اور آپ نے 1920ء میں احمدیت قبول کرلی۔
جب مسجد فضل لندن کیلئے چندہ کی تحریک ہوئی تو بیگم شفیع احمد نے اپنا پنچ لڑا ہار پیش کردیا۔ 18؍ اپریل 1927ء کو دہلی میں لجنہ اماء اللہ کا قیام حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ کے ذریعے ہوا تو بیگم شفیع احمد پہلی سیکرٹری مال مقرر ہوئیں۔ آپ بہت اعلیٰ مقررہ بھی تھیں۔ خواتین کے جلسہ سالانہ 1934ء میں بھی آپ کو تقریر کرنے کا موقع ملا۔ 31؍ اکتوبر 1941ء کو حضرت سید شفیع احمد ؓ وفات پاگئے تو گھریلو رئیسانہ ٹھاٹ باٹ پر نظر ڈال کر آپکے مونہہ سے بے ساختہ نکلا ’’یا اللہ اب ہمارا کیا بنے گا؟‘‘ اسی لمحے ایک جلالی آواز آپ کے کانوں میں آئی کہ ’’تیرا خدا تو نہیں مرا وہ تو ہمیشہ زندہ رہے گا‘‘۔ … پھر ایک روز آپ نے خواب میں اپنے خاوند کو دیکھا جو کہہ رہے تھے کہ آپ اخبار ’’دستکاری‘‘ جاری کریں۔ یہ اخبار 1913ء سے حضرت سید شفیع احمد صاحبؓ کی وفات تک جاری ہوتا رہا تھا۔ اس خواب کے بعد 1943ء میں بیگم شفیع احمد بھی میدان صحافت میں آگئیں اور ہفتہ وار ’’دستکاری‘‘ جاری کردیا۔ آپ کے کئی اداریوں نے نہ صرف آپ کو شہرت کی منزل پر پہنچا دیا بلکہ آپ کو دہلی کی کئی انتظامی کمیٹیوں کا ممبر بھی بنادیا گیا۔ اس سے پہلے سے آپ مسلم لیگ کی پرجوش رکن بھی تھیں۔ 1938ء میں آپ کو قائد اعظم محمد علی جناح نے مقامی شعبہ خواتین کا نگران بنادیا اور بعد میں ورکنگ کمیٹی کا ممبر بھی نامزد کردیا۔ آپ پریس کانفرنسوں اور میٹنگوں میں پردے کی رعایت کے ساتھ اور اپنے بیٹے کے ہمراہ شامل ہوتیں۔ ایک موقع پر مسز سروجنی نائیڈو نے آپ کو گلے سے لگا کر برملا اعتراف کیا کہ واقعی برقع آپ کی ترقی میں رکاوٹ نہیں بنا۔ بیگم شفیع احمد نے شملہ کانفرنس اور 1946ء میں عارضی حکومت کی افتتاحی تقریب میں بھی بطور نامہ نگار شرکت کی۔ تقسیم ملک کے بعد مسلمانوں اور قادیان کی حفاظت کے سلسلے میں بھی آپ نے جرأت کے ساتھ نمایاں خدمت انجام دی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں