حضرت سیدہ چھوٹی آپا
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 4؍ستمبر 2002ء میں حضرت سیدہ چھوٹی آپا کا ذکر خیر (مرتبہ مکرمہ سیدہ نسیم سعید صاحبہ) شامل اشاعت ہے۔
مکرم لطف الرحمن صاحب نے حضرت سیدہ کے ماتحت بارہ سال سے زائد عرصہ بطور ڈرائیور گزارا۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ آپ بہت شفیق تھیں، سفر میں دوسروں کا خاص خیال رکھتیں۔ جب کسی دورہ سے واپس آتیں تو فرماتیں ’’پہلے بچیوں کو اُن کے گھراتاریں اور پھر مجھے گھر چھوڑیں‘‘۔ اسی طرح مجھے کہا ہوا تھا کہ جب بچیوں کو رات کو گھر چھوڑنے جاؤں تو جب تک لڑکی اپنے گھر میں داخل نہ ہوجائے، گاڑی آگے نہ لے جاؤں۔
آپ کی ہدایت تھی کہ جب بھی سفر سے واپس آؤں تو آپ کو ضرور اطلاع دوں۔ ایک رات جب لاہور سے ایک بجے واپس آیا تو ڈرتے ڈرتے آپ کے گھر گیا تاکہ اطلاع دوں۔ خیال تھا کہ شاید اتنا دیر سے آنے پر ڈانٹ پڑے لیکن جب مَیں نے گھنٹی بجائی تو فوراً ہی دروازہ پر آپ تشریف لائیں اور فرمایا: خیریت سے آگئے۔ عرض کیا: جی۔ پوچھا: کھانا کھایا ہے؟۔ عرض کیا گھر جاکر کھاؤں گا۔ فرمایا: اب رات کو گھر جاکر والدہ کو تنگ کروگے۔ پھر آپ نے خود روٹی بناکر مجھے دی۔ اتنی رات گئے کسی نوکر کو بھی بے آرام نہیں کیا۔
جس روز میری دعوت ولیمہ تھی، اُس روز اچانک تیز ہوا کے ساتھ بارش آگئی۔ مَیں پریشانی کے عالم میں آپ کے پاس دفتر گیا اور لجنہ ہال میں دعوت کرنے کی اجازت چاہی۔ میری گھبراہٹ دیکھ کر آپ نے فرمایا: مَیں دعا کرتی ہوں، انشاء اللہ بارش اور ہوا رُک جائے گی، جاکر شامیانے دوبارہ لگواؤ، اب بارش نہیں آئے گی۔ چنانچہ مَیں واپس آیا تو چند ہی منٹ میں موسم بہت خوشگوار ہوچکا تھا جو ایک معجزہ سے کم نہ تھا۔
مکرم ملک سلطان احمد صاحب معلم وقف جدید بیان کرتے ہیں کہ حضرت سیدہ بہت ہمدرد اور غریب پرور تھیں۔ خاکسار نے اپنی بیٹی کی شادی کے موقع پر اُسی روز دوپہر گیارہ بجے ایک رقعہ کے ذریعہ آپ سے عرض کیا کہ آج ساڑھے تین بجے رخصتانہ ہے، اگر تشریف لاسکیں تو ہماری خوش بختی ہوگی۔ عین وقت پر آپ تشریف لے آئیں۔ آپ کو نہ صرف گھٹنے کی تکلیف تھی بلکہ آپ نے نفلی روزہ بھی رکھا ہوا تھا۔ آپ نے فرمایا کہ تکلیف میں بھی جب مَیں نے ایک واقف زندگی معلم کی بیٹی کے رخصتانہ کا پڑھا تو پھر مَیں نہیں رہ سکی۔