حضرت منشی احمد علی صاحبؓ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 24؍فروری 2003ء میں حضرت منشی احمد علی صاحبؓ آف دوالمیال کے خودنوشت حالات زندگی (مرتبہ مکرم ریاض احمد ملک صاحب) شائع ہوئے ہیں۔
حضرت منشی صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ میری پیدائش 1860ء میں دوالمیال میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم پرائمری تک رہی۔ جلد ہی قرآن کریم بھی اپنے والد مکرم محمود احمد صاحب سے پڑھ لیا اور بچپن سے ہی نماز کا عادی ہوگیا۔ پھر بھیرہ جاکر علماء اور بزرگوں سے فیض حاصل کیا۔ حصول علم کا بہت شوق تھا چنانچہ علم صرف و نحو، عربی حضرت مولوی خان ملک صاحب کھیوال ضلع چکوال سے پڑھا جو حضرت مسیح موعودؑ کے 313 صحابہؓ میں بھی شامل ہوئے۔ فقہ کی کتابیں مولوی غلام حیدر صاحب سے پڑھیں جو حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ کے رشتہ میں بھائی تھے۔ ایک دوسرے رشتہ کے بھائی مولوی غلام قادر صاحب تھے ، اُن سے بھی علم حاصل کیا۔ حضرت مولوی صاحبؓ کے مطب میں بھی مَیں بیٹھا رہتا تھا۔ آپؓ کی نصائح بہت دلچسپ اور مختصر ہوتی تھیں۔
تعلیم حاصل کرنے کے بعد کچھ عرصہ مدرس رہا پھر محکمہ پٹوار میں ملازمت کرلی لیکن اس محکمہ میں رشوت ستانی کی وجہ سے کئی ابتلاء آئے۔ ایک بار سانپ نے ڈس لیا، ایک بار ہیضہ کا شدید حملہ ہوا۔ دونوں بار صدقہ و خیرات سے بچ گیا لیکن نتیجہ اخذ کیا کہ اس کا سبب رشوت ہے۔ چنانچہ ملازمت چھوڑ کر ایک جگہ بطور منشی کام پر لگ گیا۔
1902ء میں جب موضع ڈنڈوت میں ملازم تھا ہمارے محکمہ کے افسر بالا حضرت بابو عطا محمد صاحبؓ آف جہلم معائنہ کیلئے آئے۔ اُن کی جیب میں اخبار الحکم کا پرچہ تھا جو مَیں نے لے لیا۔ اس پرچہ میں حضرت مسیح موعودؑ کی تفسیر سورۃ فاتحہ درج تھی جسے پڑھ کر بہت متأثر ہوا اور سوچا کہ اس شخص کی زیارت ضرور کرنی چاہئے۔ بابو عطا محمد صاحبؓ کا مکان دو میل دُور تھا، مَیں اُن سے کچھ مزید کتابیں اور معلومات حاصل کرتا رہا۔ انہوں نے خود پیسے دے کر میرے نام رسالہ ریویو بھی جاری کروادیا۔
پھر بیس یوم کی رخصت لے کر مَیں قادیان کے لئے روانہ ہوا۔ جب ملکوال سے امرتسر جانے والی گاڑی میں سوار ہوا تو ایک سکھ نے میرے ہاتھ میں الحکم کا پرچہ دیکھ کر حضرت مسیح موعودؑ کے بارہ میں نازیبا کلمات کہے۔ اس پر میرا اُس کے ساتھ جھگڑا ہوگیا اور لوگوں نے بیچ بچاؤ کرایا۔ امرتسر کے سٹیشن پر کئی مولوی قادیان جانے والوں کو روکنے کی کوشش کر رہے تھے۔ بٹالہ میں بھی یہی سلسلہ جاری رہا۔ تاہم مَیں قادیان کی طرف پیدل ہی چل پڑا۔ سڑک بہت خستہ اور خراب تھی۔ راستہ میں ایک جگہ درخت اور کنواں دیکھا تو وضو کرکے نماز پڑھی اور پھر آگے روانہ ہوگیا۔ درخت کے نیچے چند ملنگ قسم کے لوگ بیٹھے تھے۔ مجھ سے مقصد سفر پوچھنے کے بعد انہوں نے حیرت سے پنجابی میں کہا کہ مرزا نے بھی کمال کردی ہے کہ دنیا کے چاروں کونوں سے لوگوں کو اپنی طرف کھینچ لیا ہے۔ اس فقرے کے علاوہ اپنے سارے سفر میں مَیں نے کوئی مثبت بات نہیں سنی۔ جب قادیان کے قریب پہنچا تو ایک اینٹوں کا بھٹہ نظر آیا جس کے ساتھ ایک کنواں بھی تھا۔ مَیں نے غسل کیا، نماز پڑھی اور پھر قادیان کے بازار سے بطور تحفہ کچھ پھل خریدا۔ وہیں مجھے مولوی نجم الدین صاحبؓ آف بھیرہ مل گئے جو میرے واقف تھے، بہت خوش ہوئے اور اپنے ہمراہ مسجد مبارک میں لے آئے۔ نماز مغرب کا انتظار ہورہا تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی تشریف فرما تھے۔ جونہی میری نظر آپؑ پر پڑی میرے منہ سے نکلا: آمنا و صدقنا۔ اسی اثناء میں نماز کھڑی ہوگئی۔ نماز کے بعد نجم الدین صاحبؓ نے مجھے حضورؑ کی خدمت میں پیش کرکے میرا مدعا عرض کیا اور حضورؑ نے میری بیعت قبول فرمائی اور اپنا ہاتھ میری طرف بڑھایا۔ آج تک اُس مبارک ہاتھ کا لمس محسوس کرتا ہوں۔ بیعت کے بعد بقیہ نماز ادا کی۔
بیعت کے بعد 18؍یوم قادیان میں رہا۔ ہرنماز سے پہلے مسجد مبارک پہنچ جاتا۔ حضورؑ تشریف لاتے تو پاؤں دباتا۔ اس طرح بہت خوشی اور سکون ملتا۔ پھر حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ کی مجلس میں بیٹھا رہتا۔ بیعت کے بعد میری نماز میں خشوع و خضوع پیدا ہوگیا۔ حضورؑ کے ساتھ سیر پر بھی جاتا۔ حضورؑ چلتے تھے لیکن ہم دوڑ کر بھی حضورؑ سے مل نہیں پاتے تھے۔ جب قادیان سے واپس آیا تو میرے والدین اور چچا اور کئی دیگر افراد خاندان نے کسی حیل و حجت کے بغیر احمدیت کو قبول کرلیا۔ بعد میں بہت سے افراد میرے ذریعہ احمدی ہوئے۔
حضرت منشی احمد علی صاحبؓ نے 10؍دسمبر 1965ء کو دوالمیال میں وفات پائی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں تدفین ہوئی۔