حضرت مولانا شیر علی صاحبؓ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 2؍جولائی 1999ء میں فرشتہ سیرت حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ کا ذکرخیر کرتے ہوئے مکرم مسعود احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ احمدیہ ہوسٹل میں قیام کے دوران حضرت مولوی صاحبؓ دن بھر ترجمہ قرآن کے پروف پڑھنے میں مصروف رہتے لیکن طلبہ کی نگرانی اس طرح فرماتے جس طرح ایک شفیق باپ اپنے بچوں کی نگہداشت کرتا ہے۔ آپؓ جب بھی کمروں کے آگے گزرتے تو نگاہیں ہمیشہ نیچی رکھتے۔ لڑکے سمجھتے کہ آپؓ اپنے دھیان میں جا رہے ہیں لیکن اس استغراق کے عالم میں بھی آپؓ کو ہر لڑکے کے پورے کوائف کا علم ہوتا۔ آپؓ روزانہ نماز مغرب کے بعد مسجد میں بیٹھ جاتے اور لڑکے دینی امور کے متعلق آپؓ سے استفادہ کرتے۔ ایک روز آپؓ نے ایک طالبعلم سے جو F.Sc کا امتحان دے رہے تھے فرمایا: ’’بشیر تم نے بہت برا کیا کہ کرفیو کی وجہ سے امتحان کا پرچہ ہی دینے نہ گئے، ممتاز کی طرح تم بھی ایف،سی کالج جاکر وہاں کے ممتحن سے اجازت لے کر امتحان دے سکتے تھے‘‘۔ تمام لڑکے حیران تھے کہ آپ کو کس تفصیل سے معلوم ہے کہ کس نے امتحان نہیں دیا اور کس نے کس طرح امتحان دیا ہے۔
ایک روز حضرت مولوی صاحبؓ نے پیر محی الدین صاحب سے فرمایا کہ تمہارے ساتھ والے کمرہ میں جو دوسرے صاحب رہتے ہیں وہ پڑھائی کی طرف پوری توجہ نہیں دے رہے۔ یہ بات درست تھی کہ دوسرے صاحب کالج کی سماجی مصروفیات میں منہمک تھے ۔ جب انہیں اس بات کا علم ہوا تو وہ بہت نادم ہوئے اور اس کے بعد انہوں نے دل لگاکر پڑھنا شروع کردیا حتی کہ نمازوں کے اوقات کے سوا کمرہ سے باہر ہی نہ نکلتے۔ چند ہی روز بعد آپؓ نے پیر محی الدین صاحب سے فرمایا کہ خوشی کی بات ہے تمہارے ساتھی اب پڑھائی کی طرف خوب توجہ دے رہے ہیں۔