حضرت میاں فضل محمد صاحبؓ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 25؍اگست 2001ء میں مکرمہ صادقہ بیگم صاحبہ اپنے والد محترم حضرت میاں فضل محمد صاحبؓ ہرسیاں والے کے بعض واقعات بیان کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ آپؓ کا گاؤں ’’ہرسیاں‘‘ قادیان سے چھ میل کے فاصلہ پر تھا۔ اور آپ وہاں حکمت کا کام کیا کرتے تھے۔ 1895ء میں ایک روز آپ کے ایک گہرے دوست حضرت محمد اکبر صاحبؓ نے آپ کو بتایا کہ قادیان میں مرزا غلام احمد صاحب نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا ہے اور وہ اُن سے ملاقات کے لئے قادیان جارہے ہیں۔ چنانچہ آپؓ بھی اُن کے ہمراہ قادیان چلے گئے۔ حضورؑ اُس وقت مسجد میں تشریف فرما تھے۔ آپ کے دوست نے آپ کا ہاتھ پکڑ کر حضورؑ کے ہاتھ میں دیدیا کہ ان کی بیعت لے لیں۔ حضورؑ نے آپ کو بیعت کے الفاظ دہروادئے۔ جب آپؓ باہر نکلے تو اپنے دوست سے کہنے لگے کہ تمہارے کہنے پر مَیں نے بیعت کرلی ہے مگر دل سے ایمان اُسی وقت لاؤں گا جب خدا مجھے بتادے گا۔
کچھ عرصہ کے بعد 1896ء میں جب آپ ؓ گھوڑے پر سوار ایک جنگل میں سے گزر کر اکیلے بٹالہ جا رہے تھے تو آپ کو بڑے زور سے آواز آئی کہ قادیان والا مسیح موعود سچا ہے، اسے جاکر مان لو۔ یہی آواز تین بار آئی تو آپؓ نے آگے جانے کی بجائے اپنے گھوڑے کا رُخ اپنے دوست کے گھر کی طرف موڑ دیا۔ پھر اُسی وقت اپنے دوست کے ہمراہ دوبارہ قادیان پہنچے اور حضرت مسیح موعودؑ کے دست مبارک پر بیعت کی سعادت حاصل کی۔
دل سے بیعت کرنے کے بعد جب آپؓ گھر تشریف لائے اور اپنی بیوی کو یہ خبر دی تو وہ بالکل خاموش ہوگئیں اور کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ کچھ دن بعد انہوں نے ایک خواب دیکھا کہ ایک بزرگ نے انہیں ایک بچے کی بشارت دی ہے جو لمبی عمر والا اور فاضل ہوگا۔ انہوں نے یہ خواب آپؓ کو سنائی تو آپؓ انہیں ہمراہ لے کر قادیان پہنچے۔ قادیان پہنچ کر انہوں نے بتایا کہ خواب میں انہیں یہی جگہ دکھائی گئی تھی۔ چنانچہ وہ خود آگے آگے چلنے لگیں اور سیدھی حضور علیہ السلام کی خدمت میں پہنچیں اور بتایا کہ یہ تو وہی بزرگ ہیں جنہیں خواب میں دیکھا تھا۔ چنانچہ اُسی وقت بیعت کی سعادت حاصل کرلی۔ بعد میں خواب کے مطابق اللہ تعالیٰ نے انہیں بیٹے سے نوازا جس کا نام حضورؑ نے عبدالغفور رکھا اور بچہ کو ایک روپیہ بھی عنایت فرمایا۔ یہی بچہ بعد میں محترم مولوی عبدالغفور صاحب مولوی فاضل ہوئے، جنہوں نے لمبی عمر پائی اور ساری عمر خدمت دین کی توفیق بھی حاصل کی۔
حضرت برکت بی بی صاحبہؓ نے ایک بار خواب دیکھا کہ حضرت مسیح موعودؑ اپنے گھر میں ٹہل رہے ہیں اور حضورؑ کے ہاتھ میں ایک کتاب اور بغل میں سبز رنگ کے کپڑے کا تھان ہے۔ اتنے میں حضرت مولانا نورالدین صاحبؓ تشریف لائے تو حضورؑ نے یہ چیزیں اُن کو دیدیں اور خود تشریف لے گئے۔ حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ وہاں ٹہلنے لگ گئے کہ اتنے میں حضرت میاں محمودؓ تشریف لائے تو حضرت مولوی صاحبؓ نے یہ چیزیں اُن کے سپرد کردیں اور خود تشریف لے گئے۔
مضمون نگار بیان کرتی ہیں کہ ایک دفعہ والدہ صاحبہ ؓ نے خواب میں دیکھا کہ حضورؑ فرماتے ہیں کہ برکت بی بی! تجھے ایک خوشخبری سناؤں۔ عرض کیا: جی ہاں حضور سنائیں۔ فرمایا کہ آج سے چھ ماہ بعد اللہ تعالیٰ تجھے لڑکا دے گا اور وہ صالح ہوگا۔ چنانچہ خواب کے مطابق قریباً چھ ماہ بعد اللہ تعالیٰ نے آپؓ کو لڑکا دیا۔ حضرت میاں فضل محمد صاحبؓ نے حضورؑ کی خدمت میں نام رکھنے کی درخواست کی تو حضورؑ نے غلام محمد نام تجویز فرمایا۔ آپؓ نے عرض کی کہ حضور! یہ تو میرے بڑے بھائی کا نام ہے۔ اس پر حضورؑ نے صالح محمد نام رکھا۔ محترم صالح محمد صاحب اسم بامسمی تھے۔ واقف زندگی تھے، کافی عرصہ مغربی افریقہ میں بطور تاجر خدمت کی سعادت حاصل ہوئی۔
قادیان میں ایک بار حضرت میاں فضل محمد صاحبؓ بہت بیمار ہوگئے کہ کسی نے آپؓ کی وفات کی خبر بھی مشہور کردی۔ جب یہ بات آپؓ کے بیٹے محترم عبدالرحیم درویش صاحب کو معلوم ہوئی تو وہ کہنے لگے کہ یہ اُس وقت تک فوت نہیں ہوں گے جب تک ان کی عمر 90 سال نہ ہوجائے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ایک مرتبہ آپؓ نے خواب میں دیکھا کہ حضرت مسیح موعودؑ آپؓ سے بغلگیر ہوتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپؓ کے گھر تین بیٹے پیدا ہوں گے۔ پہلے کا نام عبدالغنی، دوسرے کا ملک غنی اور تیسرے کا پتال غنی ہوگا۔ جب یہ تینوں لڑکے پیدا ہوجائیں گے تو آپ کی عمر 45 سال کی ہوگی۔ اس کے بعد آپؓ کی آنکھ کھل گئی۔ پھر آپؓ شدید پریشانی میں حضورؑ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضورؑ بعض اصحاب کے ہمراہ مسجد میں تشریف فرما تھے۔ آپؓ نے حضورؑ کی اجازت سے خواب سنائی۔ اس پر حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ نے کہا کہ میاں فضل محمد! ایک دفعہ پھر سنائیں۔ اس پر آپؓ نے حضورؑ کی خدمت میں عرض کیا کہ حضور! مجھے غم لگا ہوا ہے اور یہ مجھے مذاق کر رہے ہیں۔ حضورؑ نے فرمایا: آپ کو کیسا غم ہے؟ عرض کی: جب تینوں بچے پیدا ہوجائیں گے تو میری عمر 45 ہوگی یعنی زندگی ختم ہوجائے گی۔ اس پر حضورؑ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ قادر ہے، وہ دوگنی کردے گا (یا کردیا کرتا ہے)۔ چنانچہ جب 1956ء میں آپؓ کی وفات ہوئی تو آپؓ کی عمر 90 سال تھی۔
حضرت مصلح موعودؓ نے نماز جنازہ پڑھائی اور آئندہ خطبہ جمعہ میں آپؓ کا ذکر بھی فرمایا۔
ایک دفعہ آپؓ کے کولہے کے اوپر ایک سخت گلٹی نکل آئی جس سے بہت تکلیف تھی۔ آپؓ نے حضورؑ کی خدمت میں اپنی حالت بیان کی۔ حضورؑ نے دو دواؤں کے نام بتائے کہ اُن کا لیپ کریں۔ جب آپؓ گھر پہنچے تو دواؤں کا نام بھول گئے لیکن حضورؑ کی دعا کی برکت سے گلٹی خودبخود نکل گئی۔
جزاک اللہ میرے داداجان کا ذکر خیر