حضرت میاں محمد مراد صاحب
1908ء میں پنڈی بھٹیاں کے حضرت میاں محمد مراد صاحب اپنے چند دوستوں کے ہمراہ آریوں اور عیسائیوں کے بعض جلسوں میں شامل ہوئے تو نتیجۃً اسلام سے متنفر ہوگئے۔ ایسے میں ایک مالدار ہندو نے انہیں ہندو ہو جانے کی صورت میں مال فوائد کا لالچ بھی دیا۔ اتفاقاً آپ کی ملاقات کسی مسلمان تحصلیدار سے ہوئی جنہوں نے آپ کے خیالات معلوم کرکے کہا کہ ’’میں تو احمدی نہیں… تم حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی کتابیں پڑھو کیونکہ اُن کے سوا کوئی بھی ایسے اعتراضات کا جواب نہیں دے سکتا‘‘۔ چنانچہ آپ نے کتب کا مطالعہ شروع کیا اور پھر ایک خواب کے نتیجہ میں اپنے بھائی اور استاد کے ہمراہ پیدل قادیان پہنچے اور حضرت خلیفہ المسیح الاوّلؓ کے دست مبارک پر بیعت کر لی۔
تبلیغ کرنے کے جرم میں آپ پر بہت ظلم کیا گیا۔ کئی بار سرِ بازار پیٹا گیا۔ بائیکاٹ کیا گیا۔ آپ کے بچوں کوپیٹا جاتا اور فقط احمدی ہونے کی وجہ سے سکول میں فیل کر دیا جاتا۔ قتل کے بھی ارادے ہوئے لیکن آپ کے پائے ثبات میں لغزش نہ آئی۔ جلد ہی مختلف مقامات پر کئی افراد آپ کے ذریعہ احمدیت کی آغوش میں آئے جن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حالات تالیف کرنے والے حضرت شیخ عبدالقادر صاحب کے علاوہ محترم مولانا دوست محمد صاحب شاہد کے والد محترم اور دو چچا بھی شامل تھے۔ ان بھائیوں کو تبلیغ کرنے پر ان کے والد نے حضرت میاں محمد مراد صاحب کو تین دفعہ زدوکوب کیا۔ بعد میں ایک دفعہ حضرت میاں صاحب نے محترم مولانا دوست محمد صاحب کے دادا سے کہا کہ آپ نے مجھے تین دفعہ پیٹا اور آپ کے تین بیٹے احمدی ہوگئے۔ آپ تین دفعہ اَور مار پیٹ کر لیں تابقیہ تین بھی احمدیت قبول کرلیں۔
حضرت میاں محمد مراد صاحب کے حالات زندگی مکرم عبدالحمید چودھری صاحب کے قلم سے روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 19؍مئی 1996ء میں شامل اشاعت ہیں۔