خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 17؍ جون 2011ء

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

اللہ تعالیٰ کا ہم احمدیوں پریہ احسانِ عظیم ہے کہ اُس نے ہمیں اس زمانے کے امام کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی۔ ایک احمدی غور کرے تو اس احسان پر تمام زندگی بھی خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرتا رہے تو پھر بھی ادا نہیں کر سکتا۔ کہتے ہیں اس وقت دنیا میں مسلمان دو ارب کے قریب ہیں۔ سب کے سامنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیشگوئی اور حکم ہے کہ چودھویں صدی میں مسیح و مہدی کا ظہور ہو گا۔ ایک اندھیرے زمانے کے بعد پھر اسلام کی نشأۃ ثانیہ کا دور شروع ہو گا۔ اس لئے جب وہ ظہور ہو، وہ نشانیاں پوری ہوں اور سب سے بڑھ کر یہ نشانی کہ چاند اور سورج گرہن رمضان کے مہینے میں مقررہ تاریخوں پر ہو تو یہ ایک ایسی نشانی ہے کہ جب سے کہ زمین و آسمان بنے ہیں یہ نشانی کبھی واقع نہیں ہوئی، تو اُس خدا کے فرستادے اور میرے عاشقِ صادق کو مان لینا۔ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔ پھر قرآنِ کریم نے وَاٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ (سورۃالجمعہ: 4) کہہ کر مزید اس طرف توجہ پھیر دی اور جس کی وضاحت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہہ کر فرما دی کہ غیر عرب لوگوں میں سے اُس کو تلاش کرنا۔ (صحیح بخاری کتاب التفسیر سورۃ الجمعۃ باب و اخرین منھم…حدیث نمبر4897)

اور آپ نے فرمایا کہ برف کے سِلوں پر بھی گھٹنوں کے بَل چل کر جانا پڑے تو جانا اور اُسے میرا سلام پہنچانا۔ پھر مسلمانوں کو خدا تعالیٰ نے ہمیشہ ہدایت پر رہنے اور ہدایت قبول کرنے کی دعائیں بھی سکھائیں لیکن اس کے باوجود اس وقت تک پانچ سات فیصد لوگوں کو ہی زمانے کے امام کو پہچاننے کی توفیق ملی۔ باوجود اس کے کہ مسلمان اِہْدِنَــــا الصِّرَاطَ المُسْتَقِیْمَ کی دعا اپنی نمازوں میں کئی بار پڑھتے ہیں۔ اور باوجود اس کے کہ جیسا کہ میں نے ابھی کہاکہ قرآنِ کریم کی پیشگوئیاں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیاں اور ارشادات سامنے ہیں، مسلمانوں کی اکثریت اس امام کو جو زمانے کا امام ہے، ماننے سے انکاری ہے۔ اور نہ صرف ماننے سے انکاری ہے بلکہ تکذیب پر شدت سے زور دے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سعید فطرت غیر مسلموں بلکہ لا مذہبوں اور اس سے بھی بڑھ کر خدا تعالیٰ کو نہ ماننے والوں کو بھی ہدایت عطا فرما رہا ہے، ہدایت کے راستوں کی طرف رہنمائی فرما رہا ہے۔ اور ان لوگوں میں سے ہر سال ہزاروں کی تعداد میں جماعت میں شامل ہوتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے نام نہاد اور مفاد پرست مُلّاؤں کے پیچھے چل کر بعض جگہ مسلمان کہلانے والوں نے امام الزمان کی دشمنی کی انتہا کی ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی ہے جو اِن لوگوں کو عقل دے۔ علماء جو نام نہاد علماء ہیں وہ تو ایسے حال پر پہنچے ہوئے ہیں کہ لگتا ہے اُن کے لئے بظاہر اصلاح کے سب ذریعے بند ہو چکے ہیں۔ لیکن وہ لوگ جو معصومیت میں یا اپنے خیال میں عشقِ رسول میں اِن کے پیچھے لگے ہوئے ہیں اُن کو اللہ تعالیٰ صحیح راستوں کی طرف ہدایت عطا فرمائے تا کہ وہ امام کو پہچانیں۔ اور جو دشمنی وہ اس زمانہ کے امام سے کر رہے ہیں، جس کی بعض جگہوں پر انتہائی حدوں کو چھؤا جا رہا ہے، اُس سے وہ باز آ جائیں اور اپنی عاقبت سنوارنے والے بن جائیں۔ کاش اِہْدِنَــــا الصِّرَاطَ المُسْتَقِیْمَ کی دعا مسلمانوں کے دل کی آواز بن کر نکلے اور مسلم اُمّت اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی وارث بنے۔ اور دنیا اِن کو بھی عزت اور تکریم کی نظر سے دیکھنے والی ہو۔

ایک جگہ اس یعنی اِہْدِنَــــا الصِّرَاطَ المُسْتَقِیْمَ کی آیت کی وضاحت فرماتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:

’’قرآن شریف نے جیسا کہ تمدن کے لئے یہ تاکید فرمائی ہے کہ ایک بادشاہ کے زیرِ حکم ہو کر چلیں۔ یہی تاکید روحانی تمدن کے لئے بھی ہے۔ اسی کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ یہ دعا سکھلاتا ہے کہ اِہْدِنَــــا الصِّرَاطَ المُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ أَنعَمتَ عَلَیْہِمْ (الفاتحہ: 6-7) پس سوچنا چاہئے کہ یوں تو کوئی مومن بلکہ کوئی انسان، بلکہ کوئی حیوان بھی خدا تعالیٰ کی نعمت سے خالی نہیں مگر نہیں کہہ سکتے کہ ان کی پیروی کے لئے خدا تعالیٰ نے یہ حکم فرمایا ہے۔ لہٰذا اس آیت کے معنے یہ ہیں کہ جن لوگوں پر اکمل اور اتم طور پر نعمتِ روحانی کی بارش ہوئی ہے ان کی راہوں کی ہمیں توفیق بخش کہ تا ہم ان کی پیروی کریں۔ سو اس آیت میں یہی اشارہ ہے کہ تم امام الزمان کے ساتھ ہو جاؤ‘‘۔ (ضرورۃالامام، روحانی خزائن جلدنمبر 13 صفحہ 494)

امام الزمان کی تعریف آپ نے یہ فرمائی کہ وہ رسول بھی ہوتے ہیں اور وہ لوگ بھی ہوتے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ دنیا کی ہدایت کے لئے مامور فرمائے۔ پس اس زمانے میں جیسا کہ میں نے کہا قرآن اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق امام الزمان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق مسیح موعود و مہدی معہود ہی ہیں جو اس زمانے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ انعام لے کر مبعوث ہوئے ہیں۔ اس لئے وہ انعام جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض سے تا قیامت جاری رہنا ہے، اب آپ کی پیشگوئیوں کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعے سے جاری رہنا ہے۔ اور جیسا کہ آپ نے فرمایا یہ مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ جُڑ کر ہی دوسروں کو مل سکتا ہے۔

آج سے چودہ سو سال پہلے جو نعمت جاری ہوئی اُس سے آپؐ کے صحابہ نے خوب فیض پایا۔ ہر وقت اس فکر میں رہتے کہ کس طرح ہم زیادہ سے زیادہ اپنے ایمانوں میں تازگی پیدا کریں۔ اِہْدِنَــــا الصِّرَاطَ المُسْتَقِیْمَ کا وِرد اُن کی زبانوں پر ہوتا تھا۔ نماز پڑھتے تھے تو ہر ہر لفظ اور دعا اُن کے دل کی گہرائیوں سے نکلتی تھی۔ ایک ایسا رشتہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے قائم فرمایا تھا جس کی مثال نہیں ملتی۔ اور پھر خدا تعالیٰ نے بھی اُن کو ایسا نوازا کہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ کا خطاب اور اعزاز انہوں نے پایا۔ پس اس نعمت کو حاصل کرنے کے لئے اور ہدایت پر قائم رہنے کے لئے صراطِ مستقیم پر ہمیشہ چلتے چلے جانے کے لئے جب ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو مانتے ہوئے اس زمانے کے امام اور مسیح و مہدی کو مانا ہے تو پھر اس سے ایسا تعلق ہمیں جوڑنا ہو گا جو ہمیں ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بنائے اور جب کہ ہم نے خود بیعت کے وقت یہ عہد کیا ہے کہ اس رشتے کو ہم سب سے سوا رکھیں گے، سب رشتوں پر فوقیت دیں گے۔ جیسا کہ دسویں شرطِ بیعت میں درج ہے۔ وہ شرط یہ ہے:

’’یہ کہ اس عاجز سے (یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے) عقدِ اخوت محض للہ باقرار طاعت در معروف باندھ کر اس پر تا وقتِ مرگ قائم رہے گا اور اس عقدِ اخوت میں ایسا اعلیٰ درجہ کا ہو گا کہ اس کی نظیر دنیوی رشتوں اور تعلقوں اور تمام خادمانہ حالتوں میں پائی نہ جاتی ہو‘‘۔ (مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ نمبر160 ایڈیشن 2003ء)

پس صرف بیعت کر کے ہم یہ نہیں سمجھ سکتے کہ ہماری اِہْدِنَــــا الصِّرَاطَ المُسْتَقِیْمَ کی دعا قبول ہو گئی یا اللہ تعالیٰ نے ہمارے بزرگوں کی اِہْدِنَــــا الصِّرَاطَ المُسْتَقِیْمَ کی دعا قبول کر لی اور ہمیں اپنے فضل سے اُن کے گھروں میں پیدا کر دیا۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں زمانے کے امام کو قبول کرنے کی توفیق عطا فرما دی، یہ کافی نہیں ہے۔ اب جب ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق اس امام کومان لیا ہے تو ہمیں آگے قدم بھی بڑھانے ہوں گے۔ بلکہ اب پہلے سے بڑھ کر اِہْدِنَــــا الصِّرَاطَ المُسْتَقِیْمَ کی دعا کی طرف توجہ کی ضرورت ہے کہ یہ عہد جو طاعت در معروف کا ہم نے باندھا ہے اس پر اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ قائم رکھے۔ ہم صراطِ مستقیم پر ہمیشہ چلتے چلے جانے والے ہوں۔ اور ہم اس قرآنی حکم پر عمل کرنے والے ہوں کہ فَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَ اَنْتُمْ مُسْلِمُوْنَ۔ پس ہرگز نہ مرنا مگر اس حالت میں کہ تم فرمانبردار ہو۔ انسان پر اگر اللہ تعالیٰ کا فضل نہ ہو تو وہ کبھی اپنی کوشش سے کامل اطاعت اور فرمانبرداری نہیں دکھا سکتا۔ اُسے پھر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا ہو گا۔ اور اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہر وقت متوجہ رکھنے کے لئے یہ دعا سکھا دی ہے۔ اور ہر نماز میں اور ہر نماز کی ہر رکعت میں یہ حکم دیا کہ اِہْدِنَــــا الصِّرَاطَ المُسْتَقِیْمَ کی دعا کو سامنے رکھو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جو ہدایت دینے والا ہے۔ اپنے نفسوں کا محاسبہ کرتے ہوئے، اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں قائم رکھتے ہوئے اس سے راہِ ہدایت پر قائم رہنے کی دعا کرتے چلے جاؤ۔ اس کے بغیر یہ بہت مشکل ہے کہ انسان کسی سے ایسا تعلق رکھے جو کسی اور خادمانہ حالت میں پائی نہ جاتی ہو۔ ایسا تعلق ہو جو کسی بھی اور رشتے میں پایا نہ جاتا ہو۔ ایسا تعلق ہو جس میں کامل اطاعت ہو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے بغیر ممکن نہیں۔ پس اللہ تعالیٰ سے ہی ہدایت چاہنے کی ضرورت ہے اور اللہ تعالیٰ سے ہی مدد چاہنے کی ضرورت ہے۔ پس اگر ہم نے زمانے کے امام کے ساتھ عہدِ بیعت کو حقیقت میں نبھانا ہے تو اِہْدِنَــــا الصِّرَاطَ المُسْتَقِیْمَ کی حقیقت کو سمجھنے کی بھی ضرورت ہے۔ اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک تڑپ کے ساتھ اس دعا کو مانگنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ اس امام کے ساتھ جُڑنے کے بعد صرف اتنا ہی کافی نہیں ہے کہ ہم نے زمانے کے امام کی بیعت کر لی اور بس۔ بلکہ پھر اُس نظام کے ساتھ بھی تعلق جوڑنا ہو گا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے قائم فرمایا ہے اور جس کا بیان آپ نے بڑی وضاحت کے ساتھ ’رسالہ الوصیت‘ میں فرما دیا کہ وہ خلافت کا نظام ہے۔

ایک شخص حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مان لیتا ہے لیکن اگر اس آئندہ آنے والی قدرت کا انکاری ہے یا طاعت در معروف کے عہد میں حیل و حجت سے کام لیتا ہے تو پھر وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ خادمانہ تعلق کو بھی توڑنے والا بن گیا ہے اور پھر اُن برکات سے بھی محروم ہو گیا ہے جو آپ کے ساتھ جُڑے رہنے سے ملتی ہیں۔ غیر مبائعین کی مثال ہمارے سامنے بڑی واضح مثال ہے۔ انہوں نے بیشک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت تو کی یا بیعت کرنے کا دعویٰ تو کیا لیکن آپ کے اس پیغام کہ خلافت کے نظام کو بھی اُسی قدرت کا تسلسل سمجھنا جو اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعے سے جاری فرمائی ہے، کو اپنے ذاتی مفاد ات کی وجہ سے نہ سمجھے یا نہ سمجھنے کی کوشش کی۔ پس خوش قسمت ہیں ہم میں سے وہ جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو قبول کرنے کے بعد پھر دوسری قدرت کے ساتھ بھی تعلقِ اخوت اور وفا کو قائم کیا۔ لیکن ایک احمدی کے لئے یہی اِہْدِنَــــا الصِّرَاطَ المُسْتَقِیْمَ کی انتہا نہیں ہے۔ جیسا میں نے کہا، محاسبہ نفس ہر وقت کرتے رہنا چاہئے۔ اِہْدِنَــــا الصِّرَاطَ المُسْتَقِیْمَ کی دعا ایک تسلسل ہے آگے بڑھتے چلے جانے کا۔ اور ہر وقت ہدایت کی راہ کی تلاش میں رہتے ہوئے اس کے لئے استقامت کی دعا کرنا ہی ایک مومن کی شان ہے۔ عام انسان جو روحانیت کے اعلیٰ مدارج پر نہیں ہے اُس کی تو ہر وقت شیطان سے لڑائی ہے، یا یہ کہہ لیں کہ باوجودنیکیاں بجا لانے کے شیطان اُس کو ورغلانے کے پیچھے لگا ہوا ہے۔ باوجود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ماننے کے، باوجود خلافت سے وفا کا تعلق جوڑنے کے، باوجود مالی قربانیوں میں حصہ لینے کے، باوجود جماعتی خدمات اور وقارِ عملوں میں حصہ لینے کے کئی لوگ ایسے ہیں جو مجھے مل کر خود اپنے منہ سے کہتے ہیں کہ نمازوں میں سست ہوں۔ اور نماز جو انسان کی پیدائش کا بنیادی مقصد ہے اُس میں اگر سستی ہے تو پھر وہ آہستہ آہستہ دوسری نیکیوں کو بھی چھڑا لیتی ہے۔ اور ایسے بھی ہیں جو بہت سی نیکیاں تو کرتے ہیں، نمازیں بھی پڑھتے ہیں لیکن اپنے گھر میں، اپنے اہل کے ساتھ سلوک میں اچھے نہیں ہیں۔ یہ بھی ہدایت کے راستے سے بھٹکنے والے لوگ ہیں۔ اِہْدِنَــــا الصِّرَاطَ المُسْتَقِیْمَ کی بیشک دعا کر رہے ہوں لیکن تمام حکموں پر عمل کرنے والے نہیں۔ کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو فرمایا ہے کہ تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنے اہل کے ساتھ اچھا ہے۔ پس ہدایت کے راستے تلاش کرنے والا ہر چھوٹی سے چھوٹی بات کو سامنے رکھ کر، اُس عشق و محبت کو سامنے رکھ کر جو ایک مومن کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ہونا چاہئے، یہ کوشش کرتا ہے کہ اُس پر چلے جس پر اللہ اور اُس کا رسول ہمیں چلانا چاہتا ہے۔ جب ہم اِہْدِنَــــا الصِّرَاطَ المُسْتَقِیْمَ کی دعا کرتے ہیں تو ہمارے پیشِ نظر وہ ٹارگٹ ہو، وہ اسوہ ہو جس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے پیش فرمایا ہے۔ جس کو آپ سے فیض پانے والے صحابہ نے ہمارے سامنے رکھ کر منعم علیہ لوگوں کا نمونہ دکھایا۔ جس کو اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے قول و فعل سے ہمارے سامنے پیش فرما کر ہمیں اندھیروں سے روشنی کی طرف جانے کے راستے دکھائے۔ جن کے ذریعے سے صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی اپنی زندگیوں میں انقلاب پیدا کرکے اعلیٰ روحانی مدارج کو حاصل کیا۔

مَیں نے گھریلو زندگی کا ذکر کیا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے صحابہ کو اپنے اھل سے اپنے گھر والوں سے حسنِ سلوک کا کس طرح ارشاد فرماتے تھے؟۔ ایک مرتبہ ایک صحابی نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں پیش ہو کر یہ بیان کیا کہ میری بیوی اپنے میکے میں اتنا عرصہ رہ کر آئی ہے اور اب میں نے ارادہ کیا ہے کہ اُسے کبھی میکے نہیں جانے دینا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اس بات کو سُن کر بڑا رنج پہنچا، بڑی تکلیف ہوئی۔ آپ کا چہرہ سرخ ہو گیا اور آپ نے کہا کہ ہماری مجلس سے چلے جاؤ کہ یہ باتیں ہماری مجلس کو گندہ کر رہی ہیں۔ اور آپ نے کافی سخت الفاظ اُنہیں فرمائے۔ پھر اُنہوں نے معافیاں مانگیں۔ ایک دوسرے صحابی جو اپنی بیوی سے زیادہ حسنِ سلوک نہیں کرتے تھے وہ بھی وہاں بیٹھے ہوئے تھے، وہ وہاں سے فوراً اُٹھ کر بازار گئے۔ بازار جا کر کچھ چیزیں بیوی کے لئے خریدیں اور گھر لے جا کر اُس کے سامنے رکھیں کہ یہ تمہارے لئے تحفہ ہیں اور بڑے پیار سے باتیں کیں۔ بیوی پریشان کہ آج میرے خاوند کو کیا ہو گیا ہے۔ یہ انقلاب کیسا ہوا ہے؟ اُس سے پوچھا کہ آج تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ مَیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجلس میں بیوی سے بدسلوکی کا بیان ہونے پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سخت تکلیف اور ناراضگی دیکھ کر آیا ہوں۔ اللہ میرے گزشتہ گناہ معاف کرے۔ جو تم سے مَیں سلوک کرتا رہا تم بھی مجھے معاف کرو اور آئندہ حسنِ سلوک ہی کروں گا۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 3 صفحہ 128-129 روایات محمد اکبر صاحبؓ)

تو یہ تبدیلی ہے جو ہدایت کے راستوں کی طرف لے جاتی ہے۔ گھریلو زندگی سے شروع ہوتی ہے۔ معاشرے میں پھیلتی ہے اور پھر دنیا میں پھیلتی ہے اور اسی بات کا آج ایک احمدی نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے عہدِ بیعت باندھا ہے۔ اور اسی سے پھر اللہ تعالیٰ کے قرب کے رشتے حاصل ہوتے ہیں۔ تو ہدایت صرف کسی مامور کو مان لینا نہیں ہے یا نظام سے وابستہ ہو جانا ہی نہیں ہے بلکہ اپنی زندگیوں کو اُس تعلیم کے مطابق ڈھالنا اور اُس پر قائم ہونا ہدایت کی اَصل ہے، بنیاد ہے۔ پس اِہْدِنَــــا الصِّرَاطَ المُسْتَقِیْمَ کی دعا صرف حقوق اللہ کی ادائیگی کے لئے نہیں ہے۔ یہ دعا صرف اپنے ایمان کی مضبوطی کے لئے نہیں ہے بلکہ حقوق العباد کی ادائیگی کے لئے بھی ہے۔ بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تو فرمایا ہے یہ دعا تمہاری زندگی کے ہر شعبے کے لئے ہے۔

یہاں آپ میں سے بھی کئی لوگ ہیں جن میں سے بعض کا مجھے علم ہے جو اپنی بیویوں پر ظلم کرتے ہیں، بعض ایسے ہیں جن کا علم نہیں ہے۔ باہر وہ بڑے اچھے ہیں، لوگوں کی نظر میں انتہائی شریف اور راہِ ہدایت پر قائم ہیں لیکن اپنے گھروں کے معاملات میں صراط ِ مستقیم سے ہٹے ہوئے ہیں۔ اپنے اہل سے حسنِ سلوک کرنا، اپنے گھر والوں سے حسنِ سلوک کرنا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص طور پر یہ بیان فرما کر کہ تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے اہل سے اچھا ہے، آخر میں اپنی مثال دی کہ مَیں تم میں سب سے زیادہ اپنے اہل سے حسنِ سلوک کرنے والا ہوں۔ (سنن ابن ماجہ کتاب النکاح باب حسن معاشرۃ النساء حدیث 1977)

یہ ایک ایسا عمل ہے جو معمولی عمل نہیں ہے۔ اس عمل کی اہمیت بتانے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مثال پیش فرمائی ہے۔

پس اِہْدِنَــــا الصِّرَاطَ المُسْتَقِیْمَ کی دعا ہر کام کو سامنے رکھتے ہوئے مومن کو کرنے کی ضرورت ہے تاکہ نیکیوں کے معیار بڑھتے چلے جائیں اور جب موت آئے تو وہ خالص فرمانبرداری کی موت ہو۔ پس ایک حقیقی مومن وہ ہے جو امام الزمان کو مان کر ہروقت اپنی نیکیوں کے معیار کو بلند سے بلند تر کرنے کی کوشش میں لگارہے۔ ہر وقت اپنے ایمان میں ترقی کے لئے کوشاں رہے۔ اللہ سے یہ دعا مانگے کہ جس صراطِ مستقیم پر تُو نے مجھے قائم فرما دیا ہے اس میں میرے قدم ترقی کی طرف بڑھیں۔ ہر وقت اس کوشش میں ہو کہ تقویٰ میں ترقی کرنے والا ہو۔ جو تقویٰ میں ترقی کرتا ہے وہ ہر وقت خدا تعالیٰ کے خوف سے لرزاں و ترساں رہتا ہے اور جس کے دل میں خدا تعالیٰ کا خوف پیدا ہو جائے وہ حقوق اللہ کی ادائیگی میں ترقی کرنے کے لئے بھی کوشش اور دعا کرتا ہے اور حقوق العباد کی ادائیگی کے لئے بھی کوشش اور دعا کرتا ہے۔ ہر وہ شخص جو اللہ تعالیٰ سے صراطِ مستقیم پر قائم رہنے کی دعا کرتا ہے وہ خدمتِ دین کی خواہش میں بھی ہر روز بڑھتا ہے اور خالص ہو کر خدمتِ دین کرنے والا ہوتا ہے۔ اور نہ صرف خواہش میں بڑھتا ہے بلکہ اس کے لئے ہر وہ عمل، ہر قدم جو اس عمل کی طرف وہ اُٹھاتا ہے جس کی خدا اور اُس کے رسول نے ہدایت فرمائی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اُٹھاتا ہے۔ پس ایک حقیقی مومن کو اُن لوگوں کی طرح نہیں بننا چاہئے جو اپنے زعم میں اپنے آپ کو نیک اور پارسا سمجھتے ہیں، جو اپنے زعم میں اپنے آپ کو کسی مقام پر پہنچا ہوا سمجھتے ہیں، یہ سمجھتے ہیں کہ اُن کو کوئی مستقل مقام مل گیا ہے یا ایسے مقام پر پہنچ گئے ہیں جہاں وہ محفوظ ہو گئے ہیں۔ جب کبھی انسان کو یہ خیال آیا چاہے وہ کتنا بھی پارسا ہو تو سمجھو کہ روحانی لحاظ سے وہ مارا گیا اور شیطان کے شکنجے میں آ گیا۔ پس ہمیشہ اپنا محاسبہ کرنا اور پھر اگلی منزل کی طرف قدم بڑھانا ہی ایک مومن کا شیوہ اور شان ہے۔ جس نے اپنے زعم میں اپنی منزل کو پا لیا۔ جماعت کی تھوڑی سی خدمت کر کے اُس پر فخر ہو گیا۔ جماعتی خدمات کو، اپنی عبادات کو کافی سمجھ کر حقوق العباد کی طرف سے توجہ پھیر لی اگر وہ کسی مقام پر پہنچا بھی ہو تو ایک وقت میں اپنے اس عمل کی وجہ سے وہ مقام کھو دیتا ہے۔ اس لئے ایک حقیقی مومن صرف اپنے آج کے نیک عمل کو نہیں دیکھتا بلکہ اپنے انجام کی طرف دیکھتا ہے اور انجام بخیر ہونے کی دعا کرتا ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ تو کسی کی قوتِ قدسی اس دنیا کے کسی انسان میں نہیں ہو سکتی۔ آپؐ کا کاتبِ وحی یا آج کل کے زمانے میں کہنا چاہئے سیکرٹری، جو نوٹس لیتے تھے، اس قدر انہوں نے قربت کا مقام پایا کہ ہر وقت وحی لکھنے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اُس کو یاد فرماتے تھے۔ یہ مقام ظاہر کرتا ہے کہ آپؐ کو اس پر اعتماد تھا، آپؐ کو اُس پر اعتبار تھا۔ دوسرے مسلمانوں کی نظر میں بھی عبداللہ بن اَبی سرح کاتبِ وحی کا مقام یقینا ہو گا کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی لکھتا ہے۔ لیکن انجام کیا ہوا؟ اُسے ٹھوکر لگی اور اپنے اہم مقام سے گرا دیا گیا۔ اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے میں بھی بعض ایسے لوگ تھے جو عشق و محبت میں بڑھے ہوئے تھے، جب ان کی بدبختی نے ان کو ٹھوکر لگائی تو وہ آپ کے اشد ترین مخالفین میں ہو گئے۔ آپ پر نہایت گندے اور گھٹیا الزام لگانے لگ گئے۔ ہر روز نئے نئے اعتراض کرنے لگ گئے۔ پس انجام بخیر ہونے کے لئے اِہْدِنَــــا الصِّرَاطَ المُسْتَقِیْمَ کی دعا بھی بہت ضروری ہے۔ اس پر غور کریں اور پڑھیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں:

’’انسانی زندگی کا مقصد اور غرض صراطِ مستقیم پر چلنا اور اس کی طلب ہے جس کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ اِہْدِنَــــا الصِّرَاطَ المُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ أَنعَمتَ عَلَیْہِمْ۔ یا اللہ! ہم کو سیدھی راہ دکھا اور اُن لوگوں کی جن پر تیرا انعام ہوا۔ یہ وہ دعا ہے جو ہر وقت ہر نماز اور رکعت میں مانگی جاتی ہے۔ اس قدر اس کا تکرار ہی اس کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے‘‘۔ (آپ فرماتے ہیں ) ’’ہماری جماعت یاد رکھے کہ یہ معمولی سی بات نہیں ہے۔ اور صرف زبان سے طوطے کی طرح ان الفاظ کا رَٹ دینا اصل مقصودنہیں ہے بلکہ یہ انسان کو انسانِ کامل بنانے کا ایک کارگر اور خطا نہ کرنے والا نسخہ ہے جسے ہر وقت نصب العین رکھنا چاہئے اور تعویذ کی طرح مدّنظر رہے‘‘۔ آپ نے فرمایا کہ اس دعا سے مخلوق کا بھی، انسان کا بھی حق ادا ہو جائے گا اور جو انسانی طاقتیں انسان کو دی گئی ہیں اُن کا بھی حق ادا ہو جائے گا۔ پھر آپ فرماتے ہیں کہ ’’غرض منعم علیہم لوگوں میں جو کمالات ہیں اور صِرَاطَ الَّذِیْنَ أَنعَمتَ عَلَیْہِمْ میں جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے اشارہ فرمایا ہے ان کو حاصل کرنا ہر انسان کا اصل مقصد ہے اور ہماری جماعت کو خصوصیت سے اس طرف متوجہ ہونا چاہئے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ کو قائم کرنے سے یہی چاہا ہے کہ وہ ایسی جماعت تیار کرے جیسی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تیار کی تھی تاکہ اس آخری زمانہ میں یہ جماعت قرآن شریف اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی اور عظمت پر بطور گواہ ٹھہرے‘‘۔ (الحکم31مارچ1905جلد 9نمبر11صفحہ5-6)

یہ بہت بڑا کام ہے۔ ایک اعزاز تو ہے لیکن بہت بڑا کام ہے، بہت بڑی ذمہ واری ہے جماعت کے ہر فرد پر کہ قرآنِ کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی اور عظمت پر ہر احمدی کو گواہ ٹھہرنا چاہئے۔

پس ہر احمدی قرآنِ کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت پر تبھی گواہ ٹھہر سکتا ہے جب اِہْدِنَــــا الصِّرَاطَ المُسْتَقِیْمَ کی دعا پڑھتے ہوئے ترقی کے مدارج طے کرتا جائے اور انعام یافتہ لوگوں کے معیار حاصل کرتا چلا جائے۔ قرآنِ کریم کی تعلیم کے ہر پہلو کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ پر عمل کرنے کی کوشش ہو۔ پس یہ مدارج حاصل کرنے کے لئے ہم نے کوشش کرنی ہے اور جب ہم یہ کوشش کریں گے تو حقیقت میں اِہْدِنَــــا الصِّرَاطَ المُسْتَقِیْمَ کے مضمون کو سمجھنے والے ہوں گے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کے مقصد کو بھی پورا کرنے والے ہوں گے۔ ورنہ یہ دعا بھی جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے طوطے کی طرح رَٹے ہوئے الفاظ ہو جائیں گے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک جگہ ہمیں نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر خدا تعالیٰ کے ساتھ معاملے میں کوئی حصہ کھوٹ کا ہو گا تو اس قدر اُدھر سے بھی ہو گا۔ یعنی اگر اللہ تعالیٰ کے ساتھ معاملے میں کھوٹ ہو گی تو اللہ تعالیٰ کھوٹ تونہیں کرتا لیکن اللہ تعالیٰ اُس کھوٹ کو سمجھتا ضرور ہے اس لئے جو تم سمجھتے ہو کہ معاملے میں کھوٹ کر جاؤ گے، دھوکہ دے دو گے، اُس دھوکہ کی وجہ سے تمہیں اجر نہیں ملے گا۔ اللہ تعالیٰ تو ہر چیز جانتا ہے۔ فرماتے ہیں ’’مگر جو اپنا دل خدا سے صاف رکھے اور دیکھے کہ کوئی فرق خدا سے نہیں ہے تو خدا تعالیٰ بھی اس سے کوئی فرق نہ رکھے گا۔ انسان کا اپنا دل اُس کے لئے آئینہ ہے۔ وہ اس میں سب کچھ دیکھ سکتا ہے۔ پس سچا طریق دُکھ سے بچنے کا یہی ہے کہ سچے دل سے اپنے گناہوں کی معافی چاہو اور وفاداری اور اخلاص کا تعلق دکھاؤ اور اس راہِ بیعت کو جو تم نے قبول کی ہے سب پر مقدم کرو کیونکہ اس کی بابت تم پوچھے جاؤ گے‘‘۔ (ملفوظات جلد 3صفحہ63 ایڈیشن 2003ء)

پس اپنے نفس کا محاسبہ ضروری ہے۔ دنیا میں اربوں مسلمان ہیں۔ اِہْدِنَــــا الصِّرَاطَ المُسْتَقِیْمَ کی دعا پڑھتے ہیں، لیکن کیونکہ طوطے کی طرح رَٹے ہوئے الفاظ پڑھنے والا معاملہ ہے اس لئے نمازوں کے بعد اُن کی فتنہ و فساد کی طرف بھی توجہ ہوتی ہے۔ بعض کے منہ سے جماعت کے خلاف مغلظات ہی نکلتی ہیں۔ مسجدوں میں کھڑے ہو کر مغلّظات ہی بکتے ہیں۔ یا آپس کے فتنوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ کیا یہ وہ صراطِ مستقیم ہے جس کی دعا سکھائی گئی ہے؟ یقینا نہیں۔ ہمارے سامنے تو اُس صراطِ مستقیم کے راستے ہیں جو جانوروں کی حرکات چھوڑ کر انسان بنانے والی تھیں۔ اور پھر تعلیم یافتہ انسان بنانے والی تھیں اور پھر وہ تعلیم یافتہ انسان باخدا انسان بنے۔ تو یہ نمونے ہمارے سامنے کوئی قصہ کہانی کے رنگ میں نہیں ہیں کہ آئے اور ہم نے قصے سن لئے اور کہانیاں سُن لیں بلکہ ہمارے سامنے یہ نمونے ہمیں عمل کرنے کی طرف توجہ دلانے کے لئے ہیں۔ اور انہی باتوں کی طرف اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمارے سے بیعت لی ہے۔ پس اس جذبے کو اپنے اندر قائم رکھتے ہوئے، قرآنی تعلیم پر عمل کر کے ہی ہم راہِ بیعت کو مقدم رکھ سکتے ہیں۔ ورنہ خدا تعالیٰ صرف اس بات پر خوش نہیں ہو گا کہ ہم اِہْدِنَــــا الصِّرَاطَ المُسْتَقِیْمَ کے الفاظ کروڑوں دفعہ پڑھتے اور دہراتے رہیں۔ بلکہ یہ کوشش اور روح کی گہرائی سے نکلے ہوئے الفاظ جو اللہ تعالیٰ سے صراطِ مستقیم پر چلنے اور قائم رہنے کی دعا اور مدد مانگ رہے ہوں گے وہ اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے والے بنیں گے۔ ورنہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا تم پوچھے جاؤ گے کہ تمہارا دعویٰ تو کچھ اَور ہے اور عمل کچھ اَور ہے۔ پس ہر دعا کے ساتھ کوشش اور نیک نیت شرط ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:

’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت: 72) جو ہماری راہ میں مجاہدہ کرے گا ہم اُس کو اپنی راہیں دکھلا دیں گے‘‘۔ فرمایا ’’یہ تو وعدہ ہے اور اُدھر یہ دعا ہے کہ اِہْدِنَــــا الصِّرَاطَ المُسْتَقِیْمَ۔ سو انسان کو چاہئے کہ اس کو مدّنظر رکھ کر نماز میں بالحاح دعا کرے‘‘۔ (بڑے الحاح کے ساتھ دعا کرو) ’’اور تمنا رکھے کہ وہ بھی اُن لوگوں میں سے ہوجاوے جو ترقی اور بصیرت حاصل کر چکے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ اس جہان سے بے بصیرت اور اندھا اُٹھایا جاوے‘‘۔ (رپورٹ جلسہ سالانہ 1897ء ازحضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ صفحہ 38-39مطبوعہ قادیان1899ء۔ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام (سورۃ الفاتحہ) جلد اوّل صفحہ 285)

پس اب جبکہ ایک لحاظ سے تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں بصیرت عطا فرما دی کہ اللہ اور اُس کے رسول کے پیغام کو سمجھ کر زمانے کے امام سے ہم جُڑ گئے ہیں، مان لیا ہے۔ لیکن جیسا کہ مَیں نے بتایا کہ ترقی کے راستے ہمیشہ کھلے ہیں اور روحانی مدارج تو ہمیشہ طے ہوتے چلے جاتے ہیں، آپ کے قدم ترقی کی طرف بڑھنے چاہئیں۔ آپ نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ جماعت میں داخل ہو کر اپنے اندر ایک تغیر قائم کرو اور وہ نظربھی آنا چاہئے۔ کسی بھی حکم کو خفّت کی نظر سے نہ دیکھا جائے بلکہ ایک ایک حکم کی تعظیم کی جائے۔ (ماخوذ ازملفوظات جلد 3صفحہ472ایڈیشن 2003ء)

پس قرآنِ شریف کے سینکڑوں احکامات کو سمجھنے اور اُن پر عمل کرنے کے لئے کوشش کی ضرورت ہے اور اس کے لئے ہر انسان خود اپنے جائزے لے سکتا ہے اور کوشش کر سکتاہے۔ اور اگر احساس ہے تو سب سے بہترین طریقہ بھی یہی ہے کہ خود اپنے جائزے لے۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ انسان کا دل آئینہ ہوتا ہے ذرا اپنے دل کے آئینے کو صاف کر کے اس میں اپنے چہرے دیکھیں، اس میں اپنے دلوں کی کیفیت دیکھیں تو ہر ایک کو اُس کے اندر کی کیفیت نظر آ جائے گی۔ دوسروں پر اعتراض ختم ہو جائیں گے اور اپنی اصلاح کی طرف ہی توجہ پیدا ہوتی چلی جائے گی۔ اور خود اِہْدِنَــــا الصِّرَاطَ المُسْتَقِیْمَ کو سمجھ کر پڑھنے کی طرف توجہ ہوگی۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ یہ اندرونی جائزے کی تبدیلی ہے جو میں جماعت میں چاہتا ہوں۔ پس یہ جائزے ہمیں عہدِ بیعت اور ہماری ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے رہیں گے۔ جیسا کہ ذکر ہوا ہے کہ حقیقی مومن وہ ہے جو ایمان میں ترقی کے لئے کوشاں ہے۔ اب مومن ہونے کے جو معیار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مقرر فرمائے ہیں وہ بھی بیان کر دیتا ہوں۔ آپ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:

’’جب تک کسی کے پاس حقیقی نیکیوں کا ذخیرہ نہیں ہے‘‘ (ایک دو نیکیاں نہیں حقیقی نیکیوں کا ذخیرہ نہیں ہے) ’’تب تک وہ مومن نہیں ہے۔ اسی لئے خدا تعالیٰ نے سورۃ فاتحہ میں اِہْدِنَــــا الصِّرَاطَ المُسْتَقِیْمَ کی دعا تعلیم فرمائی ہے کہ انسان چوری، زنا وغیرہ موٹے موٹے برے کاموں کو ترک کرنا ہی نیکی نہ جان لے‘‘۔ (بڑے بڑے گناہ جو ہیں ان کو نہ کرنا ہی نیکی نہ جان لو) ’’بلکہ صِرَاطَ الَّذِیْنَ أَنعَمْتَ عَلَیْہِمْ۔ فرما کر بتلا دیا کہ نیکی اور انعام ایک الگ شے ہے۔ جب تک اُسے حاصل نہ کرے گا تب تک نیک اور صالح نہیں کہلائے گا۔ دیکھو خدا تعالیٰ نے یہ دعا نہیں سکھلائی کہ تُو مجھے فاسقوں اور فاجروں میں داخل نہ کر اور اس پر بس نہیں کیا۔ بلکہ یہ سکھلایا کہ انعام والوں میں داخل کر‘‘۔ (البدر 10جنوری 1905نمبر1جلد4صفحہ3۔ تفسیر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام (سورۃ الفاتحہ) جلد اول صفحہ 287)

پس جیسا کہ مَیں نے کہا صرف ایک آدھ نیکی نہیں بلکہ ایک حقیقی مومن کا کام ہے کہ حقیقی نیکیوں کا ذخیرہ جمع کرے اور یہ حقیقی نیکیوں کا ذخیرہ اللہ تعالیٰ اور بندوں، دونوں کے حقوق ادا کرنے سے ہی ملتا ہے۔ قرآنِ کریم کے احکامات پر عمل کرنے سے ہی حاصل ہو سکتا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:

’’یقینا سمجھو کہ ہر ایک پاکبازی اور نیکی کی اصلی جڑ خدا تعالیٰ پر ایمان لانا ہے۔ جس قدر انسان کا ایمان باللہ کمزور ہوتا ہے اسی قدر اعمالِ صالحہ میں کمزوری اور سستی پائی جاتی ہے۔ لیکن جب ایمان قوی ہو اور اللہ تعالیٰ کو اس کی تمام صفاتِ کاملہ کے ساتھ یقین کر لیا جائے اُسی قدر عجیب رنگ کی تبدیلی انسان کے اعمال میں پیدا ہو جاتی ہے۔ خدا تعالیٰ پر ایمان رکھنے والاگناہ پر قادر نہیں ہوسکتا‘‘۔ (اگر خدا تعالیٰ پر حقیقی ایمان ہے تو پھر یہ یقینی بات ہے کہ وہ گناہ نہیں کرے گا) ’’کیونکہ یہ ایمان اس کی نفسانی قوتوں اور گناہ کے اعضاء کو کاٹ دیتا ہے۔ دیکھو اگر کسی کی آنکھیں نکال دی جائیں تو وہ آنکھوں سے بدنظری کیونکر کر سکتا ہے‘‘ (آنکھیں ہی نہیں تو بدنظری کیا کرنی ہے) ’’اور آنکھوں کا گناہ کیسے کرے گا۔ اور اگر ایسا ہی ہاتھ کاٹ دئیے جائیں، شہوانی قُویٰ کاٹ دیئے جائیں پھر وہ گناہ جو ان اعضاء سے متعلق ہیں کیسے کرسکتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح پر جب ایک انسان نفسِ مطمئنّہ کی حالت میں ہوتا ہے تو نفسِ مطمئنّہ اُسے اندھا کردیتا ہے اور اس کی آنکھوں میں گناہ کی قوت نہیں رہتی۔ وہ دیکھتا ہے پر نہیں دیکھتا کیونکہ آنکھوں کے گناہ کی نظر سلب ہو جاتی ہے۔ وہ کان رکھتا ہے مگر بہرہ ہوتا ہے اور وہ باتیں جو گناہ کی ہیں نہیں سُن سکتا۔ اسی طرح پر اس کی تمام نفسانی اور شہوانی قوتیں اور اندرونی اعضاء کاٹ دیئے جاتے ہیں۔ اُس کی ساری طاقتوں پر جن سے گناہ صادر ہو سکتا تھا ایک موت واقع ہو جاتی ہے اور وہ بالکل ایک میّت کی طرح ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ ہی کی مرضی کے تابع ہوتا ہے۔ وہ اس کے سوا ایک قدم نہیں اُٹھا سکتا۔ یہ وہ حالت ہوتی ہے جب خدا تعالیٰ پر سچا ایمان ہو اور جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کامل اطمینان اُسے دیا جاتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جو انسان کا اصل مقصود ہونا چاہئے‘‘۔ فرمایا ’’اور ہماری جماعت کو اس کی ضرورت ہے۔ اور اطمینانِ کامل کے حاصل کرنے کے واسطے ایمانِ کامل کی ضرورت ہے‘‘۔ فرماتے ہیں ’’پس ہماری جماعت کا پہلا فرض یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ پر سّچا ایمان حاصل کریں‘‘۔ (ملفوظات جلد 3صفحہ504 ایڈیشن 2003ء)

صرف مان لینا کافی نہیں یہ ایمان کی کیفیت ہے جو ہمیں حاصل کرنی ہے۔ پس یہ وہ معیار ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہم میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ اللہ کرے کہ ہم اپنی زندگیوں میں پاک تبدیلیاں پیدا کرتے ہوئے یہ معیار حاصل کرنے والے بنیں۔ اللہ تعالیٰ سے قرب کے تعلق میں بڑھنے والے ہوں۔ جس ہدایت پر اللہ تعالیٰ نے قائم فرمایا ہے، جو احسان ہم پر فرمایا ہے اُس انعام اور احسان کے شکرانے کے طور پر اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پیروی میں ترقی کرتے چلے جانے والے بنیں۔ اپنی نسلوں میں احمدیت کے نام کو جاری رکھنے کے لئے اپنی کوششوں اور دعاؤں میں کبھی سست نہ ہوں۔ اِن ملکوں میں جو دنیاوی آسائشیں ہیں یہ کبھی ہمیں اپنے مقصد کے حصول سے ہٹانے والی نہ بنیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں