سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی سیرۃ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے سیدنا طاہر نمبر میں حضورؒ کی چند حسین یادیں بیان کرتے ہوئے مکرم چودھری محمد ابراہیم صاحب رقمطراز ہیں کہ 1979ء میں جب حضورؓ مجلس انصاراللہ کے صدر بنے تو سب سے پہلے حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کے خطبات کی کیسٹس تیار کرنے کے نظام کو عملی جامہ پہنانے پر زور دیا اور اس کے لئے یورپ سے کیسٹس کی کاپیاں جلدی تیار کرنے والے Duplicator منگوائے۔
حضورؓ انتھک محنت کے عادی تھے۔ 1980ء میں ملتان میں ایک مجلس سوال وجواب تھی جس کے لئے ربوہ سے روانہ ہوکر حضورؓ مغرب سے کچھ پہلے ملتان پہنچ گئے۔ رات گیارہ بجے مجلس ختم ہوئی تو سونے سے پہلے فرمایا کہ صبح آٹھ بجے بہاولپور کے لئے نکلنا ہے۔ صبح جب سفر شروع کیا تو راستہ میں مضمون نگار کی خواہش پر ان کی زرعی زمین پر کچھ دیر ٹھہرے اور دعا کی اور پھر روانہ ہوکر لودھراں میں ایک گاؤں میں مجلس سوال و جواب کا پروگرام تھا۔ وہاں کھانا کھاکر شہر پہنچے تو وہاں بھی مجلس سوال و جواب کا پروگرام تھا۔ جس کے بعد روانہ ہوکر بہاولپور پہنچے تو نمازوں کی ادائیگی اور کھانا کے بعد مجلس سوال و جواب منعقد ہوئی۔ رات گیارہ بجے جب مجلس ختم ہوئی تو ساتھ جانے والوں کا خیال تھا کہ رات وہیں بسر ہوگی لیکن حضورؒ نے فرمایا کہ مجھے فوراً ربوہ پہنچنا ہے کیونکہ صبح آٹھ بجے فضل عمر فاؤنڈیشن کی میٹنگ ہے۔ چنانچہ ساری رات خود ڈرائیونگ کرتے ہوئے حضورؒ صبح فجر کی اذان کے وقت ربوہ پہنچے۔ گھر سے وضو کرکے نماز کے لئے تشریف لے آئے۔ نماز کے بعد گھر پر گئے تو ناشتہ یا آرام کیا ہوگا لیکن ٹھیک آٹھ بجے میٹنگ میں تشریف لے آئے اور دو تین گھنٹے کی میٹنگ کے بعد دفتر میں تشریف لے آئے اور دفتر بند ہونے کے بعد کسی وقت گھر تشریف لے گئے۔
حضورؒ کی قبولیت دعا کے حوالہ سے مضمون نگار لکھتے ہیں کہ آپؒ کو خلیفہ بننے سے قبل بھی بعض لوگ دعا کے لئے لکھتے تھے۔ اگر کبھی کوئی ’’سیدی‘‘ کا لفظ لکھ دیتا تو ناپسند فرماتے اور سمجھاتے کہ یہ لفظ صرف خلیفہ وقت کی ذات کو زیب دیتا ہے۔ بہاولپور کے ایک دوست حکیم محمد افضل صاحب نے ایک بار لکھا کہ اُن کو ایک باؤلے کتے نے کاٹ لیا ہے جس سے بہت پریشانی ہے۔ حضورؓ نے جواباً لکھا کہ اللہ تعالیٰ فضل فرمائے گا اور آپ کو کتنے کے کاٹنے سے ہرگز کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ یہ دوست اب بھی زندہ ہیں۔
مکرم چودھری غلام احمد صاحب مرحوم سابق امیر جماعت بہاولپور محکمہ آبپاشی میں ریونیو آفیسر تھے۔ بہاولپور میں ایک مجلس سوال و جواب کا اہتمام کیا گیا تو محکمہ آبپاشی کے چیف انجینئر کو مہمان خصوصی بنایا گیا۔ جب حضورؒ سے اُن کا تعارف ہوا تو حضورؒ نے آبپاشی کے بارہ میں باتیں شروع کیں۔ کچھ ہی دیر میں چیف انجینئر صاحب گھبراگئے تو حضورؒ نے اُن کی حالت کا اندازہ کرکے مجلس سوال و جواب شروع کردی۔ اگلے روز چیف انجینئر صاحب نے مکرم چودھری صاحب کو بلاکر کہا کہ مَیں تو سمجھا تھا کہ ربوہ سے تمہارا کوئی مولوی آئے گا لیکن وہ صاحب تو علم کا کوئی سمندر تھے، مَیں محکمہ میں رہ کر وہ کچھ نہیں جانتا جو وہ جانتے تھے۔
احباب کی دلداری کے حوالہ سے یہ واقعہ بہت اہم ہے کہ حضورؒ کی زمینوں پر کام کرنے والے محمد سلیم صاحب کی بچی کی شادی اُن کے ڈیرہ پر تھی۔ انہوں نے اُس روز حضورؒ سے نکاح پڑھانے کی درخواست کی۔ اُسی روز ضلع سرگودھا میں انصاراللہ کا ایک پروگرام بھی تھا۔ دونوں پروگراموں میں شرکت کا مصمم ارادہ کرکے حضورؒ گھر سے نکلے تو بارش کا سماں ہونے کی وجہ سے ہاتھ میں چھتری تھی۔ ڈیرہ پر پہنچنے کے لئے کافی دور پیدل کچے راستہ پر جانا پڑتا تھا۔ ہم احمدنگر پہنچے تو بارش شروع ہوگئی۔ حضورؒ نے کپڑے کس لئے اور چھتری تان کر ڈیرہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ وہاں پہنچ کر نکاح پڑھایا، مبارکباد دی اور کھانا کی پیشکش پر فرمایا کہ اس پر وقت لگے گا اور انصاراللہ کا پروگرام متأثر نہ ہوجائے۔ اس لئے اسی وقت واپس تشریف لے آئے اور پھر انصاراللہ کے پروگرام میں شرکت کے لئے روانہ ہوگئے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں