سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی سیرۃ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے سیدنا طاہر نمبر میں حضورؒ کی سیرت مبارکہ کے چند روشن پہلو مکرم عطاء المجیب راشد صاحب کے قلم سے پیش کئے گئے ہیں۔
جب حضورؒ نے ہجرت فرمائی تو لندن تشریف لانے پر بی بی سی والوں نے انٹرویو کے لئے رابطہ کیا اور کہا کہ اُن کے پروگرام ’’سیربین‘‘ کا کُل دورانیہ بارہ منٹ ہے جس میں سے تین چار منٹ وہ حضورؒ کو دے سکیں گے۔ حضورؒ کی خدمت میں اُن کا پیغام پہنچایا گیا تو فرمایا کہ اُن سے معذرت کردیں۔ لیکن اگلے ہی روز انہوں نے دوبارہ فون کرکے کہا کہ انہوں نے بہت غور کے بعد فیصلہ کیا ہے کہ اگر حضرت مرزا صاحب انٹرویو کے لئے تیار ہوجائیں تو ہم سارا وقت انہیں دیدیں گے۔ جب مَیں نے حضورؒ کی خدمت میں یہ پیغام پہنچایا تو آپؒ مسکرائے اور فرمایا کہ میرا بھی یہی خیال تھا کہ وہ اتنا وقت دیں تو ٹھیک ہے۔ چنانچہ اگلے ہی روز وہ مسجد فضل لندن پہنچے اور حضورؒ سے ملاقات ہوئی۔ وہ کہنے لگے کہ اگر حضورؒ انٹرویو کے لئے بی بی سی کے سٹوڈیوز میں آسکیں تو ریکارڈنگ کا معیار بہت اچھا ہوگا۔ حضورؒ نے بلاتأمل یہ درخواست منظور فرمالی۔ پھر انہوں نے اپنے تیار شدہ کچھ سوالات حضورؒ کو بتائے جو وہ پوچھنا چاہیں گے۔ حضورؒ کے ارشاد پر وہ سوالات مَیں نے نوٹ کرلئے اور اگلے روز صاف لکھ کر حضورؒ کی خدمت میں پیش کئے۔ حضورؒ نے ایک نظر ڈالی اور کاغذ واپس مجھے دیدیا۔ بعد دوپہر سٹوڈیوز پہنچے تو ریڈیو کے نمائندگان نے استقبال کیا۔ ایک افسر نے کہا کہ وہ حضورؒ کا انگریزی میں انٹرویو بھی کرنا چاہیں گے۔ حضورؒ نے فرمایا کہ چلیں پہلے انگریزی ہی ہوجائے۔ چنانچہ بیس منٹ کا انگریزی انٹرویو فی البدیہہ ریکارڈ کرواکر حضور اردو انٹرویو کے لئے تشریف لے آئے۔ جب انٹرویو شروع ہوا تو سارے سوالات نئے تھے جو گزشتہ روز نہیں بتائے گئے تھے۔ لیکن حضورؒ نے جس طرح برجستہ اور نپے تلے جوابات دیئے انہیں سن کر خدا کا بہت شکر کیا۔ انٹرویو کے بعد روانہ ہونے لگے تو مجھ سے فرمایا کہ کل والے سوالات یاد ہیں۔ مَیں نے عرض کیا کہ اُن میں سے ایک سوال بھی نہیں پوچھا، سارے نئے سوال تھے۔ حضورؒ نے فرمایا: ’’بالکل ایسے ہی ہوا ہے لیکن مَیں بہت خوش ہوں کہ اس نے یہ نئے سوالات پوچھے ہیں۔ دراصل مَیں یہی چاہتا تھا کہ وہ مجھ سے یہ سوالات پوچھے جو اس نے آج پوچھے ہیں‘‘۔ مَیں حیران رہ گیا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے آپؒ کو اپنی غیرمعمولی تائید و نصرت سے نوازا ۔
حضورؒ بے حد شفیق اور بچوں پر خاص طور پر مہربان تھے۔ بچے بھی حضورؒ سے بہت محبت کرتے اور بے تکلّفی سے اپنی باتیں عرض کیا کرتے۔ احمدیت کی دوسری صدی کے آغاز پر جماعت برطانیہ نے ایسے غبارے بھی تیار کروائے جن پر جوبلی کا لوگو طبع کیا گیا تھا۔ اُن دنوں حضورؒ نماز عصر کے بعد مسجد سے اپنے دفتر جانے لگے تو راستہ میں ایک چھوٹا بچہ ملا جس نے ہاتھ اٹھاکر حضورؒ کو سلام کیا۔ حضورؒ نے سلام کا جواب دیا تو اُس نے بے تکلّفی سے پوچھا کہ حضورؒ! آپ کے پاس غبارہ ہے۔ حضورؒ نے فرمایا: ہاں میرے پاس ہے۔ اُس نے کہا: کیا مَیں ایک غبارہ لے سکتا ہوں۔ حضورؒ نے فرمایا: ہاں۔ پھر بچہ حضورؒ کی انگلی پکڑ کر حضورؒ کے ساتھ ہی دفتر میں آیا۔ حضورؒ نے اُسے ایک غبارہ اور دو چاکلیٹ دیئے تو اُس نے معصومیت سے کہا: حضور! کیا آپ اس میں ہوا بھی بھر سکتے ہیں؟۔ تب حضورؒ نے ازراہ تلطف غبارہ میں ہوا بھری اور ایک دھاگہ سے باندھ کر اُسے دیدیا۔
بوسنیا کے مظلوم مہاجروں کی ایک بڑی تعداد جب دوسرے ممالک میں پہنچی تو حضورؒ کی ہدایت پر احمدیوں نے ہر جگہ اُن کی دل کھول کر مدد کی۔ شروع کے دنوں میں لیوٹن سے بوسنین مردوں کا ایک وفد مسجد آیا۔ اُن میں سے اکثر کے جسم پر موسم کے مطابق گرم کپڑے بھی نہیں تھے اور بعض کے زخم بھی تازہ تھے۔ جب حضورؒ کے دفتر میں اُن سے حضورؒ کی ملاقات ہوئی تو حضورؒ نے ان سب کو گلے سے لگایا اور بہت شفقت سے نصائح فرمائیں۔ پھر سب کو نقد تحفہ عطا فرمایا اور پھر فرمایا: آپ بیٹھیں، مَیں ابھی آتا ہوں۔ یہ کہہ کر حضورؒ اپنی رہائشگاہ میں تشریف لے گئے اور کچھ دیر بعد اپنے قیمتی گرم کپڑوں کا ڈھیر اٹھاکر وہاں تشریف لائے۔ پھر دوبارہ گئے اور ایک اَور ڈھیر لے کر آئے۔ حضورؒ کے ایک داماد اور اُن کے بچوں نے بھی مزید کپڑے لانے میں حضورؒ کی مدد کی۔ حضورؒ نے یہ نہایت اعلیٰ اور قیمتی کپڑے ان مظلومین میں تقسیم فرمائے۔ یہ بوسنین بھیگی آنکھوں کے ساتھ حضورؒ کا شکریہ ادا کر رہے تھے لیکن حضورؒ گویا شکریہ کے الفاظ سننا ہی نہیں چاہتے تھے۔ پھر حضورؒ نے دوبارہ سب کو گلے سے لگایا اور دعاؤں کے ساتھ رخصت کیا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں