صحابہؓ حضرت مسیح موعودؑ اور قبولیت دعا
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: ’’دعاؤں میں بلاشبہ تاثیر ہے، اگر مُردہ زندہ ہوسکتے ہیں تو دعاؤں سے اور اگر اسیر رہائی پاسکتے ہیں تو دعاؤں سے اور اگر گندے پاک ہوسکتے ہیں تو دعاؤں سے مگر دعا کرنا اور مرنا قریب قریب ہے‘‘۔ (لیکچر سیالکوٹ)۔
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 11؍جنوری اور 22؍ مارچ 2002ء میں مکرم عطاء الوحید باجوہ صاحب نے اپنے مضمون میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اصحابؓ کے قبولیت دعا کے واقعات قلمبند کئے ہیں۔
حضرت منشی محمد اسماعیل صاحبؓ کے ماموں چودھری محمد بخش صاحب پر گورنمنٹ نے ایک مقدمہ کردیا۔ ڈپٹی کمشنر خلاف تھا اور ذاتی دلچسپی لے کر ان کو سزا دلوانے کا خواہشمند تھا۔ ملزموں میں ایک ہندو سیٹھ بھی شریک تھا۔ آپؓ نے ان کے لئے دعا کی تو آواز آئی کہ ہم اس کو اپنی رحمت میں لے لیں گے۔ چنانچہ منشی صاحبؓ نے یہ الہام بہت سے لوگوں کو سنایا۔ جب فیصلہ سنایا گیا تو ہندو سیٹھ کو چھ سال قید اور چھ ہزار روپے جرمانہ کی سزا ہوئی جبکہ چودھری صاحب کو چھ ماہ قید اور چھ سو روپے جرمانہ کی سزا ہوئی۔ حضرت منشی صاحبؓ کو اس کی اطلاع ملی تو آپؓ سجدے میں گر گئے اور رو رو کر اللہ تعالیٰ سے عرض کیا کہ تُو جانتا ہے کہ یہ بات مَیں نے اپنی طرف سے نہیں بنائی ، پھر ان کو سزا کیسے ہوگئی؟۔ ابھی آپؓ سجدہ میں ہی تھے کہ اطلاع آگئی کہ چودھری صاحب کی ضمانت ہوگئی ہے۔ پھر اپیل کی گئی تو چودھری صاحب بری ہوگئے اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے ہر سزا سے محفوظ رکھا۔
جب حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ اور مکرم قاضی محمد عبداللہ صاحبؓ (سابق مبلغ امریکہ) نے 1914ء میں بی۔اے کا امتحان دیا تو حضرت منشی محمد اسماعیل صاحبؓ کو بھی دعا کے لئے کہا۔ آپؓ نے دعا کی تو دیکھا کہ ایک شخص نے ایک چھوٹا سا گول شیشہ پکڑا ہوا ہے اور کہتا ہے کہ میاں کا پاس ہونا تو اتنا مشکل ہے جتنا اس سوراخ سے گزرنا مگر ہم میاں کو پاس کردیں گے اور قاضی صاحب کے متعلق پھر دیکھا جائے گا۔ جب حضرت میاں صاحبؓ کو یہ خواب سنائی گئی تو انہوں نے فرمایا کہ میرا ایک پرچہ اتنا خراب ہوگیا ہے کہ کوئی عقلمند مجھے اس میں پاس نہیں کرسکتا ۔ لیکن جب نتیجہ نکلا تو آپؓ پاس ہوگئے اور قاضی صاحب کی کمپارٹ آگئی۔
حضرت مولوی غلام رسول راجیکی صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ غازیکوٹ ضلع گورداسپور کے رئیس چودھری نتھے خانصاحب ایک مخلص احمدی تھے۔ انہوں نے وہاں ایک جلسہ کا انتظام کیاجو دوپہر کے بعد شروع ہونا تھا۔ غیراحمدیوں نے اُسی روز صبح کے وقت جلسہ کا پروگرام بنالیا اور حسب روایت اُس میں فحش گوئی اور دشنام دہی شروع کردی۔ ابھی چند ہی منٹ گزرے تھے کہ ایک زوردار آندھی چلی جس نے اُن کے جلسہ کا سائبان اور قناتیں اکھاڑ پھینکیں اور اُن کی شکلیں مٹی سے ایسی اَٹ گئیں کہ دکھائی نہ دیتی تھیں۔ دوپہر کے بعد جب ہمارا جلسہ شروع ہونا تھا تو آندھی اُس وقت تک چل رہی تھی۔ مَیں نے حاضرین کو ساتھ ملاکر دعا کی کہ اللہ تعالیٰ آندھی کے ذریعہ ہمارے اور ہمارے دشمنوں میں فرق ظاہر فرمادے۔ ابھی دعا جاری تھی کہ یکدم آندھی رُک گئی اور باد نسیم میں تبدیل ہوگئی اور جلسہ بخیروخوبی منعقد ہوا۔
مولوی رحمت علی صاحبؓ نے 1902ء میں حضرت مسیح موعودؑ کے دست مبارک پر بیعت کی سعادت حاصل کی۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ دریائے بیاس کے پار راجپورہ میں حضرت مصلح موعودؓ نے مجھے گزارہ کے لئے کچھ زمین دے رکھی تھی۔ ایک روز مَیں ایک من آٹا سر پر رکھے واپس آرہا تھا کہ راستہ میں ہی اندھیرا چھاگیا۔ میرے ساتھ ایک شخص اَور بھی تھا۔ جب ہم دریا پر پہنچے تو اس میں سیلاب کی صورت پیدا ہوچکی تھی لیکن اندھیرے کی وجہ سے اندازہ نہ لگ سکا۔ جب ہم دریا میں داخل ہوئے تو میرے پاس بوجھ تھا اور پانی کی رفتار کافی تیز تھی۔ اچانک تیز ریلا آیا۔ وہ شخص جوں توں پار کر گیا لیکن مَیں بہتا ہوا دُور تک چلا گیا۔ وہاں ایک بہت بُرا گڑھا تھا جس میں جب مَیں داخل ہوگیا تو سامنے موت نظر آنے لگی اور مجھے اپنی موت کا اتنا یقین ہوگیا جتنا سامنے چمکتے ہوئے سورج کا ہوسکتا ہے۔ مَیں نے درددل سے اپنے مولا سے فریاد کی کہ چھوٹے چھوٹے بچے ہیں، ان کی ماں بھی کوئی نہیں، ان کا کیا بنے گا، مجھ پر رحم فرما۔ تب مَیں نے یکدم محسوس کیا کہ اس خوفناک جگہ میں سے کسی طاقتور وجود نے مجھے اوپر اٹھالیا ہے اور اُس جگہ لاکر کھڑا کردیا جہاں میرے قدم زمین پر لگ گئے اور مَیں بحفاظت کنارہ پر آگیا۔ جو دوسرا آدمی میرے ساتھ تھا اُس نے گاؤں پہنچ کر مشہور کردیا کہ مجھے پانی بہاکر لے گیا ہے اور یقینا مَیں ڈوب چکا ہوں۔ اُس کی بات حالات کے پیش نظر بالکل سچی تھی۔ لوگ دریا کے گڑھے کی طرف بھاگے کہ شاید میری لاش پکڑی جاسکے۔ اتنے میں مَیں بھی اُن کے پاس پہنچ گیا۔
حضرت مولوی رحمت علی صاحبؓ ایک واقعہ یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ ایک بار گاڑی میں سفر کرتے ہوئے آپؓ کی آنکھ لگ گئی اور آپؓ دو سٹیشن آگے نکل آئے۔ ٹکٹ چیکر نے آپؓ کو جگاکر ٹکٹ چیک کی تو کہا کہ اگلے سٹیشن پر اُتر کر آپؓ کو جرمانہ دینا ہوگا۔ اُس وقت میرے پاس بالکل کوئی رقم نہ تھی اور نہ ہی مَیں کسی سے مانگنا چاہتا تھا۔ چنانچہ مَیں نے حضرت مسیح موعودؑ کی آڑے وقت کی دعا مانگنی شروع کردی: ’’اے میرے محسن اور اے میرے خدا! مَیں ایک تیرا ناکارہ بندہ پُرمعصیت اور پُرغفلت ہوں۔ تُو نے مجھ سے ظلم پر ظلم دیکھا اور انعام پر انعام کیا اور گناہ پر گناہ دیکھا اور احسان پر احسان کیا۔ تُو نے ہمیشہ میری پردہ پوشی کی اور اپنی بے شمار نعمتوں سے مجھے متمتع کیا۔ سو اَب بھی مجھ نالائق اور پُرگناہ پر رحم کر اور میری بے باکی اور ناسپاسی کو معاف فرما اور مجھ کو میرے اس غم سے نجات بخش کہ بجز تیرے چارہ گر کوئی نہیں۔ آمین ثم آمین‘‘۔ ابھی دعا ختم ہی کی تھی کہ سٹیشن آگیا اور مَیں گاڑی سے اُتر کر پلیٹ فارم سے باہر جانے کے راستہ کی طرف بڑھا۔ وہاں وہی ٹکٹ کلکٹر کھڑا تھا۔ اُسی نے میرا ٹکٹ دوبارہ چیک کیا اور مجھے باہر جانے کی اجازت دیدی۔
مکرم فتح محمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ 1917ء میں مجھے ککروں کی سخت تکلیف ہوگئی۔ ایک رات حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ کو بلایا۔ انہوں نے ایک دوا لگائی اور چلے گئے۔ گھر جاکر انہوں نے حضرت مصلح موعودؓ اور حضرت اماں جانؓ سے بیان کیا کہ فتح محمد کی دائیں آنکھ قریباً ضائع ہوچکی ہے اور آنکھوں کی پتلی سے لے کر آنکھ کے آخر تک زخم ہے۔ اس پر حضورؓ اور حضرت اماں جانؓ کے دلوں میں ایسا درد پیدا ہوا کہ انہوں نے میرے لئے دعا کی۔ رات کو حضورؓ نے رؤیا میں دیکھا کہ مَیں حضورؓ کے سامنے بیٹھا ہوں اور میری دونوں آنکھیں صحیح سلامت ہیں۔ حضورؓ نے صبح یہ رؤیا حضرت اماں جانؓ کو سنایا تو وہ اُسی وقت خوشی خوشی ہمارے گھر تشریف لائیں اور مبارکباد دی کہ اللہ تعالیٰ جلد صحت دیگا۔ بعد میں میر صاحبؓ تشریف لائے تو سخت حیران ہوئے کہ ایک ہی رات میں زخم کا زیادہ حصہ مندمل ہوچکا ہے۔ اس کے بعد بیماری گھٹنی شروع ہوئی اور جلد ہی میری دونوں آنکھیں درست ہوگئیں اور اللہ تعالیٰ نے خدمت سلسلہ کا موقع بھی دیا اور ہندوستان کے ایسے علاقوں میں کام کیا جہاں لُو اور دھوپ سے آنکھوں کے خراب ہونے کا خدشہ تھا لیکن میری آنکھیں بالکل درست رہیں۔