صحابہؓ کا تعلق باللہ اور ذوق عبادت
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے سالانہ نمبر1999ء میں مکرم عبدالستار خان صاحب کے قلم سے ایک تفصیلی مضمون میں صحابہ رسولؐ کے تعلق باللہ، ذوق عبادت اور دلگداز دعاؤں کا بیان ہے۔
صحابہ کرام نے توحید باری تعالیٰ کی خاطر المناک مشکلات کو برداشت کیا، مال اور اولاد کی قربانیاں دیں، وطن سے بے وطن کئے گئے، معاشرتی بائیکاٹ کا نشانہ بنے لیکن توحید کے علم کو بلند سے بلند تر کرتے چلے گئے۔
ایک صحابیؓ کے بارہ میں آنحضورﷺ سے عرض کی گئی کہ وہ نماز پڑھائیں تو اپنی قراء ت کو قل ھواللّٰہ احد پر ہی ختم کرتے ہیں۔ جب اُن سے اس کی وجہ پوچھی گئی تو انہوں نے بتایا کہ اس میں اس اللہ تعالیٰ کی صفت (احد) کا ذکر ہے اور مَیں اس کا پڑھنا محبوب رکھتا ہوں۔ آنحضورﷺ نے فرمایا کہ اُس کو بتادو کہ اللہ تعالیٰ بھی اُس کو محبوب جانتا ہے۔
آنحضورﷺ کی وفات ہوئی تو حضرت عمرؓ نے تلوار سونت لی کہ جو کہے گا کہ حضورؐ وفات پاگئے ہیں، مَیں اُس کا سر قلم کردوں گا۔ سیدنا حضرت ابوبکر تشریف لائے اور آنحضورﷺ کی پیشانی مبارک کو بوسہ دینے کے بعد کہا کہ آپؐ کی زندگی کیا اچھی تھی اور موت بھی کیا اچھی ہے۔ … پھر صحابہؓ سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ جو شخص محمد ﷺ کی عبادت کرتا تھا کہ وہ سن کے محمدؐ فوت ہوچکے اور جو اللہ کی عبادت کرتا تھا وہ جان لے کہ خدا زندہ ہے ، وہ کبھی نہیں مرے گا۔ اللہ نے فرمایا ہے:
وَمَا مُحَمَّدٌ اِلّا رَسُوْل قَدْخَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلْ۔
صحابہؓ کو نماز باجماعت کی ادائیگی کا بے حد خیال رہتا۔ نماز کا وقت ہوتا تو صحابہؓ اپنے تمام کام چھوڑ کر مسجد کی طرف چلے جاتے۔ قرآن کریم نے انہی کے بارہ میں فرمایا کہ یہ ایسے لوگ ہیں جن کو تجارت، خدا کی یاد سے غافل نہیں کرتی۔ کئی کمزور اور معذور صحابہؓ دوسروں کا سہارا لے کر مسجد پہنچتے۔ اگرچہ بارش میں آنحضورﷺ نے اجازت دی ہوئی تھی کہ نماز گھر پر پڑھ لی جائے لیکن صحابہؓ پھر بھی مسجد پہنچ جاتے۔ کئی بار بہت بہت دیر تک مسجد آکر آنحضورﷺ کا انتظار کرتے تاکہ آپؐ کی اقتداء میں نماز ادا کرسکیں۔ محبوب سے محبوب چیز بھی اگر نماز میں خلل انداز ہوتی تو اُن کی نظر میں مبغوض ہوجاتی۔ حضرت ابو طلحہؓ ایک روز اپنے بہت خوبصورت گھنے باغ میں نماز پڑھ رہے تھے کہ ایک چڑیا شاخوں میں پھنس گئی جس سے آپؓ کی نماز سے توجہ ہٹ گئی اور یاد نہ رہا کہ کتنی رکعات پڑھ لی ہیں۔ دل میں کہا کہ اس باغ نے یہ فتنہ پیدا کیا ہے۔ چنانچہ آنحضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سارا واقعہ بیان کرنے کے بعد باغ کو صدقہ میں دیدیا۔ اسی طرح ایک اَور صحابی کی توجہ اپنے باغ میں نماز پڑھتے ہوئے پھل سے لدے ہوئے درختوں کی طرف منتقل ہوگئی تو نماز سے فارغ ہوکر سیدھے حضرت عثمانؓ کی خدمت میں حاضر ہوکر باغ کو صدقہ میں پیش کردیا جو پچاس ہزار پر فروخت ہوا۔
حضرت عمرؓ کو جس روز گہرا زخم لگا جس سے آپؓ کی وفات ہوئی تو اگلی صبح نماز فجر آپؓ نے اسی حالت میں ادا کی کہ زخم سے مسلسل خون جاری تھا۔
حضرت خبیبؓ کو شہید کرنے کیلئے جب حرم سے باہر لایا گیا تو آپؓ نے کفار کی اجازت سے دو نفل نماز پڑھی اور فرمایا کہ اگر یہ خیال نہ ہوتا کہ تم لوگ سمجھوگے کہ مجھے موت کا خوف ہے تو مَیں نماز کو لمبا کرتا۔ پھر یہ اشعار پڑھے کہ مَیں مسلمان ہونے کی حالت میں جان دے رہا ہوں۔ مجھے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ مَیں قتل ہوکر کس پہلو پر گروں گا۔ اور یہ بات خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے کہ اگر وہ چاہے تو میرے جسم کے ایک ایک ٹکڑے میں برکت رکھ دے۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ نے کفار مکہ کے مظالم سے تنگ آکر جب ہجرت کا ارادہ کیا تو رئیس مکہ ابن الدغنہ نے آپؓ کو یہ کہہ کر پناہ دی کہ تم سا آدمی جلاوطن نہیں کیا جاسکتا، تم مفلس و بے نوا کی دست گیری کرتے ہو، قرابت داروں کا خیال رکھتے ہو، مہمان نواز ہو…۔ چنانچہ اُس کی ضمانت پر آپؓ واپس تشریف لے آئے گھر میں ہی مسجد بناکر وہاں نمازیں پڑھنے لگے اور قرآن مجید کی تلاوت کرنے لگے۔ لیکن جلد ہی کفار نے ابن الدغنہ پر دباؤ ڈالا آپؓ کی عبادت کی وجہ سے کفار کے بیوی بچے آپؓ کی طرف راغب ہورہے ہیں۔ چنانچہ ابن الدغنہ نے آپؓ سے کہا کہ آپؓ کے طرز عمل سے اہل مکہ کو شکوہ ہے کہ اس طرح اُن کی عورتیں اور بچے مسلمان ہوجائیں گے اسلئے آپؓ یہ طریق چھوڑ دیں اور اندر بیٹھ کر قرآن شریف پڑھا کریں ورنہ مجھے اپنی حفاظت واپس لینی پڑے گی۔ آپؓ نے جواب دیا کہ آپ اپنی حفاظت بے شک واپس لے لیں، مجھے اللہ اور اس کے رسولؐ کی حفاظت ہی کافی ہے۔
حضرت عمرؓ نماز میں عموماً ایسی سورتیں پڑھتے جن میں قیامت کا ذکر یا اللہ تعالیٰ کی عظمت کا بیان ہوتا اور خشوع و خضوع و رقّت کی وجہ سے آپؓ رونے لگتے اور ہچکی بندھ جاتی۔
غزوۃ ذات الرقاء کے موقع پر پہرہ دیتے ہوئے ایک صحابی نے نماز شروع کردی تو ایک مشرک وہاں آیا اور انہیں ایک تیر مارا، پھر دوسرا پھر تیسرا تیر مارا تو اس صحابی نے پھر اپنے ساتھی کو جگایا جو قریب ہی سو رہے تھے۔ مشرک بھاگ گیا تو ساتھی نے پوچھا کہ آپؓ نے مجھے پہلے کیوں نہ جگایا۔ فرمایا کہ مَیں نے ایک ایسی سورۃ شروع کر رکھی کہ اسے ختم کئے بغیر مَیں نے پسند نہ کیا کہ نماز ختم کردوں اور اگر اس پہرہ داری کے فریضہ کے ضائع ہونے کا خطرہ نہ ہوتا تو خواہ میری جان چلی جاتی مَیں اس سورۃ کو پورا کئے بغیر نماز ختم نہ کرتا۔
ابوعثمان نہدی کہتے ہیں کہ ایک دفعہ مجھے سات دن حضرت ابوہریرہؓ کی مہمانی کا فخر حاصل ہوا۔ گھر میں تین افراد تھے، ابوہریرہؓ، آپکی بیوی اور ایک خادم۔ رات کو انہوں نے تین حصوں میں تقسیم کر رکھا تھا۔ ایک حصہ میں ایک فرد عبادت کرتا تھا۔ جب وہ سونے لگتا تو دوسرے کو اٹھا دیتا اور جب دوسرا سونا چاہتا تو تیسرے کو اٹھا دیتا۔
آنحضرتﷺ نماز تہجد میں لمبی سورتیں پڑھا کرتے اور طویل رکوع و سجود فرماتے۔ کئی صحابہؓ کو آپؐ کے ساتھ تہجد میں شریک ہونے کا شرف نصیب ہوا۔ ایک رات آپؐ نے مسجد میں نماز تہجد پڑھی تو لوگوں نے بھی آپؐ کے ساتھ نماز ادا کی۔ دوسری رات بھی بہت سے صحابہؓ شامل ہوئے۔ تیسری رات صحابہؓ انتظار کرتے رہے لیکن آنحضورﷺ نماز تہجد کے لئے مسجد تشریف نہ لائے۔ جب صبح ہوئی تو آپؐ نے صحابہؓ کے ذوقِ عبادت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: مَیں اس بات سے ڈرا کہ تم پر یہ عبادت فرض نہ ہوجائے۔
حضرت انسؓ بن مالک بیان کرتے ہیں کہ ہم اس شدت کی گرمی میں آنحضرتﷺ کے ساتھ نمازیں ادا کیا کرتے تھے کہ زمین پر پیشانی لگانا مشکل ہوا کرتا تھا۔ بعض صحابہؓ کپڑا بچھاکر سجدہ کرتے۔
ایک صحابی حضرت عبداللہؓ بن عمرو کو آنحضورﷺ نے ساری ساری رات عبادت میں بسر کرنے اور روزانہ روزہ رکھنے سے منع کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر تُو ایسا کرے گا تو تیری جان کمزور ہوجائے گی۔ تجھے معلوم ہونا چاہئے کہ تیرے نفس کا بھی تجھ پر حق ہے، تیری اہلیہ کا بھی تجھ پر حق ہے۔ بے شک روزہ بھی رکھو، افطار بھی کرو، عبادت بھی کرو اور سوؤ بھی۔
ایک روز آنحضرتﷺ نے دو ستونوں کے درمیان ایک رسّی بندھی ہوئی دیکھی تو معلوم ہوا کہ ام المومنین زینبؓ نے باندھی ہے تاکہ جب عبادت کرتے ہوئے وہ تھک جائیں تو اس کا سہارا لے لیں۔ آنحضورﷺ نے رسّی کھلوادی اور فرمایا کہ تم میں سے ہر شخص کو اس وقت تک عبادت کرنی چاہئے جب تک نماز میں اُس کا دل لگا رہے۔
اسی طرح ایک صحابیہؓ کے بارہ میں علم ہوا کہ ساری رات سوتی نہیں اور عبادت کرتی ہے، فرمایا: اتنا عمل کرو جتنے کی طاقت ہو اس لئے کہ اللہ تعالیٰ تو ثواب دینے سے تھکتا نہیں، تم ہی تھک جاؤگے۔
صحابہؓ کو اذان دینے کا اس قدر شوق تھا کہ بعض اوقات ان میں قرعہ ڈالا جاتا۔
بعض صحابہؓ آنحضرتﷺ کی اقتداء میں نماز ادا کرنے کے بعد اپنی قوم کے پاس جاتے اور وہاں وہی نماز پڑھاتے۔
آنحضرتﷺ کا ارشاد تھا کہ عورتوں کو رات کے وقت مسجد جانے سے نہ روکو۔
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ آنحضرتﷺ کے ساتھ صبح کی نماز میں کئی مسلمان عورتیں چادروں میں لپٹی ہوئی نماز ادا کرتیں۔ پھر (نماز کے بعد) اپنے گھروں کو لَوٹ جاتیں اور (اندھیرے کی وجہ سے) کوئی انہیں پہچانتا نہ تھا۔
صحابہؓ کے توکل کا معیار بھی نہایت بلند تھا۔ حضرت ابوبکرؓ نے خلیفہ بنتے ہی حضرت اسامہؓ فوج کے ساتھ کو شام کی طرف اُس مہم پر روانہ کردیا جس کےلئے آنحضورؐ نے اپنی زندگی میں حکم دیا تھا۔ بعض صحابہؓ کی کسی دوسری رائے کو قبول نہیں فرمایا۔
حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے مدائن پر حملہ کیا تو دریائے دجلہ میں طغیانی تھی۔ کشتیوں کا انتظام نہ ہوسکا تو مجاہدین نے اللہ پر توکل کرتے ہوئے دریا میں گھوڑے ڈال دیئے اور اس طرح دوسرے کنارہ پر پہنچے کہ نہ کوئی شخص ڈوبا نہ کوئی چیز گم ہوئی۔