صحابہؓ کرام کی عاجزی و انکساری

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے سالانہ نمبر1999ء میں شائع ہونے والے مکرم ریاض محمود باجوہ صاحب کے مضمون میں صحابہ رسولؐ کے عفو، حلم، عاجزی و انکساری کا بیان ہے۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ بہت منکسرالمزاج تھے۔ جب کوئی فوجی مہم روانہ فرماتے تو دُور تک پاپیادہ ساتھ جاتے۔ اگر کوئی افسر تعظیماً گھوڑے سے اترنا چاہتا تو روک دیتے۔ لوگ آنحضورﷺ کے جانشین کی حیثیت سے تعظیم کرتے تو آپؓ کو تکلیف ہوتی۔ کوئی مدح کرتا تو فرماتے ’’اے خدا! تُو میرا حال مجھ سے زیادہ جانتا ہے اور مَیں اپنی کیفیت ان لوگوں سے زیادہ جانتا ہوں۔ خدایا! تُو انکے حسن ظن سے مجھے بہتر ثابت کر، میرے گناہوں کو بخش دے اور لوگوں کی بے جا تعریف کا مجھ سے مؤاخذہ نہ کر‘‘۔
ایک روز رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’جو تکبر سے اپنا کپڑا کھینچتے ہوئے چلتا ہے، قیامت کے روز خدا اس کی طرف نگاہ نہ کرے گا‘‘۔ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا: میرا دامن بھی کبھی کبھی لٹک جاتا ہے۔ فرمایا: تم تکبر سے ایسا نہیں کرتے۔
حضرت عمرؓ کی عظمت و شان سے قیصر و کسریٰ لرزتے تھے لیکن آپؓ کی خاکساری کا یہ عالم تھا کہ خود بیوہ عورتوں کے لئے پانی بھرتے، بازار سے سودا لادیتے، رات کو اُٹھ کر پہرہ دیتے اور بارہا تھک کر مسجد کے گوشہ میں فرش خاک پر لیٹ جاتے۔
حضرت عمرؓ کو بارہا سفر کا اتفاق ہوا لیکن خیمہ وغیرہ کبھی ساتھ نہیں رہا۔ شام کے سفر کے موقع پر آپؓ کو ترکی گھوڑا اور قیمتی لباس پیش کیا گیا تاکہ عیسائی اپنے دل میں احترام محسوس کریں۔ آپؓ نے فرمایا کہ خدا نے ہم کو جو عزت دی ہے وہ اسلام کی عزت ہے اور ہمارے لئے یہی کافی ہے۔
حضرت عثمانؓ اپنے کام کیلئے خدام کو تکلیف نہ دیتے۔ شہادت سے قبل آپؓ نے لمبا عرصہ نہایت بردباری و نرمی سے گزارا۔ آپؓ کی خاطر کٹ مرنے کے لئے سینکڑوں وفاشعار غلام موجود تھے لیکن آپؓ نے اپنی ذات کی خاطر کسی مسلمان کے خون کا بہنا پسند نہ فرمایا۔
حضرت علیؓ بہت رحمدل تھے۔ ایران میں مخفی سازشوں کے باعث بارہا بغاوتیں ہوئیں لیکن آپؓ نے ہمیشہ نرمی سے کام لیا یہاں تک کہ ایرانی آپؓ کی شفقت سے متاثر ہوکر کہتے کہ: بخدا اِس عربی نے تو نوشیرواں کی یاد تازہ کردی۔
حضرت علیؓ اونٹ چَراتے، جوتا ٹانکتے اور محنت کا ہر کام کرلیتے۔ مزاج میں بے تکلفی اتنی تھی کہ فرشِ خاک پر سو جاتے۔ ایک بار آنحضورﷺ نے اس حالت میں مسجد نبوی کے فرش پر سویا ہوا پایا کہ جسم پر مٹی لگی ہوئی تھی۔ تب آنحضورﷺ نے آپؓ کو اَبَاتُرَاب یعنی مٹی والے کہہ کر پکارا جو پھر آپکی کنیت مشہور ہوگئی۔
حضرت ابوعبیدہؓ بن الجراح کی خاکساری ایسی تھی کہ رومی سفیر جب بھی اسلامی لشکرگاہ میں آئے تو انہیں سپہ سالار کی شناخت میں دقّت پیش آئی۔ آپؓ کی شفقت اور رعایا پروری کے عیسائی بھی مرہون منت تھے۔
حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ متعدد مہموں میں سپہ سالار اور مختلف صوبوں کے حاکم رہے لیکن نہ مال و دولت جمع کی، نہ نخوت و رعونت پیدا ہوئی۔
حضرت عمار بن یاسرؓ کوفہ کے والی تھے لیکن اپنا سوداسلف خود جاکر خریدتے اور اٹھاکر لاتے۔ پیرہن چمڑے کا ہوتا جس میں پیوند لگے ہوتے۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ اپنی تعریف سننا بھی ناپسند فرماتے۔ بازار میں نکلتے اور بلاامتیاز تاجر، مسکین اور خستہ حال کو سلام کرتے۔ طفیل بن کعب نے پوچھا کہ آپؓ بازار کیوں جاتے ہیں حالانکہ نہ خریدوفروخت کرتے ہیں نہ کسی جگہ بیٹھتے ہیں۔ فرمایا صرف لوگوں کو سلام کرنے کی غرض سے۔
حضرت سلمان فارسیؓ اسلامی فوج کے امیر بھی رہے اور مدائن کے گورنر بھی۔ جب آپؓ گورنر تھے تو ایک آدمی نے، جو آپؓ کو جانتا نہ تھا، آپؓ کو سادہ کپڑوں میں دیکھ کر مزدور سمجھا اور کہا کہ اُس کا بوجھ اٹھاکر کسی جگہ لے جائیں۔ آپؓ بوجھ اٹھاکر چل پڑے۔ لوگوں نے دیکھا تو بتایا کہ یہ امیر ہیں۔ اُس شخص نے شرمندگی سے کہا کہ مَیں آپؓ کو پہچانتا نہیں تھا، آپؓ بوجھ یہیں اتار دیں۔ لیکن آپؓ نے فرمایا: نہیں ، اب یہ مَیں منزل پر پہنچاؤں گا۔
صحابیاتؓ بھی انتہائی منکسرالمزاج تھیں۔ حضرت فاطمہؓ کے ہاتھوں میں چکی پیسنے سے چھالے پڑگئے تھے ۔ آپؓ خود اپنے مشکیزے میں پانی بھرکر لاتیں اور اپنے گھر میں جھاڑو دیتیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں