عشق و وفا کی داستان … حضرت داؤد جان صاحب
حضرت عبدالرحمٰن صاحبؓ اور حضرت سید عبداللطیفؓ شہید کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی حیات مبارکہ میں ہی افغانستان کی سرزمین پر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ لیکن احمدیوں پر ظلم اس کے بعد بھی ختم نہیں ہوئے اور کئی احمدیوں کو اسی جرم میں شہید کردیا گیا۔ ان میں ایک حضرت داؤد جان صاحب بھی تھے جن کی ایمان افروز داستان ان کے صاحبزادے محترم ابراہیم جان صاحب کی زبانی ’’تشحیذ الاذہان‘‘ کے خصوصی نمبر کی زینت ہے جسے مکرم طارق محمود ناصر صاحب نے قلمبند کیا ہے۔
مکرم ابراہیم صاحب کی بھی کمر کی ہڈیاں توڑ دی گئیں اور ان کی معذوری اس سچی کہانی کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ ہمارا تعلق افغانستان کے ضلع ’’اریوب‘‘ کے گاؤں شگہ سے اور قبیلہ ہاشم خیل قوم زازی سے ہے۔ خاندانی پیشہ زمینداری تھا لیکن میرے والد حضرت داؤد جان صاحب گورنمنٹ ملازم تھے۔ گاؤں کے قلعہ نما گھر میں چالیس کمرے تھے اور روپے پیسے کی ریل پیل تھی۔ ہمارے گھر کے سامنے ہمارے والد کے چچا خان جان کا گھر تھا جو میرے والد کے سسر اور قبیلہ کے سردار تھے۔ اسی زمانہ میں میرے والد کا رابطہ چند احمدیوں سے ہوگیا جن کے ساتھ وہ قادیان آئے اور احمدیت قبول کرلی۔ یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور قبیلہ والوں نے انہیں مرتد قرار دے کر شدید مخالفت شروع کردی۔
جب وہ دوسری بار ربوہ تشریف لائے تو خان جان نے حکومت کو رپورٹ کردی۔ اس پر پولیس نے ابا جان کو گرفتار کرلیا اور ایک ہفتہ تک قاضی اور مولویوں کے ساتھ ابا جان کے سوال جواب ہوتے رہے۔ فیصلہ قاضی نے ابا جان کے حق میں دیا کہ وہ مسلمان ہیں لیکن خان جان نے اس فیصلہ کو قبول نہ کیااور قریباً پانچ ہزار مولویوں کو لے کر جلوس نکالا کہ داؤد جان کو ہمارے سپرد کردو۔ اس پر حکومت نے ہم سب کو ملک بدر کرنے کا اعلان کردیا لیکن خان جان کے ساتھیوں نے جیل توڑ کر ابا جان پر حملہ کردیا اور خنجروں سے زخمی کرکے بندوق کا فائر بھی کیا۔ شدید زخمی حالت میں انہیں احمدیت سے تائب ہونے کا کہا گیا اور ان کے انکار پر لوگوں نے پتھروں کی بارش کردی۔ شہید کرنے کے بعد ان بدبختوں نے نعش پر مٹی کا تیل ڈال کر آگ لگانے کی کوشش کی لیکن خدا تعالیٰ کی قدرت کہ کوشش کے باوجود آگ نہ لگ سکی۔ لوگوں نے کہا کہ کتنا بڑا کافر ہے جسے آگ نے بھی نہ جلایا۔ ساتھ کے گاؤں والوں نے آکر لاش کو چارپائی پر ڈالا۔ میری والدہ نے لاش کو دیکھا تو بے ہوش ہوگئیں۔ قبرستان میں جگہ کھودی گئی تو خان جان نے کہا کہ اسے دفن نہیں کرنا بلکہ کتوں کو ڈالنا ہے۔ دوسری جگہ بھی اُس نے تدفین نہ ہونے دی تو تیسری جگہ دفن کیا گیا۔ اس کے بعد دشمنو ں نے گھر پر حملہ کیا اور ہر چیز پر قبضہ کرکے مویشی وغیرہ بھی آپس میں بانٹ لئے۔…
ہم کابل میں اپنے سوتیلے چچا کے پاس دو سال رہے۔ تب میری والدہ اپنی بیٹی کو لے کر گاؤں گئیں کہ خان جان سے اپنے خاوند کی جائیداد واپس لیں۔ لیکن ایک ہمسایہ نے بتایا کہ خان جان نے تم پر ظلم ڈھانے کا منصوبہ بنایا ہے۔ چنانچہ امی اپنی بیٹی کو لے کر وہاں سے نکل کھڑی ہوئیں اور دشمنوں کے تعاقب کی وجہ سے درختوں کے نیچے رات کو پناہ لی۔ پھر سخت سردی میں ننگے پاؤں بھوکے پیاسے جدران میں ایک احمدی کے پاس پہنچ گئیں جنہوں نے انہیں پارا چنار کے احمدیوں کے پاس پہنچا دیا جہاں سے وہ کچھ عرصہ بعد ربوہ آگئیں۔ لیکن ہم تینوں بھائی افغانستان میں دشمنوں کے نرغہ میں آگئے۔ ان کے ظلم سے میری کمر کی ہڈیاں ٹوٹ گئیں جو بغیر علاج کے خود ہی جُڑ گئیں۔ ایک بھائی تین سال اور دو آٹھ سال بعد ربوہ پہنچ گئے جو ایک علیحدہ اذیت ناک کہانی ہے۔ …
ربوہ میں آج ہمارا اپنا گھر ہے۔ ہم خدا کی حمد و ثنا کرتے ہیں اور احمدیت کے سچے ہونے کی گواہی دیتے ہیں۔