محترم ڈاکٹر حمیداللہ صاحب شہید

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 16 و 17 جولائی 2009ء میں ڈینٹل سرجن مکرم ڈاکٹر حمیداللہ صاحب شہید کا ذکرخیر اُن کی اہلیہ مکرمہ ن۔ حمید صاحبہ کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
محترم ڈاکٹر حمیداللہ صاحب شہید کے والد محترم رحمت اللہ صاحب اور والدہ مکرمہ عظیم بی بی صاحبہ دونوں ہی بہت نیک، تہجد گزار اور دعاگو تھے۔ ان کے ہاں پہلے تین بیٹیاں پیدا ہوئیں تو لوگوں نے کہنا شروع کردیا کہ ان کے ہاں کوئی بیٹا پیدا نہیں ہوگا۔ آپ کی والدہ یہ سن کر بہت بیمار ہوگئیں اور سات آٹھ سال کوئی اولاد پیدا نہ ہوئی۔ والد بھی دعاؤں میں مصروف رہے کہ ایک رات خواب میں اُن کی زبان پر دو آیات جاری ہوئیں جن میں آزمائش میں پورا اترنے والوں کے لئے خوشخبری کا ذکر ہے۔ اسی دوران حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ ناصرآباد سٹیٹ تشریف لائے تو محترم رحمت اللہ صاحب نے حاضر ہوکر بیٹے کے لئے دعا کی درخواست کی اور کہا کہ مَیں اپنے بیٹے کو وقف کردوں گا۔ حضورؓ نے فرمایا: رحمت اللہ صاحب! اب آپ کے ہاں بیٹے ہی پیدا ہوں گے۔ چنانچہ پھر اللہ تعالیٰ نے تین بیٹوں سے نوازا۔ آپ کے منجھلے بیٹے مکرم سلام اللہ صاحب 1965ء کی جنگ میں شہید ہوئے۔
محترم حمیداللہ صاحب کو نمبر کم آنے پر میڈیکل میں داخلہ نہ ملا تو آپ نے سندھ میں ڈسپنسری کھول لی۔ وہاں ایک روز کوئی بزرگ مسافر سردیوں میں رات گزارنے کے لئے آئے دوسرے لوگوں کے پاس بھی گئے لیکن کسی نے نہ ٹھہرایا۔ آپ نے ٹھہرالیا۔ سردی بہت زیادہ تھی اوربستر بھی ایک ہی تھا۔ اُن کو کھانا کھلایا چائے پلائی اور اپنا بستر بھی انہیں دیدیا۔ وہ آرام سے رات بھر سوئے رہے لیکن آپ شدید سردی میں بستر نہ ہونے کی وجہ سے سو نہ سکے۔ اکثر ذکرکیا کرتے تھے کہ انہوں نے مجھے بہت دعائیں دیں اور شاید اسی لئے اللہ تعالیٰ نے یہ فضل فرمایا کہ پھر آپ نے B.D.S کی ڈگری لیاقت میڈیکل کالج جامشورو سندھ سے حاصل کی اور جلد ہی آپ ایک کامیاب ڈینٹل سرجن کے طور پر مشہور ہوگئے۔ دو جگہ سرجری کیا کرتے تھے۔ لیکن ارادہ دین کی خدمت کا ہی تھا۔ چنانچہ آپ نے اپنی زندگی وقف کردی۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ اُس وقت اسلام آباد میں مقیم تھے۔ حضورؒ نے آپ کو وہاں یاد فرمایا اور گیمبیا میں تقرری فرمائی۔ آپ نے اپنی فیملی (بیوی اور تین بچوں) اور کاروبار کی کچھ پرواہ نہ کی اور فوری طور پر1981ء میں گیمبیا تشریف لے گئے۔ وہاں سے دیگر افریقی ممالک یعنی سیرالیون، نائیجیریا اور غانا میں بھی خدمت بجالاتے رہے۔ 1990ء میں واپس آکر کراچی میں اپنی سرجری شروع کرلی۔
افریقہ میں قیام کے دوران نہایت پیچیدہ کیسز بھی کامیابی سے کئے۔ جس دن کوئی بڑا آپریشن کرنا ہوتا تو ایک رات پہلے نفل پڑھتے اور مجھے بھی فون پر اطلاع دیتے تاکہ مَیں بھی نفل پڑھ کر دعا کروں۔
محترم ڈاکٹر صاحب چار سال تک اپنے حلقہ کے صدر جماعت بھی رہے اور اس دوران ہر مخالفت کا مقابلہ کرتے ہوئے مسجد بیت المجیب لانڈھی تعمیر کروائی۔ دیگر علاقوں میں جہاں بھی مقیم ہوئے وہاں جماعتی خدمات میں نمایاں کردار ادا کیا۔
محترم ڈاکٹر صاحب نماز روزہ کے انتہائی پابند اور باقاعدگی سے قرآن کریم کی تلاوت کرنے والے تھے۔ محنتی اور ایماندار تھے۔ مختلف کمپنیوں والے پیشکش کرتے کہ جعلی بِل بنادیں تو کچھ حصہ آپ کو بھی مل جائے گا۔ آپ اس بات پر ناراض ہوتے اور ہمیشہ رزق حلال کو ترجیح دیتے۔ اپنے والدین کی دو نصائح پر ہمیشہ عمل کیا۔ ایک یہ کہ بھوکے رہ لو لیکن ہاتھ اپنے خدا کے علاوہ کسی کے سامنے نہ پھیلاؤ۔ اور دوسری یہ کہ راستہ میں بیشک سونا پڑا ہو لیکن آنکھ اٹھاکر نہ دیکھو۔
آپ نہایت متوکّل انسان تھے۔ کبھی رشوت اور سفارش کا سہارا نہیں لیا۔ ایسے موقع پر صرف دعا کرتے اور اللہ تعالیٰ غیب سے آپ کو کامیابی عطا فرماتا۔ آپ کی شرافت کی وجہ سے آپ کے استاد بھی آپ سے محبت اور احترام کا سلوک کرتے۔ کراچی کے غریب علاقوں میں سرجری کھولی۔ کئی لوگ مشورہ دیتے کہ امراء کے علاقہ میں کاروبار شروع کرو تو بہت کماؤگے لیکن آپ کہتے کہ غریب بیمار جب دعا دیتا ہے تو وہی میری اصل کمائی ہے۔ کئی غرباء کا مفت علاج کرتے بلکہ دوا بھی مفت دیتے۔ کامیاب داعی الی اللہ تھے۔ کئی مقامات پر مفت طبّی کیمپ لگاتے۔ اپنے بچوں کو بھی اِن کیمپوں میں ہمراہ لے جاتے۔ آپ کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں اور سب ڈاکٹر ہیں۔
محترم ڈاکٹر صاحب اپنے کارکنان اور عزیزوں کا بہت خیال رکھتے۔ نظام جماعت اور خلافت سے بہت محبت تھی۔ اپنے گھر پر ڈش انٹینا کا انتظام کیا ہوا تھا۔ مسجد بیت المجیب کی تعمیر کے دنوں میں آپ نے مجھے ایک بِل دیا کہ محترم عبدالرحیم بیگ صاحب نائب امیر کراچی نے کہا ہے کہ یہ پچیس ہزار مَیں نے دینے ہیں، دعا کرو اللہ تعالیٰ اپنی جناب سے کوئی انتظام کردے۔ اس وقت ہمارے پاس اتنے پیسے کبھی جمع نہیں ہوئے تھے اور کاروبار نیا ہونے کی وجہ سے بچوں کے سکول کی فیس بھی مشکل سے ادا ہوتی تھی۔ پھر انہی دنوں ایک مریض آیا جس نے پیسوں کے بجائے انعامی بانڈز دیئے اور اسی ہفتے قرعہ اندازی میں ہمارا 50ہزار روپے کا انعامی بانڈ نکل آیا تو حیرت کی انتہا نہ رہی۔ خوشی خوشی 25ہزار روپے بیگ صاحب کے پاس جمع کراآئے ۔وہ کہنے لگے مجھے علم تھا کہ آپ یہ رقم ضرور جمع کرائیں گے اورایک اوررسید 50ہزار روپے کی ڈاکٹر صاحب کے ہاتھ تھمادی اورکہا کہ میں امید کرتاہوں آپ یہ رقم بھی ضرور جمع کرانے آئیں گے اورایسا ہی ہوا۔ اگلی قرعہ اندازی میں ہمارا 75ہزارکا پھر انعامی بانڈ نکل آیا۔50ہزار پھر بیگ صاحب کی خدمت میں سینٹرکی تعمیر کے لئے اداکرآئے۔ اس کے علاوہ بھی بہت سا خرچ خاموشی سے کرتے رہتے۔ مسجد کے ساتھ مربی ہاؤس اور دیگر تعمیرات بھی کروائی۔ 27 ستمبر 1998ء کو اس سینٹر کاافتتاح ہوا۔
جولائی 1997ء ہی سے ڈاکٹر صاحب کی شدید مخالفت ہورہی تھی۔ دیواروں پر پوسٹر لگائے گئے، کلینک کے سامنے ٹینٹ لگا کر جلسے کئے گئے۔ مریضوں کو آنے سے روکا جاتا۔ قتل کے منصوبے بھی بنائے گئے۔ ایک روز محاصرہ کرلیا گیا کہ ڈاکٹر حمیداللہ اوراس کی فیملی کہیں بھاگ نہ جائے۔ ایسے میں ایک رات ڈاکٹر صاحب ضروری کاغذات لے کر نکلے تاکہ اپنے ایک عزیز کے ہاں رکھوا آئیں تو آپ کا پیچھا کیا گیا اور آپ کئی سڑکیں بدلتے ہوئے آدھی رات کے بعد اپنے عزیزوں کے ہاں پہنچ سکے۔ ڈاکٹر صاحب کو تو عزیزوں نے وہیں روک لیا اور2خدام کو دوسری گاڑی دے کر ہم لوگوں کو لے جانے کے لئے بھیجا۔ سخت پہرہ کے باوجود رات 4بجے مَیں اور بچے نکلے تو محاصرہ کرنے والوں کی آنکھوں پر اللہ تعالیٰ نے پردے ڈال دیئے اور ہم ان کے قریب سے گزرتے ہوئے بحفاظت نکل گئے۔ چند دن مختلف جگہوں پر مقیم رہے۔ کئی سیاسی لوگوں نے ڈاکٹر صاحب کو ملک چھوڑ دینے کا مشورہ دیا لیکن آپ نہ مانے اور کہا کہ مَیں اگر چلا گیا تو یہ لوگ کہیں گے کہ احمدی جھوٹے ہیں جو یہ ڈر کر بھاگ گیاہے۔ صرف مجھے جھوٹا نہیں کہیں گے بلکہ جماعت کو بھی جھوٹا کہیں گے۔ مَیں انہی لوگوں میں رہ کر سچا بن کر دکھاؤں گا۔ جیوں گاتو شان سے مروں گا تو بھی شان سے۔
ڈاکٹر صاحب اکثرخواب میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کو دیکھتے اورصبح اٹھ کر بتاتے کہ میں اور حضورؓ ساتھ ساتھ کرسیوں پر بیٹھے ہیں۔ اوربیسیوں دفعہ ایک دوست کو خواب میں دیکھا جن کا نام صدیق ہے۔ آخری ایام میں اپنی والدہ مرحومہ کو خواب میں دیکھا جو کہہ رہی ہیں کہ بیٹا اب میرے پاس آجاؤ۔ شہادت سے ایک ماہ پہلے مَیں نے اور بیٹیوں نے خواب دیکھے کہ کبھی بکرے یا کبھی گائے کی قربانی کی جارہی ہے۔
جلسہ سالانہ UK میں ہر سال شامل ہوتے۔ 2007ء کے جلسہ پر آئے تو حضور انور ایدہ اللہ کو بتایا کہ اس سال ہماری مجلس میں 8 بیعتیں ہوئی ہیں۔
شادی کے بعد میں نے سینکڑوں بار آپ کے منہ سے یہ الفاظ سنے کہ میرے پاس ٹائم نہیں ہے۔ اور حقیقتاً آپ نے اپنی زندگی کا ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کیا ہروقت کام کام اوربس کام ۔
ہر چھٹی کا دن آپ جماعتی کاموں میں گزارتے۔ گھر پر لجنہ کے اجلاسات مَیں کرواتی تو کبھی اخراجات سے نہیں روکا۔ چندوں کی تحریک سے کبھی نہیں روکا۔ مختلف میٹنگز ہمارے گھر پر ہوتیں۔ 20ستمبر2007ء کو بھی گھر پر میٹنگ تھی جس کے لئے دوسرے احباب آگئے تھے لیکن آپ کا انتظار کرتے رہے۔ اُس رات 10اور11بجے کے درمیان کلینک سے گھر آتے ہوئے آپ کو اغواء کرلیا گیا۔ بڑی مشکل سے پتہ چلا کہ آپ کو شہید کردیا گیا ہے اور گاڑی فلاں جگہ کھڑی ہے۔ اُن دنوں دونوں بیٹیاں ربوہ میں وقف عارضی کررہی تھیں اور دونوں بیٹے پڑھائی کے لئے لندن میں تھے۔ اطلاع ملنے پر سب پہنچ گئے۔
جنازہ میں غیر ازجماعت لوگوں کی بھی کثیر تعدادشامل تھی۔ تدفین باغ احمد کراچی میں ہوئی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ نے ازراہ شفقت دو مرتبہ نماز جنازہ غائب پڑھائی۔ ایک مرتبہ 25ستمبر کو بعدنمازمغرب مسجد فضل لندن میں اور دوسری مرتبہ اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 28ستمبر 2007ء میں آپ کی شہادت اور خدمات کا ذکرخیر فرمایا اورنافع الناس اور مسیحا کے الفاظ استعمال کئے اورافریقن ممالک میں خدمات کا ذکر فرمایا اور پھر نماز جنازہ پڑھائی۔
جس دن ڈاکٹر صاحب کو شہید کیا گیا اس دن اچانک تیز آندھی آئی آسمان کا رنگ بدلا ہواتھا ہرطرف اداسی چھائی ہوئی تھی جسے سب لوگوں نے محسوس کیا۔ ساتھ اچانک تیز بارش شروع ہوگئی بعد میں ڈرائیور نے بتایا کہ ڈاکٹر صاحب قادیانی تھے اس لئے ان کو گولیوں کا نشانہ بنایا گیا اورمیں سنی تھا اس لئے مجھے چھوڑ دیا گیا۔ اس نے بتایا کہ وہ لوگ مجھے اپنے ساتھ نماز پڑھاتے تھے اورڈاکٹر صاحب نے ان کے ساتھ نماز نہیں پڑھی ا ورانہوں نے ڈاکٹر صاحب سے ایک بُک پر جو چیک بک کی طرح تھی دستخط کروائے۔ مجرموں کا وزیرستان وانا سے تعلق تھا۔ پولیس مقابلے میں پکڑے جانے پرخود اقرار کیا اور مزید 20لوگوں کی لسٹ دکھائی کہ ہم نے ان کو قتل کرنا ہے۔ 4خطرناک ملزمان تین بڑی شخصیات کے قتل میں پولیس کو مطلوب تھے اور اُن کے سروں کی قیمت ایک کرو ڑ روپے مقررکی گئی تھی ۔
ڈرائیور نے بتایا کہ کلینک سے گھر کا فاصلہ 18کلو میٹر ہے۔ اُس روز راستہ میں اچانک ایک سفید گاڑی نے راستہ روکا اور چار مسلح افراد نے اسلحہ دکھا کر ہماری گاڑی کے لاک کھلوائے۔ حملہ آوروں نے کہا کہ ہم نے دوبار پہلے بھی ان کو قتل کرنے کی کوشش کی لیکن ہربار یہ بچ جاتا رہا ہے اب کے بار ہم اسے کسی بھی طرح بچنے نہیں دیں گے۔ 28سے 30گھنٹے ڈاکٹر صاحب اُن کے تشدد کا شکار ہوتے رہے اور 21 یا 22 ستمبرکی رات شہادت نصیب ہوئی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں