مغرب میں عورتوں کا قبول اسلام

مجلس انصاراللہ UK کے رسالہ ’’انصارالدین‘‘ نومبر و دسمبر 2009ء میں مکرم ڈاکٹر شمیم احمد صاحب کا ایک مضمون شائع ہوا جو ایک کتاب Women Embracing Islam کی تلخیص ہے۔ ذیل میں اس مضمون کا مزید خلاصہ ہدیۂ قارئین ہے:
“Women Embracing Islam” میں اس بات کا تجزیہ کیا گیا ہے کہ دنیا میں بالخصوص مغرب میں اسلام کیوں مقبول ہوتا جا رہا ہے۔
گزشتہ دہائی میں مذہب کی طرف دلچسپی کے رجحان میں جبکہ 11ستمبر 2001ء کے واقعہ کے بعد سے اسلام قبول کئے جانے کے واقعات میں خاصا اضافہ ہوا ہے۔ لیکن نومسلموں کو عیسائی شک بھری نگاہوں سے دیکھتے ہیں اور اُن کے ساتھ اُن کا رویہ بھی معاندانہ ہوتا ہے۔ تبدیلیٔ مذہب خصوصاً اسلام کی قبولیت سیاسی طور پر بہت اہم ہے کیونکہ اِس میں ایک طرح دو مذاہب کے درمیان مجادلہ کی سی صورت پیدا ہوجاتی ہے۔ اگرچہ سب مذاہب کسی نہ کسی وقت دوسروں کو مائل کرنے کے لئے دلائل، لالچ اور کبھی جبر کا سہارا لیتے ہیں۔ اور مذہب تبدیل کرنے والوں کو اکثر مرتد کہہ کر مختلف تکالیف کا سامنا کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ اسی طرح عام طور پر مذہب میں داخلہ کا راستہ آسان لیکن نکلنے کا بہت مشکل بنایا جاتا ہے۔
کتاب میں عنوان ’’عورتیں کیوں زیادہ اسلام قبول کررہی ہیں‘‘ کی ذیل میں بیان ہے کہ عام طور پر عورتیں مرد کا مذہب اختیار کرلیتی ہیں کیونکہ اُن کو عموماً تابعدار اور انفعالی سمجھا جاتا ہے یعنی اُن سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ خاموشی سے فیصلوں کو قبول کرلیں۔ بلکہ اگر کوئی عورت اپنے خاوند کا مذہب چھوڑنا چاہے تو اُسے سخت حالات مثلاً بچوں سے علیحدگی کی صورت میں یا معاشی تنگی بطورِ سزا برداشت کرنا پڑتی ہے۔
جنس ۔ تبدیلیٔ مذہب اور مغرب
مذہب اور قومیت کی حدود پھلانگنا عمومی امن میں مخل ہونے کے ساتھ ساتھ تشدّد پیدا کرنے کا باعث بھی ہو سکتا ہے۔ خاص طور پر عورتوں کا مذہب تبدیل کرنا زیادہ شدید ردِ عمل پیدا کر تا ہے۔ چنانچہ مغرب میں عورتوں کا اسلام قبول کرنا ایک نازک مسئلہ کی صورت اختیار کرسکتا ہے۔ مذہب تبدیل کرنے والی عورتوں کو عموماً نفرت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک ڈچ عورت نے کہا کہ ’’لوگ ہمیں گھور گھور کر دیکھتے ہیں شاید اس لئے کہ ہم نے اپنی نسل کے ساتھ غداری کی ہے‘‘۔
مغرب میں مسلم عورتوں کے بارہ میں منفی پراپیگنڈہ کے باوجود مغربی عورتیں مردوں کے مقابلہ میں زیادہ اسلام قبول کرتی ہیں۔ اسامہ بن لادن نے ایک ویڈیو ٹیپ میں کہا تھا کہ 11ستمبر کے بعد ،بہ نسبت گذشتہ گیارہ سالوں کے، بہت زیادہ لوگوں نے اسلام قبول کیا ہے۔ بعض تحقیق کرنے والوں کے نزدیک اگر اسلام قبول کرنے والی عورتیں 80فیصد نہیں تو کم از کم 75فیصد تو ضرور ہیں۔ تاہم مکمل اعداد و شمار موجود نہ ہونے کی وجہ سے حتماً کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ البتہ یہ ضرور دکھائی دیتی ہے کہ اسلام قبول کرنے میں عورتیں زیادہ دکھائی دیتی ہیں۔
اس کتاب میں یہ تحقیق شامل ہے کہ عورتیں کیوں اسلام کی طرف مائل ہو رہی ہیں اور تبدیلی ٔ مذہب کی کیا وجوہات ہیں؟ اور کس قسم کے اسلام کی طرف وہ مائل ہو رہی ہیں۔ مذہب کی تبدیلی صرف چند لمحوں کی بات نہیں بلکہ یہ ایک مسلسل اور دائمی مذہبی، معاشرتی اور ثقافتی تبدیلی کا نام ہے۔ نئے مذہب میں داخل ہو کر وہ کس طرح نئی شناخت حاصل کرتی ہیں، کن مشکلات کا سامنا کرتی ہیں اور معاشرہ اُن کے ساتھ کیسا سلوک کرتا ہے۔ یورپ، امریکہ اور جنوبی افریقہ میںمذہب کی تبدیلی کے ضمن میں مذکورہ امور کا اس کتاب میں جائزہ پیش کیا گیا ہے۔
تبدیلی ٔ مذہب
کتاب میں تبدیلی ٔ مذہب پر بہت سا مواد موجود ہے جومغرب میں اسلام کی مقبولیت پر روشنی ڈالتا ہے۔ مغربی دنیا کی ’’مذہبی منڈی‘‘میں اسلام ایک نہایت اہم کردار حاصل کرتا جارہا ہے۔ لٹریچر میں معاشرتی اور تاریخی امور کے علاوہ دیگر وجوہات اور نظریات پر بھی غور کیا گیا ہے کہ کیوں اسلام کو قبول کیا جاتا ہے۔ ایک مضمون میں Poston نے مغرب میں مختلف ’’دعوۃ‘‘ تنظیموں کا ذکر کیا ہے جو مغرب کو اسلام کی طرف بُلارہی ہیں۔ اس طرح اُن اسباب پر بھی غور کیا گیا ہے جو لوگوں کو اسلام کی طرف مائل کرتے ہیں۔ اُس نے یورپ اور امریکہ سے 72نو مسلموں کے قبولِ اسلام کا تجزیہ بھی پیش کیا ہے۔ ایک اور تجزیہ میں Kose نے 70 برطانوی مسلمانوں کی تبدیلی ٔ مذہب کا نفسیاتی اور مذہبی تجزیہ کیا ہے۔ اُس کے نزدیک اسلام قبول کرنے والوں میں مذہب کی تبدیلی سے قبل کوئی معاشرتی، مذہبی ناکامی اور اخلاقی بحران موجود نہیں تھا۔
تبدیلی ٔ مذہب کی دو اقسام
اس کتاب میں اُن اوامر پر بھی غور کیا گیا ہے کہ کس طرح لوگ اسلام قبول کرتے ہیں۔ دو اقسام کی نشاندہی کی گئی ہے۔ ایک راستہ تو ’’تعلقات‘‘ کی وجہ سے بنتا ہے اور دوسرا راستہ ’’فراست اور علمی تحقیق‘‘ کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے۔ تعلقات میں مسلمانوں کے ساتھ شادی، فیملیز کا باہمی میل جول، نقل مکانی کرنے والوں سے ملاقات یا غیرملکوں میں جاکر وہاں لوگوں سے تعلقات کے نتیجہ میں اسلام کی طرف مائل ہونا ہے۔ دوسرا راستہ وہ لوگ اختیار کرتے ہیں جو اپنے مذہب سے مطمٔن نہیں ہوتے اور فراست مندانہ تلاش کے نتیجہ میں اسلام قبول کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا اسلام قبول کرنا زیادہ پختہ اور اہم سمجھا جاتا ہے۔
بعض کتب اور ویب سائٹس میں نومسلموں کی خود نوشت داستانیں بھی پائی جاتی ہیں۔ ان میں صرف وجوہات ہی نہیں ملتیں بلکہ تبدیلی ٔ مذہب کے بعد کے خیالات بھی شامل ہیں ۔
مذہب کی تبدیلی ایک مسلسل عمل ہے جو بعض دفعہ تدریجی صورت اختیار کر لیتا ہے اور کئی مراحل پر مشتمل ہوتا ہے جن سے مذہبی، معاشرتی اور سماجی حالات متاثر ہوتے ہیں۔ اسلام قبول کرنے کے نتیجہ میں جسمانی عمل میں بھی تبدیلی پیدا ہوتی ہے یعنی نماز، روزہ اور خوراک کی وجہ سے تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں۔ اسی طرح ظاہری شناخت میں بھی تبدیلی آجاتی ہے مثلاً اسلامی لباس، حجاب یا نقاب پہننا۔ اسی طرح معاشرتی اور ثقافتی تبدیلیاں بھی آجاتی ہیں مثلاً تقریبات اور مخالف جنس کے ساتھ روابط میں تبدیلی۔ ان تبدیلیوں کی وجہ سے بعض مشکلات بھی جنم لیتی ہیں۔ بعض نو مسلم اپنے اندر ایک radical تبدیلی لے آتے ہیں مگر دوسرے آہستہ آہستہ اپنی شناخت اور طرزِ عمل اور طورطریق میں تبدیلی لاتے ہیں۔ Roaldکے مطابق جو یورپین مذہب تبدیل کرتے ہیں وہ تین مراحل میں سے گزرتے ہیں۔ پہلا مرحلہ ’’محبت‘‘ کا ہوتا ہے جس میں مذہب تبدیل کرنے والے جذباتی طور پر اسلام کے ساتھ شدید لگاؤ محسوس کرتے ہیں اور اسلام کے ہر حکم پر عمل پیرا ہونا چاہتے ہیں۔ دوسرا مرحلہ ’’مایوسی‘‘ کا ہوتا ہے جب وہ پیدائشی مسلمانوں کے خیالات اور طرزِعمل کو دیکھتے ہیں تو مایوس ہوتے ہیں۔ یہ وہ مرحلہ ہوتا ہے جس میں بعض نو مسلم اسلام سے برگشتہ بھی ہوجاتے ہیں۔ تیسرا مرحلہ ’’بلوغت‘‘ ہے جس میں نومسلم اسلامی خیالات اور طرزِ عمل کے ساتھ ایک نئی سوچ کے ساتھ منسلک ہو جاتے ہیں۔
مذہب تبدیل کرنے والے سٹیٹ اور مسلم کمیونٹی کے درمیان معاشرتی اور سیاسی طور پر ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ نومسلم، بالخصوص تعلیم یافتہ نو مسلم، معاشرہ کے لئے ایک مثبت اور جائز تصویر پیش کرتے ہیں۔ ایسے نو مسلم خواہ ایک تشدّدپسند مسلم لیڈر کا روپ دھار لیں حکومت انہیں اپنے ملک کا شہری ہو نے کی وجہ سے جلا وطن نہیں کر سکتی۔ جو عورتیں اسلام قبول کرتی ہیں وہ اسلام اور جنس کے موضوع پر بیانات دے کر ایک اہم کردار اداکرتی ہیں۔ بعض نو مسلم عورتیں مثلاً امینہ ودود، اسلامی تعلیم کے پھیلانے میں مدد گار ثابت ہوتی ہیں۔ تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہالینڈ، برطانیہ اور جنوبی افریقہ میں نو مسلم عورتیں اسلامی تعلیم کے فروغ میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔
اسلام میں کشش
اسلام میں کونسی کشش ہے جو غیرمسلموں کو اپنی طرف مائل کرتی ہے؟ اس پر بہت کم تحقیق کی گئی ہے۔ پھر یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کونسا اسلام؟ بہت سے نومسلم صوفی ازم کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ اس بارہ میں تحقیق کرنے والوں کے مطابق صوفی ازم کا مغربی لوگوں کو اسلام کی طرف مائل کرنے میں اہم کردار ہے۔ بہت سے لوگ ابتدائی طور پر صوفی ازم کی طرف مائل ہوتے ہیں مگر بعد میں اسلام قبول کر لیتے ہیں۔ 1960ء کی دہائی میں صوفی ازم ہیپی ازم کا حصہ تھا اور اسلام سے اس کا تعلق ختم ہو چکا تھا۔ 1990ء کی دہائی میں صوفی ازم پھر اسلام کا حصہ سمجھا جانے لگا۔ ایک محقّق کے نزدیک صوفی ازم عورتوں میں زیادہ مقبول ہے کیونکہ صوفی ازم میں نسوانیت اور فیملی کے مابین تعلق اور اس کا اُن کی روحانیت پر اثر مغربی عورتوں کے لئے باعثِ کشش ہے۔ بعض کے نزدیک صوفی ازم اس لئے مقبول ہے کہ اس کے تحت عورتیں سماجی اور معاشرتی طور پر اپنے آپ کو آزاد محسوس کرتی ہیں۔
اسلام کی جدید توجیہہ جس میں عقلی اور علمی پیغام مضمر ہے، تبدیلی ٔ مذہب کی داستانوں میں نمایاں طور پر باعثِ کشش دکھائی دیتی ہے۔ ریسرچ سکالر Kose کے مطابق بعض نو مسلم تبدیلیٔ مذہب کو لامذہبیت اور مادیت سے پاکیزگی کی طرف سفر کے طور پر بیان کرتے ہیں۔ اسلام انہیں زندگی کے ہر شعبہ میں عملی طور پر خدا تعالیٰ کی طرف لے جاتا ہے۔ اسلامی تعلیم چونکہ زندگی کے ہر شعبہ پر محیط ہے اور اسلام اسے کسی خاص گو شۂ زندگی میں قید نہیں کر دیتا اس لئے اسلام نومسلموں کو اپنی روزمرہ زندگی اُ ن کے اعتقادات کے مطابق گزارنے کی اجازت دیتا ہے اور یہ امر اُن کے لئے باعثِ کشش ہے۔ جبکہ عیسائیت کی تعلیم اور روزمرہ کی زندگی دو مختلف امور ہیں۔
نو مسلموں کے مطابق عیسائیت کے مقابلہ میں وہ اسلام میں اس لئے بھی کشش محسوس کرتے ہیں کہ اسلام میں تثلیث کا وجود نہیں اور انہیں حضرت عیسیٰ کی نبوت عقلی اور منطقی طور پر زیادہ قابلِ قبول نظر آتی ہے بجائے اس کے کہ وہ حضرت عیسیٰ کو خدا یا خدا کا بیٹا تسلیم کرلیں۔ اسی طرح اسلام کی عبادات اور بلاواسطہ، براہ راست، خدا تعالیٰ تک رسائی اور پہنچ کا راستہ زیادہ معقول دکھائی دیتا ہے۔
1996ء میں Dannin نے نیویارک کی جیلوں میں قید افریقی امریکن کی اسلام میں دلچسپی پر ریسرچ کی۔ اُ س کے مطابق ان قیدیوں کو جیل کی پابندیوں میں اسلامی تعلیم کا مطالعہ اور روزانہ کی عبادات ایک نئی سوشل زندگی عطا کرتے ہیں اور جیل میں غیر انسانی سلوک کے ماحول میں اسلامی تعلیم انہیں پُر کشش دکھائی دیتی ہے۔
ایک ریسرچ سکالر کے نزدیک افریقی امریکن اس لئے بھی اسلام کی طرف مائل ہوتے ہیں کہ وہ امریکہ کے نسلی تعصب سے تنگ آ چکے ہوتے ہیں۔ اسلام انہیں ایک ’’نئی شناخت‘‘ اور بعض لحاظ سے ایک اہم وجود ہونے کا احساس دلاتا ہے جو اُن کے اپنے کلچر میں بالکل مفقود ہوتا ہے۔ مذہب کی تبدیلی انہیں عیسائیت کے چنگل سے آزاد کرادیتی ہے۔ بعض کے نزدیک یہ احسا س جلد ختم بھی ہو جاتا ہے۔ اسی طرح عورتیں جو اسلام قبول کرتی ہیں اور انہیں اسلام میں ایک کشش دکھائی دیتی ہے مگر جلد ہی ایک محکومانہ کردار ادا کرنے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔ ان سب باتوں کے باوجود اسلام میں ایک جاذبیت ہے کہ وہ آنے والوں کو اُن کے اپنی ثقافت کے مقابلہ میں ایک اعلیٰ تبدیلی کی نوید دیتا ہے۔ وہ لوگ جو مغربی سوسائٹی کو جنسیت کے حوالہ سے ناپسند کرتے ہیں انہیں اسلام کی جداگانہ تعلیم میں بہت کشش دکھائی دیتی ہے اور انہیں ایک ایسا نظریاتی اور سیاسی فریم ورک مل جاتا ہے جس کے تحت وہ مغربی سوسائٹی پر تنقید کر سکتے ہیں۔
اس امر پر بھی تحقیق کی گئی ہے کہ اسلام لوگوں کو کیا پیش کرتا ہے۔ وہ لوگ جو تعلقات کے نتیجہ میں مسلمان ہوتے ہیں اسلام انہیں ایک مختلف کلچر اور کمیونٹی کا ماحول پیش کرکے ایک نئی شناخت اور وابستگی عطا کرتا ہے۔ جو لوگ عقلی لحاظ سے اسلام قبول کرتے ہیں وہ اسلام کو ایک سادہ، آسان اور مبنی بر عقل مذہب پاتے ہیں۔ اسلام میں ایسا عملی مواد موجود ہے جس سے ہر کوئی بغیر واسطہ کے کسی بھی وقت فیض یاب ہو سکتا ہے۔ وہ لوگ جن کا نقطہ نظر سیاسی ہوتا ہے انہیں بھی اسلام میں سیاست کو روحانیت پر منطبق کرنے کا مواد مل جاتا ہے۔ پس اسلام میں ہر طبقہ کے لئے کچھ نہ کچھ کشش کا سامان ضرور موجودہے جو ہر نو مسلم کیلئے مذہبی، سیاسی یا نظریاتی لحاظ سے اپیل کا باعث بن جاتا ہے۔
جنس اور اسلام
اسلام قبول کرنے میں جنس کا ایک اہم کردار ہے ۔ ایک ریسرچ کے مطابق سویڈن میں جو عورتیں مسلمان ہوتی ہیں ان کے لئے اسلامک سوسائٹی میں مرد اور عورت کا جداگانہ کردار اور اُن کے حقوق اور دائرہ کار کا جدا ہونا بہت متأثر کرنے والا امر ہے۔ ایک اور سکالر نے یہی بات ہالینڈ کی مسلمان ہونے والی عورتوں میں پائی ہے ۔ جرمنی میں مذہب تبدیل کرنے والوں کے نزدیک اسلام میں فیملی کا تصوّرقابلِ تعریف ہے اور مردو و عورت کا جدا دائرہ عمل متاثر کن ہے۔
ایک سروے میں پروفیسر وولرب سار (جرمن) نے اُن جرمن اور امریکن مردوں اور عورتوں کا موازنہ کیا ہے جنہوں نے اسلام قبول کیا ہے۔ اُن کے سروے سے تبدیلی ٔ مذہب پر اہم معلومات حاصل ہوئی ہیں۔ اس ریسرچ میں تین اہم باتوں کی نشاندہی کی گئی ہے جو جرمن اور امریکن مردوں اور عورتوں کے اسلام قبول کرنے پر منتج ہوئیں۔ پہلی قسم اُن لوگوں کی ہے جنہوں نے جنس اور جنسیت کی وجہ سے پیدا ہونے والی مشکلات کی بناء پر اسلام قبول کیا۔ اس ریسرچ میں مذہب تبدیل کرنے والوں نے اپنے سابقہ جنسی تجربات اور جنس کی مشکلات کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے احساسِ کمتری کا ذکر کیا۔ عورتوں نے شادی کی ناکامی،اعتدال سے بڑھی ہوئی جنسی آزادی اور جنسی تعلقات کی خرابی کی نشاندہی کی کہ وہ ان سب سے عاجز آچکی تھیں۔ مردوں نے اپنی فیملی کی عورتوں کی جنسی آزادی سے بیزار اور شرمسار ہونے کا ذکر کیا۔ یہ مرد اور عورتیں اپنے ماحول سے مختلف حدود کی تلاش میں تھے اور انہیں اسلام میں جنس اور جنسیت کے متعلق ایک نیا اور شفاف ماڈل دکھائی دیا جو اُن کی گزشتہ زندگی کی مشکلات کو دُور کرنے میں معاون نظر آیا اور اس لئے انہیں اسلام قبول کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئی۔
دوسری مشکل جس نے مغربی لوگوں کو اسلام کی طرف مائل کیا وہ سماجی ناکامی ہے جس میں منشّیات کا استعمال اور جرائم میں مبتلا ہونا ہے۔ اسلام ایسے لوگوں کے لئے ایک نئی زندگی کا پیغام فراہم کرتا ہے۔ تیسری قسم اُن لوگوں کی ہے جنہیں وطنیت اور قومیت کی مشکلات درپیش تھیں۔ اسلام قبول کرنے کے بعد انہیں ایک نئی قومیت کی شاخت حاصل ہوئی اور اسلام نے انہیں احساسِ کمتری اور سماجی تباہی سے بچالیا۔
ایک ریسرچ میں پروفیسر ہاف مین نے جرمنی میں اسلام قبول کرنے والی عورتوں کی فیملی لائف پر توجہ مرکوز کی۔ اُن کے نزدیک عورتوں کو زندگی کے مختلف مراحل پر مختلف قسم کے حالات سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ جب وہ بچوں کی مائیں بن جاتی ہیں تو انہیں گھر میں رہ کر بچوں کی دیکھ بھال کرنی پڑتی ہے اور اپنی سوسائٹی کے نارمل کلچر کے مقابل، جہاں عورتیں گھر سے باہر نکل کر کام کرتی ہیں ، ایک احساسِ کمتری پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ عام جرمن سوسائٹی کے مقابل، اسلام فیملی، شادی، گھر اورازدواجی تعلقات کے متعلق اہم ہدایات دیتا ہے اور شادی اور ماں کی عظمت کی اہمیت واضح کرتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیںکہ جرمن کلچر میں بھی یہ احساس پایا جاتا ہے مگر مغربی معاشرہ کے مقابل اسلام عورت کے ماں کی حیثیت کے مقام اور اس کی مادرانہ خصوصیات کو بہت اہمیت دیتا ہے۔ یہ امر ان کے لئے بہت کشش کا موجب ہے۔ یہ محسوس کیا جاتا ہے کہ مغربی سوسائٹی عورت کی جنسیت سے ناجائز فائدہ اٹھاتی ہے اور اس نے عورت کے جسم کو منڈی کی ایک جنس بنا کر رکھ دیا ہے۔ جرمن اور اسلامک سوسائٹی میں اس قسم کے خیالات اور عورت کے مقام اور مرتبہ پر اسلام کی تعلیم اور جنس اور جنسیت پر بیانات جرمن عورتوں کے لئے باعثِ کشش ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں